’کراچی کی سخت گرمی میں ہم ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں، اس گھر کے واحد کفیل نے اپنے پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کو چھوڑ کر ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو چکے ہیں۔‘
یہ باتیں کراچی سے تعلق رکھنے والی شبانہ بانو کی ہیں، جو اپنے شوہر کی لاش وصول کرنے ایدھی سرد خانے آئیں۔
صبح سویرے، جب ان کے 54 سالہ شوہر ارشاد حسین مزدوری کے لیے گھر سے نکلے، انھوں نے اپنا آٹو رکشہ لیا۔ رکشہ لانڈھی کے علاقے میں جاتے جاتے، ان کی صحت بگڑ گئی اور وہ سنبھل نہیں سکے۔ کچھ دیر بعد، ان کی لاش ایدھی سرد خانے میں منتقل کی گئی۔
شبانہ بانو نے بیان کیا کہ انھیں لانڈھی تھانے سے فون آیا تھا، جس میں بتایا گیا کہ ان کے شوہر کی وفات ہو گئی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے شوہر کو دل کی بیماری بھی تھی، اور رات کو ان کی حالت بگڑ گئی تھی۔
پاکستان میں گزشتہ دنوں قیامت خیز گرمی نے ملک کے کئی علاقوں میں شدید اثرات مرتب کیے، جہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سے بھی زیادہ تک پہنچ گئی۔ کراچی بھی اس بارے میں بڑے ریکارڈ ٹوٹے، اور اس دوران کئی افراد کی موت ہوئی، جس کا معمہ اب تک حل نہیں ہو سکا۔
کراچی میں ہیٹ ویو کے دوران لاشوں سے بھرے سرد خانے
کراچی میں ’ہیٹ ویو‘ کے دوران ہلاکتوں کی خبریں اس وقت میڈیا کی شہہ سرخیوں میں آئیں جب ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے بتانا شروع کیا کہ ان کے تین سرد خانوں میں لاشوں کی آمد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
فیصل ایدھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 19 جون سے غیر معمولی تعداد میں لاشیں آنے شروع ہوئیں، اور 21 جون تک ان کے پاس 78 لاشیں پہنچ گئیں، جبکہ 25 جون تک ان کی تعداد 568 تک بڑھ گئی۔ ان کے مطابق، عام دنوں میں روزانہ تقریباً 30 لاشیں آتی ہیں، لیکن ہیٹ ویو کے دوران اس تعداد نے 100 سے زائد میتوں کی آمد کو دیکھا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔
فیصل ایدھی نے بتایا کہ ان اموات کی زیادہ تر مزدور آبادیوں سے تعلق رکھتی ہیں، جن کی زندگی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اثرات سے متاثر ہو رہی ہے۔ سرد خانے کے منتظمین نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ عام دنوں میں 12 سے 15 لاشیں آتی ہیں، لیکن حالیہ ہیٹ ویو کے دوران اس تعداد نے 25 سے 30 تک پہنچ گئی ہے، جن کی اکثریت 50 سال سے زائد عمر کے لوگوں کی ہے۔
فلاحی ادارے چھیپا ایمبولینس سروس کے ترجمان شاہد چوہدری نے بھی اظہار کیا کہ اتوار سے ان کے پاس 100 سے زائد لاشیں آئیں، جن میں سے 37 لاوارث تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مزید اموات کے متعلق معلومات تصدیق سے قبل انتظامیہ اور حکومت سے حاصل کی جائیں۔
کراچی کے سڑکوں پر بے ہوش ہونے والے لوگ:
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے قریب واقع شہر کے سب سے بڑے سرد خانے میں پچھلے دنوں لوگوں کا تانتا بندھا رہا۔ ایک شخص اپنی مردہ کی لاش لانے جا رہا تھا جبکہ دوسرے شخص اپنے بے ہوش ساتھی کو واپس لے جانے کے لیے آیا تھا۔
کھارادر کپڑا مارکیٹ میں ایک 25 سالہ مزدور، جس کا نام لیاقت تھا، اچانک بے ہوش ہو کر گر گیا جب وہ عمارت کی چڑھائی کے دوران سامان چڑھا رہا تھا۔ انھیں فوری طبی امداد کے لیے سول ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن وہ بچایا نہ سکے۔ ان کے ساتھی مرغوب سید نے بتایا کہ لیاقت باجوڑ سے تعلق رکھتا تھا اور ان کی لاش آبائی علاقے میں منتقل کی گئی ہے۔
کھارادر کپڑا مارکیٹ میں جمعرات کی صبح 11 بجے بھی ہر مزدور پسینے میں شرابور نظر آیا۔ مرغوب نے بتایا کہ ایک اور مزدور بھی گرمی کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے اور انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، جہاں لاکھوں لوگ روزانہ سڑکوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں۔
ایدھی ایمبولینس کے ڈرائیور شبیر زمان نے بتایا کہ انھوں نے ریلوے کالونی سے ایک بے ہوش مریض کو اسپتال پہنچایا جو کام کرتے کرتے بے ہوش ہوگیا۔
ایدھی کے رضاکار محمد ندیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ گرمی کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے بے ہوش ہونے والے لوگوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔
یہ زبانی بیان کرتے ہیں کہ پاکستان میں محکمہ موسمیات نے پہلے ہی شہریوں کو شدید گرمی کی لہر کے بارے میں خبردار کیا تھا اور نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی نے احتیاطی تدابیر کا احتجاج کیا۔
ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ۔
کراچی میں حالیہ ہیٹ ویو کے دوران اموات کے دعوٰؤں کے برعکس صرف سول ہسپتال کے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 23 جولائی سے 27 جولائی تک 15 افراد ہلاک اور 360 سے زائد زیر علاج رہے۔
ہم کراچی کے سول ہسپتال پہنچے تو شعبہ ایمرجنسی میں آنے والا تقریباً ہر متاثر شخص شدید گرمی کی وجہ سے بیمار تھا۔
مردانہ وارڈ میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض موجود تھے اور بعض مریض تیمارداروں کی بینچوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک ایک سٹینڈ میں سے تین تین مریضوں کو گلوکوز کی بوتلیں لگی ہوئی تھیں۔
ہپستالوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ مریض ہیں جن کی نگہداشت کرنے کے لیے ڈاکٹر اور سٹاف ایک بیڈ سے دوسری کی طرف دوڑتے دکھائی دیے۔
شعبہ ایمرجنسی کے انچارج ڈاکٹر عمران سرور نے بی بی سی کو بتایا کہ کراچی میں ہیٹ ویو کی شدت چل رہی ہے اور ہسپتال میں سنیچر کے روز سے مریضوں کی آمد شروع ہوئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے ڈائریا، اسہال، پیٹ میں درد کی شکایات عام ہیں اور ایسے مریض بھی آئے ہیں جو پہلے سے بیمار ہیں اور بلڈ پریشر، ذیابطیس وغیرہ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہیٹ سٹروک کی وجہ سے مریضوں کو شدید بخار ہو رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ مریض ایسے ہیں جو سڑک کے بیچ میں گر گئے۔ ان میں خواتین و مرد دونوں شامل ہیں، کچھ افراد گھروں سے لائے گئے ہیں۔‘
زاہدہ خاتون جامع کلاتھ سے آئیں تھی جو ایک بینچ پر بیٹھی تھیں اور ان کے گود میں ایک نوجوان لڑکی سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھیں۔ اس کے بازو پر گلوکوز کی بوتل لگی ہوئی تھی۔
زاہدہ خاتون نے بتایا کہ یہ ان کی بہو ہیں اور ان کی شادی کو ابھی 11 دن ہی ہوئے ہیں۔ ’اچانک گرمی لگی، شربت بنا کر دیا تو الٹیاں کرنے لگیں پھر انھیں فوری طور پر ہپستال لایا گیا۔‘
وارڈ میں کئی ایسے مریض موجود تھے جنھیں آکسیجن لگی ہوئی تھی اور بیہوشی کی حالت میں لمبے لمبے سانس لے ہے تھے۔
رضوان نامی نوجوان جن کے بازوں پر گلوکوز ڈرپ لگی ہوئی تھی، ہاتھ میں آکسیجن ماسک لیے پھر رہے تھے۔ ہم نے ان سے بات کی تو انھوں نے بتایا انھیں بخار ہے اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے اور اس وقت آکسیجن کے لیے ہسپتال کے عملے کی تلاش میں ہیں۔
وارڈ میں زیادہ تر بزرگ موجود تھے اور ہماری ٹیم کی موجودگی میں ایک بزرگ کی موت بھی واقع ہوئی تو فوری لاش ہٹا کر چادر تبدیل کرکے دوسرا مریض لایا گیا۔
ایک دوسرے بسترے پر ایک 40،45 سالہ مریض لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے جن کے لواحقین نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے گرمی میں بوتل پی جس کے بعد ان کی طبیعت بگڑی اور وہ گر گئے۔
جب انھیں طبی امداد کے لیے قریبی ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹر نے ان کے لواحقین کو بتایا کہ ان کی طبعیت بوتل پینے سے خراب نہیں ہوئی اور انھیں ونٹی لیٹر کی ضرورت ہے لہذا ’فوراً جناح ہسپتال لے جائیں ورنہ بچ نہیں پائیں گے۔‘