ایک لمحۂ فکریہ
اسلام آباد میں ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے بہیمانہ قتل کی خبر نے دل دہلا دیا ہے۔ ایک نوجوان کا گھر میں داخل ہو کر خاتون پر گولیاں برسانا نہ صرف قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ ہمارے معاشرتی رویوں پر بھی گہری روشنی ڈالتا ہے۔یہ واقعہ صرف ایک فرد کی جان لینے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت، خواتین کے خلاف تشدد، اور سوشل میڈیا پر سرگرم افراد کے تحفظ کے فقدان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ لمحہ محض دکھ کا نہیں، بلکہ سنجیدگی سے سوچنے کا ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔پولیس کی ابتدائی معلومات کے مطابق ملزم مقتولہ کا رشتہ دار ہو سکتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ واقعہ خواتین کے لیے گھر جیسے محفوظ تصور کیے جانے والے مقام کو بھی غیر محفوظ بنا دیتا ہے۔ ایسے جرائم میں صرف قانون کا سخت نفاذ ہی نہیں بلکہ معاشرتی سوچ میں تبدیلی بھی ناگزیر ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ قاتل کو جلد از جلد قانون کی گرفت میں لایا جائے، اور انصاف کا عمل شفاف طریقے سے مکمل کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سوشل میڈیا پر سرگرم خواتین کو ہراسانی اور خطرات سے بچانے کے لیے مؤثر قانون سازی اور عملی اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکے ہیں۔ثناء یوسف کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی اور انصاف کے لیے مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک کیس نہیں، یہ ایک صدا ہے کہ اب خاموشی ختم ہونی چاہیے۔