بلاگ

جائزخواہشات، بامقصد زندگی کیلئے ضروری

یہ آج سے بیس سال پہلے کی بات ہے ۔میرے استاد نے مجھے فون کیا، ان کی طبیعت خراب تھی اور اتفاق سے گھرپہ کوئی نہیں تھا۔انھوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ فارغ ہیں تومجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔میں نے اپناکام چھوڑا اور کچھ ہی دیر میں استادصاحب کے گھر پہنچ گیا ۔انھیں اپنی بائیک پر بٹھایااور ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ڈاکٹر نے چیک اپ کیا اور جب دواتجویز کرنے لگے تو میرے استادسے پوچھنے لگے کہ آپ پہلے سے کوئی دوااستعمال کررہے ہیں؟استادصاحب کہنے لگے،’’جی ہاں میں بلڈپریشر کی دوالے رہا ہوں اور اس کے ساتھ ڈیپریشن کی بھی ۔‘‘ڈیپریشن کا لفظ سن کر ڈاکٹرکے چہرے پر حیرت ابھرآئی جب کہ میں بھی چونک اٹھا۔کیو ں کہ ہمارے ہاں کوئی بھی شخص یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ اسے ڈیپریشن ہے اور وہ اس کے لیے دوا استعمال کررہاہے۔

ذاتی اور پیشہ ورانہ اہداف کے حصول کیلئے یہی بہترین محرک ہے
یہ درست ہے کہ مختلف فلاسفر اور روحانی شخصیات خواہشات کو ختم کرنے کی قائل ہیں تاہم ہمارامقصدایسی خواہش پالنا نہیں جوحرص اور ہوس بن جائے ،جو انسان کوشرکاپتلا بنادے ، جس کی وجہ سے انسان کے اندر منفیت پیدا ہوجائے او روہ خواہشات کا غلام بن کر اپنی دنیا و آخرت ضائع کردے ۔اس سے مراد زندگی جینے کی خواہش ہے ، اپنامقصدحیات ڈھونڈنے ، خدا کی زمین پر سیر کرنے ، نئے لوگوں سے ملنے اور نیا علم حاصل کرناہے۔اگرکوئی شخص ایسی جائز اور خوبصورت خواہش کا گلا گھونٹ دے توپھر اس کی زندگی بے رنگ اور پھیکی پڑجاتی ہے۔

اکٹر نے دلچسپی سے پوچھا؛اگرچہ آپ اس وقت پیٹ کے درد میں مبتلا ہیں لیکن بظاہر ہشاش بشاش لگ رہے ہیں تو پھر ڈیپریشن کی گولیاںکیوں کھارہے ہیں؟‘‘میرے استاد نے ڈاکٹر کو جو جواب دیا وہ میرے لیے انتہائی متاثرکن تھا۔اس کی وجہ سے میری زندگی 180ڈگری کے زاویے پر بدل گئی ڈاکٹر کی آنکھو ں میں دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا؛’’ڈاکٹر صاحب! میں خواہشات ختم کرنے کاقائل تھا ،میں سمجھ رہا تھا کہ خواہش انسان کو بے سکون رکھتی ہے ۔انسان اگر اپنی خواہشات ختم کرلے تو اس کی زندگی میں اطمینان آسکتاہے۔چنانچہ میں نے اس چیز کی تبلیغ شروع کردی اور سب سے پہلے خود اس بات پر عمل کیا۔میں نے اپنے دل سے تمام خواہشات، آرزوئیں اور تمنائیں ایک ایک کرکے باہرنکال دیں۔اس وقت میں اسّی سال کا ہوں ،میں نے اپنی تمام خواہشات کا گلاگھونٹ دیا ہے لیکن مجھے اس فیصلے کی بھاری قیمت چکانا پڑرہی ہے ۔ مجھے سزا ملی ہے اور اس کی وجہ سے میں ڈیپریشن کاشکار ہوچکاہوں۔‘‘ڈاکٹر نے سردآہ بھری ،اپنا قلم تھامااورکاغذ پردوالکھ کر ہمیں دے دی۔
میں گھر واپس آیا تو رات ہوچکی تھی ۔میرے دماغ میں استاد صاحب کے الفاظ گونج رہے تھے کہ جو انسان اپنی خواہشات ختم کردیتاہے وہ ڈیپریشن میں مبتلا ہوجاتاہے۔اپنے استاد کی بدولت میں زندگی کے ایک شاندار فلسفے سے واقف ہوگیا تھااور میں نے فوری طورپر اس فلسفے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔میں نے اپنی ڈائری اٹھائی اوروہ تمام خواہشات لکھناشروع کیں جو میرے دل کے نہاں خانوںمیں چھپی ہوئی تھیں۔کہیں میرادل خوبصورت مقامات کی سیرکے لیے مچلتا تھا، کہیں میں فطرت کی قربت میں وقت گزارنا چاہتاتھا، نئی چیزیں سیکھنا، نئے لوگوں سے ملنا ، نئے تجربات کرنا ، اپنے ہاتھ سے کام کرنا ، کھاناپکانااورکہیں دنیا کے عجائبات دیکھناچاہتاتھا۔میں نے کسی کتاب میں یہ اصول پڑھاتھا کہ آ پ جب اپنی خواہشات کی فہرست بنائیں تو کوئی خواہش اس وجہ سے لکھنانہ چھوڑیں کہ یہ کیسے پوری ہوگی۔آپ بس لکھتے جائیں، چنانچہ میں نے بھی ایسی 100خواہشات کی فہرست بنائی اور پختہ ارادہ کیا کہ چالیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پہلے یہ تمام خواہشات پوری کروں گا۔اس کے بعد میں نے دورکعت نماز پڑھی اور اللہ سے دعامانگی کہ مجھے آسانیاں عطافرما۔
گذشتہ سال جب میں نے اپنی ڈائری دیکھی توحیران رہ گیا ، اللہ کے فضل سے تمام اہداف پورے ہوگئے تھے۔
نپولین ہل کہتاہے کہ انسان کی تمام کامیابیوںکاآغاز خواہش سے ہوتاہے۔خواہش انسان کے لیے بہترین محرک بنتاہے جوذاتی اور پیشہ ورانہ اہداف کے حصول پر اسے مجبور کرتاہے۔آپ کے ذہن میں یہ بات چل رہی ہوگی کہ مختلف فلسفی اور روحانی شخصیات تو خواہش ختم کرنے کی قائل ہیں اورہر بھلا آدمی خواہشات پالنے کی حوصلہ شکنی کرتاہے۔میں آپ سے سو فی صد اتفاق کرتاہوں ۔ میرامقصدایسی خواہش پالنا نہیں جوحرص اور ہوس بن جائے ،جو انسان کوشرکاپتلا بنادے جس کی وجہ سے انسان کے اندر منفیت پیدا ہوجائے او روہ خواہشات کا غلام بن کر اپنی دنیا و آخرت ضائع کردے، بلکہ اس سے مراد زندگی جینے کی خواہش ہے ، اپنامقصدحیات ڈھونڈنے ، خدا کی زمین پر سیر کرنے ، نئے لوگوں سے ملنے اور نیا علم حاصل کرناہے۔اگرکوئی شخص ایسی جائز اور خوبصورت خواہش کا گلاگھونٹ دے توپھر اس کی زندگی بے رنگ اور پھیکی پڑجاتی ہے ،کیونکہ جب جستجو تمام ہوجائے پھرچلنے کاحوصلہ کہاں رہتاہے۔زندگی طلب ، تڑپ اورتلاش کانام ہے؛بقول عادل اسیر دہلوی ؎
باقی ہے اب بھی ترک تمنا کی آرزو
کیوں کر کہیں کہ کوئی تمنا نہیں مجھے
جو انسان ایسی خوب صورت خواہشات کو ختم کردے تو سب سے پہلے اس کاحوصلہ جواب دے دیتاہے۔اس کے اندر ذاتی یا پیشہ ورانہ زندگی کو بہتر بنانے اور نئے اہداف حاصل کرنے کی طلب ختم ہوجاتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کی زندگی جمود کا شکار ہوجاتی ہے اور وہ دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ جاتاہے۔
خواہش انسان کی کارکردگی بہتر بناتی ہے۔جب انسان کچھ نیا حاصل کرنا چاہتاہے تو وہ اس کے لیے محنت کرتاہے ، تیاری کرتاہے ، نئی حکمت عملی بناتاہے اورپُرجوش ہوکر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتاہے اوراگر خواہش ختم ہوجائے توپھر اس کاجوش ، عزم اور توانائی بھی ختم ہوجاتی ہے اور وہ بہترین کارکردگی نہیںدکھاسکتا۔
خواہش کا جذبات کے ساتھ گہراتعلق ہے ۔جب انسان کسی کام کو مکمل کرنے کی خواہش کرتاہے تو اس کے ساتھ جذباتی ہم آہنگی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔اب اگر خواہش ختم ہوجائے تو کام کے ساتھ جذباتی تعلق بھی ختم ہوجائے گا اور فرد کی زندگی میں نتائج پیدا نہیں ہوں گے۔جس شخص کی خواہش مرجائے وہ انسانوں سے دورہوجاتاہے۔کیوںکہ مشترکہ مفادات ہی وہ چیز ہے جو انسانوں کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔اگر انسان کے اندر خواہش نہیں رہے گی تووہ دوسرے لوگوں سے تعلق نہیں بناپائے گاجس کی وجہ سے وہ معاشرتی طورپرتنہارہ جائے گا۔
جب انسان کے اندر خواہش نہیں ہوتی تو اسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی ،وہ بے حس ہو جاتاہے ۔یہ بے حسی اگر طویل ہوجائے تو انسان اندر سے کھوکھلاہوجاتاہے اوربہت جلد افسردگی کا شکارہوجاتاہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ جولوگ خواہش سے بھرپور ہوتے ہیں ان کے اندر مثبت انداز فکر زیادہ ہوتاہے جو ان کی صحت پر بہترین اثرات چھوڑتاہے۔اس کے برعکس خواہش کے نہ ہونے سے فرد تنائو، بے چینی اور اضطراب کا شکارہوسکتاہے۔
خواہش کاختم ہوجانا انسان کو ذہنی مسائل میں مبتلاکردیتاہے، کیونکہ ایسے فرد کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے، وہ پرلطف اور معنی خیز چیزیں ڈھونڈنابند کردیتاہے ، جس کی وجہ سے اس کی زندگی رک جاتی ہے ایسے شخص کوکوئی بھی بہترین چیز، خوب صورت منظر اور انوکھاتجربہ خوش نہیں کرسکتااور وہ آہستہ آہستہ ڈیپریشن کاشکار ہوجاتاہے۔
خدا نے آپ کو زندگی کی عظیم نعمت سے نوازا ہے۔زندگی کو خواہشات کی بدولت خوب صورت بنائیے، کیوں کہ یہی وہ چیز ہے جو آپ کو محنت کرنے، آگے بڑھنے اور کچھ نیا حاصل کرنے پرابھارتی ہے، زندگی سے یہ ختم ہوجائے تو پھر زندگی بیزاربن جاتی ہے اور انسان مختلف نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتاہے۔
اگر آپ زندگی کے چالیس برس مکمل کرچکے ہیں تو آپ کو کیاکرناچاہیے؟
ہمارے ہاں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ چالیس سال کے بعد انسان کی زندگی رُک جاتی ہے، مواقع ختم ہوجاتے ہیں اور اس کے بعدانسان ترقی نہیں کرسکتا۔ایسانہیں ہے۔چالیس سال کا مطلب زندگی ختم ہوجانانہیں ہے بلکہ یہ ایک خوب صورت آغاز ہے۔البتہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ کے پاس غلطی کرنے کی گنجائش نہیں ہے، اب آپ نے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہے اور گذشتہ زندگی سے جو کچھ سیکھا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے قدم اٹھانا ہے۔
اگرآپ چالیس سال کی عمر میں پہنچ گئے ہیں تو فوری طورپر تین کام کریں۔
(1)آپ اس وقت کہاں ہے؟
اپنی گزشتہ زندگی کا محاسبہ کریں اور دیکھیں کہ وہ کون سے مواقع تھے جہاں آپ سے ایسی غلطیاں ہوئیں اوران کے سنگین نتائج واقع ہوئے۔ان کے اسباب پر غور کیجیے اور آئندہ ایسی غلطیوں کے قریب بھی نہ جائیے۔
اپنی پوری زندگی کاجائزہ لیجیے اوردیکھیے کہ آج اس مقام تک آپ کیسے پہنچے۔آپ نے اس سفر میں کون سی مشکلات دیکھیں، کون سے فوائد سمیٹے،کیا کھویا، کیا پایااور اگر آپ کودوبارہ زندگی ملے تو آپ کون کون سی غلطیاں نہیں دہرائیں گے ۔یہ تمام چیزیں ایمان داری کے ساتھ لکھیں اور گذشتہ زندگی کا خلاصہ نکالیں۔
(2)آپ کی منزل کیا ہے؟
گذشتہ زندگی کے تجربات کی روشنی میں یہ فیصلہ کریں کہ اب آپ نے کہاں پہنچناہے۔اپنے اہداف اورمقاصدمتعین کریں،جان دارمنصوبہ بندی بنائیںاور اس کے مطابق زندگی گزاریں ۔اگرآپ یہ طے نہیں کرسکتے کہ میں نے کہاں جانا ہے تو ایسے فرد سے ملیں جسے اللہ نے دوراندیشی کی صلاحیت دی ہو وہ آپ کو بہترین مشورہ دے سکتاہے۔چالیس سال کے بعد والی زندگی میں سب سے اہم ہدف صحت کو بنائیں۔کیوں کہ یہی آپ کی زادِراہ ہے۔اپنے کھانے پینے پرخصوصی دھیان دیں، روز چہل قدمی کریں اورخود کو ذہنی و جسمانی
طورپر صحت مند رکھنے کی کوشش کریں۔
(3)تعلق:
جب آپ نے یہ طے کرلیا ہے کہ آپ نے آگے بڑھنا ہے تواس کے لیے آپ کو انسانوں کی ضرورت پڑے گی ۔اپنے تعلقات کاجائزہ لیں اورایسے لوگ جو آپ کے سفرکومشکل بنارہے ہیں ان کے ساتھ تعلق مدھم کریں۔یادرکھیں کہ آگے بڑھنے کے لیے غیر ضروری بوجھ کوہٹانا بہت ضروری ہے،کیوں کہ اس کے ساتھ آپ دور نہیں جاسکتے۔
کن لوگوں کے ساتھ تعلق رکھاجائے؟
لوگوں کی تین اقسام ہوتی ہیں۔
Takers:وہ لوگ ہیں جو صرف اور صر ف لینے کے قائل ہوتے ہیں ،ان کے اندرمال ، وقت ، توجہ ، حوصلہ اور آسانی دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
Matchers:یہ ’’کچھ دو، کچھ لو‘‘ کے اصول پر عمل پیر اہوتے ہیں اوراپنے ساتھ دوسروں کافائدہ بھی چاہتے ہیں۔
Givers:یہ لوگ ایثا ر و قربانی سے لبریز ہوتے ہیں ۔یہ ہر وقت دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اورانھیں اپنی نعمتوں میں شریک کرتے ہیں۔
آپ پہلی قسم کے لوگوں سے بالکل دوررہیں ۔ دوسرے نمبر کے لوگ آپ کے لیے بہترہیں جن کے ساتھ ساتھ win-winکے فلسفے پر چل کر آپ اپنے سفر کو آسان بناسکتے ہیں۔جب کہ تیسرے نمبر(Givers) کے لوگ آپ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔انھیں اپنی زندگی میں ضرور شامل کیجیے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت