تحریک انصاف کے ورچوئل ایونٹ کے آغاز سے قبل ملک بھر میں انٹرنیٹ صارفین نے سروسز میں سست روی کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی میں مشکلات کی شکایات کی تھیں۔
تاہم تقریباً 3 گھنٹے سے زائد سروسز متاثر رہنے کے بعد رات 10 بجے کے قریب سروسز دوبارہ بحال ہونا شروع گئی ہیں۔
اس سے قبل انٹرنیٹ و سوشل میڈیا سروسز پر نظر رکھنے والے ادارے نیٹ بلاکس نے بتایا تھا کہ زیادہ تر صارفین کے پاس شام ساڑھے 6 بجے کے بعد ابتدائی طور پر سوشل میڈیا ویب سائٹس اور ایپلی کیشن کی رفتار سست اور متاثر ہونا شروع ہوئی۔
صارفین نے فیس بک سمیت مائکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کے سست چلنے کی شکایات کیں، بعض افراد نے واٹس ایپ سمیت دیگر ایپلی کیشن کے بھی متاثر ہونے کی شکایات کیں۔
پاکستان بھر میں ایسے موقع پر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپس کی سروس متاثر ہونے کی شکایات کی گئیں تھیں جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے ورچوئل جلسے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ دسمبر میں بھی پی ٹی آئی کے آن لائن جلسے کے موقع پر ملک بھر میں انٹرنیٹ سروسز متاثر ہوئی تھیں۔
نیٹ بلاکس کے ڈائریکٹر الپ ٹوکر نے کہا کہ ہم پورے پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی قومی سطح پر بندش کی تصدیق کرتے ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ بندش کافی حد تک منظم اور پی ٹی آئی کے پروگراموں کے دوران لگائی گئی سابقہ پابندیوں سے مطابقت رکھتی ہے۔
ٹریکنگ ایجنسی کی تصدیق کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے بیان میں کہا کہ نگران حکومت کو شرم آنی چاہیے جو پاکستانیوں کو صرف نقصان پہنچا رہی ہے۔
تحریک انصاف نے کہا کہ ہمارا ورچوئل ایونٹ رات 8 بجے شروع ہو گا۔
انٹرنیٹ کی اسی طرح کی بندش کا سامنا 7 جنوری کو اس وقت بھی دیکھنے کو ملا تھا جب پی ٹی آئی نے ایک ورچوئل فنڈ ریزنگ ٹیلی تھون کا انعقاد کیا تھا۔
دریں اثنا، وکیل اور معروف انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر نے محض ایک ماہ کے عرصے میں ملک میں تیسری مرتبہ ملک گیر انٹرنیٹ کی بندش کو شرمناک قرار دیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں جبران ناصر نے کہا کہ ہماری آزادی، ہمارا آئین، ہماری معیشت یہ سب اسٹیبلشمنٹ اور اس کٹھ پتلی وفاقی حکومت کے لیے ایک مذاق ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بندشیں آئین کے آرٹیکل 10، 18، 19 اور 25 کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پی ٹی اے کے پاس انٹرنیٹ بند کرنے یا سوشل میڈیا تک رسائی کو محدود کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔
ڈیجیٹل حقوق کے کارکن اسامہ خلجی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں اس بندش کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے نگران وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی عمر سیف اور پی ٹی اے سے مطالبہ کیا کہ وہ واضح کریں کہ کیا سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کو عارضی طور پر بلاک کرنا ایک سرکاری پالیسی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ یہ کس قانون کے تحت ہو رہا ہے؟ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کرنے کا حکم کون دے رہا ہے؟ کیا اس سے ڈیجیٹل معیشت میں مدد ملتی ہے؟۔