بلاگ

’کرائے کی کوکھ‘ 

’اگر اس کام میں پیسے نہ ہوتے تو میں یہ کام نہیں کرتی‘۔  علینا

خواہشمند جوڑوں کا یوکرین کی بجائے جارجیا کا رُخ

یوکرین یورپ کا ایک ایسا ملک تھا جہاں تجارتی سروگیسی یعنی ’کرائے کی کوکھ‘ کے خواہشمند افراد سب سے زیادہ آتے تھے، لیکن اب والدین بننے کے خواہشمند افراد جارجیا جا رہے ہیں، جہاں اس کے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

روس کے حملے کے بعد یوکرین میں شرح پیدائش 90 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے، اور مقامی خواتین پر شدید دباؤ ہے۔ اسی وجہ سے اب سروگیسی کے لیے بیرون ملک سے خواتین کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔

37 سالہ علینا، جن کا نام تبدیل کیا گیا ہے، نے کہا، ’اگر اس کام میں پیسے نہ ہوتے تو میں یہ کام نہ کرتی‘۔ انہوں نے جارجیا کی ایک سروگیسی ایجنسی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے تاکہ وہ ایک اور جوڑے کے لیے حاملہ ہو سکیں۔

حاملہ ہونے کے بعد انہیں ماہانہ 500 ڈالر اور بچے کی پیدائش کے بعد 15 ہزار ڈالر ملیں گے۔

علینا کہتی ہیں، ’میں ان خاندانوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں جو اپنا بچہ پیدا نہیں کر سکتے‘۔

’میں نے بہت سے ایسے خاندان دیکھے ہیں جو اپنے بچوں کے نہ ہونے کی وجہ سے دل شکستہ ہیں۔ سب سے پہلے، مجھے پیسوں کی ضرورت ہے تاکہ میں اپنے خاندان کو بہترین زندگی فراہم کر سکوں۔ مجھے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے مضبوط بننا ہے۔‘

عالمی سطح پر سروگیسی اربوں ڈالر کی صنعت بن چکی ہے۔ علینا کو جارجیا کی ایک ایجنسی نے ان کے آبائی ملک قزاقستان سے بھرتی کیا تھا، جہاں وہ دو بچوں کے ساتھ اکیلی ماں کے طور پر رہتی ہیں۔

سروگیسی کے عمل کے دوران، وہ کپڑوں کی دکان میں کام کر کے اپنی معمولی ملازمت سے تقریباً تین گنا زیادہ کمائیں گی۔

علینا کہتی ہیں، ’مجھے اپنے بچوں کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ نہیں ہے‘۔

وہ جارجیا کے دارالحکومت تبلیسی جانے کی منتظر ہیں تاکہ ایک جوڑے کے جنین کو ان کے رحم میں منتقل کیا جا سکے۔

علینا کہتی ہیں، ’میں نے خود کو اس کے لیے تیار کیا ہے لیکن پھر بھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں یہاں اکیلی ہوں۔ کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔‘

طلب میں اضافہ

یوکرین کی بجائے اب جارجیا یورپ میں سروگیسی کا مرکز بن گیا ہے۔ لیکن یہاں کی آبادی یوکرین سے 10 گنا کم ہے، اس لیے ایجنسیاں وسطی ایشیائی ممالک سے علینا جیسی زیادہ سے زیادہ خواتین کو بھرتی کر رہی ہیں۔

اپنی کوکھ کرائے پر دینے والی خواتین کو جو رقم مل رہی ہے، اس نے خواتین پر اس عمل کے دوران پڑنے والے دباؤ کے بارے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ یہاں تک کہ اس صنعت سے وابستہ افراد بھی اس بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں۔

بولشک نامی سروگیسی ایجنسی کی ڈائریکٹر، دامیرا بیکبرگینووا کہتی ہیں، ’سروگیٹ ماں بننے کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہماری خواتین خود کو مجبور محسوس کرتی ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں، ’ان میں سے کوئی بھی ایسا صرف نیک دلی کی وجہ سے نہیں کرتی، بلکہ مالی ضرورت کی وجہ سے کرتی ہیں۔ تقریباً تمام خواتین اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر یہ قدم اٹھاتی ہیں۔‘

ان کی ایجنسی 20 سے 34 سال کی عمر کی خواتین (جو پہلے سے مائیں بن چکی ہوں) کو ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر اشتہارات کے ذریعے بھرتی کرتی ہے۔

سروگیٹس کی مانگ میں اضافے کا مطلب ہے کہ دامیرا بیکبرگینووا خواتین سے ملنے کے لیے قزاقستان میں اپنے تین دفاتر اور کبھی کبھار چین بھی جاتی ہیں۔

اگرچہ سروگیٹس کی فیس میں اضافہ ہوا ہے، دامیرا کا کہنا ہے کہ قزاقستان میں مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے۔ کچھ خواتین اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے اپنی دوسری یا تیسری سروگیسی کے لیے معاہدے کر رہی ہیں۔

دامیرا کہتی ہیں، ’افسوس کی بات ہے کہ آج کل ہم ایسی اساتذہ اور جونیئر ڈاکٹروں کو بھی رجسٹر کر رہے ہیں جو اپنی طبی تربیت کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتیں۔ یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘

’مجھے ان لڑکیوں کے لیے افسوس ہوتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ جس ذہنی اذیت سے انہیں گزرنا پڑتا ہے، اس کے بدلے میں ملنے والا پیسہ اس کا کوئی مداوا کرتا ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں، ’ہم نفسیاتی امداد فراہم کرتے ہیں، تاہم کچھ ایجنسیاں یہ مدد بھی فراہم نہیں کرتیں۔ اس کے باوجود یہ جسم پر ایک بہت بڑا دباؤ ہے۔ یہ آسان پیسہ نہیں، یہ بہت مشکل کام ہے۔‘

تو پھر وہ اس سے فائدہ کیوں اٹھا رہی ہیں؟

دامیرا کہتی ہیں، ’میں یہ کام کر رہی ہوں کیونکہ اس کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ اس کو قانونی بنانے اور سب کے لیے فائدہ مند بنانے کی ضرورت ہے۔‘

سابقہ قانون کی لیکچرر دامیرا کہتی ہیں کہ وہ اس عمل میں شامل ہر شخص کے لیے زیادہ سے زیادہ قانونی تحفظ کا مطالبہ کرتی ہیں۔

دامیرا کا دعویٰ ہے کہ بہت سی ایسی خواتین نے ان سے رابطہ کیا ہے جنہیں معاوضہ نہیں دیا گیا یا انہیں دھوکے سے ان ممالک میں بچوں کی سمگلنگ کا حصہ بنایا گیا جہاں سروگیسی پر پابندی عائد ہے۔

سروگیسی کو سیکس ورک سمجھا جاتا ہے؟

تاہم جن خواتین سے ہماری ملاقات ہوئی وہ سب بہت مطمئن تھیں اور ان میں سے کوئی خود کو مظلوم نہیں سمجھتی تھی۔

بہت سی خواتین کو اس پر فخر تھا کہ وہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی بھی زندگی بنا رہی ہیں۔ تاہم انہیں اپنے آبائی ملک میں سروگیسی کو ایک سماجی داغ سمجھے جانے پر مایوسی تھی۔

سبینا (فرضی نام) تیسری بار اپنی کوکھ کرائے پر دے رہی ہیں اور اس وقت وہ سات ماہ کی حاملہ ہیں۔ سبینا نے ہمیں وسطی تبلیسی میں واقع اپنے اپارٹمنٹ میں مدعو کیا۔

یہ رہائش سروگیسی ایجنسی کی طرف سے کرائے کی کوکھ فراہم کرنے والی حاملہ خواتین کو دی جاتی ہے۔

سبینا پانچ دیگر حاملہ خواتین کے ساتھ ایک لونگ روم، کچن اور باتھ روم شیئر کرتی ہیں۔ ان خواتین کو حمل کے آخری تین مہینے یہاں رہنا لازم ہوتا ہے۔

اونچی چھتوں والا یہ رہائشی فلیٹ روشن اور ہوادار تھا جس کی بالکونی سے پہاڑوں کا نظارہ دلکش دکھائی دیتا تھا۔

قزاقستان کی جھیل بلخاش کے ساحل پر ایک چھوٹے سے قصبے سے آنے والی سبینا نے 15 سال کی عمر میں شادی کی تھی۔ اس وقت وہ اس پناہ گاہ میں پرسکون حالت میں ہیں تاہم اپنے گھر واپسی پر انہیں اپنی کمیونٹی کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں سروگیسی کو سیکس ورک سے کم نہیں سمجھا جاتا۔

’وہاں کی ثقافت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ لوگ میرے بارے میں غلط سوچیں گے اور مجھ پر اپنا بچہ بیچنے کا الزام لگائیں گے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی تاکہ جب میں گھر واپس جاؤں تو مجھے بے دخل نہ کیا جائے۔‘

’ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ کیا میں نے کوئی گناہ کیا ہے؟ میں نے اس کے بارے میں پڑھا ہے اور انٹرنیٹ پر تحقیق بھی کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بچہ پیدا کرنا ایک اچھی چیز ہے کیونکہ میں زندگی کو جنم دے رہی ہوں اور ان لوگوں کے لیے نیکی کر رہی ہوں جو بچے پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔‘

سبینا کہتی ہیں، ’میں یہ مفت میں نہیں کر رہی۔ میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں، انہیں کھلانے پلانے اور پڑھانے کے لیے رقم چاہیے۔ میرا بڑا بیٹا چند سالوں میں کالج جانے والا ہے۔ قزاقستان میں مجھے اتنی رقم کمانے میں دگنا وقت لگ جائے گا۔‘

قانونی پابندی

جارجیا میں سروگیسی سے جڑے تنازعات پر حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے تنقید کی جا رہی ہے۔

لبرل حقوق نسواں کے گروہ زیادہ حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ طبی طریقوں کے سخت ضابطوں اور استحصال کے خطرے کے خلاف بچاؤ ہو سکے۔

جولائی 2023 میں، سماجی طور پر قدامت پسند جارجیائی ڈریم پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے وزیر اعظم نے غیر ملکی شہریوں کے لیے سروگیسی پر پابندی لگانے کا اعلان کیا، یہ کہتے ہوئے کہ غیر ملکی شہری اس معاملے کو کاروبار بنا رہے ہیں۔

ایل جی بی ٹی مخالف سمجھے جانے والی جارجیا کی حکومت، جس نے ماضی میں ہم جنس پرستی کے خلاف کئی پالیسیاں بنائیں اور بیانات دیے، نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہم جنس پرست جوڑے اس طرح پیدا ہونے والے بچوں کو اپنا سکتے ہیں۔

سروگیسی ایجنسیوں کی مداخلت کے بعد اس بل کو جارجیا کی پارلیمنٹ میں موسم خزاں میں ہونے والے انتخابات تک روک دیا گیا ہے۔

علینا جیسی بہت سی مائیں امید کر رہی ہیں کہ سروگیسی سے ملنے والے مالی فوائد کو روکا نہیں جائے گا۔

علینا کہتی ہیں، ’میں جلد از جلد پروگرام شروع کرنا چاہتی ہوں تاکہ یہ جلد ختم ہو سکے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ میرے بچے بڑے ہو رہے ہیں، لہذا مجھے سب کچھ جلدی کرنا ہوگا۔‘

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت