بلاگ

سیاست اور سیرت خیرالبشرؐ

’’بیشک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور آیا۔‘‘

نور کے معنی روشنی کے ہیں۔ انسان کو روشنی کی اس وقت ضرورت ہوتی ہے جب تاریکی (اندھیرا) چھا جائے تو ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ اچھی اور بری چیز نظر نہ آئے۔ یعنی اچھائی اور برائی میں تمیز نہ ہوسکے، چہرے پہچانے نہ جاسکیں۔ اسے ایسے وقت ایک ایسی روشنی کی تلاش ہوتی ہے جو گردونواح کو روشن کردے، ہر چیز نظر آنے لگے، تکلیف دینے والی چیز سے بچا جاسکے، راحت اور فائدہ دینے والی چیز کو تلاش کرکے اس سے استفادہ کیا جاسکے۔

تاریکی میں اگرچہ انسان کے پاس اپنی روشنی (آنکھیں) موجود ہوتی ہے، لیکن یہ دوسری روشنی کا محتاج ہوتا ہے جو اس کی روشنی کو روشن کردے۔ اسی طرح اگرچہ چاند اور سورج کی روشنی موجود تھی لیکن تاریکی اس قدر چھا چکی تھی کہ شمس و قمر کی روشنی بیکار ہوگئی تھی۔ اچھائی اور برائی کی تمیز اٹھ چکی تھی۔ برائی کو اچھائی سمجھا جاتا تھا اور اچھائی لوگوں کی نظروں میں برائی بن کر رہ گئی تھی۔ اب ضرورت تھی اس روشنی کی، جس روشنی سے ہر روشن چیز منور ہوئی تھی۔ وہ روشنی کون سی روشنی تھی؟ وہ نور محمدؐ کی روشنی تھی۔

ویسے تو یہ دو الگ الگ موضوع ہیں۔ جب ایک سیاستدان کی بات کی جائے تو اس کا موضوع سیاسی اور سماجی ہی ہوتا ہے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کےلیے اور خوشحالی و ترقی کےلیے ہوتا ہے۔ مگر جب بات ایک سیاست دان کی سیرت نگاری کی ہو تو یہ بات اپنے میں ایک حیرت کدہ ہے۔ کوئی مولوی سیرت لکھے، کوئی عالم سیرت لکھے، کوئی مفسر سیرت لکھے، کوئی سیرت نگار سیرت لکھے، تو یہ عجب نہیں۔ عجب یہ ہے کہ کوئی سیاستدان سیرت لکھے، اور ایسی سیرت لکھے کہ جسے پڑھ کر مولوی بھی حیران ہوجائے۔ تو مصنف کے اندر یقیناً خشیت الٰہی اور عشقِ رسول کا سمندر امڈ رہا ہوتا ہے۔

 

سیرت خیرالبشرؐ کے مصنف کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ میں نے مصنف کو قریب سے دیکھا جو کہ ایک سیاستدان بھی ہیں اور علم و ادب سے گہرا تعلق بھی ہے۔ بڑے بڑے ادب دان بھی سیرتِ سرورِ کائنات پر قلم نہیں اٹھاتے۔ لکھنے والے کتابیں کھنگالتے ہیں، لائبریریوں کو تتر بتر کردیتے ہیں۔ اپنی زندگی میں پہلا سیاستدان دیکھا جس نے روز و شب کے ایام کو یکجا کردیا۔ گھر کا آرام دہ بستر ہو یا جیل کی صعوبتیں، اپنے قلم کو سیرت رحمت اللعالمینؐ، راحت العاشقین، سراج السالکین، مراد المشتاقین پر رکنے نہیں دیا۔ اپنے ذہنی الفاظ اور سوچ کو زینت قرطاس کرتے چلے گئے۔ اور اندازِ بیاں ایسا کہ جیسے دور نبوی کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر منظرکشی کرتے چلے گئے۔ میرا تعلق مولویوں سے بھی ہے، ان کی تحریروں کو بھی پڑھا، مگر مصنف ’’سیرت خیرالبشرؐ‘‘ نے جس خوبصورتی سے سید عالم، سرورِ کائنات کی مکی و مدنی زندگی کو لکھا، عقل حیران ہے۔

اب میں مصنف ’’سیرت خیرالبشر‘‘ کا تعارف کرواتا ہوں۔ ویسے تو پاکستان کی سیاست بالخصوص کراچی کی سیاست سے گہرا تعلق ہے اور سینئر سیاست دان بھی ہیں، شاعر و ادیب بھی ہیں، سیرت خیرالبشر کے علاوہ اور بھی کتابیں قلم ضبط کی ہیں، جس میں ’’تاریخ البیت اللہ‘‘ جو عربی، اردو اور انگریزی زبان میں ہیں۔ اس کے علاوہ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پر بھی ماضی قریب میں بہت خوب لکھا ہے۔ موصوف کا نام محمد عبدالرؤف صدیقی ہے۔ میں نے ’’سیرت خیرالبشرؐ‘‘ ایک مفتی صاحب، جو ٹی وی نشریات کی مشہور شخصیت بھی ہیں، کی خدمت میں بطور ذوق مطالعہ پیش کی۔ مفتی صاحب نے سیرت خیرالبشر پڑھ کر مجھے فون کیا اور فرمایا کہ میں مصنف کو تو دوبدو اتنا نہیں جانتا مگر اپنے جذبات کا اظہار آپ سے کرتا ہوں۔ فرمانے لگے کہ کوئی عالم یا مؤرخ سیرت نگار جب لکھتا ہے تو وہ اپنے جذبات اور الفاظ سے زیادہ مؤرخین کی سیرت نگاروں کی مفسرین کی کتابیں دیکھ کر لکھتا ہے، مگر اللہ کسی کسی کو ایسی صلاحیتیں عطا کرتا ہے جس میں عشق اور جذبات ابھر کر باہر آتے ہیں۔ ایسا ہی مصنف ’’سیرت خیرالبشر‘‘ کے ساتھ ہوا ہے۔ بہت کمال لکھا ہے، سیرت کی ضخیم جلدوں کو ایک ہی کتاب میں سمو دیا ہے۔

اس کتاب کے موضوعات بہت دلچسپ ہیں۔ پڑھنے والے کو بہت لطف آئے گا۔ اس کتاب کو ایک انفرادی اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سندھ میں قرداد منظور ہوئی کہ وفاقی تعلیم نے تمام جامعات میں بطور نصاب شامل کرکے تمام لائبریریوں کی زینت بنادیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کتاب کو بہت پذیرائی ملی کہ دبئی، قطر، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے اس کتاب پر این او سی جاری کیا اور یہ عزت بخشی۔ مصنف نے تو اپنی آخرت کا ساماں جمع کرلیا اس کتاب کو لکھ کر۔ اللہ رب العزت مصنف کو مزید عزت و تکریم سے نوازے اور اس کتاب کی برکات ہم پر بھی نازل فرمائے (آمین)

نوٹ:QALAM KAHANI  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت