صحت

سردی، سرسوں اور ساگ

سردی اور ساگ کا دامن چولی کاساتھ چلا آرہا ہے۔ اگرچہ ہمیں ساگ کی تاریخ کا تو حتمی پتہ نہیں تاہم سردی کی شروعات بھی ساگ سے اور اختتام بھی ساگ پر ہی ہوتاہے۔ دھند میں چھپی سردی کی صبحیں اور یخ بستگی میں لپٹی شامیں اس وقت اور بھی دلکش اوردلرباہوجاتی ہیں جب سرسوں کے ساگ میں دیسی گھی ملاکر مکئی یا باجرے کی روٹی پہ رکھ کر کھایا جائے۔ سرسوں کے ساگ سے لے کر تیل تک بے شمار فوائد ہیں جو انسانی صحت کو بحال رکھتے اور پائیدار بناتے ہیں۔

پاکستان میں سرسوں کی پیداوار ی صلاحیت ملکی ضروریات سے قدرے کم ہے

سرسوں کاساگ پکایا جائے یا تیل بنایا جائے ہر دوصورتوں میں سرسوں سدا بہار فوائد سے مالا مال قدرتی جنس ہے۔سرسوں کا مزاج گرم وخشک ہے اور اس کا تعلق آتشی ستارے مریخ سے ہے۔سرسوں کئی اقسام کی ہوتی ہے، جن میں دیسی سرسوں، گوبھی سرسوں، سفید سرسوں رایا اور توریا وغیرہ شامل ہیں۔سرسوں میں ایک خاص قسم کا تیزابی مادہ پایاجاتا ہے جس سے اس کے تیل کا ذائقہ تلخ اور بد مزہ ساہوتا ہے۔گوبھی سرسوں میں تیزابی مادہ قدرے کم ہوتا ہے جس کی بناپر اس کا ذائقہ بھی بہتر ہوتا ہے اور اس کے تیل میں پکائے گئے کھانے بھی بد مزہ نہیں ہوتے۔

گوبھی سرسوں جو کینولا کے نام سے معروف ہے اور بہت سی بناسپتی بنانے والی کمپنیاں کینولا آئل مارکیٹ بھی کرتی ہیں جو کھانا پکانے میں مستعمل ہے۔ سرسوں کا تیل صدیوں سے کھانا پکانے میں استعمال ہوتا آرہا ہے۔سرسوں کے تیل کو ہمارے گھروں میں کوڑا یا کڑوا تیل بھی کہاجاتاہے۔جدید سائنسی تحقیقات اور زرعی ترقی کے طفیل اجناس کے بیجوں میں بھی مفید پیش رفت سامنے آرہی ہے بیجوں کی نت نئی اقسام کی دریافت اور ایجاد سے فصل کے جھاڑ اور معیار میں کافی بہتری آرہی ہے۔گوبھی سرسوں یا کینولا کے تیل میں تیزابی مادوں کی مقدار کافی حد تک کم پائی جاتی ہے جس سے یہ تیل پکانے کے لیے بہترین ثابت ہورہا ہے۔کینولا آئل سے کھانے میں تلخی بھی پیدا نہیں ہوتی اور کھانامزیدار بھی بنتا ہے۔
صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو سرسوں انتہائی انسان دوست جنس ہے جو انسانی صحت کی بہترین محافظ بھی ہے۔سرسوں کے تیل میں ان سیچوریٹڈ فیٹس پائی جاتی ہیں ۔یہ وہ چربیاں ہیں جو انسانی بدن کی حرارت سے پگھل جاتی ہیں اورخون کو جمنے سے روکتی ہیں۔شریانوں کو نرم رکھتی اور خون کے بہائو کو متوازن رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہویں۔امراض قلب، ذیابطیس، بلڈ پریشر، جگرکے امراض اور اعصابی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لیے سرسوں کا تیل خالق کائنات کی ایک نعمت بے بہا سے کم نہیں ہے۔سرسوں کے تیل میں ہلکی سے ناگوار ہمک پائی جاتی ہے جو کھانا کھاتے وقت اکثر محسوس بھی ہوتی ہے۔سرسوں کے تیل سے ناگوار ہمک ختم کرنے کے لیے 5لیٹر سرسوں کے تیل میں 50گرام ادرک کی باریک قاشیں ڈال کر تیل کو آگ پر صرف ایک ابال دلالیں۔تیل نتھارکر محفوظ رکھ لیں ۔ تیل سے ناگوار ہمک کا خاتمہ ہوگیا ہے اور تیل میں بنے کھانے سے کسی قسم کی کوئی ناگواری محسوس نہ ہوگی۔
سرسوں کا بہترین تیل کولہو سے نکلوایاجانے والا سمجھا جاتا ہے۔12کلوگرام سرسوں سے 4کلو سے ساڑھے 4کلوگرام تک تیل برآمد ہوتا ہے۔ہمارے ہاں ملاوٹ مافیا نے زندگی کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا۔بازار میں دستیاب سرسوں کا تیل مبینہ طور پر ملاوٹی ہوتا ہے۔شنید ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قسم کا ایک لیکوئڈ سستے داموں خرید کر سرسوں کے تیل میں ملاکر مہنگے داموں بیچا جارہا ہے جوانسانی صحت کے لیے انتہائی مضر اور نقصان دہ ہے۔ایسے لوگ جو سرسوں کے تیل سے استفادہ کرنے کے خواہش مند ہوں انہیں چاہیے کہ وہ گوبھی سرسوں کا تیل خود کولہوسے نکلواکر استعمال کریں۔بچت اور صحت ایک ساتھ حاصل ہوں گی۔سرسوں کا تیل مقوی بدن ہوتا ہے، یہ انسانی چہرے اور بدن کی رنگت نکھارتا ہے۔یہی وجہ ہے سرسوں کے تیل کو مختلف جڑی بوٹیوں میں شامل کرکے خوبصورتی بڑھانے والے اُبٹن تیار کیے جاتے ہیں۔اسی طرح بدن پر مالش کرنے سے انسانی جسم خوبصورت اور طاقت ور ہوتا ہے۔سرسوں کے تیل کی مالش سے جسم کو خشکی اور کھجلی سے نجات ملتی ہے۔
پاکستان میں سرسوں کی پیداوار ی صلاحیت ملکی ضروریات سے بہت کم ہے۔سرسوں کا تیل بناسپتی صنعت کا لازمی حصہ ہے لیکن ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی ضروریات کاخوردنی تیل صرف 25%تک ملکی ذرائع سے حاصل کرپاتے ہیں۔باقی 75%ضرورت کا خوردنی تیل بیرون ممالک سے منگونا پڑتا ہے۔اگر ہم مقامی طور پر سرسوں کی پیداوری صلاحیت بڑھانے پر توجہ دیں تو باقی 75%خوردنی تیل اندرون ملک پیداکرکے ہم خاطر خواہ حد تک زرمبادلہ بچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں سرسوں کی کاشت کا بہترین وقت ستمبر اور اکتوبر سمجھا جاتا ہے۔شمالی اور وسطی پنجاب کے آبپاشی والے علاقوں میں رایا اور گوبھی سرسوں کی کاشت یکم ستمبر سے 30ستمبر تک کی جاتی ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے آبپاشی والے علاقوں میں رایا اور گوبھی سرسوں یکم اکتوبر سے 31اکتوبر کاشت کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔
طبی لحاظ سے ساگ ثقیل ،دیر ہضم اور ریح پیداکرنے والی خوراک ہے۔اعصاب ودماغ کو طاقت دیتا ہے۔خون پیداکرتا اور عام جسمانی کمزوری کا خاتمہ کرتا ہے۔یہ بلغمی مواد کی افزائش کا خاتمہ کرتا ہے۔گرم اور خشک مزاج کے حامل افراد کے لیے ساگ نقصان کا باعث بھی بن سکتاہے جبکہ اس کے برعکس بلغمی اور سرد مزاج والے ساگ سے کئی بدنی فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ساگ بناتے وقت اس میں شامل اجزا پالک ،میتھی، میتھرے، باتھو گا،جر کے پتے ،سبز دھنیا ادرک لہسن اور دوسرے مسالحہ جات اسے ایک طاقتور غذائی مرکب بنادیتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے بے بہا فوائد کا ذریعہ بنتا ہے۔ساگ قبض کشا اور پیشاب آور خواص کا حامل ہوتا ہے۔ساگ سردی کو دور بھگاتا ہے اور سردی کے ٹھنڈے ٹھار موسم میں بھی گرمی کا احساس بیدار رکھتا ہے۔دیہات میں ساگ بطور خوراک وافر مقدار میں استعمال کیاجاتا ہے جبکہ شہروں میں بسنے والے دوستوں اور رشتہ داروں کوساگ بطور سوغات تحفے میں پیش کیاجانا اہل پنجاب کی روایت ہے۔سرسوں کو بطور چارہ مویشیوں کو بھی ڈالا جاتا ہے۔سرسوں سے تیل نکالتے وقت سرسوں کا پھوک جسے کھل بھی کہاجاتا ہے،دودھ دینے والے مویشی گائے اور بھینس کو دودھ کی افزائش کے لیے بطور ونڈا کھلایاجاتا ہے۔
سردی سرسوں اور ساگ خداکی ایک بے مثال نعمتیں ہیں۔سردی کے موسم میں انواع واقسام کے پکوان کھا کر لطف اٹھائیے،سرسوں اور ساگ کے ہوتے ہوئے سردی کی کیا مجال ہے کہ سردی آپ کے قریب بھی پھٹک سکے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت