سنہ 1788 کی اُس گرم دوپہر کو روہیلا سردار غلام قادر نے شاہ عالم ثانی کو زمین پر گرا کر ان کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور اپنے خنجر سے ان کی آنکھیں نکال دیں۔
اس بدقسمت مغل شہنشاہ کا نام عالی گُہر رکھا گیا تھا جب ان کی پیدائش 15 جون، 1728 کو دلی میں ان کے والد عزیز الدین عالمگیر ثانی کے ہاں ہوئی۔
مغلیہ سلطنت کا دور زوال پر تھا اور ہندوستان آہستہ آہستہ خود مختار ریاستوں میں تقسیم ہو رہا تھا۔ ایسے حالات میں شاہ عالم ثانی کی زندگی کا آغاز ہی مشکلات سے بھرپور تھا۔
ان کی کم عمری میں ہی انہوں نے مغلیہ شان و شوکت کا زوال اور دلی کی تباہی ایرانی بادشاہ نادر شاہ کے ہاتھوں دیکھا، جس نے مغل سلطنت کو مکمل طور پر برباد کر دیا اور ہندوستان سے مرکزی طاقت کا وجود ہی ختم ہو گیا۔
لیکن شاہ عالم کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔ وزیر عماد الملک نے عالی گُہر کو گویا ایک قیدی بنا رکھا تھا۔ اسی وزیر نے 1758 میں انہیں دلی سے بھاگنے پر مجبور کیا، جس کے بعد عالی گُہر نے اودھ کے نواب شجاع الدولہ کے پاس پناہ لی۔
صرف ایک سال بعد، 1759 میں، ان کے والد کا قتل ہوا اور عالی گُہر نے ‘شاہ عالم ثانی’ کے لقب سے سترھویں مغل شہنشاہ کا تاج پہن لیا۔ لیکن یہ ایسے شہنشاہ تھے جن کے پاس نہ طاقت تھی، نہ دولت اور نہ ہی دلی۔
اس کے باوجود، مغلیہ نام اور نسب کی ایک اہمیت تھی۔ 1761 میں احمد شاہ ابدالی، جنہوں نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مراٹھوں کو شکست دی تھی، نے شاہ عالم کو ہندوستان کا شہنشاہ تسلیم کر لیا۔
لیکن ابھی تک شاہ عالم کے پاس دلی کا کنٹرول نہیں تھا جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال میں اپنے قدم جما رہی تھی۔
دلی پر قبضہ کرنے کی کوشش میں، شاہ عالم ثانی نے بہار اور بنگال سے خراج کا مطالبہ کیا، جس کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ تنازعہ کھڑا ہو گیا۔
1764 میں بکسر (بہار کی ریاست) کی لڑائی میں شجاع الدولہ کی شکست کے بعد، شاہ عالم کمپنی کے پنشنر بن گئے۔
اس کے بدلے میں انہوں نے بنگال، بہار، اور اڑیسہ میں (1765) کمپنی کو ٹیکس وصول کرنے کا قانونی اختیار دے دیا۔ تاہم، دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق، کمپنی نے اس تقرر کی ذمہ داریوں کو سات سال بعد قبول کیا۔
دلی واپسی
شاہ عالم ثانی خود الٰہ آباد میں سکونت پذیر تھے، لیکن ان کا دل دلی کے اس تخت کی خواہش رکھتا تھا جہاں ان کے آباؤ اجداد نے کبھی شان و شوکت سے حکمرانی کی تھی۔
بالآخر 1771 میں، مغربی ہندوستان میں دوبارہ طاقتور بن جانے والے مراٹھوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت، انہیں دلی واپس مل گئی۔ تاہم، اس کے بدلے میں الٰہ آباد اور کڑاکے کے اضلاع مراٹھوں کو منتقل کرنے پڑے۔
محقق اور کئی کتابوں کے مصنف ثنا الحق، سید مصطفیٰ علی بریلوی کی کتاب ‘غلام قادر خان’ کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ ‘شاہ عالم میں سوجھ بوجھ کی کمی نہیں تھی، لیکن دو خامیاں تھیں: آرام طلبی اور خوشامد سے بہت زیادہ متاثر ہونا۔’
یوں شاہ عالم کے دور میں سلطنتِ مغلیہ کی باقی ماندہ عظمت بھی ختم ہو گئی اور بادشاہ مراٹھوں اور انگریزوں کے وفادار بن کر ان کی طاقت پر انحصار کرنے لگے۔
نصیر الدین برلاس نے نجیب التواریخ میں لکھا ہے: ‘بادشاہ موم کی ناک کی مانند یا شاہِ شطرنج کی طرح تھے، جس کے قبضے میں آ گئے، اسی کے حامی بن گئے۔’
جب شاہ عالم الٰہ آباد میں تھے، تو نواب نجیب اللہ دلی میں نیابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کے بعد روہیلا سردار ضابطہ خان نے بھی کچھ عرصہ تک سلطنت کے امور سنبھالے۔ ضابطہ خان اس کہانی میں کیوں اہم ہیں، اس کا ذکر کچھ دیر بعد کیا جائے گا۔
پھر ایک وقت آیا کہ شاہ عالم نے ضابطہ خان کے خلاف مہم چلائی اور مراٹھوں نے ضابطہ خان کو شکست دی۔ یہاں سے کہانی ایک نئے موڑ میں داخل ہوتی ہے، جس کا مرکزی کردار ضابطہ خان کا بڑا بیٹا غلام قادر ہے۔
غلام قادر خان اور شاہ عالم: ‘محبت سے انتقام تک’
برلاس کے مطابق، ’ضابطہ خان کا بڑا بیٹا غلام قادر خان، جو اس وقت 14 سال کا تھا، اور چھوٹا بیٹا غلام معین الدین خان، جو 11 سال کا تھا، گرفتاری میں آئے۔ غلام قادر خان نہایت خوبصورت اور دلکش تھا اور بادشاہ کے حکم پر قلعے میں رہنے لگا۔‘
سید مصطفیٰ علی بریلوی لکھتے ہیں کہ کچھ مصنفین کا کہنا ہے کہ ’غلام قادر خان کو زنانہ لباس پہنا کر بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔‘
’کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ محل میں شہزادوں کی طرح رہتے تھے۔ خاندانی شان و شوکت کی وجہ سے وہ شاہزادیوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔‘
سید علی عباس نے اپنے سفرنامہ اظفری میں لکھا ہے کہ ’شاہ عالم حسن پرست تھے اور عیاش بھی۔ غلام قادر خان کو ان کی خداداد خوبصورتی کی بنا پر زنانہ لباس پہنا کر دربار میں اپنے قریب رکھتے تھے۔‘
بریلوی اپنی کتاب غلام قادر روہیلا میں لکھتے ہیں: ’سازشیوں نے شاہ عالم کے حکم پر غلام قادر خان کو بے ہوش کیا اور انہیں مردانہ قوتوں سے محروم کر دیا۔‘
نجیب التواریخ میں لکھا گیا ہے: ’حسن و جمال اور ادب کی وجہ سے بادشاہ کی نظرِ عنایت غلام قادر پر بڑھتی گئی، یہاں تک کہ وہ تیموری شہزادوں کی طرح بے محابا محلوں میں آتے جاتے تھے اور فرزندِ شاہی سمجھے جاتے تھے۔ جوانی اور خوبصورتی کی وجہ سے بادشاہ کو شبہ ہوا کہ شاہی خواتین بھی ان سے انس رکھتی ہیں، اس لیے انہیں بے ہوش کر کے مردانہ نسل ختم کر دی گئی۔‘
جب غلام قادر خان کو ہوش آیا تو انہوں نے صبر سے کام لیا۔
1785 میں ضابطہ خان کی وفات کے بعد، 25 یا 26 سالہ غلام قادر خان کو نجیب آباد سونپا گیا تو انہوں نے دہرہ دون تک کا پورا مغربی روہیل کھنڈ کا علاقہ فتح کر لیا۔
رفتہ رفتہ غلام قادر طاقتور ہوتے گئے اور ان کے ارادے بھی بڑھنے لگے۔ ایک وقت آیا جب تین سال بعد انہوں نے مراٹھوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے بادشاہ سے رقم طلب کی۔
بادشاہ کے خزانچی نے جواب دیا کہ خزانہ خالی ہے۔ روایت ہے کہ یہ سن کر غلام قادر خان نے اپنی جیب سے بادشاہ کا ایک خط مراٹھا سردار سندھیا کے نام نکالا، جس میں ان سے امداد طلب کی گئی تھی، اور اسے بادشاہ کے سامنے غصے میں پھینک دیا۔
بادشاہ بھی طیش میں آ گئے، تو غلام قادر خان کے دل و دماغ میں شاہ عالم کی پچھلی زیادتیاں چھا گئیں۔ یہاں تک کہ اس کیفیت کی قیمت شاہ عالم کو اپنی آنکھوں سے ہاتھ دھونا پڑی۔
محقق ولیم ڈیلریمپل کا کہنا ہے کہ ’کچھ ذرائع بتاتے ہیں کہ وہ شاہ عالم کے پسندیدہ تھے اور ممکن ہے کہ ان کے جنسی تعلقات بھی رہے ہوں۔‘
وہ اپنی کتاب ’دی انارکی‘ میں لکھتے ہیں: ’قسمت کے الٹ پھیر اور یقیناً انتقامی کارروائی کے تحت، مغل بادشاہ کو غلام قادر خان نے شکست دی، تشدد کا نشانہ بنایا اور اندھا کر دیا۔‘
شاہ عالم، جو آفتاب تخلص کے ساتھ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے اور جن سے عجائب القصص نامی اردو داستان منسوب ہے، نے اندھا کیے جانے پر یہ شعر کہا:
صرِصرِ حادثہ برخاست پےِ خواریِ ما
داد برباد سرو برگِ جہانداریِ ما
(مفہوم: حادثہ ہماری رسوائی کا باعث بنا، یہ ہماری حکمرانی کا ضیاع ہے)