مسلمانوں کی تلواریں اپنے بھائیوں کے خون سے آلودہ ہوئیں۔ وہ مسلمان جو اخوت، مساوات، عدل و انصاف کی عظیم اور لازوال مثالیں قائم کر کے قیصر و کسریٰ جیسی بڑی ریاستوں کو سرنگوں کر چکے تھے،وہ مسلمان جو اپنے دین کی سر بلندی کی خاطر اپنے مال و جان و اولاد کی پروا نہ کرتے تھے، ان میں فرقہ بندیاں پیدا ہوئیں، جو آج تک ختم نہ ہو سکیں۔ اس روز نبی آخر الزماںؐ کے مقدس شہر مدینہ طیبہ میں آپؐ کے دہرے داماد حضرت عثمان ذوالنورینؓ کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا۔ وہ صحابی جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگرمیری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کر دیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں۔
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ مکہ پر ہاتھیوں سے حملے والے واقعے کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔آپ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتد ا میں ہی داعی اسلام کی پکار پر لبیک کہا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ اسلام لانے کے بعد آپ کے چچا حکم بن ابوالعاص نے آپکو رسیوں سے باندھا اور آپکو دین اسلام چھوڑنے کیلئے کہا ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے چچا کے مظالم تو برداشت کئے لیکن اسے صاف کہہ دیا کہ میں کبھی بھی اسلام نہیں چھوڑوں گا۔
آپ رضی اللہ تعالی’ عنہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ نے یکے بعد دیگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دوشہزادیوں سے نکاح کیا اور ذوالنورین یعنی دو نور والے کا لقب حاصل کیا۔اہلیہ کے انتقال پر آپ انتہائی رنجیدہ تھے جس پر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کردیتا۔یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سیدنا عثمان سے راضی ہیں ۔آپ رضی اللہ تعالی’ عنہ نے دنیا میں قرآن کریم کی نشرواشاعت کرکے امت مسلمہ پر احسان عظیم فرمایا ۔آپ نے جاہلیت کے دور میں بھی کبھی نہ بدکاری کی نہ شراب پی نہ جھوٹ بولا۔آپ شرم وحیا کا پیکر تھے۔
سخاوت کا یہ حال تھا کہ غزوہ تبوک کے وقت ۹۵۰ اونٹ اور ۵۰ گھوڑے سامان پیش کیا۔رحم دل ایسے کہ ہر جمعہ کوغلام آزاد کراتے اور اگر کسی جمعہ یہ نیک کام رہ جاتے تو اگلے جمعہ دو غلام آزاد کراتے ۔لوگوں کو اعلی’ کھانا کھلاتے جبکہ خود سرکے اور زیتون سے وقت گزار لیتے۔عاجزی ایسی کہ خلیفہ بننے کے بعد بھی سواری پر پیچھے غلام بٹھانے میں عار محسوس نہ کرتے ۔رات کہ وقت اگر کوئی کام ہوتا اور خادم آرام کررہے ہوتے تو انہیں جگانے کے بجائے اپنے ہاتھ سے کام کرلیتے۔
۳۵ ھ ذیقعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے سیدنا عثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ نے صبر اوراستقامت کا دامن نہیں چھوڑا، محاصرہ کے دوران آپ کا کھانا اور پانی بند کردیاگیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے رہے۔82سالہ مظلوم مدینہ سیدنا عثمان کو بروزجمعہ انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے شہید کردیا گیا۔سیدنا عثمان کوشہید کرنے کی یہ سازش درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے عظیم سازش تھی ، یہ سازش جو عبد اللہ بن سبا سمیت متعدد منافقین کی سعی کا نتیجہ تھی۔ درحقیقت صرف حضرت عثمان کے خلاف نہ تھی بلکہ اسلام اور تمام مسلمانوں کے خلاف تھی ۔
یہ وہ بات تھی جس کی خبر حضرت عثمان نے ان الفاظ میں دی تھی کہ بخدا اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر تا قیامت نہ ایک ساتھ نماز پڑھو گئے نہ ایک ساتھ جہاد کرو گے۔منافقین اور مشرکین چونکے مسلمانوں کے اتحاد سے پریشان تھے ۔یہ اتحاد ہی انکی حکمرانی اور طاقت کے درمیان حائل تھا لہذا انہوں نے دنیاوی بلندی پانے کیلئے یہ سازش رچائی ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالی’ عنہ کی شہادت پر مدینہ میں کہرام مچ گیا ۔حضرت سعید بن زید نے ارشاد فرمایا لوگو ںواجب ہے کہ اس بد اعمالی پر کوہ احد پھٹے اور تم پر گرے ،حضرت انس نے فرمایا حضرت عثمان جب تک زندہ تھے اللہ کی تلوار نیام میں تھی ،اس شہادت کے بعد یہ تلوار نیام سے نکلے گی اور قیامت تک کھلی رہے گی، حضرت ابن عباس نے ارشاد فرمایا اگر حضرت عثمان کے خون کا مطالبہ بھی نہ کیا جاتا تو لوگوں پر آسمان سے پتھر برستے، حضرت علی کو جیسے ہی شہادت عثمان کی خبر ملی آپ نے فرمایا اے اللہ میں تیرے حضور خون عثمان سے بریت کا اظہار کرتا ہوں اور حافظ ابن کثیرنے یہ بھی نقل کیا ہے کہ حضرت علی حضرت عثمان کے پاس جا کر ان پر گر پڑے اور رونے لگےحتیٰ کے لوگوں نے خیال کیا کہ آپ بھی ان سے جاملیں گئے۔
آپ کی شہادت کے وقت خون کا پہلا قطرہ قرآن پر گرا ۔دنیا میں ایک دن میں کئی کئی بار قرآن کی تلاوت کرنے والے حضرت عثمان کا تعلق اس طرح شہادت کے بعد بھی تاقیامت قرآن تک جڑ گیا ۔آپ رضی اللہ تعالی’ عنہ کو مدینہ میں جنت البقیع میں مدفون کیا گیا آپ کو قبر میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اتارا۔آپ رضی اللہ تعالی’ عنہ کا گھر جہاں موجود تھا اس مقام کو محفوظ کرنے کیلئے وہاں مسجد ذوالنورین تعمیر کردی گئی ہے۔