فلپائن کے ایک چھوٹے سے زرعی قصبے کی میئر جن پر گذشتہ چند ہفتوں سے چین کی جاسوسی کرنے کا الزام لگایا جا رہا تھا، نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ چین کی جاسوس نہیں بلکہ ’اپنے چینی والد کی اپنی فلپائن سے تعلق رکھنے والی نوکرانی کے ساتھ چلنے والے افیئر کے باعث پیدا ہونے والی بیٹی ہیں۔‘
ایلس گو پر مجرمانہ آپریشنز چلانے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں اور سینیٹ میں پیشی کے دوران وہ اپنے خاندان کے ماضی کے بارے میں سوالات کے جواب نہیں دے سکی تھیں۔
اس کے باعث ایک سینیٹر نے سوال کیا تھا کہ کیا وہ بیجنگ کے لیے کام کر رہی ہیں۔
ایلس گو نے اے بی ایس-سی بی این نیوز چینل کو پیر کی رات ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں عوام کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں جاسوس نہیں ہوں۔ میں فلپائن کی شہریہوں اور اپنے ملک سے محبت کرتی ہوں۔‘
ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر کئی ہفتوں کی شدید تنقید کے بعد سامنے آیا، جس دوران ان پر متعدد میمز بھی بنے جو ان کی اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں چیزیں بھول جانے کے بارے میں تھے اور ان کے چین کے ساتھ ممکنہ تعلق کے بارے میں بھی۔
اس بارے میں صدر فرڈیننڈ مارکوس نے بھی بات کی تھی اور اس بارے میں اپنے خدشات بتائے تھے۔
بمبن نامی یہ قصبہ دارالحکومت منیلا کے شمال میں واقع ہے اور یہ چاول پیدا کرنے والا زرعی قصبہ ہے۔
اس کی میئرایلس گو نوجوان اور سرگرم سرکاری ملازم ہیں۔ لمبے سیاہ بالوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ 35 سالہ ایلیس عینک لگاتی ہیں، مقامی بولی تگالوگ بولتی ہیں اور عوامی مقامات پر گلابی رنگ کا لباس پہننا پسند کرتی ہیں۔
ان کی زندگی کے بارے کوئی زیادہ نہیں جانتا جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک فارم میں پلی بڑھی ہیں۔ ان کا یہ اعتراف ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا اور انھیں رواں ماہ کے اوائل میں سینیٹ کے سامنے گواہی دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔
اس سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتا چلا تھا کہ ان کے شہر میں ایک آن لائن کیسینو ہے جسے مقامی طور پر پوگو کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ دھوکہ دہی کا مرکز ہے۔
حکام نے گذشتہ سال مارچ میں اس مرکز پر چھاپہ مارا تھا اور 202 چینی شہریوں اور 73 دیگر غیر ملکیوں سمیت تقریباً 700 کارکنوں کو بچایا تھا جنھیں آن لائن محبت کا جھانسہ دینے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔
پوگو سے مراد ’فلپائن آف شور گیمبلنگ آپریٹر‘ ہے جس کے گاہکوں میں مین لینڈ چینی باشندے شامل ہیں۔
یہ کاروبار روڈریگو ڈوٹرٹے کے دور میں پھلے پھولے لیکن سنہ 2022 میں ختم ہونے والی صدارت ان کی چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی علامت تھی۔
لیکن موجودہ صدر فرڈینینڈ مارکوس کے دور میں پوگو کو اس وقت سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا جب یہ پتا چلا کہ ان میں سے کچھ کو انسانی سمگلنگ اور آن لائن فراڈ کی کارروائیوں کے مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
ایلس گو کا معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب منیلا اور بیجنگ کے درمیان وسائل سے مالا مال
جنوبی بحیرہ چین کے معاملے پر تناؤ بڑھ رہا ہے۔
’میں ہر کسی کو نہیں بتا سکتی تھی کہ میری والدہ نے مجھے چھوڑ دیا تھا‘
ایلس گو نے انٹرویو کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ماں نے انھیں اس وقت چھوڑ دیا تھا جب وہ نومولود بچی تھیں اور پھر وہ اپنے والد کے ساتھ ٹارلیک میں ان کے پگیری کمپاؤنڈ میں بڑی ہوئیں۔ ٹارلیک دارالحکومت منیلا کے شمال میں واقع ایک زرعی صوبہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے والد کی اپنی نوکرانی کے ساتھ افیئر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیٹی ہوں۔۔۔ یہ بہت نجی معاملہ ہے۔ میں ہر کسی کو یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ میری والدہ نے مجھے ایسے چھوڑ دیا تھا۔‘
انھوں نے سینیٹرز سے معافی مانگی اور کہا کہ وہ اس پیشی کے دوران اپنے والدین کے بارے میں تفصیلات اس لیے نہیں بتا پائیں تھیں کیونکہ ’ان کا ذہن بالکل مفلوج ہو گیا تھا۔‘
سینیٹ کی پیشی کے دوران انھوں نے یہ تسلیم کیا تھا کہ ان کا برتھ سرٹیفیکیٹ صرف اس وقت رجسٹر ہوا تھا جب وہ 17 برس کی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی پیدائش گھر میں ہوئی تھی ہسپتال میں نہیں۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انھیں گھر پر ہی تعلیم دی گئی تھی لیکن وہ اس سے زیادہ معلومات نہ دے سکیں۔
اس حوالے سے شکوک میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب یہ معلوم ہوا کہ انھوں نے بامبان میں ووٹ 2021 میں رجسٹر کروایا تھا، یعنی میئر کے الیکشن میں کامیابی سے ایک سال قبل۔
گو کا کہنا تھا کہ انھیں ناجائز اولاد ہونے پر ندامت تھی اس لیے وہ اپنے آبائی گھر میں ہی رہنا پسند کرتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے کوئی دوست نہیں تھے۔ کوئی بھی میرے ساتھ کھیلنے والا نہیں تھا۔ میں نے اپنی زندگی اس زرعی فارم میں ہی گزاری۔‘
تاہم وہ کہتی ہیں کہ جب وہ بڑی ہوئیں تو وہ اپنے والد کے کاروبار میں بھی ہاتھ بٹانے لگیں۔
ایلس گو کہتی ہیں کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گی اور اگلے سال پھر سے الیکشن لڑیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں زیادہ طاقتور نہیں ہوں۔ میں ایک عام شہری ہوں اور میرا تعلق سیکنڈ کلاس میونسپیلٹی سے تھا۔ میرے اس قسم کے روابط نہیں۔‘
’میں نے سنا ہے مجھے ملک بدر کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ میری والدہ نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ اب کیا میرا ملک بھی مجھے ملک بدر کر دے گا؟‘
سوئمنگ پول اور شراب کا تہہ خانہ
پتا چلا کہ وہ اس زمین کے آدھے حصے کی مالک تھیں جہاں پوگو واقع تھا اور یہ ان کے دفتر کے بالکل عقب میں واقع ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے دو سال قبل میئر کا انتخاب لڑنے سے پہلے یہ جائیداد فروخت کر دی تھی۔
تقریباً آٹھ ہیکٹر پر پھیلے اس کمپاؤنڈ کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں ایک گروسری، گودام، سوئمنگ پول اور یہاں تک کہ ایک شراب خانہ بھی ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فراڈ کے اس مرکز میں کارکن لمبی سفید میزوں پر قطاروں میں رکھے کمپیوٹرز پر قطار در قطار بیٹھے ہیں اور ادھر ادھر کر رہے ہیں۔
گو کے نام پر ایک ہیلی کاپٹر اور فورڈ ایکسپیڈیشن بھی رجسٹرڈ پایا گیا ہے لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی زمین کی طرح یہ بھی بہت پہلے فروخت ہو چکے ہیں۔
سینیٹ کی سماعت کے بعد سینیٹر ریسا ہونٹیروس نے پوچھا کہ کیا یہ سمجھا جائے کہ گو اپنے ذاتی اور کاروباری پس منظر کے بارے میں سوالات کے ’غیر شفاف‘ جوابات کی بنیاد پر چینی ’اثاثہ‘ ہیں۔
جمعرات کی رات صدر مارکوس نے ایلس گو کے معاملے پر بڑھتی ہوئی تشویش پر اپنی جانب سے بھی تشویش ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ ’کوئی انھیں نہیں جانتا۔ ہم حیران ہیں کہ وہ کہاں سے آئیں، اسی لیے ہم بیورو آف امیگریشن کے ساتھ مل کر اس کی تحقیقات کر رہے ہیں کیونکہ ان کی شہریت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘
ایلس گو نے قانون سازوں کو بتایا کہ وہ ’نہ ہی پوگوز کی محافظ ہیں اور نہ ہی اس کی حمایتی ہیں۔‘
ان کے پسِ منظر کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، جو دیہی فلپائن میں غیر معمولی بات ہے، جہاں مقامی عہدیدار اکثر سیاسی خاندانوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔
وہ صرف ایک منتخب عہدیدار کی حیثیت سے اپنی پہلی مدتگزار رہی ہیں۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2021 میں بمبن میں ووٹ ڈالنے کے لیے اندراج کرایا تھا جو کہ میئر بننے سے ایک سال قبل کی بات ہے۔
ان کا خاندانی نام ’گو‘ بھی چینی نسب والے فلپائنیوں کے عام خاندانی ناموں میں شامل نہیں۔
چونکہ فلپائن سپین اور چین کی نوآبادیات میں شامل رہا ہے اس لیے ان کے ساتھ فلپائن کے صدیوں پر محیط تجارتی اور گہرے ثقافتی تعلقات ہیں۔ درحقیقت فلپائن میں دنیا کا قدیم ترین چائنا ٹاؤن ہے۔
سینیٹرز کی جانب سے پوچھ گچھ کے دوران گو نے اعتراف کیا کہ ان کا برتھ سرٹیفکیٹ مقامی حکام کے پاس اس وقت رجسٹرڈ کیا گیا جب وہ 17 سال کی ہو گئی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی ہسپتال یا کلینک میں نہیں بلکہ ایک گھر میں پیدا ہوئی تھیں۔اور اس کے متعلق وہ مزید تفصیلات نہیں دے سکیں۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں خاص طور پر فیملی کمپاؤنڈ کے اندر ہی گھر پر تعلیم دی جاتی تھی جہاں وہ پلیں بڑھیں۔تاہم انھیں اپنے ہوم سکول کا نام یاد نہیں اور انھوں نے اس کے تلعلق سے اپنے صرف ایک ٹیچر کا نام لیا۔
انھوں نے کہا کہ ان کے والد فلپائنی ہیں لیکن کاروباری ریکارڈ میں ان کے والد کی شناخت چینی شہری کے طور پر کی گئی ہے۔
منیلا براڈکاسٹر جی ایم اے نیوز کے مطابق انھوں نے سنہ 2022 کی انتخابی مہم کی تقریر میں کہا تھا کہ ’بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں، ایلس گو کون ہے؟ میں بمبن سے ایلس گو ہوں۔ میری والدہ فلپائنی ہیں، میرے والد چینی ہیں۔‘
ہونٹیروس ان لوگوں میں شامل تھیں جنھوں نے ایلس گو سے ان کی پیدائش اور تعلیم کے ریکارڈ کے
بارے میں سوالات کیے۔ جب انھوں نے میئر پر مزید وضاحت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تو انھیں جواب میں صرفیہ سننے کو ملا کہ ’میں آپ کو آئندہ جواب دوں گی۔ ‘
ہونٹیروس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’میں اس بات سے سب سے زیادہ پریشان ہوں کہ ان کے جوابات کتنے الجھے ہوئے ہیں، خاص طور پر ان کے پس منظر کے بارے میں۔ کیا میئر ایلس اور ان جیسے پراسرار پسِ منظر رکھنے والے چین کے لیے اثاثہ ہیں یا ان کے لیے کام کر رہے ہیں؟‘ جنھیں ہمارے ملک میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ وہ فلپائن کی سیاست پر اثر انداز ہو سکیں۔‘
سماعت کے موقع پر موجود سینیٹر شیرون گاٹچلیان کا کہنا تھا کہ ’اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ بمبن کی میئر ایلس گو ہمارے سوالات کا جواب ہمیشہ ’مجھے نہیں معلوم‘ ہے اور انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کہاں رہتی تھیں۔‘
ایلسگو نے جاسوسی کے الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور گذشتہ ہفتے سینیٹ میں پیشی کے بعد سے میڈیا انٹرویوز سے گریز کیا ہے۔
مارکوس کا کہنا تھا کہ ایلس گو کے خلاف تحقیقات کا مقصد غیر ملکی شہریوں کو ملک میں عوامی عہدوں پر فائز ہونے سے روکنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ضروری نہیں کہ فلپائن صرف ایک ملک کی طرف دیکھ رہا ہو۔‘
مارکوس نے کہا کہ’ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید سخت کریں گے۔ قوانین موجود ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لوگ پیسے لا سکتے ہیں، یا انھیں رشوت دی جا سکتی ہے۔‘
الیکشن کمیشن اور وکلاایلس کے معاملے کی جانچ کر رہے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا وہ غیر قانونی طور پر عوامی عہدے پر فائز تو نہیں ہوئی ہیں۔ یہ ثابت ہونے کی صورت میں انھیں ان کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔