حلم و بردباری: افضل و اعلیٰ خوبی

انسانی تاریخ میں نبی اکرم ﷺ کے عفوو درگزر کے سامنے ہر مثال ہیچ ہے

 آپﷺ سب لوگوں سے زیادہ حلیم و بردبار، کشادہ دل، نرم خو، بلند اخلاق اور خاندان پہ لطف و کرم کرنے والے تھے۔ آپﷺ نے ظلم کرنے والے کو معاف کیا،محروم رکھنے والے کو نوازا۔ قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ صلہ رحمی کی۔ برا سلوک کرنے والے کو معاف کیا اور اپنے خاص حقوق پر کبھی اصرارنہ کیا۔

آپﷺ نے بے ادب اور سخت مزاج دیہاتیوں کا سامنا کیا اور حلم و بربادی اور عفوو درگزر سے کام لیتے ہوئے اپنے رب کے حکم:’’تو(اے نبی!) آپ(کافروں سے) خوبصورت انداز سے در گزر کریں‘‘۔الحجر85:15)کی تعمیل کی۔نبی اکرمﷺ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے عفوو درگزر سے کام لیتے۔ آپؐ اپنی ذات کے لئے غصے ہوتے نہ ذاتی انتقام لیتے بلکہ جب آپؐ کو غصہ دلایا جاتا تو آپ کا حلم اور بڑھ جاتا اور کبھی تو آپؐ غصہ دلانے والے کو مسکرا کر نظر انداز کر دیتے۔ آپﷺ حلم کے وصف کی تعریف کرتے، اس کے فضائل اپنے صحابہ کرامؓ کو بتاتے اور حلم اختیار کرنے کی ترغیب دیتے۔ آپﷺ نے اشج عہدالقیس سے فرمایا:’’بلاشبہ تم میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ پسند کرتا ہے: حلم اور طبیعت میں ٹھہرائو‘‘(صحیح مسلم الایمان، حدیث17)
ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے نصیحت کرنے کی درخواست کی تو آپﷺ نے فرمایا:’’غصہ نہ کرو‘‘۔ اس نے بار بار درخواست کی تو آپ نے ہر بار فرمایا ’’غصہ نہ کرو‘‘۔(صحیح البخاری، الادب، حدیث6116)۔جب آپﷺ کو پتا چلتا کہ کسی نے آپؐ کی برائی کی ہے تو آپؐ برائی کرنے والے کا نام پوچھتے نہ اسے برا بھلا کہتے اور نہ سزا ہی دیتے۔ آپﷺ فرمایا کرتے تھے:’’میرا کوئی صحابی کسی دوسرے کی کوئی بات مجھے نہ بتائے۔ بلاشبہ میں پسند کرتا ہوں کہ تمہارے سامنے آئوں تو تمہارے بارے میں میرا سینہ صاف ہو‘‘(سنن ابی دائود، الادب، حدیث4860)۔سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کو بتایا کہ کوئی شخص آپ کے بارے میں یہ کہہ رہا تھا تو آپﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور فرمایا:’’اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے! یقیناً انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی مگر انہوں نے صبر کیا‘‘۔(صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، حدیث3405)
بعض یہود نے آپﷺ کے ساتھ گستاخانہ رویہ اختیار کیا۔ مشرکین نے آپؐ کی رسالت، عزت، شہرت اور اہل و عیال کے بارے میں اذیت ناک باتیں کیں مگر جب وہ پوری طرح آپ ؐکے قابو میں آ گئے تو آپؐ نے انہیں معاف کردیا۔ اپنے حلم سے عداوت کی آگ بجھا کر اپنے رب کے اس حکم کی تعمیل کی۔
’’برائی کو اس طریقے سے رفع کیجئے جو احسن ہو۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں‘‘۔ (المؤمنون96:23)۔
بلاشبہ آپ ﷺ کے حلم کے مظاہر سوال کرنے والوں کیلئے نشانِ راہ ہیں۔ ان کا تذکرہ علمی مجالس اور دنیا کی درس گاہوں میں ہوتا رہے گا اور یہ واقعات کتابوں اور تالیفات کی زینت بنتے رہیں گے۔
نبی کریم ﷺ کے تحمل اور بردباری کا ایک مظہر اس وقت سامنے آیا جب آپؐ اہل طائف کو دعوت توحید دینے کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ آپؐ کو اذیت دی اور اپنے لوگ آپ ﷺ کے پیچھے لگا دیے۔انہوں نے پتھر مار مار کر آپﷺ کی ایڑیاں زخمی کر دیں جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:’’پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا، پھر کہا: اے محمد! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کو دیا گیا جواب سن لیا ہے۔ میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں سنگلاخ پہاڑوں کو اٹھا کر ان کے اوپر رکھ دوں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:’’بلکہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے‘‘(صحیح مسلم، الجہاد و السیر، حدیث1795)
انسانی تاریخ میں آپ کسی ایسے انسان کو جانتے ہیں جس سے اس کے مخالفین اور دشمنوں کو تباہ کرنے کا مشورہ کیا جا رہا ہو اور یہ بات بھی یقینی ہو کہ اس کے ایک اشارے پر انہیں تہس نہس کر دیا جائے گا مگر وہ کہہ رہا ہو،نہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ یہ نبی رحمتﷺ کے حلم و بردباری کی وہ مجسم تصویر ہے جس نے تاریخ کے تمام برد باروں کو پیچھے چھوڑ دیا اور بنی نوع انسان کے حلم کی ہر مثال اس کے آگے ہمیشہ کیلئے ہیچ رہے گی۔
اُحد کے معرکے میں نبی کریم ﷺ کے چچا سید نا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور آپؐ کے ستر جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ مشرکین نے آپؐ کا رباعی دانت شہید کر دیا، آپؐ کا چہرہ انور زخمی کیا مگر آپؐ نے یہ سب کچھ صبر و تحمل سے برداشت کیا بلکہ ان لوگوں کو بدعا دینے کے بجائے ان کی ہدایت کے لئے دعا کی۔ آپ ﷺ نے انبیاء علیہم السلام کی اقتدا اور پیروی کیلئے ان کے حلم کے واقعات ذکر کئے۔ سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے گویا اب بھی میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ انبیاء علیہم السلام میں سے ایک نبی کا واقعہ ذکر کر رہے ہیں جنہیں ان کی قوم نے مارا اور وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے: اے میرے رب! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ جانتے نہیں۔(صحیح البخاری، استتابۃ المرتدین ، حدیث6929)۔
اس سے زیادہ حلم اور بردباری کیا ہوگی اور کون سا عفوو درگزر اس عفوو درگزر کے برابر ہوگا؟ آپ ﷺ نے تبلیغ دین کی راہ میں تکلیف پہنچانے والے ہر انسان سے عفوو درگزر کیا اور نہایت کشادہ دلی اور وسعت ظرفی سے مشقت برداشت کی۔ جب آپ ﷺ نے سید نا طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کو ان کے قبیلے دوس کی طرف اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا تو قوم نے انہیں اذیت دی اور برا بھلا کہا۔ سید نا طفیلؓ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول!(ﷺ) ان کے لئے بددعا کریں۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھا دیئے۔ سید نا طفیل رضی اللہ عنہ سمجھے کہ آپ ﷺ قبیلہ دوس کے لئے بددعا کریں گے۔ اس بنا پر انہوں نے کہا: دوس تباہ ہو گئے۔ رسول اکرم ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور قبلہ رخ ہو کر یوں دعا کی:’’اے اللہ! دوس کو ہدایت دے اور انہیں لے آ‘‘(صحیح البخاری، الجہاد و السیر، حدیث2937)
اس دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دل اسلام کی طرف پھیر دیئے اور وہ طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وفد کی صورت میں مدینہ آئے اور ملت اسلامیہ کے عظیم مددگار اور توحید کے علمبردار بن گئے۔
اب ہم نہایت عقیدت و احترام اور غورو فکر سے اس منظر کا جائزہ لیتے ہیں جس کے تصور سے آنکھیں بہہ پڑتی ہیں، رُوحیں کانپ اٹھتی ہیں اور زمانہ تھم جاتا ہے۔ یہ ایسا منظر ہے جسے گردش ایام بھی نہ بھلا سکے گی اور وہ ہے اہل مکہ کے معاملے میں نبی کریمﷺ کے حلم و برداشت کا منظر! آپؐ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ فتح و نصرت اور غلبہ ان لوگوں پر حاصل ہوا ہے جنہوں نے آپ کو اذیتیں پہنچائیں، جنگ کی اور شہر سے نکال دیا۔ آپؐ ایک بھاری بھر کم لشکر لے کر ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ وہ آپؐ کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ان سے اسلحہ لے لیا جاتا ہے اور ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ کعبے کے دروازے کا کڑا تھام کر فرماتے ہیں: تم کیا کہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟انہوں نے کہا: آپ اچھا ہی کریں گے۔ آپ کریم ابن کریم ہیں۔ یہاں رکیے اور چشم تصور سے اس منظر کو دیکھیے کہ حضرت محمد ﷺ تاریخ کی سب سے بڑی معافی کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ ایسا رُلا دینے والا منظر ہے کہ آنکھیں تھمتی ہی نہیں۔ آپ ﷺ اعلان کرتے ہیں:’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ جائو، تم سب آزاد ہو‘‘(السنن الکبریٰ للبیھقی، حدیث18276)
اس عفوو در گزر، جود و کرم اور لطف و حلم کے کیا کہنے! اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
’’اور یقیناً آپ خلق عظیم پر فائز ہیں‘‘(القلم4:68)۔

 

آپﷺ نے بے ادب اور سخت مزاج دیہاتیوں کا سامنا کیا اور حلم و بربادی اور عفوو درگزر سے کام لیتے ہوئے اپنے رب کے حکم:’’تو(اے نبی!) آپ(کافروں سے) خوبصورت انداز سے در گزر کریں‘‘۔الحجر85:15)کی تعمیل کی۔نبی اکرمﷺ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کے بجائے عفوو درگزر سے کام لیتے۔ آپؐ اپنی ذات کے لئے غصے ہوتے نہ ذاتی انتقام لیتے بلکہ جب آپؐ کو غصہ دلایا جاتا تو آپ کا حلم اور بڑھ جاتا اور کبھی تو آپؐ غصہ دلانے والے کو مسکرا کر نظر انداز کر دیتے۔

بلا شبہ آپ ﷺ کائنات کے سب سے بڑے بردبار، دنیا کے سب سے اعلیٰ کریم اور تاریخ انسانی میں عفو و درگزر کے امام ہیں۔ سید نا ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ جو اسلام قبول کرنے سے پہلے مشرکین کے لیڈر تھے۔انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کئی جنگیں کیں۔ فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے رسول اکرم ﷺ کے عفوو درگزر اور حلم و بردباری کا منظر دیکھا اور عام معافی کا اعلان سنا تو بے ساختہ پکار اٹھے: میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کتنے بردبار، کتنے معزز، کتنے صلہ رحمی کرنے والے اور کس قدر عظیم معافی دینے اور در گزر کرنے والے ہیں!(المعجم الکبیر الطبرانی، حدیث7264)۔
آپﷺ کے حلم اور عفوو درگزر کا ایک شاندار منظر اس وقت دیکھا گیا جب آپؐ کا سامنا اپنے چچا زاد سید نا ابو سفیان بن حارثؓ سے ہوا۔ یہ شاعر تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے اپنے اشعار کے ساتھ آپﷺ کو اذیت دی تھی۔ جب نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو یہ اپنے بچوں کو لے کر بیداء کی طرف نکل گئے۔ راستے میں سید نا حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ان سے ملے۔ یہ ان کے بھی چچا زاد تھے۔ پوچھا: ابو سفیان! کدھر؟ کہا: میں اپنے بچوں کو لے کر بیداء مقام کی طرف جا رہا ہوں۔ اللہ کی قسم! اگر حضرت محمد (ﷺ) مجھے پکڑنے میں کامیاب ہو گئے تو میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ سید نا حضرت علی رضی اللہ عنہ جو نبی اکرم ﷺ کے حلم اور بردباری سے آشنا تھے، فرمانے لگے: ابو سفیان! تم نے غلط اندازہ لگایا ہے۔ بلاشبہ رسول اکرم ﷺ سب لوگوں سے زیادہ بردبار اور معزز ہیں۔ آئو اور آپ ﷺ کی نبوت کو تسلیم کر لو، پھر آپ سے ایسے معذرت کرو جیسے سید نا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان سے معذرت کی:’’اللہ کی قسمٖ! بلاشبہ یقیناً اللہ نے تجھے ہم پر فضیلت دی اور بلاشبہ ہم ہی خطا کار تھے‘‘(یوسف 91:12)
آپﷺ نے اپنی چادر کا پہلو اُن کی طرف بلند کیا اور فرمایا: ’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ اللہ تمہاری مغفرت کرے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘۔(یوسف 92:12)۔اب سید نا ابو سفیان رضی اللہ عنہ، رسول اکرم ﷺ کے وفادار سپاہی بن چکے ہیں۔ وہ حنین کے دن رسول اکرم ﷺ کے آگے آگے لڑے اور سینہ تان کر آپؐ کا دفاع کیا۔ انہوں نے قسم کھائی کہ جتنا مال میں نے نبی اکرم ﷺ سے جنگ کرنے میں خرچ کیا ہے، اس سے کئی گنا زیادہ آپ کی نصرت و تائید میں خرچ کروں گا۔

Exit mobile version