کتابیں

پناہ کی بستی

تحریر: رابعہ سرفراز چودھری

فجر کی اذان بہت افسردہ کر دینے والی ہوتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ لاہور کے اندرون علاقے میں ہمارے ننھیال کے آبائی گھر کی پچھلی گلی میں ایک مسجد ہوا کرتی تھی۔ اس وقت چھتوں پر سونے کا رواج تھا، تو ہم نانا ابو اور نانی اماں کے ساتھ بڑے شوق سے چھت پر سوتے تھے۔ رات کو اکثر آنکھ کھلتی تھی اور ستاروں سے بھرا آسمان ہمارے اوپر جیسے مسکرا رہا ہوتا تھا۔ ماحولیاتی آلودگی بھی کم تھی، تو ستارے بہت صاف نظر آتے تھے۔ شاید بچپن کی بینائی ایسی تھی کہ ہر ستارے کا رنگ دوسرے سے مختلف دکھائی دیتا تھا۔

چھت کی نکڑ پر مسجد کا مینار تھا اور وہاں مسجد کا اسپیکر بھی لگا ہوا تھا۔ اس لئے ہم کبھی شکایت نہیں کر سکتے تھے کہ اذان کی آواز نہیں آئی۔ جب اسپیکر سے اذان ہوتی تھی، تو میں نیند میں ڈر جاتی تھی۔ میرے بارے میں گھر میں مشہور تھا کہ میں اذان سے ڈر جاتی ہوں۔ مجھے فجر کے وقت یاد آتا ہے کہ جب اذان کی آواز سے ڈر کر جاگتی تھی، تو میری نانی اماں مجھے سینے سے لگا لیتی تھیں۔ ماؤں اور نانیوں کے سینے کتنے محفوظ ہوتے ہیں، حفاظت، سلامتی، اور سکون کا احساس دیتے ہیں۔ وہاں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، یہاں تک کہ بلائیں اور آفتیں بھی ان سے دور رہتی ہیں۔

اذان کی آواز سے جاگنے کے بعد میں روتی تھی، اور نانی اماں کی بانہوں میں سر رکھ کر سوجاتی تھی۔ یہ ہمارا روز کا معمول تھا۔

آج نانی اماں نہیں رہیں، مگر ان کی سب سے پرانی یاد ہمیشہ یہ رہے گی کہ وہ مجھے اٹھا کر سینے سے لگا لیتی تھیں۔ ان کی ہزاروں یادوں میں سے یہ یاد بہت ہی قیمتی ہے۔ فجر کے اندھیرے میں ڈر کر جاگی ہوئی بچی کے لئے نانی اماں کی گھنگھریالے بالوں والی شبیہ دیکھ کر سب کچھ ٹھیک ہو جاتا تھا۔

میرے نانا کا انتقال بائیس جون کو ہوا تھا اور چودہ سال بعد نانی اماں نے دنیا عین اسی تاریخ کو چھوڑ دی۔ یہ اتفاقات یا ان دونوں کا آپس کا وعدہ تھا، مجھے نہیں معلوم، مگر ان کی زندگیوں کے واقعات سے لگتا ہے کہ شاید یہ دونوں ایک ہی دن آئے ہوں۔

1948ء میں جب پنجاب کے فسادات ریاست جموں تک پہنچے، تو مسلمانوں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں لائے۔ جموں میں پنجابیوں کی تب بھی اکثریت تھی اور آج بھی ہے۔ جموں کے پنجابیوں اور پنجاب کے دوسرے علاقوں کے پنجابیوں کے درمیان خاندانی تعلقات رہے ہیں۔ مختلف ذاتوں کے لوگ اپنی ذات اور خاندان میں رشتے بنانے کو ترجیح دیتے تھے، چاہے وہ کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں یا پنجابی کا کوئی بھی لہجہ بولتے ہوں۔ اس لئے پنجاب کے ان خطوں کے لوگ آپس میں جڑے رہے ہیں۔

جموں میں مسلمان پنجابیوں کی نسل کشی کے کئی شواہد موجود ہیں۔ دو ماہ کے قلیل عرصے میں دو لاکھ افراد قتل کیے گئے۔ جو مناظر آج ہم غزہ میں دیکھتے ہیں، ویسے ہی مناظر جموں نسل کشی کے بچ جانے والے اپنی اولادوں اور محققین کو بتاتے آئے ہیں۔ میرے نانا ابو بھی بچ جانے والوں میں سے تھے۔ اپنی چھوٹی بہن اور بھائیوں کو کھو دینے کے بعد وہ لاہور اپنے ننھیالی شہر آ گئے۔

نانا ابو کبھی بھی مقبوضہ جموں کو بھول نہیں پائے۔ ان کے دل میں امید تھی کہ شاید ان کی بہن کنیز فاطمہ بچ گئی ہوں اور شاید ان کی اولاد مقبوضہ جموں میں ہو یا یہاں آ گئی ہو۔ ایک امید تھی جو بندھی ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے آخری ایام میں وہ جموں کی طرف رخ کر کے اپنے بہن بھائیوں کو پکارتے تھے۔ شاید وہ انہیں دیکھ پاتے ہوں۔ میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ آیا ان کی روح سیدھا مقبوضہ جموں کے اس گاؤں گئی ہوگی جہاں ان کا بچپن گزرا، جہاں ان کے والدین، بہن بھائیوں، نانا دادا اور دوستوں کی قبریں ہوں گی۔ شاید ایسا ہی ہو۔

میری نانی اماں کی کہانی بھی میرے نانا سے مختلف نہیں۔ دادا دادی اور نانا مقبوضہ جموں سے مسلمان ہونے کی بنیاد پر نکالے گئے، تو نانی اماں کو پنجابی ہونے کی بنیاد پر موجودہ دور کے پختون علاقوں سے نکالا گیا۔ ایک طرف نکالنے والوں نے مذہبی عناد کا مظاہرہ کیا، تو دوسری طرف مذہب کے نام پر ہمدردی جتانے والوں نے نسل پرستی اور تعصب کو بڑھاوا دیا۔

نانی اماں کا خاندان قبائلی علاقہ جات اور نوشہرہ میں رہنے والے پنجابی خاندانوں میں سے تھا۔ وہاں دہائیوں سے پنجابی آباد تھے۔ پھر تقسیم سے پہلے اور بعد میں افغانوں کو آباد کیا جانے لگا اور مقامی پنجابی جو باہر پشتو اور گھر میں ہندکو، پشوری یا پہاڑی بولتے تھے، کو پیچھے دھکیلا جانے لگا۔ کچھ ہی عرصے میں جان و مال کے خوف سے بہت سے مقامی پنجابی وہاں سے کوچ کر کے ہزارہ، جموں، یا پوٹھوہار آباد ہونے لگے۔ ہاں، یہ باتیں بہت سوں کے لئے عجوبہ صفت ہوں گی، کیونکہ ہمارے یہاں تاریخ کے ان اوراق کو بہت پہلے ہی جلا دیا گیا ہے، مگر انسانوں کے مابین زندہ رہنے والے تلخ تجربات نسلوں تک زندہ رہتے ہیں۔

بس ایک ایسی ہی رات تھی جب میری سات سالہ نانی اماں، ان کی پانچ سالہ بہن، بارہ سالہ بھائی اور تئیس سالہ بیوہ ماں کو بھی جان بچانے کے لئے گھر چھوڑنا پڑا۔ یہ سب بہت جلدی جلدی ہوا۔ بڑی نانی نے بچوں کو خاموشی سے جگایا کہ کسی کو خبر نہ ہو۔ نانی اماں کے کم سن چچا نے سرحد پار کرایا اور وہ لوگ دنوں کی مسافت کے بعد پوٹھوہار پہنچے۔ خود وہ ایبٹ آباد گئے تاکہ کوئی پیچھے بھی آئے تو بچوں تک نہ پہنچ سکے۔ کچھ سال کلر کہار میں رہنے کے بعد وہ لاہور آ گئے، جہاں انہیں معلوم تھا کہ کوئی انہیں اس لئے نہیں نکال سکتا کہ وہ پنجابی ہیں، ذات کے آرائیں، اور رنگ کے سانولے ہیں۔ اس بے دخل پنجابی بولنے والے خاندان نے ساری عمر لاہور میں گزاری۔

پنجاب کی دھرتی ہر رات ڈر جانے والے کو سینے سے لگاتی مامتا کا تصور ہے۔ لاہور کے اونچے برج گھنگھریالے بالوں والی نانی اماں کی شبیہ بناتے ہیں کہ چار سو اندھیروں میں بھی انسان انہی کو ڈھونڈتا ہے کہ وہ گلے سے لگائیں گی اور سب اچھا ہو جائے گا۔ تحفظ، پناہ، اور سکون کی یہ سرزمین اپنے لوگوں کو مایوس نہیں کرتی۔ اس زمین نے اپنے پروں میں ہر رنگ کی تصویر کندہ کی ہے۔ پیار اور تحفظ کی اس بستی نے اس کی بولیاں بولنے والوں کا ہی نہیں، اس سے امتیاز برتنے والوں کا بھی ہاتھ تھاما ہے۔ اس زمین کو اس کے لوگوں کی ضرورت ہے، جو اس کی مامتا کا قرض چکائیں جس کی اسے ضرورت ہے۔

اپنے گھر سے انا اور حرص کی خاطر بے دخل کیے ہوئے لوگوں کے خواب کیسے ہوتے ہوں گے؟ وہ اس گھر، گاؤں، اور پیاروں کو تاعمر دیکھتے رہے ہوں گے۔ اگلی صبح بیدار ہو کر بے چین کرنے والے خواب ان کے بدن کو کیسے توڑ کر رکھ دیتے ہوں گے؟ ہم ان کے دکھ کو کبھی سمجھ پائے ہی نہیں۔ ہمارے اور ان کے غموں میں کوئی قدر مشترک ہو ہی نہیں سکتی۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت