یہ واقعہ سندھ کے ضلع نوشہروفیروز کی تحصیل کنڈیارو کے گاؤں لونگ راجپر میں پیش آیا جہاں ایک شخص طیب عرف مچھر راجپر پر یہ الزام ہے کہ اس نے اپنی نومولود بچی کو زندہ دفن کر دیا۔ پولیس کی موجودگی میں طیب نے کدال کی مدد سے مٹی ہٹائی تو اندر سے کپڑے میں لپٹی ہوئی بچی کی لاش برآمد ہوئی۔
پولیس نے طیب کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کیا اور اس کی نشاندہی پر اس جگہ کی تصدیق ہوئی جہاں اس نے مبینہ طور پر اپنی نومولود بچی کو دفنایا تھا۔ لونگ راجپر گاؤں تقریباً دو ڈھائی سو گھروں پر مشتمل ہے اور ٹھارو شاہ قصبے سے 10 کلومیٹر دور واقع ہے۔ طیب کا ایک کمرے کا کچا گھر ہے اور اس کی اہلیہ اپنے دو بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر جا چکی ہیں۔
کنڈیارو پولیس نے طیب راجپر عرف مچھر کا تین روز کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے تاکہ تحقیقات کی جا سکے کہ اس نے یہ اقدام کیوں کیا۔ اس واقعے کی ایف آئی آر میں موجود تفصیلات بھی جاننا اہم ہے تاکہ پورے معاملے کو سمجھا جا سکے۔
یہ واقعہ سات جولائی کو سرکاری مدعیت میں کنڈیارو تھانے میں درج کیا گیا، جہاں اے ایس آئی غلام حسین نے مقدمہ درج کیا۔ ایف آئی آر کے مطابق، اے ایس آئی غلام حسین نے بتایا کہ انہیں اطلاع ملی کہ طیب عرف مچھر راجپر نے اپنی بیمار نومولود بیٹی کو مالی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے زندہ دفن کر دیا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ جب وہ گاؤں لونگ راجپر پہنچے تو انہوں نے طیب عرف مچھر کو حراست میں لے لیا، جس نے فوراً اعتراف جرم کیا اور کہا کہ ‘اس سے غلطی ہوئی ہے’۔ ملزم کے بیان کے مطابق، 20-25 روز قبل اس کی بیٹی پیدا ہوئی تھی جو پیدائش کے وقت سے ہی بیمار تھی۔ غربت کی وجہ سے وہ اس کا علاج نہیں کروا سکا اور پھر بچی کو بوری میں ڈال کر قبرستان لے گیا، جہاں اس نے گڑھا کھود کر بچی کو کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا۔
پولیس نے ملزم کو اس مقام پر لے جا کر بچی کی قبر کی نشاندہی کروائی اور ملزم نے خود ہی اس جگہ کی تصدیق کی جہاں بچی کو دفن کیا گیا تھا۔
ملزم طیب کے ایک سگے بھائی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طیب کی نومولود بچی صحت مند نہیں ہو رہی تھی اور اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ طیب کے بھائیوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کوئی ایسا قدم اٹھانے جا رہا ہے۔
مقامی صحافی دین محمد، جو اس گاؤں کا خود دورہ کر چکے ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم طیب اور اس کے بھائی انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ غربت کے باعث ان کے پاس بچی کا علاج کروانے کے وسائل نہیں تھے، جس کی وجہ سے طیب نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔