بندر سے تقریباً ہر شخص واقف ہے خواہ بڑ ہوا یاچھوٹا یہاں تک کہ بچے بھی بہت جلد بندر کو جان جاتے ہیں اس لئے کہ اگر بندر کہیں نہیں بھی پایا جاتا تو بندر کا تماشا دکھانے والے’’مداری‘‘ گلی کوچوں میں بندر اور بندریا کا تماشا دکھانے کیلئے مجمع لگاتے ہیں جنہیں دیکھ کر بچے خوش ہوتے ہیں۔ بندر کے کچھ اور نام بھی ہیں۔ ’’بوزنہ‘‘ اور ’’میمون‘‘ اور ایک انگریزی نام’’منکی‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے اور کچھ لوگ ’’ہنومان‘‘ لفظ سے بھی بندر کی تعبیر کر دیتے ہیں، اگرچہ کہاں بندر اور کہاں ہنومان…
دنیا بھر میں 15 دسمبر کو اس’’ شریر جانور‘‘ یعنی بندروں کا دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس کی نسل کو بچانے کے لے عوامی شعور کو بیدار کرنا ہے۔ دوسری جانب لوگ بندروں کے عالمی دن کاخیرمقدم یوں بھی کرتے ہیں کہ انسانوں کی نقل اتارنے والایہ جانور چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتا ہے ۔
بندر کوئی خونخوار جانور تو نہیں تاہم تکلیف پہنچانے والاجانور ضرورہے، چیزوں کو توڑتا پھوڑتا ہے، نوچ ناچ کر برباد کردیتا ہے، بعض پھلوں، سبزیوں اور ترکاری کا بہت شوقین ہوتا ہے، باغ کے باغ اور کھیت کے کھیت اجاڑ دیتاہے۔ اپنا غول بنا کر رہتا ہے اور اپنے غول سے ہی تعلق رکھتا ہے، سوتا ہے تو غول کا غول ایک لمبی لائن میں قطار بنا کر سو جاتا ہے، اور اٹھتا ہے تو بائیں طرف کا ایک بندر جاگ جاتا ہے اور پھر وہ آواز دے کر اپنے برابر والے بندر کو جگا دیتا ہے اور پھر وہ اپنے برابر والے کو اسی طرح آواز دے کر جگاتا رہتا ہے جس سے دھیرے دھیرے بندروں کا سارا غول جاگ جاتا ہے۔ اگر ایک غول کا بندر دوسرے غول میں چلا جائے تو اس کو وہاں قبول نہیں کیا جاتا۔
دنیا میں بندروں کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں، ہر قدو قامت کے بندر جنگلوں اور چڑیا گھروں میں دیکھنے کو مل جائیں گے۔ اتنے چھوٹے بھی جیسے بلی اور اتنے لمبے چوڑے بھی جیسے ایک تندرست انسان۔ گوریلا اور چمپینزی وغیرہ، بعض جنگلی بندر تو انسان سے بہت ملتے جلتے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کو تو بن مانس یعنی صحرائی انسان کہا جاتا ہے۔ بعض سیدھے کھڑے ہو کر اپنے دونوں پیروں سے یا لاٹھی کا سہارا لے کر چل لیتے ہیں۔ لنگور بھی عام بندر سے ذرا الگ ہوتا ہے اس کا منہ بجائے لال کے کالا ہوتا ہے اور دُم بھی اس کی کافی لمبی ہوتی ہے۔ چھلانگ خوب لگاتا ہے مگر زیادہ شریر اور نقصان دہ نہیں ہوتا، انسان کے کام آنے والی چیزوں سے زیادہ چھیڑ چھاڑ بھی نہیں کرتا۔
عام بندر ایک بدشکل جانور ہے، اسی لئے لوگ جس کی شکل و صورت اچھی نہیں ہوتی یا کسی کو برا بھلا کہنا ہوتا ہے تو کہہ دیتے ہیں ’’دیکھو کیسی بندر جیسی شکل ہے‘‘، ’’کیا بندر جیسی تھوتھنی لئے پھر رہا ہے‘‘ یا ’’بندر کی اولاد‘‘۔
بندر کو اللہ تعالیٰ نے کافی حد تک عقل اور سمجھ بھی دی ہے، وہ جلدی سے بہت سے کام کاج سیکھ لیتا ہے، یہی وہ اکلوتا جانور ہے جو انسان سے کافی حد تک مشابہت اور مماثلت رکھتا ہے۔ یہ انسانوں کی طرح باتیں کرتا ہے، خوش ہوتا ہے، ہنستا ہے، ناچتا ہے، ڈانس کرتا ہے اور بہت سے کام انسانوں کی طرح کر لیتا ہے، نقال تو ہے ہی، انسان کی ہر بات کی نقل اتارنا چاہتا ہے، ایک نہیں بندر کی بہت سی چیزیں انسان سے ملتی جلتی ہیں جو دوسرے جانوروں میں نہیں پائی جاتیں اسی لئے بعض لوگوں نے انسان کو بندر کی اولاد بتا دیا ۔انسانوں کی طرح اٹھتا ہے، بیٹھتا ہے، اپنے ہاتھوں سے چیزیں لیتا ہے، دیتا ہے، خاص طریقہ سے مونگ پھلیاں چھیل چھیل کر کھاتا ہے، لاٹھی اور ڈنڈا چلاتا ہے، ڈھیلا یا چیزیں پھینکتا ہے، آنکھیں مٹکاتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ اپنی صنفِ نازک پر حمیت اور غیرت رکھتا ہے اور پانی میں انسان کی طرح ڈوب بھی جاتا ہے۔
بندر دنیا کے تقریباً ہر اس علاقے میں رہتا ہے جہاں انسان رہتا ہے، انسان کے قریب آنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے کرتب اور کرتوتوں سے انسان کو محظوظ بھی کرتا ہے اور محزون بھی۔ ہم ان کی چند جھلکیاں دکھلاتے ہیں:
جب ہم چھوٹے سے تھے تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے قریب میں ایک کمہار کا گھر تھا، کمہارن برسات میں پُوڑے پکا رہی تھی۔ ایک بندر اس کی کمر کی طرف سے آیا اور ایک ہاتھ اس کی کمر پر رکھ کر پوڑے کھانے شروع کردیئے قریب میں اس کے بچے بھی آکر بیٹھ گئے ،وہ بندر ان کو بھی کھلاتا رہا۔ عورت سمجھی کہ اس کا بچہ ہے۔ وہ پوڑے پکاتی رہی، بندر اور اس کا خاندان کھاتے رہے۔
یونیورسٹی کے بندر:
ہماری یونیورسٹی کے حبیب اللہ ہال میں ہمارے ایک سینئر رہتے تھے۔ جن کا نام سید راحت علی غمگین تھا۔ ان کے کمرہ کی ایک چابی ہمارے پاس بھی رہتی تھی اورہم کبھی کبھی ان کی عدم موجودگی میں ان کے کمرہ میں آ جاتے تھے۔ انہوں نے ہم سے پہلے تو کافی دنوں تک معلوم نہیں کیا۔ لیکن جب وہ کافی پریشان ہو گئے تو ہم سے کہا:’’صاحب! ہماری سمجھ میں نہیں آتا ہم گرمیوں سے دیکھتے آ رہے ہیں، اس وقت ہمیں پنکھا چلتا ہوا ملتا تھا اور اب سردیوں میں ہیٹر چلتاہوا ملتا ہے اور کبھی کبھی لگتا ہے کہ کوئی ہمارا ناشتہ کا سامان کھا جاتا ہے۔ اس حد تک تو ٹھیک تھا مگر اب ہماری دوا بھی کوئی پی جاتا ہے۔ اور اس کی چابی ہمارے اور آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے‘‘۔ہم نے اپنے اوپر شک کو مٹانے کی غرض سے خفیہ انکوائری شروع کردی معلوم ہوا کہ ایک بندر کھڑکی سے اندر آتا ہے اور وہ یہ سب کچھ کرتا ہے۔ ایک دن جیسے ہی آیا اور ہیٹر کا تار لگایا اور پھر الماری سے ناشتہ کا سامان نکال کر کھانا شروع کیا۔ ہم نے فوراً ’’راحت‘‘ صاحب کو بلایا اور بندر کی چوری کا پردہ فاش کیا۔
ایک دفعہ کسی ٹرک کے نیچے آکر ایک بندر کا بچہ مر گیا۔ تمام بندروں نے مل کر سڑک کو گھیر لیا اور کئی دنوں تک راستہ بند رکھا۔ جب تک ٹرک ڈرائیور نے آکر خوشامد نہیں کی اور معافی نہیں مانگی تب تک بندروں نے راستہ نہیں کھولا۔
آ پ نے دیکھا ہو گا مری کے آ س پاس اور کئی تفریحی علاقوں میں سیاح آتے ہیں اور ان کو چنے اور مونگ پھلیاں کھانے کو دیتے ہیں۔ ایک لڑکی ان کو چنے دینے کا پوز کھچوانا چاہتی تھی۔ کیمرہ مین لڑکی کو ریڈی کہتا تو وہ اپنا ہاتھ کھول لیتی۔ لنگور اپنا ہاتھ چنے اٹھانے کے لئے بڑھاتا۔ کیمرہ مین اشارے سے منع کرتا تو لڑکی اپنی چنوں کی مٹھی بند کر لیتی۔ لنگور اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیتا۔ جب دو تین بار ایسا ہوا تو لنگور نے مٹھی کھلتے ہی ہاتھ بڑھایا اور جیسے ہی لڑکی نے مٹھی بند کی ایک زور دار طمانچہ منہ پر رسید کیا۔