یکوپنکچر ایک ایسا طریقہ علاج ہے جس میں جسم میں سوئیاں چبھا کر تکلیف کو راحت دی جاتی ہے۔
تائیوان میں قائم چائنا میڈیکل یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ مطالعے میں اس طریقہ علاج کے اثرات جنس، عمر، ادویات کے استعمال اور لاحق دیگر کیفیات سے ماورہ پائے گئے، جس سے محققین کے سامنے یہ بات آئی کہ عین ممکن ہے کہ ایکوپنکچر سوزش کا سبب بنے والے پروٹین یعنی سائٹوکائنز (جو قلبی مرض سے تعلق رکھتے ہیں) کی مقدار کم کرتا ہو۔
ریومیٹائیڈ آرتھرائٹس میں مبتلا افراد کی موت کی بڑی وجہ قلبی بیماری ہوتی ہے اور عام افراد کے مقابلے میں ان کے فالج میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
ایک جانب جہاں ایکوپنکچر کو تکلیف قابو کرنے اور سوزش کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، محققین نے تحقیق کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا یہ طریقہ علاج اسٹروک کے خطرات کو کم کرسکتا ہے یا نہیں۔ دماغ میں خون جمنے کے سبب پیش آنے والی اس کیفیت کا تعلق نظام میں سوزش سے ہے۔
تحقیق میں محققین نے 23 ہزار سے زائد آرتھرائٹس کے مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ ان میں 12 ہزار 300 کے قریب وہ مریض بھی شامل تھے جن کا 1997 سے 2010 کے درمیان ایکوپنکچر سے علاج کیا گیا تھا۔ اوسطاً مریضوں نے آرتھرائٹس کی تشخیص کے 2.9 برس بعد ایکوپنکچر علاج شروع کیا تھا۔2011 کے دوران ان مریضوں کی نگرانی کی گئی۔
عمر میں اضافے اور بلڈ پریشر جیسی دیگر کیفیات کے ساتھ فالج کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن محققین کے مطابق ایکوپنکچر جنس، عمر، ادویات کے استعمال اور لاحق دیگر کیفیات سے ماورہ ہو کر فالج سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔
تحقیق کے نتائج میں آرتھرائٹس میں ایکوپنکچر کرانے والوں میں نہ کرانے والوں کی نسبت فالج کے خطرات 43 فی صد کم دیکھے گئے۔