کتابیں

زیادتی

دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد پہنچا ئیت اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ ۔ ۔ ۔ہمیں خون بہا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ نہ خون کے بدلے خون اور نہ ہی خون معاف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب خان آفریدی کی دھاڑ سے ہر طرف سکوت چھا گیا وہ پنچائیت کے سر براہ کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑا سے چھاگیا سردارخاقان آفریدی نے پر شکوہ نگاہ بیٹے پر ڈالی جسے دیکھ کر وہ نظریں جھکا گیا گیا پنچائیت کے سربراہ نے دلاور خان کو دیکھا انہوں نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے پاس بیٹھے غصہ ضبط کرتے شمس دلاور خان کو مخاطب کیاجاؤ ہیر کو لے آؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

وہ مدھم شکستہ آواز میں بولےشمس خاموشی سے اٹھ کر گاڑی کیطرف چل پڑا دلاور خان نے شمس کے جانے کے بعد ایک دکھ بھری نظر خاقان آفریدی پر ڈالی ۔۔مگر وہ نظریں چرا گئے ۔ ۔ ۔ ۔یہ فیصلہ صرف اور صرف یشب کا تھا مگر اس وقت وہ اتنے لوگوں میں بیٹے کے فیصلے سے اختلافکرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔میں ہر گز ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔۔بابا جان ۔۔۔۔ یشب ، خاقان آفریدی کی بات پر آپے سے باہر ہوامیں نے تمہیں لندن اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ واپس آکر قتل و غارت شروع کر دو ۔ ۔ ۔ ۔ قتل انہوں نے کیا ہے بابا جان اور میں ہر گز اس خون کو معاف نہیں ہونے دوں گا ان لوگوں کو اپنے کیے کا بدلہ چکانا ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بضد تھایشب بچے تیرے بابا جان ٹھیک کہہ رہے ہیں معاف کر دینے میں ہی بڑائی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ بی بی جان پلیز ۔۔۔۔۔ آپ سب شاید بھول چکے ہیں کہ محض بیس دن پہلے اس حویلی کے بڑے وارث کا جنازہ اٹھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر میں نہیں بھولا ہوں اور نہ ہی آخری دم تک بھولوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ اگر آپ لوگوں نے معافی نامہ بھیج دیا تو میں یہ حویلی چھوڑ کر چلا جاؤں گا ۔۔۔۔۔ دیٹس اٹ۔۔اپنا فیصلہ سناتا سیڑھیاں پھلانگ گیاباباجان نے پاس کھڑی مہرو کو اشارہ کیا وہ سر ہلاتی یشب کے پیچھے ہی سیڑھیاں چڑھ گئی یشب چیزوں کی اٹھا ٹھیک کر کے غصہ نکال رہا تھا جب مہر و کمرے میں داخل ہوئی یشب ۔ ۔۔۔۔۔ وہ اس پرکار پر ایک لمحے کو رکا اور مڑے بغیر پھر سے چیز میں الٹنے لگا یشب ۔۔۔۔۔ پھر سے پکارا گیا۔بھا بھی اگر آپ یہاں اس لیے آئیں ہیں کہ میں اپنا فیصلہ بدل لوں تو ایسا بلکل نہیں ہو گا ۔ ۔ ۔ میں لالہ کاخون کبھی معاف نہیں کرنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ایسا کرنے سے تمہیں کیا ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟زیادہ نہ سہی کچھ تو اس اذیت کا مداوا ہو گا جو لالہ کے خون سے لت پت وجود کو دیکھ کر مجھے ہوئی تھی تو کیا اس خاندان کے بیٹے کا خون کرو گے جا کر ۔۔۔۔۔؟؟؟نہیں۔۔۔۔تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ تو خون بہا میں کیا لو گے پیسے یا پھر عورت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟ مہرو نے اسکے سرخ چہرے پر نظریں فوکس کرتے ہوئے غصے سے پوچھابھا بھی آپ ۔کیا میں ۔۔۔۔ بولو یشب کیا میں ۔۔۔۔ تم ایک مرد کا بدلہ مظلوم عورت سے لوگے جس کا کوئی قصور بھی نہیں۔۔۔بھا بھی آپ اس ایموشنل تقریر سے میرا فیصلہ نہیں بدل سکتیں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ڈٹا رہاٹھیک ہے جو جی میں آئے کرو مگر ایک بات یاد رکھنا کہ میں خون بہا میں آنے والی لڑکی سے تمہیں کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کرنے دوں گی سمجھے ۔۔۔۔۔ مہر و غصے سے بات مکمل کرتی کمرے سے نکل گئی۔بھا بھی خون بہا میں آنے والی لڑکی سے مجھے کوئی سروکار نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں صرف اور صرف شمس خان کو اسی تکلیف سے گزارنا چاہتا ہوں جو میں نے جھیلی تھی ۔ ۔ ۔اسے بھی تو پتہ چلے کہ جب جان سے پیاری چیز ہمیشہ کے لیے جدا ہوتی ہے تو کس قدر اذیت سہنی پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یشب نے ہمکلامی کرتے ہوئے پوری قوت سے ایش ٹرے دیوار پر دے ماری ۔۔۔۔۔اسے چادر اوڑھاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔ شمس نے ہال کمرے میں موجود خواتین سے کہا ں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی لالہ – ۔ ۔ ۔ میں کہیں نہیں جا رہی ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔۔ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ بابا ۔۔۔۔ بابا مجھے ونی نہیں کر سکتے لالہ میں کہیں نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔ ہیر پنچائیت اور آفریدی خاندان کا فیصلہ سن کر پاگل سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔۔ نہیں لالہ آپ ۔۔۔۔ آپ اپنی ہیر اپنی گڑیا کو کیسے کسی کے حوالے کردیں گے نہیں لالہ آپ مجھے چھپا لیں کہیں ۔ ۔۔۔ میں پنچائیت میں نہیں جاؤں گی لالہ چھپالیں مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ روتی ہوئی شمس کے سینے سے لگ گئی شمس نے بہت ضبط سے ہیر کے ہچکیاں لیتے وجود کو خود سے الگ کیا اور پاس کھڑی پروشہ سے چادرپکڑ کر ہیر کو اوڑھائی اور اسکا بازو پکڑ کر باہر کیجا نب بڑھالالہ آپ ان کو بتاتے کے آپ نے جان بوجھ کر یشار خان کا خون نہیں کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب اچانک غلطی سے ہوا۔ —- – پلیز لالہ میں نہیں جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔ ہیر روتی ہوئی کھسیٹتی جارہی تھی۔وہاں موجود حویلی کی عورتوں اور ملازموں نے افسردگی سے وہاں کی لاڈلی کو ہمیشہ کے لیے جاتے دیکھامگر اسے روکنے کی ہمت کسی میں بھی نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پنچائیت سے چند فرلانگ کے فاصلے پر شمس نے گاڑی کو بریک لگائیہیر نے خوفزدہ نظروں سے چند گز دور بیٹھے مردوں کے ہجوم کو دیکھا اور کپکپاتے ہوئے شمس کا بازوپکڑالالہ مجھے بچا لیں ۔۔۔۔۔ میں آپ سب کے بغیر مر جاؤں گی لالہ ۔۔۔۔۔۔ وہ پھر سے ملتجی ہوئی شمس اس کے ہاتھ ہٹا کر گاڑی سے نکل گیادوسری سائیڈ سے اس کا دروازہ کھول کر اسے بھی باہر نکالا۔ ۔اگر تمہارا لالہ تم کو بچا سکتا تو کبھی اپنی لاڈلی کواس پنچائیت کی زینت نہ بنے دیتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سنجیدگی سے کہتا اسے لیے آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خاقان آفریدی نے دو شادیاں کی تھیں ۔ ۔ ۔ پہلی شادی بی بی جان) صور یہ خانم (سے کی مگر دس سال تک اولاد نہ ہونے کی صورت میں بی بی جان نے ان کی شادی خود ہی اپنی پچازاد گل با نو سے کروادی ۔۔۔۔۔۔ گل بانو نے خاقان آفریدی سے شادی کے ڈیڑھ سالبعد حویلی کے پہلے وارث یشار خان آفریدی کو جنم دیا ۔ ۔ ۔ جس پر پوری حویلی میں خوب جشن منایا گیا۔ مگر بد قسمتی سے گل بانویشار کی پیدائش کے چھ سال بعد یشب خان آفریدی کو جنم دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یوں یشار اور یشب کی ذمہ داری بی بی جان پر آپڑی انہوں نے پورے دل سے یہ ذمہ داری نبھائی اور خوشدلی سے ان دونوں کو سینے سے لگالیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن اور آج کا دن انہوں نے کبھی ان دونوںبھائیوں کو ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی چھ سال پہلے وہ اپنی بھانجی مہر و کویشار آفریدی کی دلہن بنالا ئیں تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ مہرو اور یشار کا چار سالہبیٹا حدید آفریدی بھی تھایشب چند ماہ پہلے ہی لندن سے اپنی تعلیم مکمل کر کے لوٹا تھا جب قسمت نے ان پر بہت بھاری وار کیا بشار آفریدی کو ان سب سے ہمیشہ کے لیے جدا کر کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی بیٹی کا نکاح ابھی پنچائیت میں کروا کر ہی آفریدی خاندان کیساتھ بھیجوں ۔ ۔ ۔ ۔ دلاور خان نے جھکے سر سے اپنا مدعا کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں حاکم خان آپ نکاح شروع کریں ۔ ۔ ۔ ۔ یشب اور دلاور خان کی بیٹی کا نکاح ابھی سب کی موجودگی میں ہی گا —— خاقان آفریدی نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بات مکمل کی۔۔بابا جان یہ – – – یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ یشب انکی جانب جھک کر آہستگی سے بولامیں اس لڑکی کو اپنے نکاح میں نہیں لوں گا ۔۔۔۔ایک فیصلہ تمہارا تھا تو دوسرا میرا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جان نے بھی آہستگی سے اسے باور کروایا اور حاکم خان کی طرف متوجہ ہو گئے جو کلمات شروع کر چکے تھےیشب کی بازی اسی پر الٹ چکی تھی ۔۔۔۔ اس نے خون بہا میں دلاور خان کی بیٹی اور شمس خان کی بہنکو ہی مانگا تھا تاکہ وہ اسکو ان سے جدا کر کے تکلیف دےسکے ۔ ۔ وہ صرف اس لڑکی کو اپنی قید میں لانا چاہتا تھا نہ کے نکاح میں ۔ ۔ ۔نکاح کے لیے تو وہ اپنے خاص ملازم حشمت خان کو سوچ چکا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر بابا جان نے بیچ میں آکر سارا قصہ ہی پلٹ دیا تھا۔۔۔۔وہ نکاح کے بعد پنچائیت سے تو خاموشی سے اٹھ آیا تھا مگر حویلی آکر اپنا غصہ نکالنا نہیں بھولاہم وہاں خون بہا لینے گئے تھے نا کہ بیوی اور ہو۔ ۔۔۔۔۔ وہ غرایاتو تمہیں کیا لکھا تھا ہم وہاں سے لڑکی ایسے ہی لے آتے بنا نکاح کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جان نے ٹھہرےہوئے لہجے میں طنز کیانکاح کرتے ضرور کرتے مگر میرے ساتھ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حویلی کے ہزاروں وفادار ملازم موجودہیں ان میں سے کسی سے بھی کر دیتےہوش کرو کچھ یشب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہوش میں ہی تو آچکا ہوں ۔۔۔۔۔ اور ہوش میں ہی میں اس فساد کی جڑ کو جان سے مار کر حساب برابر کر دوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چلاتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑی ہیر کیطرف بڑھاچھو ۔ ۔ ۔ ۔ چھوڑیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گھٹی گھٹی آواز میں چیخییشب چھوڑو بچی کو۔ ۔ ۔ ہوش کرو یشب کیا پاگل پن ہے یہ ۔ ۔ ۔ بابا جان یشب کے ہاتھ ہٹا رہے تھے جن میں وہ ہیر کی گردن دبوچ چکا تھا ۔ ۔ ۔۔۔۔بابا جان ہٹ جائیں میں اس قصے کو یہیں ختمیشب . —– بابا جان کی دھاڑ پر اس نے ایک قہر آلود نگاہ ہیر کے لزرتے وجود پر ڈالی اور ایکجھٹکا دے کر اسکی گردن آزاد کیہمیر اس جھٹکے کے لیے ہر گز تیار نہ تھی اس لیے توازن برقرار نہ رکھ پائی اور دائیں جانب لڑکھڑاتے ہوئے گریگرنے سے وہاں پڑے ٹیبل کی نوک اسکے ماتھے پر لگی جس سے خون ابل پڑا۔وہ نکاح کے بعد پنچائیت سے تو خاموشی سے اٹھ آیا تھا مگر حویلی آ کر اپنا غصہ نکالنا نہیں بھولا ہم وہاں خون بہا لینے گئے تھے ناکہ بیوی اور بہو۔۔۔۔۔۔وہ غرایاتو تمہیں کیا لگتا تھا ہم وہاں سے لڑکی ایسے ہی لے آتے بنا نکاح کہ۔۔۔۔۔بابا جان نے ٹہرے ہوئے لہجے میں طنز کیانکاح کرتے ضرور کرتے مگر میرے ساتھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔حویلی کے ہزاروں وفادار ملازم موجود ہیں ان میں سے کسی سے بھی کر دیتےہوش کرو کچھ یشب۔۔۔۔۔۔ہوش میں ہی تو آ چکا ہوں۔۔۔۔۔اور ہوش میں ہی میں اس فساد کی جڑ کو جان سے مار کر حساب برابر کر دوں گا۔۔۔۔۔وہ چلاتا ہوا کچھ فاصلے پر کھڑی ہیر کیطرف بڑھاچھو۔۔۔۔چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں چیخییشب چھوڑو بچی کو۔۔۔ہوش کرو یشب کیا پاگل پن ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔بابا جان یشب کے ہاتھ ہٹا رہے تھے جن میں وہ ہیر کی گردن دبوچ چکا تھا۔۔۔۔۔۔بابا جان ہٹ جائیں میں اس قصے کو یہیں ختم۔۔۔۔۔یشب۔۔۔۔۔۔بابا جان کی دھاڑ پر اس نے ایک قہر آلود نگاہ ہیر کے لزرتے وجود پر ڈالی اور ایک جھٹکا دے کر اسکی گردن آزاد کیہیر اس جھٹکے کے لیے ہر گز تیار نہ تھی اس لیے توازن برقرار نہ رکھ پائی اور دائیں جانب لڑکھڑاتے ہوئے گریگرنے سے وہاں پڑے ٹیبل کی نوک اسکے ماتھے پر لگی جس سے خون ابل پڑایشب سر جھٹکتا ہال سے نکل گیا مہرو بیٹا دیکھو بچی کو۔۔۔۔۔بابا جان مہرو کو کہتے مردانے کیطرف چلے گئےمہرو نے ہیر کو صوفے پر بیٹھایا اور جلدی سے فسٹ ایڈ باکس لے آئی۔۔۔۔زخم صاف کر کے بینڈیج کی اور ہال سے نکل گئیاب ہال میں ہیر اور تخت پر بی بی جان موجود تھیںیہاں آؤ۔۔۔۔۔۔انہوں نے ہیر کو اپنے پاس بلایاوہ آہستگی سے چلتی ہوئی پاس آ کر کھڑی ہو گئیبیٹھو۔۔۔۔ہیر زمین پر بیٹھنے لگی تھی جب بی بی جان نے اسے صوفے پر بیٹھنے کو کہاوہ انکے سامنے صوفے پر ٹک گئیکیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔۔؟؟؟ہیر۔۔۔۔۔۔دلاور خان کی بیٹی ہو یا بھتیجی۔۔۔۔۔؟؟؟بیٹی۔۔۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔اکلوتی ہو۔۔۔۔؟؟جج۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔شم۔۔۔۔۔شمس لالہ بھی ہیںہوں۔۔۔۔۔بی بی جان نے لمبی سی سانس خارج کییشب کا غصہ یہاں کے روایتی مردوں کے جیسا ہی ہے مگر دل کا برا نہیں وہ۔۔۔۔اصل میں یشار نہ صرف اسکا بڑا بھائی تھا بلکہ بہت اچھا دوست بھی تھا۔۔۔اور وہ اسی صدمے کو برداشت نہیں کر پا رہا۔۔۔۔بی بی جان نے آنسو پونچھتے ہوئے کہابیگ۔۔۔۔بیگم صاحبہ۔۔۔۔شمس لالہ نے یشار آفریدی کو جان بھوج کر نہیں مارا وہ اچانک۔۔۔۔اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں بچے۔۔۔۔جانے والا تو چلا گیا۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولیںمم۔۔۔۔میں معافی مانگتی ہوں۔۔۔۔ہیر نے ہاتھ جوڑےتم کیوں معافی مانگ رہی ہو بچے۔۔۔۔اس سب میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں۔۔۔۔اتنے میں مہرو دودھ کا گلاس لے کر وہاں آئییہ لو یہ پین کلر لے کر یہ ہلدی ملا دودھ پی لو۔۔۔۔۔سکون ملے گاہیر نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔۔حویلی کا ایک فرد زخم دے رہا ہے تو دوسرا مرہم رکھ رہا ہےمہرو نے اسکی حیرت دیکھتے ہوئے آہستگی سے گلاس اسکے ہاتھ میں دے کر ہاتھ تھپتھپایاپی لو۔۔۔۔۔۔ہاں بچے لے لو آرام ملے گا۔۔۔۔۔۔اچھا مہر میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔۔۔تم کھانا کھلا دینا۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔۔۔جی بی بی جان۔۔۔۔۔۔مہرو نے ہاں میں سر ہلا دیا ……………………………………………………………یشب آ گیا کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟بی بی جان نے مہرو سے پوچھا جو انہیں گرم دودھ کا گلاس دینے آئی تھینہیں ابھی تک تو نہیں آیا۔۔۔۔۔ہیر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟گیسٹ روم میں۔۔۔۔۔۔۔۔کھانا کھلا دیا تھا۔۔۔۔؟؟جی۔۔۔۔تھوڑا سا ہی کھلایا ہے وہ بھی زبردستیہوں۔۔۔۔۔ایسا کرو اسے یشب کے کمرے میں چھوڑ آؤبی بی جان یشب کا غصہ۔۔۔۔۔غصہ ٹھنڈا کر کے ہی واپس آئے گا۔۔۔۔پھر آ کر نیا ہنگامہ مچا دے گا اس لیے بہتر ہے ہیر کو چھوڑ آؤ۔۔۔۔وہی لانے والا ہے اسے۔۔۔۔۔اب رکھے بھی۔۔۔۔وہ دو ٹوک بولیںجی۔۔۔۔۔ آپ یہ دودھ پی کر لیٹ جائیں۔۔۔۔میں چھوڑ آتی ہوںہوں۔۔۔۔سلامت رہو۔۔۔۔۔بی بی جان نے افسردہ سی نگاہ مہرو پر ڈالتے ہوئے دعا دیپہلے وہ اسے سدا سہاگن رہو کی دعا دیتی تھیں مگر اب حالات کے پیش نظر۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی اپنی دعا بدل چکیں تھیں………………………………………………………………رات ڈھائی ، تین کے قریب یشب اپنے کمرے میں داخل ہوامگر بیڈ پر سوئے وجود کو دیکھ کر اسکا دماغ بھک سے اڑاوہ غصے سے کھولتا بیڈ کے پاس آیا اور جھٹکے سے رضائی کھینچیہیر کی آنکھ بمشکل اتنی دیر رونے کے بعد ابھی لگی تھی کہ یہ طوفان آ گیاوہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔۔۔مگر جیسے ہی نظر سامنے کھڑے یشب آفریدی کی لال انگارہ آنکھوں پر پڑیتو وہ جلدی سے لرزتی ،کانپتی بیڈ سے نیچے اتر کر کھڑی ہوئیکیا کر ہی ہو یہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل غصہ ضبط کرتا ٹہرے ہوئے لہجے میں بولاوہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔وہکیا وہ۔۔۔۔وہ لگا رکھی ہے۔۔۔۔۔صاف اور سیدھی بات کرو۔۔۔۔۔۔وہ غراتا ہوا پاس آیاہیر دو قدم پیچھے ہٹیوہ مزید پاس آیاوہ پھر سے پیچھے ہٹتی دیوار سے جا لگیتمہاری ہمت کی داد دینی پڑے گی۔۔۔۔ہیر دلاور خان۔۔۔۔۔واہ۔۔۔۔وہ اتنا پاس آ کر بولا کہ ہیر کو اس کے سانسوں کی آواز تک سنائی دے رہی تھینن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔میں نہیں آئی۔۔۔۔۔ مجھے مہرو۔۔۔۔۔مہرو بھابھی چھوڑ کر گئیں ہیںوہ جلدی سے بولیمہرو بھابھی۔۔۔۔۔۔۔وہ استہزائیہ ہنساکس رشتے سے وہ تمہاری بھابھی ہیں۔۔۔۔۔بولو۔۔۔۔۔یشب نے سختی سے اسکا منہ جکڑاتمہارے بھائی نے ان کے شوہر کو قبر میں اتار کر انہیں بیوگی کی چادر اوڑھا دی اور تم یہاں رشتے داریاں بناتی پھر رہی ہوہاں۔۔۔۔۔۔۔وہ پوری طاقت سے چلایامم۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔میںچپ۔۔۔۔۔۔یشب نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔۔۔۔۔۔بلکل چپ۔۔۔۔۔آج کے بعد اگر یہ زبان بلاضرورت ہلی تو کاٹ دوں گا سمجھی۔۔۔۔اب چلو میں تمہیں تمہاری اصلی آرام گاہ دکھا دوں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ہیر کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹا باہر لایاہیر اسکی ٹانگوں کیساتھ گھسیٹتی جا رہی تھییشب اسے لے کر تہہ خانے میں آیایہ۔۔۔یہ ہے تمہارا اصل ٹھکانہ۔۔۔۔اس سے آگے کا سوچنا بھی مت ۔۔۔۔وہ گھور کر کہتا وہاں سے چلا گیاپیچھے ہیر اس تہہ خانے میں سسکتی اکیلی رہ گئی………………………………………………………………ہیر کو تہہ خانے میں بند ایک ہفتے سے اوپر ہو گیا تھا۔۔۔۔۔نہ کوئی وہاں آیا اور نہ ہی اسے باہر بلایا گیا۔۔۔۔۔سکینہ نامی ملازمہ اسے کھانا پانی سب دے جاتی تھی۔۔۔۔۔اور آج وہ بارہ دن کے بعد ہیر کے پاس یشب آفریدی کا بلاوا لے کر آئی تھی کہ چھوٹے خان تمہیں اپنے کمرے میں بلا رہے ہیںہیر کو رات کے اس پہر یشب آفریدی کا اپنے کمرے میں بلانا نامناسب لگا اسی لیے وہ سکینہ کو منع کر چکی تھی جب یشب آفریدی خود وہاں آیا۔۔۔۔سکینہ کے جانے کے بعد وہ مضبوط قدم اٹھاتا ہیر کے بلکل سامنے آ کھڑا ہواکیا سنانا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔؟؟کک۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔ہیر نے زور زور سے نفی میں سر ہلایاابھی کہہ رہی تھی ناں سکینہ سے خان سے کہو جو کہنا سننا ہے یہاں آ کر سن لیں۔۔۔۔نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔کوئی۔۔۔۔۔بات۔۔۔۔۔۔نہیںمیری بات یاد ہے تمہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟جج۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔کونسی۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟اگر۔۔۔اگر بلاضرورت زبان ہلائی تو کاٹ دوں گا۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے اسکی بات دہرا گئیگڈ۔۔۔۔۔تم تو بہت ذہین ہو۔۔۔۔۔تو بتاؤ جب میری بات یاد تھی تو پھر آنے سے منع کیوں کیا۔۔۔۔۔اب کے وہ اپنی مخصوص دھاڑ نما آواز سے غرایاغلطی ہو گئی ۔۔۔۔معاف۔۔۔۔معاف۔۔۔۔کر دیں۔۔۔۔وہ کپکپاتی آواز میں بولیمعاف کیا۔۔۔۔اب چلو گی ساتھ یا پھر۔۔۔چلوں گی۔۔۔۔وہ فٹافٹ بولیگڈ۔۔۔۔۔چلووہ یشب آفریدی کے پیچھے پیچھے ناک کی سیدھ میں چلتی ہوئی اسکے کمرے تک آئییہ دیکھ رہی ہو میرا کمرہ۔۔۔۔یشب نے مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے پوچھاجی۔۔۔۔۔۔آج سے تم اس کمرے میں رہو گییشب کی بات پر ہیر نے حیرانگی سے اسے دیکھازیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔تم اس کمرے کی مالکن نہیں بلکہ ملازمہ بن کر رہو گی۔۔۔۔۔انڈر اسٹینڈتمہیں اس کمرے میں رہنے کے عوض جو جو کرنا ہو گا وہ میں تمہیں ساتھ ساتھ بتاتا رہوں گا۔۔۔۔۔خود سے مجھے مخاطب کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔۔۔۔رائٹجی۔۔۔۔۔۔ہیر نے ٹرانس میں سر ہلایااب فلحال تو تم ایسا کرو کبڈ سے اگر کوئی بستر ملتا ہے تو نکال کر یہاں زمین پر بچھا لو۔۔۔۔کیونکہ اب یہیں سویا کرو گی تماسکی بات پر ہیر کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔۔۔۔اتنی ٹھنڈ میں زمین پر۔۔۔۔۔وہ بمشکل اپنی ٹانگیں گھسیٹتی کبڈ تک گئییشب اپنی بات مکمل کرنے کے بعد واش روم میں گھس چکا تھاوہ کبڈ میں اتنی کوشش کے بعد بھی صرف ایک شال نما موٹی چادر ہی تلاش کر پائیاب وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس چادر کو نیچے بچھائے یا پھر سردی سے بچنے کو اوپر اوڑھے۔۔۔۔وہ اسی کشمکش میں تھی جب یشب ٹاول سے بال رگڑتا باہر آیاایک سرسری نظر ہیر کے ساکت وجود پر ڈال کر بالوں کو برش کیا اور پلٹ کر بیڈ پر موجود خوبصورت سی شہنیل کی نرم وملائم رضائی میں گھسا ( یہ شہنیل کی رضائیاں بی بی جان کی نگرانی میں بنائی جانے والی اسپیشل سوغات تھی جنکو سردی کے موسم میں ہر کمرے میں موجود کمبل کو ہٹا کر پہنچا دیا جاتا تھا )ہیر نے ایک للچاتی نظر رضائی پر ڈالی اور آگے بڑھ کر چادر کو بیڈ کے بائیں جانب ذرا فاصلے پر بچھایا اور بڑے حوصلے سے اس چادر پر لیٹ کر اپنی سر پر اوڑھی شال کو سارے جسم کے اردگرد لپیٹ کر آنکھیں بند کر لیںاسکی بند آنکھوں کے سامنے اپنا کمرہ گھوم رہا تھا۔۔۔۔جہاں آسائش و آرام کی ہر چیز موجود تھی اور اب وہ ہیر دلاور خان زمین پر پڑی تھی بنا کسی بستر اور لحاف کےایک آنسو چپکے سے اسکی آنکھوں کے بند پپوٹے سے نکل کر زمین پر گرا مگر وہاں ان آنسوؤں کو دیکھنے اور پونچھنے والا کوئی نہ تھاہائے یہ قسمت۔۔۔۔جو لمحوں میں بادشاہ کو گدا اور گدا کو بادشاہ بنا دیتی ہے۔۔۔۔۔جس سے لڑنا انسان کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔وہ صرف اپنی دعاؤں سے ہی قسمت کو بدلنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور ہیر بھی دعا گو تھی کہ اسکی قسمت ،، اسکی زندگی بھی پھر سے پہلے جیسی ہو جائے۔۔۔۔جہاں نہ تو کوئی دکھ تھا اور نہ ہی کوئی تکلیف۔۔۔۔۔مگر اب دیکھنا یہ تھا کہ ہیر کی یہ خواہش پوری ہوتی بھی کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔………………………………………………………………ہیر تہہ خانے سے نکل کر اب اس کمرے میں قید ہو چکی تھی وہ یشب آفریدی کے حکم کے مطابق خود کو اسے مخاطب کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہی تھیتین دن سے وہ اس کمرے میں تھی جہاں کی ایک ایک چیز اسے ازبر ہو چکی تھی اب تو وہ آنکھیں بند کر کے بھی بتا سکتی تھی کہ کونسی چیز کہاں پڑی ہےاس رات وہ زمین پر لیٹ تو گئی تھی مگر سو نہیں پائی تھی۔۔۔۔ٹھنڈ تلوار کی مانند ہڈیوں میں گھسے جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔دو گھنٹے کے کھٹن صبر کے بعد وہ بلآخر اٹھ بیٹھیکمرے میں مدھم روشنی کیساتھ یشب آفریدی کے ہلکے ہلکے خراٹے گونج رہے تھےخود تو مزے سے سو رہا ہے جنگلی اور مجھے یہاں مرنے کو لٹا دیا۔۔۔۔میرے مالک مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے آخر۔۔۔کونسا گناہ ہو گیا مجھ سے کہ اتنی بھیانک سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی کھڑی ہوئیہیر مدھم روشنی میں صوفہ دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ اس پر لیٹ سکےآنکھوں کو اچھی طرح کھول کر دیکھنے پر وہ صوفہ تلاشتی آگے بڑھی ہی تھی کہ یشب آفریدی کے پشاوری چپل میں اڑ کر زمین بوس ہوئیکھٹکے کی آواز پر یشب بھی آنکھیں مسلتا لیمپ آن کر چکا تھاہیر کو زمین پر اوندھے منہ گرے دیکھ کر وہ مسکراہٹ روکتا اٹھ بیٹھایہ آدھی رات کو کس فلم کی ریہرسل ہو رہی ہے۔۔۔۔؟؟؟ہیر اسکی آواز پر شرمندگی کے مارے اٹھ ہی نہ پائیاٹھ جاؤ اب یا پھر کرین منگواؤں۔۔۔۔؟؟یشب نے ہیر کی بھری بھری جسامت پر چوٹ کیوہ شرمندہ شرمندہ سی اٹھ بیٹھیکیا کر رہی تھی تم آدھی رات کو۔۔۔۔۔۔؟؟مم۔۔۔۔۔مجھے سردی لگ رہی ہےاوہ تو سردی سے بچنے کے لیے میرے لحاف میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔؟؟؟یشب نے سیگرٹ سلگاتے پوچھانن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔صوفے پرمیں نے تمہاری جگہ تمہیں بتا دی تھی پھر کس کی اجازت سے تم صوفے پر جا رہی تھی۔۔۔۔۔وہ تیز لہجے میں بولاسر۔۔۔سردی بہت۔۔۔ہے۔۔۔۔میں گرمیوں میں زمین پر لیٹ جایا کروں گی۔۔۔۔وہ سر جھکائے جلدی سے بولیکافی سے زیادہ چالاک ہو اپنے بھائی کیطرح۔۔۔۔طنز کیا گیامیرے بھائی نے کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔ہیر یشب کی بات پر چلا کر بولییشب اسکے چلانے پر رضائی ہٹاتا اس تک آیاتمہارے لاڈلے بھائی نے کچھ نہیں کیا تو پھر کس نے مارا ہے یشار خان کو ہوں۔۔۔۔لالہ نے جان بھوج کر نہیں۔۔۔۔غلطی سے۔۔۔۔ہیر کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی یشب کے بھاری ہاتھ کا ٹھپڑ اسکی بولتی بند کروا گیامیرے سامنے دوبارہ اس کتے کی حمایت میں مت بولنا ورنہ۔۔۔۔۔ورنہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟ ہیر کو اپنے لالہ کے لیے لفظ کتا برداشت نہیں ہوا تھا اسی لیے ہمت کرتی بولیورنہ کیا کریں گے۔۔۔۔مجھے ماریں گے۔۔۔۔ پیٹیں گے۔۔۔۔۔۔یا پھر جان سے مار دیں گے تو مار دیں۔۔۔۔مار دیں مجھے۔۔۔۔۔میں بھی اس اذیت بھری زندگی کو جینا نہیں چاہتی اسلیے مہربانی ہو گی اگر آپ مجھے مار کر اپنا بدلہ پورا کر لیں۔۔۔۔وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی۔۔۔یشب نے اسکے ہچکیوں لیتے وجود کو دیکھ کر جھٹکے سے اسکا سر اٹھا کر منہ جکڑا۔۔۔مجھے روتی ،بلکتی عورتوں سے سخت نفرت ہے اس لیے آج کے بعد اگر تم نے دوبارہ میرے سامنے رو دھو کر خود کو مسکین شو کرنے کی کوشش کی تو واقعی جان سے مار دوں گا سمجھی۔۔۔۔وہ وارننگ دیتا کمرے سے ملحق ٹیرس پر نکل گیاہیر اسکے جانے کے بعد بلند آواز میں ہچکیوں سے رونے لگی اور روتے روتے ناجانے کب نیند کی پری اس پر مہربان ہوئی کہ وہ وہیں زمین پر ہی سو گئی۔۔۔۔۔

ہیر مسلسل تین دن سے بنا کسی لحاف کے زمین پر سو رہی تھی جسکا نتیجہ بخار کی صورت میں سامنے آیا۔۔۔۔یشب کے اٹھنے سے پہلے یشب کے حکم کے مطابق ہیر نے اسکے سوٹ پریس کرنے ہوتے۔۔۔۔یہ اسکی ڈیوٹی تھی جو یشب خان نے کمرے میں لانے کے بعد بتائی تھی۔۔۔یشب روزانہ صبح پانچ بجے تک اٹھ جاتا تھا اور ہیر کو اسکے اٹھنے سے پہلے اسکے کپڑے تیار کرنے پڑتے۔۔۔۔مگر آج یشب اٹھ چکا تھا پر ہیر گٹھڑی بنی اپنی جگہ پر لیٹی تھییشب خاموشی سے اٹھ کر غسل کرنے چلا گیا۔۔غسل کر کے جب وہ کمرے میں آیا تو ہیر ویسے ہی لیٹی تھی۔۔۔ہیر۔۔۔رر۔۔رر۔۔۔۔۔۔اس نے پاس آ کر پکارامگر وہ ویسے ہی لیٹی رہییشب نے جھک کر اٹھانا چاہا۔۔۔تو پتہ چلا کہ وہ بخار میں پھنک رہی تھیلو جی نئی مصیبت۔۔۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے ہیر کے وجود کو اٹھا کر بیڈ پر ٹپخاٹپخنے پر ہیر نے غنودگی میں ہی آنکھیں کھولیں مگر سمجھ نہ پائی کہ کیا ہوا ہے اس لیے پھر سے آنکھیں موند لیں۔یشب نے سیل اٹھا کر حشمت کو کال ملائیڈاکٹر شاکر کو لے کر فورا میرے کمرے میں پہنچو۔۔۔اگر سویا ہوا بھی ہوا تو اٹھا دینا۔۔کال بند کر کے رضائی سیدھی کر کے ہیر کے وجود پر انڈیلی اور خود باہر نکل گیاکچھ دیر بعد حشمت ڈاکٹر شاکر کو لیے حاضر تھا۔۔۔۔۔سردی لگ جانے کی وجہ سے فیور ہو گیا ہے خان صاحب میں یہ میڈیسن دے رہا ہوں کچھ کھلانے کے بعد دے دیں۔۔۔ان شا اللہ آرام آ جائے گا۔۔۔۔ڈاکٹر شاکر نے بخار کی وجہ بتائی اور میڈیسن دینے کے بعد چلا گیاڈاکٹر کے جانے کے بعد یشب نے گھڑی دیکھی چھ بجے تھے۔۔۔وہ نیچے آیا تاکہ کسی ملازمہ سے ہیر کے لیے کھانے کو کچھ بنوائے مگر نیچے کوئی ذی روح موجود ہوتا تو وہ کہتا۔۔۔۔دن چڑھ آیا مگر نواب زادیوں کو آرام سے فرصت نہیں۔۔۔۔بھابھی نے کچھ زیادہ ہی سر چڑھا رکھا ہے سب کو۔۔۔وہ غصے سے کھولتا کیچن میں آیاچند منٹ غائب دماغی سے ادھر أدھر دیکھنے کے بعد اس نے دودھ گرم کیا۔۔۔۔ بریڈ اور دودھ کا گلاس ٹرے میں رکھ کر کمرے کی طرف چلا آیااونہہ۔۔۔۔یہ سب بھی کرنا پڑنا تھا تجھے یشب خان وہ بھی دشمنوں کے لیے۔۔۔وہ بڑبڑاتا ہوا دروازے کو لات مار کر کھولتا اندر داخل ہواٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر رضائی ہٹائی اور ہیر کو بازو سے پکڑ کر بیٹھایاوہ بیچاری بخار سے تپتی دائیں جانب لڑھکیکیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔۔تمہارے باپ یا بھائی کا نوکر نہیں ہوں میں جو تمہاری تیمارداری کرتا پھروں سمجھی۔۔۔سیدھی ہو کر بیٹھو اور کھاؤ اسے۔۔۔۔یشب نے دھاڑ سے کہہ کر اسے پھر سے سیدھا کر کے ٹرے سامنے رکھیہیر اسکی دھاڑ پر مشکل سے ہی سہی پر آنکھیں کھول چکی تھیکھاؤ اسے۔۔۔۔وہ کھڑے کھڑے عجلت میں بولاہیر نے ٹرے میں دودھ کا گلاس اور دو سوکھے سلائس پڑے دیکھےدودھ تو میں پیتی نہیں ہوں۔۔۔پر ان کو کیسے بتاؤں۔۔۔۔بیٹھی بیٹھی فوت ہو گئی ہو کیا۔۔۔۔؟؟نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔اس نے ناں میں سر ہلا کر جلدی سے سلائس اٹھا کر منہ میں ڈالا اور ساتھ ہی دودھ کا گھونٹ بھرا کھا کر یہ میڈیسن لے لینا۔۔۔وہ حکم جاری کر کے اپنی چیزیں اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔۔ہیر نے بمشکل سوکھے سلائس اور دودھ زہرمار کیا اور دوا لے کر پھر سے بستر پر ڈھیر ہو گئی……………………………………………………………….رات دس بجے کے قریب یشب واپس کمرے میں آیا تھا اور ہیر کو ابھی تک رضائی میں گھسا دیکھ کر سر جھٹکتا چینج کرنے چل دیا۔۔۔۔واپس آ کر انٹرکام پر گل کو چائے لانے کا کہا۔۔۔۔چند منٹ بعد گل چائے لیے حاضر تھی۔۔۔۔دوپہر کا کھانا کھایا۔۔۔۔؟؟؟یشب نے گل سے ہیر کے کھانے کا پوچھا نہیں۔۔۔۔میں آئی تھی لے کر مگر ہیر بی بی سو رہی تھیں۔۔۔ہوں ایسا کرو اب لے آؤ جا کر۔۔ جی ۔۔۔۔وہ سر ہلاتی چلی گئییشب چائے ختم کر کے بیڈ کے پاس آیا اور ایک جھٹکے سے ہیر کے اوپر سے رضائی کھینچیملکہ ہیر صاحبہ آپ کے غلام سارا دن آوارہ گردی کر کے لوٹ آئے ہیں کچھ خدمت کا موقع تو دیں۔۔۔یشب کی طنزیہ بات سنتے ہی ہیر ناچاہتے ہوئے بھی اٹھ بیٹھییشب کچھ اور بھی کہتا کہ اسکی لال قندھاری انار سی صورت دیکھ کر خاموش ہو گیاکھانا آ رہا ہے کھا کر یہ میڈیسن لو۔۔۔۔ہمارے ہاں دشمنوں کی بس اتنی تیمارداری کی جاتی ہے۔۔۔۔یہ تمہارے باپ کی حویلی نہیں ہے کہ دس ،دس دن یونہی بستر توڑتی رہو گی ۔۔۔۔میں جب کل واپس آؤں تو تم مجھے بیڈ پر نہیں بلکہ بیڈ کے آس پاس چلتی پھرتی نظر آؤ۔۔۔۔انڈراسٹینڈ۔۔۔۔جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ہیر نے فٹ ہاں میں سر ہلایایشب نے اسکے ماتھے اور گال پر ہاتھ رکھ کر بخار کی نوعیت چیک کی جو اب صبح کے مقابلے میں بہت کم تھی اور اپنی چیزیں اٹھا کر پھر سے کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔ہیر چاہنے کے باوجود بھی پوچھ نہ پائی کہ اب اس وقت کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔وہ ابھی بیٹھی ہی تھی جب گل کھانے کی ٹرے لیے آ گئی۔۔۔کچھ اور چاہیے ہیر بی بی۔۔۔۔اسنے ٹرے ہیر کے سامنے رکھ کر پوچھانہیں۔۔۔۔میں جاؤں۔۔۔۔۔؟؟ہاں جاؤ۔۔۔۔۔ہیر کے کہنے پر گل پلٹ گئیہیر نے کھانے کی ٹرے دیکھی۔۔۔۔۔اس معاملے میں اس پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا گیا تھا دشمن سمجھ کر۔۔۔کیونکہ وہ جب سے یہاں آئی تھی کھانا ہمیشہ اچھا ہی ملا تھا اسے۔۔۔۔اور اس معاملے میں یشب نے بھی کوئی روک ٹوک نہیں لگائی تھی۔۔۔۔ہیر نے دو چار نوالے لے کر دوا لی اور لیٹ گئی کیونکہ کل اسے بیڈ سے نیچے ہونا تھا حکم آ چکا تھا۔۔۔۔۔اور حکم کی تعمیل کرنا ہیر کی ڈیوٹی میں شامل تھا……………………………………………………………اگلے دن ہیر کمرے کی صفائی کر رہی تھی جب یشب کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔پورے کمرے کی صفائی بھی ہیر کی ڈیوٹی میں شامل تھا۔۔۔۔جب سے وہ کمرے میں آئی تھی کسی بھی ملازمہ کو بلاضرورت کمرے میں آنے کی اجازت نہ تھی۔۔۔اسلئیے ہیر کو صفائی کیساتھ ڈسٹنگ بھی خود کرنا پڑتی اور یشب صفائی کے معاملے میں کافی سخت ثابت ہوا تھا ذرا جو گرد کسی جگہ نظر آ جاتی تو پھر ہیر کو اچھی خاصی بےعزتی سہنا پڑتی تھی۔۔۔۔اب بھی وہ ڈسٹنگ کر رہی تھی جب یشب کمرے میں اینٹر ہوا۔۔۔ہیر نے جھاڑن رکھ کر ہاتھ دھوئے اور روم فریج سے پانی کا گلاس لے کر یشب کی طرف گئی جو ٹانگیں پھیلائے ریلیکس سا صوفے کی پشت پر سر رکھے ترچھا سا لیٹا تھاخان۔۔۔۔پانی۔۔۔۔ہیر کی آواز پر وہ آنکھیں کھول کر سیدھا ہوا اور گلاس اس کے ہاتھ سے پکڑاکیسی طبیعت ہے اب تمہاری۔۔۔۔۔؟؟جی۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔۔وہ ہلکا سا منمنائیہوں۔۔۔۔۔یشب نے خالی گلاس واپس ٹرے میں رکھا اور پھر سے ایزی ہو گیا۔۔۔ہیر ٹرے لیے پلٹی ہی تھی جب یشب نے اسے پکاراجج۔۔۔۔جی۔۔۔۔وہ واپس مڑیمیرا جوتا اتارو۔۔۔۔حکم آیامیں۔۔۔۔؟؟تمہارے علاوہ کوئی اور ہے یہاں۔۔۔۔۔یشب کی تیوری چڑھی دیکھ کر ہیر جلدی سے پاس آ کر زمین پر بیٹھی اور یشب کا جوتا اتارا اور پھر جرابیں بھی اتار دیں۔۔۔ہیر کے نرم وملائم ہاتھوں کی نرمائش سے یشب کو سکون کا احساس ہوا۔۔۔پاؤں بھی دبا دو۔۔۔۔وہ ہلکا سا سر اٹھا کر اگلا حکم جاری کرتا آنکھیں موند گیا۔۔۔۔ہیر نے خاموشی سے یشب کا پاؤں گود میں رکھا اور دبانے لگی۔۔۔۔یشب نے کچھ دیر ہیر کے ہاتھوں سے ملنے والے سکون کو وجود میں اتارا اور سیدھا ہو کر بیٹھا۔۔ ہیر جھکے سر سے اسکی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔یشب نے آہستگی سے ہیر کا ہاتھ پکڑ کر اپنی ہتھیلی پر پھیلایا اور بہت غور سے اسکی ہتھیلی دیکھنے لگا یوں جیسے ابھی قسمت کا حال بتائے گاچند منٹ بہت غور سے دیکھنے کے بعد اس نے جھک کر لب ہیر کی پیھیلی ہتھیلی پر رکھے اور اٹھ کر واش روم چلا گیا ہیر نے پلٹ کر اس ظالم شخص کی پشت کو دیکھا اور اپنی ہتھیلی پر اس کا پہلا نرم لمس پوری شدت سے محسوس کیا۔۔۔ورنہ اس سے پہلے تو یشب آفریدی نے اسے صرف دبوچا ،، گھسیٹا اور جکڑا ہی تھااس نے سر جھکا کر چند منٹ اپنی ہتھیلی کو بہت غور سے دیکھا اور پھر جھک کر اپنے لب بھی اسی جگہ رکھے جہاں کچھ دیر پہلے یشب آفریدی اپنا لمس چھوڑ کر گیا تھا۔۔””کہاں تلاش کرو گے تم مجھ جیسا شخص جو تمہارے ستم بھی سہے اور تم سے محبت بھی کرے””………………………………………………………………شام میں گل کمرے میں ہیر کو گرم لحاف دینے آئی تھییہ کس لیے۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ہیر حیران ہوئیپتہ نہیں بی بی خان سائیں نے کہا تھاٹھیک ہے رکھ دو وہاں۔۔۔۔ہیر کے کہنے پر گل بستر رکھتی چلی گئی۔۔۔رات کو یشب کے بتانے پر ہیر کو پتہ چلا کہ یہ بستر اسکے اپنے لیے تھا۔۔۔اس کے بخار کیوجہ سے شاید یشب کو اس پر ترس آ گیا تھا اسلیے گرم بستر منگوایا تھا مگر جگہ ابھی بھی نہیں بدلی تھی۔۔۔۔ہیر نے اس گرم بستر کو زمین پر ہی بچھا کر سونا تھاچلو شکر ہے کچھ تو بچت ہو گی۔۔۔۔وہ اتنی سی عنایت پر ہی خوش ہوتی بستر بچھا کر شہنیل کی نرم گرم رضائی میں باخوشی گھس گئی تھی۔۔۔۔……………………………………………………………یشب صبح پانچ بجے اٹھتا تھا اور ہیر کو اسکے اٹھنے سے پہلے اسکے دو کلف لگے سوٹ روزانہ پریس کرنے ہوتے تھےہیر نے آج تک کبھی اپنے کپڑے پریس نہیں کیے تھے اور اب دو مردانہ سوٹ وہ بھی کلف لگے پریس کرنا اسکے لیے بہت ہی بھیانک تجربہ تھا۔۔۔۔مگر اب دن گزرنے کیساتھ اسکے ہاتھوں میں تیزی آ ہی گئی تھی۔۔۔۔وہ کپڑوں پر استری پھیر رہی تھی جب یشب ڈریسنگ روم میں داخل ہو کر ایک نظر اس پر پھینکتا واش روم چلا گیا۔۔۔ہیر نے جلدی سے کپڑے پریس کر کے ہینگ کیے اور یشب کا ناشتہ بنانے چلی گئییشب صرف ناشتہ ہی کمرے میں کرتا تھا دوپہر کے وقت وہ باہر ہوتا اور رات کا کھانا وہ ڈائنگ ٹیبل پر ہی کھاتا۔۔۔۔۔پہلے یشب کے ناشتے کی ڈیوٹی گل کی تھی مگر اب ہیر کے آنے سے یہ ڈیوٹی بھی ہیر کو ہی سونپ دی گئی تھی۔۔۔ہیر کو پہلے دن یشب کے لیے ناشتہ بنانے کا تجربہ یاد تھا اس لیے اب وہ بہت محتاط ہو کر اسکا ناشتہ تیار کرتی تھی تاکہ یشب کو پھر سے کوئی شکایت کا موقع نہ ملےپہلے دن جب یشب نے صبح سویرے اٹھا کر اسے ناشتہ لینے بھیجا تھا تو اس نے سوئی جاگی کیفیت میں ناشتہ بنایا اور ٹرے میں چائے اور ٹوس لیے واپس کمرے میں آئی یشب نے چائے کا پہلا گھونٹ بھرنے کے بعد ہی کپ زمین پر الٹ دیایہ چائے ہے۔۔۔۔۔اسے چائے کہتے ہیں تمہارے خیال میں۔۔۔۔وہ دھاڑاکک۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔۔خان۔۔۔۔وہ ڈرتی ڈرتی بولی تمہارے ہاں ایسا جوشاندہ صبح ناشتے میں پیتے تھے سب۔۔۔۔۔؟؟نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔مم۔۔۔۔میں نہیں۔۔۔بناتی تھی چائے تب۔۔۔۔۔تو یہاں تمہیں ہی بنانی ہے سمجھی اس لیے بہتر ہے کہ جلدی سیکھ جاؤ۔۔۔اب جاؤ اور جا کر ہلکی چینی والی چائے بنا کر لاؤ میرے لیے۔۔۔۔جی۔۔۔۔ہیر فٹ کمرے سے نکل گئیاب کہ ہیر نے بہت احتیاط ںسے ہلکی چینی والی چائے بنائی اور کپ ٹرے میں رکھے واپس کمرے میں آئی۔۔۔۔خان چائے۔۔۔۔۔اس نے یشب کو متوجہ کیا جو سیل پر بزی تھا۔۔ہوں۔۔۔۔یشب نے کپ تھاما اور منہ سے لگایاہیر کھڑی اسکے ایکسپریشنز دیکھ رہی تھی کہ آیا اب چائے ٹھیک ہے کہ نہیں۔۔۔یشب نے کوئی بھی تاثر دیے بنا دوسرا اور پھر تیسرا گھونٹ بھر کر سیل سائیڈ پر رکھا اور ہیر کو اپنے سامنے موجود ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔وہ جھجھکتی ہوئی سمٹ کر سامنے ٹیبل پر بیٹھی۔۔۔دل میں وہ آیتہ الکرسی کا ورد کر رہی تھی تاکہ جلد از جلد جان خلاصی ہو۔۔۔یہ کپ پکڑو اور ایک ہی گھونٹ میں یہ ساری چائے ختم کرو۔۔۔جج۔۔۔جی۔۔۔۔وہ اس حکم پر ششدر تھیبھاپ اڑاتی چائے اور وہ بھی ایک گھونٹ میں۔۔ہیر کو سوچ کر ہی وحشت ہوئیکچھ کہا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔اسے سٹل دیکھ کر یشب کی تیوری چڑھیجی۔۔۔۔ہیر نے ڈر کے مارے جلدی سے گرم کپ منہ کو لگایا۔۔۔تین گھونٹ پینے کے بعد اس نے کپ ہٹایا کیونکہ اس سے زیادہ گھونٹ وہ بھی اتنی گرم چائے کے وہ پی نہیں سکتی تھیبب۔۔۔۔بہت گرم ہے۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔۔وہ منمنائییشب نے غصے سے ہاتھ کپ پر مارا جس سے چائے ہیر کی ٹانگوں پر گری اور وہ سی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔کی آواز نکالتی کھڑی ہوئیآج کے بعد اگر ذرا سا بھی حکم عدولی کا سوچا تو اس سے بھی بھیانک سزا ملے گی سمجھی۔۔۔وہ ہیر کی گال تھپتھپا کر کہتا ڈراڑ سے برنال نکال لایایہ لو لگا لینا۔۔۔۔برنال اسکے ہاتھ میں تھما کر اپنا سیل اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔۔اونہہ۔۔۔ظالم انسان زخم دے کر مرہم بھی خود ہی رکھتا ہے۔۔۔ہیر نے جھٹکے سے ٹیوب دیوار پر دے مارینہیں چاہیے مجھے ترس اور ہمدردی کی یہ بھیک۔۔۔۔۔وہ روتی ہوئی سر گھٹنوں میں دے گئی۔۔اب تو وہ روتی بھی یشب کی غیر موجودگی میں ہی تھی چونکہ یشب کا حکم تھا کہ اسے روتی ، بلکتی عورتوں سے نفرت ہے اس لیے ہیر اسکے سامنے رو کر خود کو قابل نفرت نہیں بنانا چاہتی تھی یشب خان آفریدی کی نظروں میں۔۔۔۔””بکھرے گا جب تیرے رخسار پر تیری آنکھ کا پانیتجھے احساس تب ہو گا محبت کس کو کہتے ہیں””

خان خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔مجھے میری بچی سے ملوا دیں۔۔۔۔۔وہ تو بے قصور ماری گئی۔۔۔ناجانے وہ لوگ کیا حال کر چکے ہوں گے۔۔۔پتہ نہیں میری بچی وہاں ٹھیک سے کچھ کھاتی بھی ہو گی کے نہیں۔۔۔۔۔خدیجہ روتی ہوئیں دلاور خان کو ہیر سے ملوانے کا کہہ رہی تھیںتم جانتی ہو حالات خدیجہ پھر اس واویلے کا مقصد۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ دکھ بھری آواز میں بولےاندر سے وہ بھی ڈھے چکے تھے جب سے لاڈلی بیٹی اسطرح سے ر خصت ہوئی تھی جسکا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا انہوں نے۔۔۔۔۔میں کچھ نہیں جانتی بس مجھے ہیر سے ملوا دیں۔۔۔میں دیکھنا چاہتی ہوں اپنی بچی کو۔۔۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے میں یہاں سکون میں ہوں۔۔۔۔نہیں خدیجہ۔۔۔۔۔نہیں میں تو خود اسکی ایک جھلک دیکھنے کو بے چین ہوں مگر۔۔۔۔مگر کیا خان۔۔۔۔بولیں ناں کیا۔۔۔۔؟؟میں کیا کروں۔۔۔۔کیا کروں اب۔۔۔۔وہ بے بس تھےشمس جو کر چکا ہے اسکا نتیجہ ایسا ہی ہونا تھا۔۔مجھے خاقان آفریدی سے امید نہیں تھی کہ وہ ایسا کوئی فیصلہ کرے گا۔۔۔۔یہ اسکے بیٹے یشب آفریدی کا ہی فیصلہ تھا جو۔۔۔۔خان آپ اپنا بندہ بھجوائیں ناں خاقان آفریدی کی حویلی میں کہ وہ ہمیں ہیر سے کبھی کبھی ملنے کی اجازت دے دیں۔۔۔۔خدیجہ جلدی سے آس بھری آواز میں بولیںہوں۔۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔کرتا ہوں کچھ۔۔۔۔۔دلاور خان نے پرسوچ انداز میں سر ہلا کر بیوی کو مطمعین کیا……………………………………………………………… یشب چائے پی رہا تھا جب ملازمہ بابا جان کا پیغام لے کر آئیمیں مردانے میں باباجان کی بات سننے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔میرے آنے تک سب صاف ستھرا ہونا چاہیے۔۔۔رائٹ۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔۔وہ دروازے کے پاس پہنچا ہی تھا جب ہیر کی آواز آئیخان۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔کیا وہ۔۔۔۔وہ کرتی رہتی ہو۔۔۔۔بچپن سے مبتلا ہو اٹکنے کی بیماری میں یا پھر میرے سامنے ہی یہ دورا پڑتا ہےہیر اسے مخاطب کر کے سمجھ نہیں پارہی تھی کہ کیا اور کیسے کہے۔۔۔بولو اب۔۔۔۔۔منہ سئیے کیوں کھڑی ہو۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا چڑ کر بولامیں۔۔۔۔میں کمرے سے باہر نکل سکتی ہوں کیا۔۔۔۔؟؟؟وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتی بمشکل بات مکمل کر پائیکیوں پہلے نہیں نکلتی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟یشب نے تیوری چڑھائینن۔۔۔۔نہیں۔۔۔وہ۔۔۔صبح آپ۔۔۔آپ کا ناشتہ بنانے جاتی ہوں۔۔۔۔۔وہ ڈرتے ہوئے بولیہوں۔۔۔چلی جاؤ مگر اورسمارٹ بننے کی کوشش مت کرنا سمجھیجی اچھا۔۔۔۔۔۔۔ہیر نے زور زور سے اثبات میں سر ہلایایشب رضامندی دے کر کمرے سے نکل گیاہیر نے تشکرانہ سانس خارج کی چلو قید خانے سے تو رہائی ملی۔۔۔۔۔وہ جب یشب کا ناشتہ بنانے جاتی تھی تو نیچے کوئی بھی نہ ہوتا اور اسکی ملاقات کسی سے بھی نہ ہو پاتی اس لیے وہ آج مکمل رہائی ملنے پر خوش تھی اتنے دن کے بعد ہیر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تھی…………………….…………………..….…….………بیٹھو۔۔۔۔۔بابا جان نے یشب کو اپنے سامنے رکھی چئیر پر بیٹھنے کو کہاجی بابا جان آپ نے بلوایا تھا۔۔۔۔۔؟؟ہاں۔۔۔۔۔یشب آج دلاور خان نے اپنا بندہ بھجوایا تھاکس سلسلے میں۔۔۔۔؟؟حسب معمول یشب کی تیوری چڑھیوہ لوگ ہیر سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔۔مگر میں ایسا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔دوٹوک جواب آیایشب وہ بیٹی ہے انکی۔۔۔۔۔۔مگر اب میرے نکاح میں ہے۔۔میں اجازت دوں ملنے کی یا نہ دوں یہ میری مرضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچی کو ماں ، باپ سے الگ کر کے کیا مل رہا ہے تمہیں۔۔۔۔۔اس اذیت سے گزر چکے ہو تم بھی کہ جب جان سے عزیز چیز دور ہو جاتی ہے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔بابا جان نے قائل کرنا چاہااسی تکلیف کا مزا چکھانا چاہتا ہوں ان کو بھی تو پتہ چلنا چاہیے اس تکلیف کا۔۔۔۔۔ایک ، آدھ بار ملوا دو۔۔۔۔کوئی حرج نہیں یشب۔۔۔۔نہیں بابا جان ہر گز نہیں۔۔۔۔اگر انہیں بیٹی سے ملنے کی اتنی خواہش ہے تو پھر تیار رہیں میں ڈیڈ باڈی پہنچا دوں گا وہاں مگر زندہ سلامت بلکل نہیں۔۔۔۔۔یشب کچھ خوف خدا کرو۔۔۔۔کیوں دشمنی کو ہوا دے رہے ہودشمنی کی ابتداء انکی طرف سے ہوئی تھی اور اختتام میں کروں گا۔۔۔۔وہ بھی یشب تھا اپنی بات پر ڈٹا رہااگر میں تمہاری مرضی کے بغیر ملنے کی اجازت دے دوں تو۔۔۔۔۔۔۔؟؟بابا جان نے سوالیہ نظریں اٹھائیںتو میں دو کام کروں گا۔۔۔۔۔پہلا ہیر کو طلاق دوں گا اور دوسرا شمس خان کا قتل کروں گا اور میں ایسا کر بھی سکتا ہوں بابا جان آپ سے بہتر مجھے کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔یہ خون خرابے سے میں صرف آپکی وجہ سے رکا ہوا ہوں ورنہ بندہ مارنا یا مروانا کونسا مشکل کام ہے۔۔۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولاتم ایسا کچھ نہیں کرو گے یشب کیونکہ تم خاقان آفریدی کے بیٹے ہو۔۔۔۔وہ خاقان آفریدی جس نے بہت مشکلوں سے برسوں پرانی خونی دشمنیوں کو دوستی میں بدلا تھا۔۔۔۔۔۔بلکل بابا جان میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔۔۔پر اگر مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تو شاید کچھ کر بیٹھوں۔۔۔۔۔۔وہ آگاہ کرتا کمرے سے چلا گیاباباجان نے ایک ملامتی نظر اسکی پشت پر ڈالی نہ جانے کس پر چلا گیا ہے یہ۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ سر جھٹکتے بڑبڑائے………………………………………………………………ہیر یشب کے جانے کے بعد فورا اپنی شال درست کرتی کمرے سے نکلی۔۔۔۔۔وہ سیڑھیاں اتر رہی تھی جب مہرو کی نظر اس پر پڑیارے ہیر۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔وہ حیران ہوئیجی۔۔۔۔اسلام وعلیکم۔۔۔۔وعلیکم السلام۔۔۔۔۔یشب نے باہر آنے کی اجازت دے دی۔۔۔۔؟؟جی۔۔۔۔۔ہیر نے ہاں میں سر ہلایایہ تو اچھی بات ہے۔۔۔آؤ۔۔۔۔وہاں کیوں رک گئیبھابھی اگر کوئی کام ہو تو بتا دیں میں کر دیتی ہوں۔۔۔۔۔وہ سادگی سے بولیارے نہیں۔۔۔۔کام کو ہزاروں ملازم ہیں یہاں۔۔۔۔تم آ کر بیٹھو۔۔۔۔کچھ باتیں ہی کر لیتے ہیں۔۔۔۔مہرو نے خوشدلی سے کہاہیر اسکی بڑائی کی دل سے مشکور تھی کہ اس نے اپنے شوہر کے قاتل کی بہن کو قصور وار ٹہرا کر ذرا بھی برا سلوک نہیں کیا تھاہیر آ کر مہرو کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھیبتاؤ۔۔۔۔کیا کھاؤ گی۔۔۔۔۔ارے نہیں بھابھی کچھ بھی نہیں۔۔۔۔شرماؤ مت۔۔۔۔۔میں یشب نہیں ہوں۔۔۔۔مہرو نے اسے شرماتے دیکھ کر چھیڑایشب کے ذکر پر ہیر کی کھلتی مسکراہٹ فورا سمٹ گئی۔۔۔۔جسے مہرو نے نوٹ کیاوقت بہت بڑا مرہم ثابت ہوتا ہے ہیر۔۔۔۔وقت کیساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔مجھے دیکھو یشار کے ساکت وجود کو دیکھ کر لگا تھا کہ اب جی نہیں پاؤں گی۔۔۔۔مر جاؤں گی۔۔۔مگر زندہ ہوں۔۔۔۔۔اور زندہ رہنا بھی چاہتی ہوں یشار کی نشانی کی خاطر۔۔۔اپنے حدید کی خاطر۔۔۔۔۔یہاں کے مکینوں کی خاطر جو مجھ پر جان چھڑکتے ہیں۔۔۔۔وقت کے ساتھ اوپر والا صبر بھی دے ہی دیتا ہے۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولیاسی طرح یشب کو بھی صبر آ جائے گا وقت کیساتھ اسکا غصہ بھی ٹھنڈا پڑ جائے گا مگر تب تک تمہیں بہت ہمت اور حوصلے سے کام لینا ہو گا۔۔۔۔وہ شروع سے ہی غصے کا تیز ہے۔۔۔۔۔یشار اور باباجان کے بلکل برعکس۔۔۔۔باباجان اور یشار بہت کم غصہ کرتے تھے اگر کبھی آ بھی جاتا تو کنٹرول کر لیتے مگر یشب۔۔۔۔۔۔وہ جب تک اپنا غصہ نکال نہیں لیتا تب تک چین سے نہیں بیٹھتا۔۔۔۔پر دل کا ہر گز برا نہیں ہے۔۔۔۔جب محبت کرنے پر آتا ہے تو جان چھڑکتا ہے۔۔۔۔۔۔پھر تم ہی تنگ پڑ جایا کرو گی اسکی محبتوں سے۔۔۔۔۔۔۔مہرو نے آخر میں بات کو مزاق کا رنگ دیاہیر سر جھکائے خاموشی سے مہرو کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔وہ جس روپ میں یشب آفریدی کو دیکھ چکی تھی اس کے بعد ایسا کوئی روپ یقینا عجیب و غریب ہی ہوتا۔۔۔۔۔تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟یشب کی آواز پر وہ اچھل کر کھڑی ہوئییشب کتنی دفعہ کہا ہے کم از کم گھر والوں سے تو آہستہ آواز میں بات کیا کرو۔۔۔۔مہرو نے ڈپٹے ہوئے کہاگھر والے۔۔۔۔۔اونہہتم چلو کمرے میں۔۔۔۔وہ ہیر سے مخاطب تھاابھی تو نکلی ہے تمہاری قید سے کچھ دیر تو آزادی فیل کرنے دو۔۔۔۔۔یشب نے شکایتی نظروں سے مہرو کو دیکھاسنا نہیں تمہیں۔۔۔۔۔وہ ہیر کو ہنوز کھڑے دیکھ کر چیخاہیر اسکی گرج پر الٹے قدموں پلٹی اور تخت پر بچھے کور کی نوک میں اڑ کر گرتی کہ یشب نے ہاتھ بڑھا کر بازو سے تھامایہ گول گول بنٹے کس لیے ہیں۔۔۔۔؟؟اس نے ہیر کی آنکھوں کے گرد انگلی گھما کر پوچھامہرو ہیر کی بیچاری سی شکل دیکھ کر مسکراہٹ روکتی ہال سے نکل گئیوہ۔۔۔وہ پاؤں۔۔۔۔اڑ گیا۔۔۔۔۔تو دیکھ کر چلا کرو ناں۔۔۔۔اوپر والے نے یہ بڑے بڑے ڈیلے دیکھنے کے لیے دیے ہیں۔۔۔۔اب جاؤ کمرے میں۔۔۔۔میں آ کر خبر لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔چاچو۔۔۔۔۔وہ حدید کی آواز پر پلٹاارے چاچو کی جان۔۔۔کہاں تھے صبح سے۔۔۔یشب نے اسے بازؤں میں بھر کر چٹاچٹ پیار کر ڈالاسکول۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔۔میں تو بھول ہی گیا کہ میرا شیر اب سکول جانے لگاچاچو۔۔۔۔۔یہ کون ہیں۔۔۔۔؟؟؟حدید نے وہاں کھڑی ہیر کی طرف اشارہ کیایہ۔۔۔۔یشب نے اسکے شال میں لپٹے وجود پر ترچھی نظر ڈالی اور آرام سے بولا۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔یہ چڑیل ہے۔۔۔۔”اے خوبصورت چڑیل” ہیر کے آس پاس ماضی کی سرگوشی ابھریچڑیل۔۔۔۔۔۔؟؟؟حدید نے تصدیق چاہییس۔۔۔۔۔چڑیلپر یہ تو بہت کیوٹ ہیں۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے بولاکہاں سے۔۔۔۔یشب اسکی بات پر محظوظ ہوتا مسکرایاہیر نے اس سڑیل کو اتنے دن میں پہلی دفعہ ہنستے دیکھا تھا۔۔۔۔اونہہ۔۔۔۔خود کیا ہے جن ، بھوت۔۔۔۔۔وہ کڑھتی ہوئی وہاں سے چلی آئیحدید بیٹا مولوی صاحب آ گئے ہیں چلو سیپارہ پڑھنے۔۔۔۔۔مہرو کی آواز پر وہ یشب کی گود سے اترااوکے چاچو۔۔۔۔۔میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔سی یو اگین۔۔۔۔۔ہاتھ کا مکا بنا کر پنچ مارنے کو آگے کیایشب نے آنکھوں میں آئے پانی کو اندر دھکیلا اور بمشکل مسکرا کر پنچ ماراسی یو اگین مائی چائلڈ۔۔۔۔۔۔حدید مسکراتا ، اچھلتا ہال سے نکل گیایشب نے خود کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے ایک افسردہ سی سانس لی اور بی بی جان کے روم کیطرف بڑھ گیا………………………………………………………………میں آ کر خبر لیتا ہوں۔۔۔۔میں آ کر خبر لیتا ہوں۔۔۔۔ہیر پیچھلے آدھے گھنٹے سے کمرے میں چکر کاٹتی یشب آفریدی کی بات دہرائے جا رہی تھیاب کیا ہو گیا ہے مجھ سے جو یشب خان نے ایسا کہا۔۔۔؟؟اوف۔۔۔۔۔یا میرے مالک۔۔۔۔۔۔مجھے اس ظالم انسان کی قید سے ہمیشہ کے لیے نجات عطا فرما۔۔۔۔آمینوہ با آواز بلند دعا کے کر جیسے ہی پلٹی پیچھے یشب آفریدی کو گھورتے پا کر جلدی سے نظریں جھکا گئیدل ہی دل میں وہ آیت الکرسی کا ورد کرتی یشب آفریدی کا غصہ ٹھنڈا ہونے کی دعا کر رہی تھیمجھ جیسے ظالم انسان کی قید سے رہائی چاہتی ہو۔۔۔۔۔وہ بولتا ہوا پاس آیاہیر نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر ہونٹ تر کیے اور آہستگی سے نفی میں سر ہلا دیاابھی دعا مانگ رہی تھی تم۔۔۔۔۔؟؟نن۔۔۔۔۔نہیں وہ۔۔۔۔۔وہ میں۔۔۔۔۔کتنی دفعہ کہا ہے میرے سامنے بات صاف اور سیدھی کیا کرو۔۔۔۔ ہر بات اٹک کر کرنا ضروری ہے کیا۔۔۔؟؟سس۔۔۔سوری۔۔۔۔۔۔ہیر سر جھکا کر منمنائیہوں۔۔۔۔۔۔تمہارے والد محترم کا پیغام آیا تھا آج۔۔۔تم سے ملنا چاہتے ہیں وہ لوگ۔۔۔۔۔ یشب نے جیکٹ اتارتے ہوئے اطلاع دیبابا ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ہیر درمیانی فاصلہ عبور کرتی یشب کے بلکل قریب آئییشب نے ایک ناگوار نگاہ ڈالتے ہوئے گھڑی سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور واش روم کیطرف بڑھ گیاہیر بے چینی سے اسکی پشت کو دیکھتی رہ گئیبات تو پوری بتا دیتے۔۔۔۔کیا جواب دیا پھر۔۔؟؟بابا۔۔۔۔اماں کاش کے میں آپ لوگوں سے مل پاؤں۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی یشب کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگیپندرہ ، بیس منٹ بعد یشب نہا کر بال رگڑتا باہر نکلاہیر نے اسے دیکھ کر جھرجھری لی اتنی سردی میں بھی نہانا نہیں چھوڑتا۔۔۔کیا ہے ایسے کیوں گھور رہی ہو۔۔۔یشب نے اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتے پا کر پوچھاوہ۔۔۔وہ خان آپ۔۔۔۔آپ نے بابا کو کیا جواب دیا پھر۔۔۔۔وہ ہچکچاتی ہوئی بولیتمہارے خیال میں مجھے کیا کہنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔یشب نے ابرو اٹھائےجو۔۔۔جو بھی آپکی مرضی ہو۔۔۔۔۔میری مرضی تمہیں قبول ہو گی۔۔۔؟؟جج۔۔۔۔۔جی۔۔۔تو پھر ٹینشن کس بات کی ہے۔۔۔۔جب میری ہی مرضی پر چلنا ہے تو۔۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ نے منع کر دیا۔۔۔؟؟ایگزیٹلی۔۔۔۔۔۔۔اب جاؤ اور میرے لیے چائے لے کر آؤ۔۔۔وہ حکم دیتا سیل پر بزی ہو گیاجی۔۔۔۔۔ہیر مایوس سی سر ہلاتی چائے لانے چلی گئی………………………………………………………………دن تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔۔۔۔کتنے ڈھیر سارے دن بیت گئے تھے ہیر کو وہاں آئے۔۔۔۔اب تو اس نے حساب رکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔زندگی یشب خان کے بتائے اصولوں کے مطابق اچھی یا بری بسر ہو ہی رہی تھی۔۔۔۔۔۔یشب نے ہیر کو اسکی فیملی سے ملنے کی اجازت نہیں دی تھی۔۔۔۔۔بابا جان نے بھی دوبارہ اس ٹاپک پر یشب سے کوئی بات نہیں کی۔۔۔ہیر بھی وقت کیساتھ کافی سے زیادہ ایڈجسٹ ہو گئی تھی۔۔۔ اور اسکی ایڈجسمنٹ میں زیادہ ہاتھ مہرو کا تھا۔۔۔۔ہیر کی مہرو سے کافی دوستی ہو گئی تھیمہرو بھی اکیلی تھی اسے بھی کسی دوست کی ضرورت تھی اس لیے وہ بھی دل میں بغز رکھے بغیر ہیر سے مل جل گئی تھی۔۔یشب کو یہ دوستی کافی کھلتی تھی۔۔۔اور اسکا غصہ وہ بند کمرے میں ہیر کو اپنی طنزیہ باتوں سے ٹارچڑ کر کے نکال لیتا تھا۔۔۔ہیر بھی اب پہلے کی طرح یشب کے غصے سے نہ تو ڈرتی تھی اور نہ ہی روتی تھی۔۔۔۔۔وقت کیساتھ وہ بھی عادی ہو چکی تھی یشب کے اس رویے کی اس لیے چپ چاپ سر جھکا کر اسکی کڑوی کسیلی باتوں کو صبر سے اندر اتار لیتی۔۔۔۔۔مہرو کی عدت کب کی ختم ہو چکی تھی مگر وہ حدید کے سکول کیوجہ سے رکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔جیسے ہی حدید کے ایگزیمز ختم ہوئے تو وہ حدید کو لیے اپنے گھر والوں سے ملنے چلی گئی۔۔۔۔بی بی جان زیادہ وقت اپنے کمرے میں عبادت میں مصروف رہتیں۔۔۔۔۔۔بابا جان مردان خانے میں۔۔۔۔اور یشب ڈیرے اور زمینوں پر کبھی دو ، چار دن کے لیے پشاور چلا جاتا۔۔مہرو کو بھی گئے کئی دن ہو گئے تھے مگر ابھی تک واپسی کا کوئی ارادہ نہ تھا۔۔۔ہیر سارا وقت بولائی بولائی سی رہتی پہلے مہرو کیساتھ اچھا خاصہ وقت گزر جاتا تھا اور اب وہ فارغ رہ رہ کر اکتا چکی تھی ۔۔۔۔اوپر سے گھر والے بھی بہت یاد آ رہے تھے آجکل۔۔۔۔عجیب سی کسلمندی چھائی ہوئی تھی طبیعت پر۔۔۔۔۔اب بھی وہ ٹیرس پر بیٹھی۔۔۔۔۔اپنے بابا۔۔۔اماں اور لالہ کو ہی یاد کر رہی تھی جب یشب کی پراڈو کا ہارن بجا۔۔۔وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے کی طرف چلی گئی۔۔۔یشب کمرے میں داخل ہوا تو ہیر کو کبڈ میں گھسے پایاکیا کر رہی ہو۔۔۔۔کتنی دفعہ کہا ہے میری چیزوں میں مت گھسا کرو مگر تم وقت کیساتھ ساتھ ڈھیٹ ہوتی جا رہی ہو جس پر میری کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔وہ دروازے کے پاس ہی کھڑے ہو کر غصے سے بولاآپ بھی ہر وقت مجھ پر غصہ کر کر کے تھکتے نہیں ہیں کیا۔۔۔؟؟یشب کا گھڑی اتارتا ہاتھ اسکی دلیری پر ایک لمحے کو ساکت ہوا اور پھر وہ درمیانی فاصلہ مٹاتا اس تک آیاکیا بکواس کی ہے ابھی۔۔۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔۔۔ہیر لاپرواہی سے بولیکچھ نہیں۔۔۔۔وہ اسکا بازو جکڑتا خود کے قریب لایاخود کو اس قابل سمجھتی ہو کے یشب آفریدی تم سے۔۔۔۔ایک خونی کی بہن سے نرمی برتے۔۔۔۔وہ استہزایا ہنساجب یشب آفریدی رات کے اندھیرے میں ایک خونی کی بہن کو نرمی برتتے ہوئے سینے سے لگا سکتا ہے تو پھر دن کے اجالے میں کیوں نہیں۔۔۔۔ہیر بازو چھڑواتے طنزیہ بولییشب نے اسکی بات پر غصے سے سرخ پڑتے ایک زوردار ٹھپڑ اسکی گال پر جڑاکیا سمجھتی ہو خود کو۔۔۔۔۔۔بولو۔۔۔کیا سمجھتی ہو ۔۔۔۔۔۔؟؟؟پہلے تو کچھ نہیں سمجھتی تھی یشب خان مگر اب بہت کچھ سمجھنے لگی ہوں۔۔۔وہ نم آنکھوں سے بولی۔۔۔۔۔جب سے آپ نے مجھے چھوا۔۔۔بسسس۔۔۔۔۔اس سے آگے ایک لفظ نہیں۔۔۔یشب ہاتھ اٹھاتے دھاڑاکیوں نہیں۔۔۔۔؟؟ہیر دو قدم پیچھے ہٹی اب اپنی بزدلی کی داستان بھی تو سنئیے۔۔۔۔۔خود کو بہت مہان سمجھتے تھے ناں آپ۔۔۔کیا ہیں آپ۔۔۔۔؟؟؟وہ استہزائیہ کہتی مزید پیچھے ہوئی۔۔۔ ذرا سے لمحے میں کمزور پڑ جانے والے مرد۔۔۔۔۔۔میرا وجود اچھوت تھا ناں آپ کے لیے اسی لیے تو اتنی سردی میں مجھے زمین پر سلاتے تھے اور خود اس نرم گرم بستر پر مزے لے کر سوتے تھے۔۔۔۔مجھے خونی کی بہن۔۔۔۔کتے کی بہن اور ناجانے کن کن القابات سے مخاطب کرتے تھے۔۔۔اور اب۔۔۔۔وہ رکیاب۔۔۔۔۔جیسے بھی سہی آپ مجھے اپنی بیوی کا درجہ دے چکے ہیں یشب۔۔۔۔خان۔۔۔۔۔آفریدی۔۔۔۔۔اور نا صرف بیوی کا بلکہ اپنے بچے کی ماں کا بھی۔۔۔۔۔۔یہ ہے آپکی اصلیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بے خوفی سے یشب کی آنکھوں میں دیکھتی چلائییشب اپنی سرخ انگارہ آنکھیں ہیر کے بےخوف چہرے پر گاڑے ساکت سا کھڑا تھا

چھ سال قبل 👉👉👉آج صبح سے ہی موسم کافی ابرآلود تھا۔۔۔۔سردیاں جا رہیں تھیں اور گرمیوں کی آمد تھی۔۔۔۔پہاڑی علاقوں میں ان دنوں محسوس کرنے والوں کو ایک عجیب سا پرسوز لطف محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔یہی پرسوز لطف ہیر کو بہت اٹریکٹ کرتا تھاآج بھی وہ اماں سے اجازت لے کر اسی لطف کا مزا لینے حویلی کے پیچھلے باغ میں آئی تھی۔۔۔۔پورے باغ میں اچھی طرح گھوم پھر کر وہ چپکے سے پگڈنڈی پر چلتی ٹھنڈے پانی کی جھیل کیطرف بڑھی جو حویلی کی پچھواڑ میں بیس منٹ کے پیدل فاصلے پر موجود تھیوہ منہ ڈھانپے ادھر أدھر دیکھتی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔دل میں ایک خوف بھی تھا کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے۔۔۔۔ گھر سے تو باغ تک جانے کی اجازت لے کر نکلی تھی مگر اب وہ کافی آگے جھیل تک جا رہی تھی۔۔۔۔جہاں اکیلے جانے سے اماں اور شمس لالہ نے سختی سے منع کیا ہوا تھاہیر نے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر چاروں طرف ایک چور نگاہ گھمائی اور کسی کی بھی موجودگی نہ پا کر چادر کے پلو کو پیچھے کھسکا کر منہ باہر نکالا آرام دہ حالت میں پتھر پر بیٹھ کر پاؤں جوتے سے آزاد کیے اور ٹھنڈے ٹھار پانی میں ڈبو دیے۔۔۔۔اوئی ماں۔۔۔۔۔اسکے منہ سے چیخ بلند ہوئیاپنی چیخ پر وہ خود ہی ڈرتی کھلکھلا کر ہنسی۔۔۔تو پھر ہنستی ہی چلی گئیکچھ فاصلے پر لیٹے یشب آفریدی نے سر اونچا کر کے دائیں جانب دیکھا جہاں کالے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس خوبصورت سی چڑیل قہقہے لگانے میں مصروف تھیاز شی میڈ۔۔۔۔؟؟وہ پتھر سے ٹیک لگاتا اٹھ بیٹھاکہیں واقعی چڑیل تو نہیں۔۔۔۔۔۔اپنی سوچ پر مسکراتا وہ اٹھ کھڑا ہواچلو یشب آفریدی آج تمہیں لائیو ایک چڑیل سے ملنے کا موقع ملا ہے۔۔۔۔گو اینڈ انجوائے۔۔۔۔وہ ہاتھ جھاڑتا اسطرف چل پڑاہیر اردگرد کی پرواہ کیے بغیر اپنی ہنسی روک کر اب مختلف آوازیں نکالنے میں بزی تھی۔۔۔۔یہ بچپن سے اسکا محبوب مشغلہ تھا جب پہاڑوں میں اسکی آواز گونج کر واپس پلٹتی تو وہ اپنی ہی آواز کو سن کر انجوائے کرتی۔۔۔۔۔اب بھی وہ ایسا ہی کر رہی تھی جبآآآہہہہہہہمممم۔۔۔۔۔کی آواز پر اسکی توجہ ہٹیہیر نے پلٹنے سے پہلے چادر کھینچ کر منہ چھپایا اور پیچھے کو مڑیاپنے سامنے ہیرو نما ینگ سے لڑکے کو دیکھ کر وہ پلکیں جھپکائے بغیر یک ٹک اسے دیکھنے لگیجو بلیو جینز پر بلیک ہائی نیک پہنے،، ہلکے بھورے بالوں کو جیل سے سیٹ کیے۔۔۔ببل چباتا ہوا۔۔۔۔آنکھوں کو بھینچے اسے مشکوک انداز میں گھورتا۔۔۔۔کسی انگریزی فلم کا ہیرو ہی لگ رہا تھایشب اسکے مسلسل تکنے سے ہلکا سا کنفیوز ہوتا۔۔۔کھنکارا۔۔۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔؟؟؟وہ صرف ہیر کی کاجل لگی بڑی بڑی آنکھوں کو ہی دیکھ سکتا تھا باقی چہرہ وہ پیچھے مڑنے سے پہلے چھپا چکی تھی۔۔تم۔۔۔۔تم بتاؤ۔۔۔تم کون ہو۔۔۔۔؟؟ہیر پلکیں جھپکاتی اپنا حوصلہ بحال کر کے بولیمیں۔۔۔۔یشب نے انگلی سے اپنی طرف اشارہ کیاہاں۔۔۔۔تم۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔یشب۔۔۔۔خان۔۔۔۔آفریدی۔۔۔۔یشب ٹہر ٹہر کر بولااور میں۔۔۔۔ہیر۔۔۔۔دلاور۔۔۔۔خان۔۔۔۔ہیر بھی اسی کے انداز میں بولیہیر۔۔۔۔۔یہ کیسا نام ہےیشب۔۔۔۔۔کتنا عجیب سا نام ہے۔۔۔ہیر نے چادر کے اندر ہی منہ بگاڑایشب اسکے کانفیڈینس کی داد دیتا مسکرا اٹھامیں نے جوک نہیں سنایا تمہیں۔۔۔ہیر نے اسکی خوبصورت مسکراہٹ پر چوٹ کیتو سنا دو۔۔۔۔وہ ببل کا پٹاخا پھوڑتے بولامجھے شوق نہیں اجنبی غنڈوں سے فری ہونے کا۔۔۔۔پر مجھے شوق ہے اجنبی چڑیلوں سے فری ہونے کا۔۔۔۔تم۔۔۔۔تم نے مجھے چڑیل کہاتم نے بھی مجھے غنڈا کہاوہ تو تم ہو۔۔۔۔۔تم بھی تو ہو۔۔۔۔مگر خوبصورت چڑیل۔۔۔یشب نے مسکراہٹ دبا کر کہاارے کسقدر بے شرم ہو تم۔۔۔۔مجھے اکیلی سمجھ کر لائن مار رہے ہوکیوں تم پر لائن مارنا ممنوع ہے کیا۔۔۔؟؟وہ دوبدو بولایشب خان آفریدی۔۔۔۔اپنی حد میں رہو۔۔۔ہیر نے دانت کچکچائےہیر دلاور خان۔۔۔۔۔کیا آپ میری حدود بتا سکتی ہیںہٹو میرے راستے سے۔۔۔۔وہ جوتا پہنتی جانے کو تیار ہوئیکہاں جا رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟تم سے مطلب۔۔۔۔مطلب ہے تو پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔مجھے تمہارے مطلب سے کچھ لینا دینا نہیں۔۔۔۔میرا راستہ چھوڑومیں نے کب روکا ہے۔۔۔۔یشب نے کندھے اچکائےسامنے سے ہٹو گے تو میں گزر پاؤں گی۔۔۔وہ غصے میں چڑ کر بولیلی جئیے جناب۔۔۔۔یشب مسکراہٹ روکتا سر خم کرتا پیچھے ہٹاہیر نے اس پر غصیلی گھوری ڈالی اور سائیڈ سے ہو کر گزر گئیپھر کب ملو گی۔۔۔۔”اے خوبصورت چڑیل”۔۔۔۔ہیر کے تھوڑا آگے گزر جانے پر یشب نے پلٹ کر بلند آواز میں پوچھاجہنم میں۔۔۔۔تم وہاں بھی جاتی ہو۔۔۔۔۔وہ محظوظ ہوتا فورا بولانہیں۔۔۔۔۔تمہیں بائے بائے کرنے ضرور آؤں گی۔۔۔۔یشب کا چھت پھاڑ قہقہ بلند ہوااونہہ۔۔۔۔بدتمیز انسان۔۔۔۔ہنستے ہوئے بھی قیامت لگتا ہے۔۔۔۔لاحول ولا۔۔۔۔۔وہ اپنی سوچ پر توبہ کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی آگے بڑھ گئییشب ہونٹوں پر دلکش سی مسکراہٹ سجائے تب تک اسے دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئییہ تھی۔۔۔۔۔۔۔ہیر دلاور خان اور یشب خان آفریدی کی پہلی unexpected ملاقات۔۔۔…………………………………………………………یشب اس روز تو خود کو ڈپٹ کر واپس لے آیا تھا مگر دل پھر سے وہاں جانے کو بے چین تھا ہو سکتا ہے وہ دوبارہ وہاں آئے۔۔۔۔یا پھر آئی ہو۔۔۔۔مجھے وہاں جانا چاہیے تھا۔۔۔بلاوجہ دو دن صرف اس خوبصورت چڑیل کو سوچ کر ہی ضائع کیے۔۔۔وہ مسکرایایس مجھے وہاں جانا چاہیے ہو سکتا ہے پھر سے دیدار ہی ہو جائے۔۔۔۔۔وہ خیالوں میں گم تھا جب مہرو کی آواز اسے حقیقت میں کھینچ لائیارے یشب کن سوچوں میں مگن ہو بھئی دو دن سے نوٹ کر رہی ہوں کھوئے کھوئے سے ہو۔۔۔کہیں کسی پری کا سایہ تو نہیں ہو گیا۔۔۔۔مہرو چھیڑتی ہوئی سامنے پڑے تخت پر بیٹھیارے کہاں ڈئیر بھابھی۔۔۔۔۔ہمارے ایسے نصیب کہاں کہ کسی پری کا سایہ ہو ہاں البتہ چڑیل کا سایہ ضرور ہو سکتا ہے۔۔۔وہ مسکراہٹ دبا کر بولاکون ہے چڑیل۔۔۔۔؟؟؟جانے دیں بھابھی مزاق کر رہا تھایشب مکرو مت میں جان چکی ہوں کوئی ہے اور آجکل میں ہی ملی ہے تمہیں۔۔۔تمہاری حالت سے میں پہلے ہی مشکوک ہو گئی تھی اور اب تم اپنی ہی بات میں پھنس چکے ہو اس لیے شرافت سے بتاؤ کون ہے۔۔۔۔ارے بھابھی سچ میں کوئی نہیں۔۔۔یشب نے زوروشور سے نفی میں سر ہلایامت بتاؤ۔۔۔۔میں یشار کے تھرو پتا کروا لوں گی۔۔۔۔۔مہرو نے دھمکی دیغضب خدا کا بھابھو۔۔لالہ کو مت بتائیے گا کچھ بھی۔۔۔تو پھر سیدھی طرح لائن پر آؤبتایا تو ہے چڑیل ہے۔۔۔۔وہ مہرو کی چالاکی پر چڑ کر بولاکہاں ملی یہ چڑیل۔۔۔۔؟؟؟جھیل والی سائیڈ پر۔۔۔۔ہمارے گاؤں کی ہے۔۔۔؟؟نہیں ساتھ والے۔۔۔۔تمہیں کیسے پتا کہ وہ ساتھ والے گاؤں کی ہے۔۔۔۔وہ مشکوک ہوئیہمارے گاؤں کی لڑکیاں اتنی بہادر نہیں ہیں کہ اکیلے اتنی دور جا سکیںمطلب کافی سے زیادہ ایمپریس ہو چکے ہو۔۔۔نہیں مزید دو ، چار ملاقاتوں میں ہو سکتا ہے کافی سے زیادہ ایمپریس ہو جاؤں۔۔۔وہ سر کھجاتا سیدھا ہو کر بیٹھابہت بدتمیز ہو یشب۔۔۔۔۔کہیں پہلی ہی ملاقات میں اس سے اگلی بار ملنے کا وعدہ تو نہیں لے آئے۔۔۔پوچھا تو تھا کے کب ملو گی دوبارہ مگر۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔؟؟؟مگر کافی نک چڑی سی تھی۔۔۔۔۔یشب برا سا منہ بنا کر بولادیکھنے میں کیسی تھی۔۔۔۔مہرو ایکسائیٹڈ ہوئیپتہ نہیں۔۔۔۔۔پتہ نہیں مطلب۔۔۔۔۔؟؟؟پتہ نہیں مطلب۔۔۔۔میں اس کو دیکھ نہیں پایااوووففف۔۔۔۔یشب تم پاگل ہو چکے ہو یا پھر مجھے کرو گےخود ہی تو پوچھا تھا۔۔۔۔وہ چڑاارے ڈفر۔۔۔۔جب دیکھا نہیں تو اچھی کیسے لگ گئیتو یوں پوچھیں ناں۔۔۔۔۔ایکوئچلی بھابھو۔۔۔وہ۔۔۔وہ ناں۔۔۔۔یشب مہرو کے دوپٹے کو انگلی پر لپیٹتا شرمانے کی ایکٹینگ کرنے لگایشب۔۔۔مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑایشب ہنستا ہوا کھڑا ہواآج کے لیے اتنا ہی BBC News۔۔۔وہ آنکھ دبا کر چھیڑتا ہال سے نکل گیایشب۔۔۔۔یشب رکو۔۔۔رکو تو بدتمیز انسان۔۔۔سسپینس پھیلا کر کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔مہرو جلدی سے سامنے آئیقسم سے بھابھی آپکی شکل پر۔۔۔۔چھوڑو میری شکل میں جانتی ہوں بہت پیاری ہے۔۔۔۔اب مجھے پوری بات بتاؤماشا ء اللہ کیا خوش فہمی ہے آپکی۔۔۔کب سے ہے ویسے یہ خوش فہمی۔۔۔یشب نے ہونٹوں پر انگلی رکھییشششببببب۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔۔اوکے ریلکیس۔۔۔۔۔۔پہلے لمبے لمبے سانس لے کر خود کی شکل پر بجے بارہ کو دس پر لائیں پھر بتاتا ہوں۔۔۔۔یشب تم۔۔۔۔۔مہرو نے پاس پڑا گلدان اٹھایااوہ نو ڈئیر بھابھی ریلیکس آئی ایم جسٹ جوکنگ۔۔۔۔۔وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا پیچھے ہوافضول میں گھماؤ مت سمجھے۔۔۔۔۔پوری بات سن کر ہی جان چھوڑوں گی تمہاری۔۔۔۔بھابھی آئی سوئیر میں ساری بات اے ٹو زی بتاؤں گا مگر ابھی مجھے جانے دیں میں لیٹ ہو رہا ہوں۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا بولا۔۔ہو سکتا ہے وہ میرا وہاں انتظار کر رہی ہو۔۔۔۔پھر آ کر دوسری ملاقات کی بھی ساری باتیں آپ کو سناؤں گا ڈن۔۔۔۔۔۔اب پلیز جانے دیںاوکے جاؤ۔۔۔۔مگر چھوڑنے والی نہیں میں اگلوا کر ہی دم لوں گی۔۔۔۔۔مجھے آپ کے ٹیلنٹ پر کوئی شک نہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دبا کر چھیڑتا باہر بھاگ گیابدتمیز انسان۔۔۔۔۔مہرو اسکی بات سمجھ کر مسکرا دی …………………………………………….…………….یشب خان آفریدی۔۔۔۔۔ہیر اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی اسے ہی سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔یقینا ساتھ والے گاؤں کا ہی ہو گا کیونکہ آفریدی قبیلے کے لوگ ساتھ والے گاؤں میں ہی رہتے ہیںاوف کتنا ڈیشنگ تھا کمینا اور بدتمیز بھی اتنا ہی۔۔۔۔وہ سوچ کر مسکرا دیمجھے خوبصورت چڑیل کہہ رہا تھا۔۔۔۔ڈفر۔۔۔۔پتہ نہیں دوبارہ دیکھ پاؤں گی اسے کے نہیں۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئیپر میں اسے دوبارہ دیکھنا کیوں چاہتی ہوں۔۔۔۔وہ حیرانگی سے خود سے پوچھ رہی تھیکہیں میرے دل میں۔۔۔۔ارے نہیں ہیر۔۔۔۔پہلی ہی ملاقات میں ایسا کیسے ہو سکتا بھلا۔۔۔۔نہیں میں ایسی نہیں ہوں اور نہ ہی ایسا سوچ سکتی ہوں۔۔۔۔۔اسنے خود کو مطمعین کیالیکن اگر واقعی ایسا ہوا تو۔۔۔۔۔؟؟؟ چند منٹ کے وقفے سے اسکے دل نے پھر سے اس سے سوال کیانن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔نہیں ہیر ایسا کچھ مت کرنا یہ دل کے معاملے بہت مشکل ہوتے ہیں۔۔۔۔تم ایک اچھی لڑکی ہو اور اچھی لڑکیاں کبھی کسی نامحرم کو دل میں جگہ نہیں دیتیں ہیں۔۔۔۔اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ اس معاملے سے دور رہو۔۔۔۔اور یشب خان آفریدی کو ایک اچھی یاد سمجھ کر بھول جاؤ اس سے پہلے کے تم اتنی آگے بڑھ جاؤ کہ تمہارے لیے واپسی ناممکن ہو جائے۔۔۔۔اس کے ضمیر نے اسے بہترین مشورہ دیاہیر بی بی۔۔۔۔۔۔ہیر رحیمہ کی آواز پر چونک کر مڑی ۔۔۔رحیمہ کتنی دفعہ کہا ہے کہ دروازہ ناک کر کے آ یا کرو۔۔۔۔وہ ناگواری سے بولیمعاف کر دیں ہیر بی بی بھول گئی میں۔۔۔۔رحیمہ نے سر پر ہاتھ مارااچھا بتاؤ کیوں آئی ہو۔۔۔۔۔وہ جی۔۔۔۔۔آپ کو بڑے خان سائیں بلا رہے ہیںمیں آتی ہوں تم جاؤ۔۔۔جی۔۔۔۔۔وہ سر ہلاتی چلائی گئیہیر نے ایک لمبی سی سانس خارج کر کے خود کو یشب آفریدی کی سوچوں سے آزاد کیا اور ہلکی پھلکی ہو کر بابا کی بات سننے چل دی……………………………………………..………یشب تم نے بتایا ہی نہیں مجھے دوبارہ اپنی اس خوبصورت چڑیل کے بارے میں۔۔۔۔مہرو نے اس کے کپڑے پیک کرتے ہوئے پوچھاکون سی خوبصورت چڑیل بھرجائی۔۔۔۔؟؟؟ یشب نے چلغوزہ منہ میں رکھ کر حیرانگی سے پوچھازیادہ انجان بننے کی ایکٹنگ مت کرو۔۔۔۔تمہاری سبھی چلاکیوں کو سمجھتی ہوں میںسمجھتی ہیں تو پوچھ کیوں رہی ہیں۔۔۔۔؟؟یشب۔۔۔تنگ مت کرو بتا دو اب۔۔۔ پھر ایک سال بعد روبرو ملاقات ہو گی ہماری۔۔۔ہو سکتا ہے تمہارے بتا دینے پر میں تب تک تمہاری راہیں ہموار کر سکوں۔۔۔۔۔گریٹ۔۔۔۔بھابھی ہو تو آپ جیسی۔۔۔۔یشب نے بیڈ پر لیٹے لیٹے مہرو کی بلائیں لیںبہت مسخرے ہو۔۔۔۔وہ مسکرائیتھینکس۔۔۔اب پوچھیں جو پوچھنا ہے۔۔۔۔؟؟ملی پھر دوبارہ۔۔۔۔؟؟نہیں۔۔۔۔۔۔تم گئے تھے وہاں جھیل پر۔۔۔۔؟؟کئی دفعہ۔۔۔بلکہ روز ہی جاتا ہوں مگر وہ دوبارہ وہاں نہیں آئی۔۔۔۔اوہ سیڈ۔۔۔۔۔مہرو افسوس کرتی یشب کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھیپھر اب کیسے پتہ چلے گا کہ اس کا نام کیا تھا اور وہ واقعی ساتھ والے گاؤں ہی کی تھی یا پھر کسی کے ہاں آئی مہمان تو نہیں۔۔۔۔مہرو نے خدشہ ظاہر کیایہ تو کنفرم ہے کہ وہ ساتھ والے گاؤں ہی کی تھی۔۔۔۔۔اور نام۔۔۔۔۔وہ رکامہرو نے مشکوک ہو کر آنکھیں سکیڑیںیشب اسکے ایکسپریشنز دیکھ کر مسکرایااس کا نام ہیر دلاور خان ہے۔۔۔۔ہیر دلاور خان۔۔۔۔واہ۔۔۔۔نام تو بہت یونیق ہےخود بھی یونیق ہی تھی۔۔۔وہ مسکرایاپر تم نے تو اسے دیکھا نہیں تھا ناں۔۔۔۔؟؟؟اوہ مائی ڈئیر BBC News ۔۔۔۔ میں نے اسکا چہرہ نہیں دیکھا تھا پر اسکی کاجل لگی بڑی بڑی نشیلی آنکھیں ضرور دیکھیں تھیں۔۔۔وہ آنکھ دبا کر بولاآہہہہہہممم مطلب۔۔۔۔۔مہرو مسکرائی ایگزیٹلی۔۔۔۔وہ بھی مسکرا کر اٹھ بیٹھاپر مجھے تم اتنے ہلکے لگتے نہیں تھے۔۔۔۔میں اتنا ہلکا ہوں بھی نہیں۔۔۔۔اچھا جی۔۔۔تو پھر ایک لڑکی کی صرف آنکھیں دیکھ کر ہی اس کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہو۔۔۔اور کہہ رہے ہو ہلکے نہیں۔۔۔مہرو نے مزاق اڑایاعشق میں تو نہیں کہہ سکتی آپ ہاں البتہ 100 میں سے 60 پرسنٹ کے چانسز لگ رہے ہیں وہ بھی فلحال صرف پسندیدگی کے ۔۔۔وہ آنکھ مارتا تسمے کس کر اسکی طرف آیااب آپ سے ایک ریکویسٹ ہے بھابھی۔۔۔۔ہوں بولو۔۔۔۔۔پلیز اب یہ خبر اپنے نیوز چینل پر نشر مت کیجئیے گا۔۔۔۔وہ چھیڑتا ہوا دروازے کیطرف بھاگابدتمیز۔۔۔۔مہرو نے دانت کچکچا کر پاس پڑا برش اسکیطرف پھینکا جسے وہ کیچ کر کے ٹیبل پر رکھتا سیٹی کی دھن پر جب سے تیرے نیناں۔۔۔۔۔میرے نینوں سے لاگے رے۔۔۔۔میں تو دیوانہ ہوا۔۔۔۔۔خود سے بیگانہ ہوا۔۔۔۔جگ بھی دیوانہ لاگے رے۔۔۔۔گنگناتا ہوا باہر نکل گیا………………………………………………………جی بابا آپ نے بلایا۔۔۔۔ہیر مسکراتی ہوئی دلاور خان کیساتھ آ کر بیٹھیہاں بابا کی جان۔۔۔۔ہم نے بلایاکیا کہنا تھا بابا۔۔۔۔؟؟تمارے لیے ایک اچھی خبر ہےکیسی خبر۔۔۔؟؟وہ ایکسائیٹڈ ہوئیمیری بیٹی کا ایڈمیشن ہو گیا ہے۔۔۔اوہ سچ۔۔۔۔ہیر اچھل کر کھڑی ہوئیبلکل سچ۔۔۔۔۔دلاور خان بیٹی کی خوشی پر مطمعین ہوئےاوف بابا۔۔۔۔آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔۔اور آپ کو پتہ ہے میں آپ سے بہہہہہہہہہہہہت بہت زیادہ محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔ہیر نے انکے سامنے ٹیبل پر بیٹھ کر بانہیں پھیلائیںجانتا ہوں سب۔۔۔۔۔۔وہ اسکی ناک کھینچ کر مسکرائےچلو پھر تیاری پکڑو۔۔۔۔اگلے ہفتے تمہیں جانا ہےپر بابا میں ہوسٹل میں آپ سب کے بغیر کیسے رہوں گی۔۔۔۔وہ اداس ہوئیاب اتنا تو کرنا ہی پڑے گا ناں۔۔۔۔یا پھر کینسل کروا دوں سب۔۔۔۔ارے اب ایسی بھی بات نہیں۔۔۔۔۔میں ہر ویک اینڈ پر حویلی آ جایا کروں گی کیسا۔۔۔۔؟؟بہت اچھا۔۔۔۔۔چلو اب اس خوشی کے موقعے پر اپنے بابا کی چائے سے تواضع کروضرور۔۔۔۔ناصرف چائے بلکہ آپ کا فیورٹ گاجر کا حلوہ بھی۔۔۔۔ارے واہ۔۔۔۔۔پھر تو جلدی کرو اس پہلے کہ تمہاری اماں کو خبر ہو۔۔۔۔وہ رازداری سے بولےہاہاہاہا۔۔۔۔جا رہی ہوں۔۔۔۔ہیر انکی رازداری پر ہنستی ہوئی کیچن کی طرف بڑھ گئی………………………………………………………یشب کل اسلام آباد جا رہا تھا اور وہاں سے اسے واپس لندن کے لیے فلائی کرنا تھا۔۔۔واپس جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سے دل میں دید کی امید جگائے جھیل پر جانا چاہتا تھا۔۔۔اپنی پیکنگ مکمل کرنے کے بعد وہ وہاں جانے کے لیے نکل پڑا۔۔………………………….……..……………………ہیر بی بی پیکنگ ہو گئی ہے۔۔۔۔۔اب میں جاؤں۔۔۔؟؟رحمیہ نے ہیر سے پوچھا جو کبڈ میں سر دیے کھڑی تھیہاں جاؤ۔۔۔۔۔جی اچھا۔۔۔۔۔رحیمہ سر ہلاتی چلی گئیہیر نے اسکے جانے کے بعد شال نکال کر اوڑھی اور چپکے سے باغ میں جانے کے لیے نکل کھڑی ہوئیباغ میں پہنچ کر اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور کسی کو بھی نہ پا کر دل میں چور لیے وہ جھیل کیطرف چل پڑی۔۔………………………………………..………………یشب نے مطلوبہ مقام پر پہنچ کر ادھر أدھر دیکھا اور مایوس ہو کر پتھر پر بیٹھ گیا۔۔۔۔وہ پتھر پر بیٹھا جھیل کے پانی میں کنکر پھینکنے لگا۔۔۔۔ہیر نے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر درخت کی اوٹ سے یشب کی پشت کو دیکھاارے یہ تو پہلے سے موجود ہے۔۔۔کہیں یہ میرا انتظار تو نہیں کر رہا۔۔۔۔۔؟؟واہ۔۔۔بھئی ہیر بی بی کیا خوش فہمی ہے تیری۔۔۔۔وہ اپنی سوچ پر مسکراتی آگے کو ہوئی کہ پیچھے سے پتھر لڑھک کر اسکے پاؤں پر گراہیر کی گھٹی گھٹی چیخ نے یشب آفریدی کے دونوں کان کھڑے کیےوہ پلٹا اور درخت کی اوٹ میں ہرے آنچل کو لہراتے دیکھ کر اسکی طرف بھاگ کھڑا ہوا

ہیر نے جیسے ہی یشب کو اپنی طرف آتے دیکھا وہ فورا واپسی کے لیے بھاگی۔۔۔۔ہیر لسن۔۔۔۔۔رکو بات سنو۔۔۔۔یشب چلاتا ہوا جب تک وہاں پہنچا وہ درختوں کے جھرمٹ میں گم ہو چکی تھی”اے خوبصورت چڑیل” وہ منہ کے گرد ہاتھوں کا گولا بنا کر پوری قوت سے چلایاایک بار۔۔۔۔دو بار۔۔۔۔کئی بار۔۔۔۔۔مگر ہیر وہاں ہوتی تو سنتیشٹ۔۔۔۔۔۔۔یشب نے درخت پر مکا جڑااور چند منٹ انتظار کے بعد مایوس سا واپس لوٹ گیا””چلو ہم مان لیتے ہیںتمہیں ہم کھو چکے لیکنتمہاری یاد اب تک بھیہمیں بے تاب رکھتی ہےہماری سانس اب تک بھی تمہاری آس رکھتی ہے””…………………………………………………ہیر نے اپنی دوڑ کو بریک حویلی میں آ کر لگائی تھیارے لڑکی کیا ہوا۔۔۔سانس کیوں پھولا ہوا ہے۔۔۔۔کہاں تھی تم۔۔۔۔۔۔؟؟خدیجہ نے ایک ساتھ اتنے سوال پوچھےپا۔۔۔۔پانی۔۔۔۔۔۔وہ بمشکل بول پائیرحیمہ پانی دو اسے۔۔۔۔۔رحمیہ بوتل کے جن کی طرح پانی لیے حاضر ہوئیہیر نے دل پر ہاتھ رکھا اور ایک ہی سانس میں پانی ختم کیاکہاں تھی۔۔۔۔۔خدیجہ نے کڑی نظروں سے ہیر کو دیکھاباغ میں۔۔۔۔۔وہاں ایسا کیا دیکھ لیا بی بی جی۔۔۔۔رحیمہ نے بتیسی نکال کر پوچھابھوت۔۔۔۔۔ہائے سچ میں ہیر بی بی بھوت تھا وہاں۔۔۔ہیر نے اسے ایک گھوری دی اور اٹھ کر اماں کے پاس آ بیٹھیکیا کرنے گئی تھی باغ میں وہ بھی بنا اجازت۔۔۔۔وہ خفا ہوئیںاماں کل ہوسٹل چلی جاؤں گی میں خفا مت ہوں۔۔۔۔بس دل چاہ ریا تھا اس لیے ٹہلنے کو گئی تھی۔۔۔۔اس نے نظریں چراتے ہوئے جھوٹ بولاہیر کبھی بھی کوئی بھی کام ماں باپ کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے ہیں کتنی دفعہ سمجھایا ہے تمہیں۔۔۔اچھا ناں اماں سوری آئندہ ایسا نہیں ہو گا سچ میں۔۔۔۔۔ہیر نے لاڈ سے انکے گلے میں بانہیں ڈالیںاچھا ٹھیک ہے جاؤ اپنی چچیوں سے مل آؤ۔۔۔پھر شکوہ کریں گیں کے تم مل کر نہیں گئیاوکے مسز دلاور خان جو حکم۔۔۔۔اس نے سر خم کرتے ماں کو چھیڑاچل جا مسخری نہ ہو تو۔۔۔۔وہ مسکرائیںہیر کھلکھلاتی ہوئی باہر نکلی کہ سامنے سے آتے شمس سے ٹکرا گئیکیا ہے لالہ دیکھ کر نہیں چل سکتے کیا۔۔۔وہ ناک پکڑے چلائیزیادہ لگ گئی کیا۔۔۔؟؟وہ فکرمند ہوانہیں بس تھوڑی سی وہ ناک سہلاتی بولیکس اسٹیشن پر پہنچنے کی جلدی تھی تمہیں۔۔۔۔؟؟اسی اسٹیشن پر جس اسٹیشن پر آپ کو بھی جانے کی جلدی ہوتی ہے بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو۔۔۔شمس نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کھینچیشکریہ نوازش۔۔۔۔اب بتائیں کوئی پیغام دینا ہے تو۔۔۔؟؟ہیر۔۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔وہ کھلکھلا کر ہنسیمیں کہوں گی کہ بھابھی آپ کو لالہ پیچھلے باغ میں بلا رہے ہیں کیسا۔۔۔؟؟شمس اسکی بات پر مسکرایاشرافت سے جاؤ اور مل کر واپس آؤ خبردار اگر کوئی ہوشیاری دیکھائی تو۔۔۔ارے کیا ہے لالہ مل لیں چند ماہ بعد تو وہ بذات خود یہاں موجود ہوں گی مسز شمس دلاور خان بن کر اس لیے میری مانیں تو ان دنوں میں چھپ چھپ کر ملنے کو انجوائے کریں۔۔۔وہ رازداری سے بولیاپنے قیمتی مشورے خود تک محدور رکھو اور کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کی تو سزا بھی برابر ملے گی سمجھی۔۔۔اونہہ۔۔۔انتہائی بور ہیں آپ تو ناجانے پروشہ (چچا زاد) بھرجائی کا کیا ہو گا۔۔۔وہ افسوس سے سر پر ہاتھ مارتی آگے بڑھ گئیشمس اسکی اداکاری پر مسکراتا ہوا سیڑھیاں پھلانگ گیا………………………………………………………اگلے روز یشب اسلام آباد کے لیے اور اسلام آباد سے لندن کے لیے فلائی کر گیا تھایشب نے ہیر دلاور خان کو اسکی باتوں سمیت ایک اچھی یاد سمجھ کر دل میں سنبھال لیا تھادوسری طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیر پشاور آ چکی تھی ہاسٹل میں۔۔۔۔دلاور خان نے اسکا ایڈمیشن پشاور یونیورسٹی میں کروایا تھا۔۔اس نے بھی یشب آفریدی کو ایک اچھی یاد سمجھ کر سائیڈ پر کر دیا تھا وہ یہاں پڑھنے آئی تھی اور پوری دلجمعی سے صرف پڑھنا ہی چاہتی تھی۔۔ویسے بھی اسکی تربیت جس انداز میں کی گئی تھی اس کے مطابق کسی بھی غیر مرد کو سوچنا اسکے لیے عبث تھا۔۔۔لہذا اس نے بھی یشب کو مزید یاد کرنا مناسب نہ سمجھا تھا کیونکہ وہ قسمت پر یقین رکھنے والی لڑکی تھی جو مل گیا اسی کو صبر و شکر کیساتھ قبول کر لیا۔۔۔یوں وقت کے ساتھ ساتھ ہیر یشب کے لیے اور یشب ہیر کے لیے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے تھے””کون کہتا ہے مٹ جاتی ہے دوری سے محبتملنے والے تو خیالوں میں بھی ملا کرتے ہیں””…………………………………………………………… چھ سال بعد۔۔۔۔۔۔پورے چھ سال بعد پھر سے ہیر دلاور خان کا نام یشب کے اردگرد گونجا تھاجب نکاح خواہ بلند آواز میں ہیر دلاور ولد دلاور خان کے نام پر اسکی رضامندی لے رہا تھا ۔۔۔وہ اس نام پر ساکت تھا۔۔۔۔برسوں بعد یہ نام سن کر یشب کے سوئے ہوئے جذبات نے بھرپور انگڑائی لی تھی۔۔ اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہیر اسی شمس خان کی بہن ہے جس نے یشار لالہ کا قتل کیا تھا۔۔۔۔وہ اسی کشمکش میں تھا۔۔۔۔۔جب بابا جان نے یشب کا کندھا ہلایا سائن کرو دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔یشب نے ناسمجھی سے خاقان آفریدی کیطرف دیکھا اور پین پکڑ کر دھڑا دھڑ سائن کر دیے۔۔۔۔۔نکاح کے بعد وہ غائب دماغی سے پجارو دوڑاتا ہوا حویلی پہنچا تھامگر اب جھٹکا لگنے کی باری ہیر کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔جب اس نے اپنی نم آنکھوں سے سامنے یشب آفریدی کو غصے سے چلاتے دیکھا تھاجو اسے ،اسکے گھر والوں ، اسکے لالہ کو برا بھلا کہتے ہوئے کف اڑا رہا تھانکاح کے وقت تو ہیر سن دماغ لیے بیٹھی تھی جس میں صرف ایک ہی بات گونج رہی تھی کہ وہ وہاں کی روایات کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔۔۔۔اسے ونی کر دیا گیا ہے۔۔۔وہ بےقصور ماری گئی ہے۔۔۔۔اور اب سامنے یشب آفریدی کو دیکھ کر اسکا دماغ پھر سے سن ہو چکا تھاہیر نے آنکھوں میں آئی نمی ہاتھ سے صاف کر کے پھر سے ایک بار دیکھا کہ شاید اسکی نظر کا دھوکا ہو مگر نہیں سامنے وہی ینگ سا ہیرو اب ایک مکمل مرد کی صورت میں موجود تھاتب کے یشب میں اور اب کے یشب میں بہت فرق تھاتب وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا اور اب وہ غصے سے بھرا اس پر چلا رہا تھاوہ مزید کچھ سوچتی کہ یشب نے پاس آ کر جھٹکے سے اسکی گردن دبوچیمیں ابھی اسکا قصہ تمام کر کے یہ حساب برابر کر دوں گا۔۔۔وہ ہیر کی گردن دبوچ کر چیخا تھایشب کے اس ردعمل پر ہیر کے اندر رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ گئی تھی۔۔۔۔دل میں موجود یشب آفریدی کی دھندلائی ہوئی شبیہہ مزید دھندلا گئی تھی۔۔۔۔ یہ وہ یشب نہیں ہے۔۔۔ اسکے دل میں ابھرتی مدھم سی سرگوشی نے اسکی آنکھوں دیکھے کو جھٹلایا تھا اسی وقت خاقان آفریدی نے بیچ میں آ کر یشب کے ہاتھ ہیر کی گردن پر سے ہٹوائے تھےوہ ایک خون آلود نظر ہیر کی کاجل پھیلی آنکھوں میں گاڑتا ہال سے نکل گیا تھا پیچھے ہیر قسمت کی اس ستم ضریفی پر ساکت تھی…………………………………………………یشب۔۔۔۔۔ہیر کو اپنے کمرے سے نکال کر تہہ خانے چھوڑ آیا تھاوہ ہیر کو دیکھ کر ڈر چکا تھا۔۔۔۔وہ ڈر چکا تھا کہ کہیں اسکا دل پھر سے اسکے ساتھ دغا نہ کر جائے۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہیر کی صورت اسے وہ سب بھلا دینے پر مجبور کر دے جو وہ بھولنا نہیں چاہتا وہ خون بہا میں آئی صرف ایک خونی کی بہن تھی۔۔۔جو وہاں سزا بھگتنے آئی تھی اور بس۔۔۔۔وہ خود کو باور کروا چکا تھاہیر کو بیسمنٹ میں بند ایک ہفتہ ہو چکا تھا جب مہرو یشب کے کمرے میں آئی تھییشب مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔جی بھابھی بیٹھیں۔۔۔۔۔یشب کتاب ٹیبل پر رکھ کر اسکی طرف آیامہرو اسکے سامنے صوفے پر ٹک گئیکیا یہ ہیر وہی ہیر ہے جو تمہیں چھ سال پہلے ملی تھی جھیل پر۔۔۔۔؟؟یشب نے حیرانگی سے مہرو کو دیکھاایسے کیا دیکھ رہے ہو۔۔۔جو پوچھا ہے اسکا جواب دوجی۔۔۔۔۔یشب نے سر جھکا کر اقرار کیاتو پھر بھی تم اسے تہہ خانے میں چھوڑ آئے ہواس کا اصل ٹھکانہ وہی ہے۔۔اسکا اصل ٹھکانہ کہاں ہے اپنے دل سے پوچھو۔۔بھابھی پلیز۔۔۔۔وہ سب میری ٹین ایج کی فیلنگز تھیں اب ایسا کچھ بھی نہیں۔۔۔کیا واقعی ایسا ہی ہے۔۔۔۔؟؟مہرو نے آنکھیں اچکائیںآپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں صاف صاف کہیں۔۔۔۔میں بس اتنا کہنا چاہ رہی ہوں کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس میں ہیر کا کوئی قصور نہیں اسلیے یشار کے خون کی سزا اسے مت دو۔۔۔وہ رسان سے بولیوہ یہاں سزا بھگتنے ہی آئی ہے بھابھی۔۔۔کس جرم کی۔۔۔۔؟؟؟وہ لاجواب ہوا۔۔۔دیکھو یشب تم ایک پڑھے لکھے انسان ہو۔۔تمہارے منہ سے ایسی جہالت آمیز گفتگو جچتی نہیں ہے۔۔۔۔جو کچھ ہو چکا وہ سب قسمت میں تھا۔۔۔یشار اتنی ہی عمر لکھوا کر لائے تھے۔۔۔۔شمس خان تو صرف ان کی موت کی وجہ بنا ہے۔۔۔وہ نہ بنتا تو کوئی اور وجہ بن جاتی۔۔۔۔جانا تو تب ہی ہوتا ہے جب بلاوا آ جاتا ہے۔۔۔۔موت برحق ہے یشب آج نہیں تو کل ہم سب کو چلے جانا ہے۔۔۔پھر یہ لڑائی جھگڑے۔۔۔خون۔۔۔۔قتل۔۔۔۔۔بدلے۔۔۔۔اس سب سے کیا حاصل۔۔۔۔۔؟؟بھابھی آپ۔۔۔۔یشب میں جانتی ہوں تم میری بہت عزت کرتے ہو۔۔۔۔میری ہر بات بلاتردود مانتے ہو۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب بھی میری ایک بات مان کر میرا مان رکھ لو یشب۔۔۔۔۔یشب نے سوالیہ نظروں سے مہرو کو دیکھاہیر کو اس قید سے نکال کر اپنے کمرے میں لے آؤ۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولیجیسے بھی سہی اب وہ بیوی ہے تمہاری۔۔۔تم نے بہت سے لوگوں کی موجودگی میں اس کیساتھ نکاح جیسا پاکیزہ رشتہ جوڑا ہے۔۔۔اس لیے اس رشتے کی بے حرمتی مت کرو۔۔۔۔کسی اور ناطے نہ سہی تو مجھے اپنے بھائی کی بیوہ سمجھ کر ہی۔۔۔۔بھابھی پلیز ایسا مت کہیں۔۔۔۔آپ اچھی طرح جانتی ہیں آپ میرے لیے کیا ہیں۔۔۔میں آپکی کوئی بات نہیں ٹالتا ہوں اس لیے یہ بھی نہیں ٹالوں گا مگر بھابھی اس سے آگے مزید کچھ اور نہیں۔۔۔۔۔میں ماضی کو بھول چکا ہوں۔۔۔۔اس لیے دوبارہ یاد کرنے کی بھی کوئی خواہش نہیں ہے مجھے۔۔۔تم نے میرا مان رکھ لیا اتنا کافی ہے میرے لیے۔۔۔۔اس سے آگے تم جو چاہو کرو۔۔۔مگر یہ بات مت بھولنا کہ ہیر بے قصور ہے۔۔۔مہرو نے آہستگی سے باور کروایاہوں۔۔۔۔یشب نے پرسوچ انداز میں سانس خارج کر کے بات ختم کی۔مہرو سے وعدے کے دو دن بعد وہ ہیر کو اپنے کمرے میں لے آیا تھا۔۔۔۔مگر دل فلحال اسے بے قصور ماننے کو راضی نہ تھا۔۔۔اسی لیے یشب نے ہیر کیساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں برتی تھی۔””جھوٹی مسکان لیے اپنے غم چھپاتے ہیںسچی محبت کرنے کی بھی کیا خوب سزا ملی””………………………………………………………ہیر کا سارا کانفیڈینس تو اسی دن بھر بھری ریت ہو چکا تھا۔۔۔۔جب اسکو قربانی کے لیے پنچائیت میں پیش کیا گیا تھا۔۔۔وہ ہمیشہ سے ہی اپنے علاقے کی ان فرسودہ اور ظالمانہ روایات سے بہت نالاں تھی۔۔۔مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ ایک دن وہ بھی انہیں ظالمانہ روایات کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔۔۔۔اور اسے بلی چڑھانے والے اسکے اپنے سگے رشتے ہوں گے۔۔۔۔نکاح کے بعد جب وہ اپنے بھاری قدم گھسیٹتی آفریدی حویلی میں داخل ہوئی تھی تو وہ ایک نئی ہیر بن چکی تھی جو ڈرپوک بھی تھی اور بزدل بھی تھی۔۔۔۔مگر اب بہادر نہ رہی تھی۔۔۔۔کیونکہ اب اسے ساری زندگی اپنے لالہ کی غلطی کی سزا جو بھگتنی تھی۔۔۔………………………………………………………… وہ بھی ویسا ہی دن تھا۔۔۔جیسے دن کو ہیر باغ اور جھیل کنارے جا کر انجوائے کرتی تھی۔۔۔سردیاں جا رہی تھیں اور گرمیوں کی آمد تھی۔۔انہی دنوں کے پرسوز لطف کو محسوس کرنے وہ ٹیرس پر آئی تھی۔۔۔مگر اب بہت کچھ بدل چکا تھا۔۔نہ تو دل میں کوئی خوشی تھی اور نہ ہی کوئی امنگ۔۔۔اس لیے وہ انجوائے کرنے کی بجائے وہاں بیٹھ کر ماضی میں گزرے ایسے ہی دنوں کو یاد کرنے لگی۔۔اسے چھ سال پہلے کا وہ دن پوری جزئیات سے یاد تھا جب وہ ایسے ہی موسم کا لطف لینے جھیل گئی تھی جہاں اسے پہلی دفعہ یشب خان آفریدی ملا تھا۔۔۔ہیر کو اس دن کی ایک ایک بات یاد آ رہی تھی۔۔۔وہ اپنی اور یشب کی کہی ہر بات کو اپنی زبان سے دہرا کر تازہ کر رہی تھی۔۔۔۔وہ ماضی میں بھٹکتی اور ناجانے کیا کچھ سوچتی کہ مؤذن کی آواز پر حال میں لوٹی۔۔۔۔اوہ۔۔ہ۔۔مغرب بھی ہو گئی اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھیہیر نے مغرب کی نماز پڑھ کر جیسے ہی دعا کے بعد ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر کر ہٹائے اسکی نظر بیڈ پر بیٹھے یشب پر پڑیاردوناول کہانیاں جسکے بازو پر بندھی پٹی دیکھ کر وہ ناجانے کس جذبے کے تحت بےچین ہوتی جلدی سے اس کے پاس پہنچی یہ۔۔۔یہ کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔؟؟وہ فکرمندی سے پوچھتی بیڈ پر یشب کے سامنے بیٹھیکچھ نہیں۔۔۔۔یہ پٹی کیوں بندھی ہے اور یہ خون۔۔۔کہا ہے ناں کچھ نہیں ہوا۔۔۔وہ چڑ کر بولایشب یہ۔۔۔یہ کیسے ہوا۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ کو چوٹ کیسے آئی۔۔۔۔مجھے بتائیں ناں یشب۔۔۔۔۔ایک آنسو چپکے سے ہیر کی آنکھ سے نکل کر گال پر پھسلاوہ رو رہی تھی اس شخص کے لیے جو ماضی میں کبھی اسے اچھا لگا تھا۔۔۔جسے بھلا کر بھی وہ بھول نہیں پائی تھی۔۔۔۔جس نے اسے صرف اور صرف ایک خونی کی بہن سمجھا تھا۔۔۔جس نے اس سے کوئی نرمی نہ برتی تھی پھر بھی وہ اس ظالم شخص کی تکلیف پر رو رہی تھی۔۔ یشب نے حیرت سے اس کے آنسو کو دیکھتے ہوئے ہیر کی آنکھوں میں جھانکاجن میں فکر تھی۔۔۔پریشانی تھی۔۔۔۔تکلیف تھی۔۔۔۔پرواہ تھی اور شاید چاہ بھی تھی۔۔۔۔یہ وہی آنکھیں تو تھیں جن کو بار بار دیکھنے کی خواہش کی تھی کبھی۔۔۔اب یہ آنکھیں اسکی اپنی ملکیت تھیں۔۔۔۔وہ ان میں ڈوب جانے کا حق رکھتا تھا۔۔۔۔اور وہ ان کاجل بھرے نینوں میں ڈوب ہی گیا تھاصرف ایک لمحہ۔۔۔۔ایک لمحہ لگا تھا یشب آفریدی کے جزبات کو اسکی بے نیازی پر حاوی ہونے میں اور وہ سب کچھ بھلا کر ہیر کی ذات میں گم ہوتا چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔””کیا کشش تھی اسکی آنکھوں میںمت پوچھومجھ سے میرا دل لڑ پڑامجھے وہ شخص چاہیے””

حال 👉👉👉”ایک لمحے میں کمزور پڑ جانے والا مرد یہ ہے آپکی اصلیت "یشب کے کانوں میں ہیر کا کہا گیا فقرہ گونج رہا تھاوہ اسوقت جھیل کنارے بیٹھا ہیر اور اسکی باتوں کو سوچتے ہوئے خود کو ملامت کر رہا تھاٹھیک ہی تو کہا تھا اس نے۔۔۔یہی تو ہے میری اصلیت۔۔۔۔۔کیوں میں کمزور پڑ گیاکیوں جھانکا میں نے ان آنکھوں میں جو مجھے لے ڈوبیں اپنے ہی جال میں بہت بری طرح پھنس گیا ہوں میں۔۔۔۔۔اسی لیے تو اسے کمرے سے نکالا تھا میں نے کہ کہیں کمزور نہ پڑ جاؤں۔۔۔اور اب۔۔۔۔۔اب وہ مجھے بات بات پر یہی طعنہ دے گی۔۔۔۔بے شک وہ بیوی ہے میری ۔۔۔۔میں اس پر حق رکھتا ہوں مگر جو سلوک میں اس کے ساتھ روا رکھ چکا تھا اس کے بعد ایسا کچھ۔۔۔یشب نے پریشانی سے سر ہاتھوں میں گرایادس منٹ بعد وہ مطمعین سا اپنے بکھرے بال سمیٹتا پجارو کی طرف بڑھ گیا جیسے کچھ سوچ چکا ہو۔…………………………………………………………اس رات ناصرف یشب کمزور پڑا تھا بلکہ ہیر نے بھی کوئی مزاحمت نہ کی تھی۔۔۔پر اس رات کے بعد وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نظریں چرائے ہوئے تھے یشب نے ہیر کو مخاطب کرنا ہی چھوڑ دیا تھا نہ کوئی طنز،، نہ طعنہ۔۔۔اور ہیر وہ تو پہلے بھی خود سے مخاطب نہیں کرتی تھی اسے۔۔۔یوں خاموشی سے چند دن گزرے جب ہیر کو اپنے اندر ہونے والی تبدیلی کا پتہ چلاوہ بلکل بھی خوش نہیں تھی اس تبدیلی سے بلکہ الٹا چڑچڑی ہوتی جا رہی تھی۔۔۔وہ جانتی تھی یہ بات نہ تو یشب کے لیے خوشی کا باعث ہو گی اور نہ ہی اس حویلی کہ باقی مکینوں کے لیے اس لیے وہ کسی کو بھی بتائے بغیر خاموش ہو گئی تھی۔۔۔اس دن بھی وہ ماضی کو اور اپنے گھر والوں کو یاد کر کے افسردہ تھیجب یشب کی ذرا سی بات پر سیخ پا ہوتی اتنے دنوں کی خاموشی کا لاوا اگل گئی ۔۔یشب اسکی بات کے جواب میں کچھ بھی کہے بنا کمرے سے نکل گیا تھااور اب رات کے بارہ بج چکے تھے مگر یشب ابھی تک نہیں لوٹا تھاہیر اس کے انتظار میں جاگ رہی تھی۔۔۔۔ایسا کچھ غلط تو نہیں کہا جو اتنی اکڑ ہے کہ واپس ہی نہیں آئے۔۔۔مت آئیں مجھے کیا میں کونسا مری جا رہی ہوں انتظار میں۔۔۔وہ سر جھٹکتی بیڈ پر آئیمیرا بھی اس بیڈ پر اتنا ہی حق ہے جتنا یشب آفریدی کا۔۔۔۔۔۔پہلے خاموش تھی پر اب نہیں رہوں گی خان صاحب۔۔۔۔ اپنے حق کے لیے لڑوں گی۔۔۔۔۔وہ خود کو تسلی دیتی چادر اوڑھ کر لیٹ گئیرات کا ناجانے کونسا پہر تھا جب ہیر کی آنکھ کھٹکےکی آواز پر کھلی اس نے مندی مندی آنکھوں سے یشب کو صوفے پر لیٹتے دیکھا اور یہ دیکھنا ہی غضب ہو گیاوہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔صوفے پر لیٹ کر کیا شو کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔یہی کہ میں اب بھی آپ کے لیے اچھوت ہی ہوں۔۔۔۔جس کیساتھ آپ اپنا بستر شئیر نہیں کر سکتے۔۔۔۔یشب کچھ بھی کہے بنا کروٹ بدل گیااونہہ۔۔۔۔۔یوں کہیں ناں کہ اب مجھ سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔۔۔بزدل انسان۔۔۔۔۔وہ بلند آواز سے بڑبڑائیبزدل نہیں ہوں میں سمجھی۔۔۔۔۔اور جہاں تک نظریں نہ ملانے کا مسلہ ہے تو میں نے ایسا کچھ غلط نہیں کیا کہ تم سے نظریں چراتا پھروں۔۔۔۔اس لیے خاموشی سے سو جاؤ مجھے سونے کے لیے آپ کی پرمیشن نہیں چاہیے۔۔۔۔تو مت سوؤ مگر زبان بند رکھو اپنی مجھے سونا ہے۔۔۔میری زبان ہے میں کھولوں یا بند رکھوں۔۔۔وہ بدتمیزی سے بولیمسلہ کیا ہے تمہارا۔۔۔۔وہ غراتا ہوا اسکی طرف آیا تحمل سے جواب دے رہا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر پر چڑھ جاؤ۔۔۔۔اپنی حد مت بھولو تمبھول چکی ہوں میں سب۔۔۔۔یاد ہے تو بس اتنا کہ میں آپکی بیوی ہوں اور آپ کے بچے۔۔۔۔۔اسٹاپ دس نان سینس۔۔۔۔یوں چلا کر کیا باور کروانا چاہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔یا پھر یہ سمجھ رہی ہو کہ تمہارا یہ واویلا تمہارے کام آئے گا اور میں تمہاری طرف مائل ہو جاؤں گا۔۔۔۔تو یہ بھول ہے تمہاری ہیر بی بی۔۔۔۔تم میری شرعی بیوی ہو اور میں نے تم سے جائز تعلق بنایا ہے۔۔۔تمہیں کوئی تکلیف ہے تو رہے آئی ڈیم کئیر۔۔۔یشب نے سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہامجھے کوئی شوق نہیں ہے آپ کو اپنی طرف مائل کرنے کا کیونکہ اگر مجھے ایسا کوئی شوق ہوتا تو آپ تین ، چار ماہ بھی خود کو کنٹرول نہیں کر سکتے تھے یشب خان آفریدی اور اگر آپ کو کئیر نہیں تو مجھے بھی نہیں ہے سمجھے آپ۔۔۔۔۔میں کل ہی اپنے گھر والوں سے ملنے جاؤں گی اور اگر آپ نے مجھے روکنے کی کوشش کی تو خود بھی سکون سے نہیں بیٹھوں گی اور نہ ہی آپکو بیٹھنے دوں گی۔۔۔ہیر نے دھمکی دیناجانے اتنی بہادری اس میں آئی کہاں سے تھی جو وہ ماضی کی نڈر ہیر بن چکی تھی شاید ماں بننے کے جزبے نے ہی اسے اتنی ہمت دی تھی جو وہ یشب کو دوبدو جواب دے رہی تھی۔۔۔کل کی کل دیکھی جائے گی۔۔۔فلحال بیڈ سے اٹھ کر اپنی جگہ پر جاؤ۔۔۔کیوں جاؤں۔۔۔۔۔جب تعلق جائز ہے تو پھر آپ کو تکلیف کس چیز کی ہے۔۔۔۔یشب اسکی بدتمیزی اور بدزبانی پر ٹیمپر لوز کرتا اس پر چڑھ دوڑاایک۔۔۔دو۔۔۔۔وہ تیسرا ٹھپڑ مارنے ہی والا تھا کہ بیچ میں رک گیاآج کے بعد زبان درازی کی تو سزا اس سے بھی بدتر ہو گی سمجھی اس لیے کسی خوش فہمی میں مت رہنا۔۔۔۔وہ وارننگ دیتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر بالکونی میں نکل گیا۔۔۔۔۔پیچھے ہیر گھٹنوں میں سر دئیے سسک اٹھی۔۔۔۔وہ تو سمجھی تھی کہ شاید اسکی سزا ختم ہونے جا رہی ہے مگر نہیں وہ غلط سمجھی تھی شاید۔۔۔”کوئی پوچھے ذرا ان سےکہ دل جب مر گیا ہو تو،کیا تدفین جائز ہے ؟کوئی پوچھے ذرا ان سےمحبت چھوڑ دینے پر،دلوں کو توڑ دینے پر،کوئی فتوی نہیں لگتا؟کوئی پوچھے ذرا ان سے،محبت اس کو کہتے ہیں؟جو سب کچھ ختم کرتی ہے،دلوں کو بھسم کرتی ہے،اگر یہی محبت ہے !تو نفرت کس کو کہتے ہیں؟”……………………………………………………………بی بی جان مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔ہیر ان کے کمرے میں موجود بات کرنے کی اجازت لے رہی تھیبولو بچے۔۔۔۔بی بی جان قرآن پاک کو غلاف میں لپیٹتیں بولیںبی بی جان میں اپنے گھروالوں سے ملنا چاہتی ہوں۔۔۔۔بی بی جان کو وہ کچھ دن سے بدلی بدلی اور نڈر سی محسوس ہو رہی تھی مگر وہ وجہ جاننے سے قاصر تھیںبچے مجھے تو پہلے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے ۔۔۔۔تم یشب سے اجازت لے لووہ نہیں دیں گے اجازت۔۔۔۔اس لیے مجھے صرف آپکی اور باباجان کی اجازت چاہیے بس۔۔۔۔وہ دوٹوک بولیبیٹھو۔۔۔۔۔بی بی جان نے اسکا انداز دیکھتے ہوئے کہا ہیر پاس پڑی چئیر پر ٹک گئی۔۔۔۔۔اب بولو کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔؟؟گھروالوں سے کیوں ملنا چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟مجھے یاد آ رہی ہے سب کی۔۔۔اور بناقصور کے جتنی سزا بھگت چکی ہوں کافی ہے۔۔۔آپ اپنے بیٹے سے کہیں یا تو مجھے مار دے یا پھر مجھے میرے گھروالوں سے ملنے دے۔۔۔۔یشب سے جھگڑا ہوا ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟بی بی جان تو اسکے دھیمے انداز کی قائل تھیں اور اب وہ جس انداز میں بات کر رہی تھی وہ ان کے لیے حیران کن تھانہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایاہاتھ اٹھایا ہے اس نے تم پر۔۔۔۔۔؟؟؟ہیر نے انکے صیح اندازے پر جھٹکے سے سر اٹھایاتمہارے گال پر نشان ہیں۔۔۔انہوں نے ہیر کے بولنے سے پہلے ہی نشانی بتائیدوبارہ وہ تم پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا تم بے فکر ہو جاؤ۔۔۔۔انہوں نے یقین دلایااونہہ۔۔۔یہ ہاتھ تو ناجانے کتنی دفعہ اٹھ چکا ہے بی بی جان آپ کو اب معلوم پڑا ہے۔۔۔۔۔۔ہیر دل میں ہمکلام ہوئیبی بی جان بات ہاتھ اٹھانے کی نہیں ہے بات تو بےقصور سزا کاٹنے کی ہے۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولیہیر بچے تم اسی علاقے کی پلی بڑھی ہو تم سے بہتر کون یہاں کے رسم و رواج جانتا ہو گا پھر شکوہ کس بات کا۔۔۔؟؟بی بی جان میں تھک چکی ہوں۔۔۔۔وہ مایوس ہوئیہمت سے کام لو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔نہیں ہو گا کچھ بھی ٹھیک۔۔۔جب شروع سے اب تک نہیں ہو پایا تو پھر اب کیسے ہو گا۔۔۔۔؟؟میں۔۔۔آپ۔۔۔ہم سب عورتیں اپنے ہی رشتوں کی خاطر سولی چڑھا دی جاتی ہیں اور پھر امید کی جاتی ہے کہ بے زبان جانور بن کر ہر ظلم ، ہر سزا سہتے جاؤ۔۔۔نہ پہلے کچھ بدلہ ہے اور نہ ہی اب بدلے گامیں بات کروں گی یشب سے کہ تمہیں گھر والوں سے ملا لائے۔۔۔۔بی بی جان نے تسلی دینہیں۔۔۔۔مجھے یشب آفریدی کی بھیک نہیں چاہیے۔۔۔۔مجھے نہیں ملنا ہے گھروالوں سے۔۔۔۔وہ انکار کرتی روتی ہوئی باہر نکل گئیبی بی جان نے افسردہ ہو کر پاس پڑا فون اٹھایا اور مہرو کا نمبر ڈائل کیا……………………………………………………………ہیر ایسے کیوں بیٹھی ہو طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔؟؟مہرو فکرمندی سے پوچھتی اسکے سامنے آئیوہ دو دن پہلے ہی واپس آئی تھی۔۔۔بی بی جان نے ہی اسے واپس بلوایا تھامیں ٹھیک ہوں بھابھی۔۔۔۔ہیر ہلکا سا مسکرائیکیا خاک ٹھیک ہو۔۔۔۔گل بتا رہی تھی تم کھانے پینے میں بھی لاپرواہی برتتی ہواسی لیے تو رنگت اتنی پیلی ہوتی جا رہی ہے تمہاری۔۔۔خود کو کیوں سزا دے رہی ہو۔۔۔؟؟جب زندگی کا مقصد ہی سزا جھیلنا ہے بھابھی تو پھر پرواہ کرنے کا کیا فائدہ۔۔؟؟وہ مایوسی سے بولی ہیر یشب کا رویہ تو شروع دن سے ہی مناسب نہیں تھا پر تم تو صبر سے کام لے رہی تھی۔۔۔پھر اب ایسا کیا ہوا جو تم اتنی مایوس ہو چکی ہو۔۔۔؟؟میں پہلے مایوس نہیں تھی بھابھی اسی لیے تو صبر سے برداشت کر رہی تھی سب۔۔۔۔پر اب وقت اور حالات مجھے مایوس کر چکے ہیں اسی لیے میری برداشت بھی ختم ہوتی جا رہی۔۔۔۔۔گھروالے بہت یاد آ رہے ہیں کیا۔۔۔۔؟؟میں یشب سے بات کروں گی۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔مجھے کسی کی یاد نہیں آرہی اور نہ ہی میں کسی سے ملنا چاہتی ہوں۔۔دیکھو ہیر جو بھی مسلہ ہے مجھ سے شئیر کرو پلیز۔۔۔۔مہرو فکرمند ہوئیبھابھی مجھے کوئی مسلہ نہیں ہے۔۔۔میں ٹھیک ہوںتم بتانا نہیں چاہتی تو اور بات ہے۔۔۔۔میں تمہیں ایسی چھوڑ کر نہیں گئی تھی جیسی تم ہو چکی ہو۔۔۔ہیر کیا کہتی خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہیمہرو نے اسکے جھکے سر کو دیکھ کر مزید پوچھنا مناسب نہ سمجھا اچھا میں تمہارے لیے دودھ بھجواتی ہوں پی لینا ورنہ میں خفا ہو جاؤں گیجی پی لوں گی۔۔۔ہیر اسکی پیار بھری دھمکی پر مسکرا دی۔۔…………………………………………………………یشب۔۔۔۔۔۔وہ سیڑھیوں کے پاس اپنے نام کی پکار پر مڑاکہاں تھے تم اب تک۔۔۔؟؟ جانتے ہو بی بی جان کتنی دفعہ پوچھ چکی ہیں تمہارا۔۔۔مہرو نے فکرمندی سے پوچھامل آیا ہوں بی بی جان سے۔۔۔۔کھانا کھایا۔۔۔۔؟؟؟ابھی تو آیا ہوں۔۔۔آپ نے انویسٹی گیشن شروع کر دیاچھا فریش ہو کر آ جاؤ میں لگاتی ہوں کھانا۔۔۔ابھی آیا۔۔۔۔۔وہ کہتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیاکمرے میں داخل ہوتے ہی یشب کی نظر سامنے جائے نماز پر سجدے کی حالت میں جھکی ہیر پر پڑی۔۔۔وہ سر جھٹکتا واش روم چلا گیاپندرہ ، بیس منٹ بعد جب وہ بالوں میں ٹاول رگڑتا باہر نکلا تو ہیر ابھی بھی اسی حالت میں تھییشب نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بال بنائے اور جان بھوج کر برش زور سے ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکا۔۔۔۔مگر اس کھٹکے پر بھی ہیر ٹس سے مس نہ ہوئیوہ مشکوک ہوتا اسکی طرف آیاہیر۔۔۔۔۔ہیر۔۔۔۔پھر پکارا مگر ہیر نے کوئی جواب نہ دیایشب نے فکرمندی سے زمین پر بیٹھ کر ہیر کا کندھا ہلایااس ذرا سے جھٹکے پر وہ یشب کی طرف لڑھک گئیہیر۔۔رر۔۔۔ہیر آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔ہیر کیا ہوا ہے آنکھیں کھولو پلیز۔۔۔۔۔وہ ہیر پر جھکا اسکے گال تھپتھپا رہا تھاکیا ہوا ہیر کو۔۔۔۔۔مہرو دروازے سے بھاگتی ہوئی پاس آئیوہ اتنی دیر انتظار کے بعد یشب کو بلانے آئی تھی جب کمرے کے ادھ کھلے دروازے سے ہیر کو گرے دیکھا پتہ نہیں بھابھی۔۔۔میں جب آیا تو یہ سجدے کی حالت میں تھی اور اب میرے ہلانے سے۔۔۔۔ہیر آنکھیں کھولو۔۔۔۔۔ہیر۔۔رر۔۔۔مہرو اسکے ہاتھ سہلاتی ہوئی پکار رہی تھییشب ہمیں ہوسپٹل لے جانا چاہیے۔۔۔۔۔جلدی کرو۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں بے ہوش ہوگئی ہےجی۔۔۔۔یشب نے سر ہلاتے ہوئے جھک کر ہیر کا وجود بازؤں میں بھرا اور باہر کی جانب چل پڑا۔۔۔تم گاڑی تک لے جاؤ میں چادر لے کر آتی ہوں۔۔۔۔مہرو کہتی جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگیچند منٹ بعد یشب اور مہرو ہیر کے بے ہوش وجود کو لیے ہوسپٹل جا رہے تھے……………………………………………………………مسز یشار۔۔۔۔۔۔پیشنٹ سے کیا رشتہ ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ڈاکٹر رضیہ نے مہرو سے پوچھا وہ مہرو کو جانتی تھی کیونکہ ان کے گاؤں سے دو میل کے فاصلے پر واقع ہوسپٹل کی یہ خوبصورت سی عمارت یشار آفریدی اور خاقان آفریدی کی ہی محنتوں کا ثمر تھیمیری۔۔۔۔۔میری دیورانی ہے۔۔۔۔مہرو نے ایک نظر پاس کھڑے یشب پر ڈال کر اصل رشتہ بتایاہوں۔۔۔۔۔کب ہوئی ہے شادی۔۔۔۔؟؟؟آپ یہ بتائیں کے پیشنٹ کی کنڈیشن کیسی ہے۔۔۔۔اس کا بائیوڈیٹا جان کر کیا کریں گی آپ۔۔۔۔یشپ ہائپر ہواتم چپ رہو یشب۔۔۔۔۔اٹس اوکے مسز یشار میں ان کے مزاج کو جانتی ہوں اکثر یہاں کا اسٹاف ان کے غصے سے فیض یاب ہوتا رہتا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ نے مسکرا کر کہتے ہوئے ان دونوں کو اپنے ساتھ اپنے کمرے میں آنے کا کہاپلیز ہیو آ سیٹ۔۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولیںیشب بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتا چئیر گھسیٹ کر بیٹھامہرو اس کے سرخ چہرے سے اسکا غصہ بھانپ گئی تھی۔۔۔۔پلیز ڈاکٹر رضیہ بتائیں ہیر کیسی ہے اب۔۔۔۔۔؟؟؟شی از فائن ناؤ۔۔۔۔۔ہوا کیا تھا۔۔۔۔۔؟؟؟؟ اچانک کیسے بے ہوش ہو گئیاس کنڈیشن میں ایسا ہو جاتا ہے مسز یشار آپ تو خود ایک ماں ہیں۔۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ مسکرا کر بولیںکیسی کنڈیشن۔۔۔۔۔میں سمجھی نہیں۔۔۔۔؟؟؟ڈاکٹر نے ایک نظر یشب کو دیکھا جو ٹکٹکی سے سامنے لگے وال کلاک کو گھور رہا تھاشی ہیز ٹو منتھس پریگنینسی۔۔۔۔جی۔۔۔۔؟؟؟ مہرو اس خبر پر شاکڈ ہوئیآپ نہیں جانتی کیا۔۔۔۔؟؟؟نن۔۔۔۔۔نہیں ایسی بات نہیں وہ ایکچولی میں اپنے پیرنٹس کی طرف تھی تبھی یہ خوشخبری ملی تھی۔۔۔۔مہرو نے بروقت بات کو سنبھال لیااوہ۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ ہونٹ سکیڑ کر مسکرائیں بٹ ہر کنڈیشن از ٹو مچ کریٹیکل۔۔۔۔۔ان کی ڈائیٹ کا خاص خیال رکھیں۔۔۔۔کافی ویکنیس ہے جسکی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئیں تھیںمیں میڈیسن لکھ رہی ہوں۔۔۔باقاعدگی سے میڈیسن دیں کھانے پینے کا پراپر خیال کریں اور دس ، پندرہ دن کی سپیس سے چیک اپ کرواتیں رہیں۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔ہم گھر لے جا سکتے ہیں اب۔۔؟؟ مہرو نے اجازت مانگیبلکل۔۔۔۔۔اوکے تھینکس۔۔۔۔۔مہرو نے ڈاکٹر رضیہ سے ہاتھ ملایا اور یشب کی طرف مڑییشب اسکے مڑنے سے پہلے ہی کمرے سے نکل چکا تھا۔……………………………………………………………واپسی کا راستہ خاموشی سے کٹا تھا۔۔۔۔تم ہیر کو کمرے میں لے جاؤ میں کھانے کو کچھ لاتی ہوں۔۔۔۔ مہرو نے سیڑھیوں کے پاس ہیر کے گرد سے بازو ہٹا کر یشب سے کہااسکی ٹانگیں سلامت ہیں خود چل کر جا سکتی ہے یہ۔۔۔۔وہ پھنکار کر کہتا سیڑھیاں چڑھ گیامہرو ایک ملامتی نظر اس پر ڈال کر ہیر کو پکڑے آگے بڑھیبھابھی مجھے کوئی اور کمرہ مل سکتا ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟؟ یا پھر ایسا کریں مجھے بیسمنٹ میں ہی چھوڑ آئیں میں وہاں سکون میں رہوں گی۔۔۔۔اس حویلی میں بہت سے کمرے ہیں ہیر تم کسی کمرے میں بھی ٹہر سکتی ہو پر یشب کے کمرے میں۔۔۔۔۔نہیں میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔ہیر نے نفی میں سر ہلایااچھا ٹھیک ہے تم میرے ساتھ میرے کمرے میں چلو کل اپنی مرضی سے کوئی بھی کمرہ سیٹ کروا لینا ہوں۔۔۔۔وہ ہیر کی حالت کے پیش نظر بولیجی۔۔۔۔۔مہرو اسے لیے اپنے کمرے میں آئیتم بیٹھو میں تمہارے لیے کھانے کو کچھ لاتی ہوںمجھے ذرا بھی بھوک نہیں ہے بھابھی۔۔۔۔چپ رہو تم۔۔۔۔اب میں تمہاری ایک بھی سننے والی نہیں۔۔۔۔مہرو ڈپٹتی کمرے سے نکل گئیہیر نے ڈھیلے سے انداز میں گردن صوفے کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔۔کئی آنسو لڑیوں کی صورت میں آنکھوں سے نکل کر اسکی گالوں کو بھگو گئےکب تک۔۔۔۔کب تک چلے گا یہ سب۔۔۔؟؟ پہلے تو میں اکیلی تھی مگر اب۔۔۔۔۔۔۔میرے مالک میں کیا کروں۔۔۔۔؟؟میری سزا کب ختم ہو گی۔۔۔۔؟؟ کیا ساری زندگی مجھے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلنی ہو گی؟؟۔۔۔۔نہیں میرے مالک۔۔۔۔نہیں۔۔۔مجھ میں اب مزید سکت باقی نہیں رہی ہے۔۔۔۔مجھے معاف کر دے میرے مالک معاف کر دے۔۔۔۔۔۔ہیر سو گئی کیا۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے ٹرے ٹیبل پر رکھتے ہوئے پوچھا وہ جلدی سے آنسو پونچھ کر سیدھی ہوئی۔۔۔نہیں جاگ رہی ہوں۔۔۔۔چلو پھر جلدی سے یہ سب ختم کرو اور میڈیسن لے کر آرام کرومہرو نے پاس بیٹھ کر زبردستی اسے تھوڑا بہت کھانا کھلا کر میڈیسن دی اور بیڈ پر لیٹا کر کمبل اوڑھایاہیر نے تشکرانہ نظروں سے مہرو کو دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔کبھی کبھی انسان واقعی ہار جاتا ہےخاموش رہتے رہتےصبر کرتے کرتےامیدیں رکھتے رکھتےرشتے نبھاتے نبھاتےصفائیاں دیتے دیتےاپنوں کو مناتے مناتے اور کبھی کبھی خود سے !!!

بھابھی لائیں یہ میں کرتی ہوں۔۔۔ہیر نے کیچن میں چائے بناتی مہرو سے ساس پین پکڑاارے نہیں تم ریسٹ کرو جا کر یہ سب ہو جائے گامیں بہت ریسٹ کر چکی ہوں اس لیے مجھے بنانے دیں چائے اور آپ لان میں چلیں میں چائے لے کر وہیں آتی ہوںچلو ٹھیک ہے بناؤ تم میں چلی جاتی ہوں۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی باہر نکل گئیکچھ دیر بعد ہیر بھی چائے کی ٹرےلیے لان میں آئیآجکل موسم کافی اچھا ہے ناں۔۔۔۔مہرو نے اردگرد دیکھتے ہوئے ہیر کی رائے لیہوں اچھا ہے۔۔۔۔وہ اپنا کپ لیے چئیر پر بیٹھیجھیل والی سائیڈ پر گئی ہو کبھی۔۔۔۔۔چند منٹ کی خاموشی کے بعد مہرو نے پوچھاہوں۔۔۔۔کئی بار۔۔۔۔۔اب بھی جانے کو دل کرتا ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟؟نہیں۔۔۔۔۔۔ ہیر نے نفی میں گردن ہلائیکیوں۔۔۔۔۔۔؟؟؟اگر انسان اندر سے خوش اور مطمعین ہو تو سب کچھ کرنے کو دل چاہتا ہے ورنہ نہیں۔۔۔ہیر۔۔۔یشب۔۔۔۔بھابھی پلیز مجھے ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنیکیوں نہیں کرنی ہے ہیر۔۔۔۔یشب ناصرف تمہارا شوہر ہے بلکہ اب تو وہ تمہارے بچے کا باپ بھی بننے والا ہےاس سے کیا ہو گا۔۔۔۔جب انہیں میرے وجود سے سروکار نہیں تو پھر اس بچے سے کیا ہو گا جو صرف ایک لمحاتی غلطی کا نتیجہ ہےایسے مت کہو ہیر۔۔۔۔میں مانتی ہوں یشب غلط کر رہا ہے تمہارے ساتھ مگر تم اسکی بیوی ہو اسکی نسل کی امین ہو۔۔۔۔پھر کیسے اسے تم سے یا اس بچے سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔۔اچھا ایک بات پوچھوں سچ سچ بتاؤ گی ناں بڑی بہن سمجھ کر۔۔۔۔۔؟؟؟ جی پوچھیں۔۔۔۔۔۔تم یشب کو پہلے سے جانتی تھی میرا مطلب ہے نکاح سے پہلے۔۔۔۔؟؟آپ سے کس نے کہا کہ میں انکو جانتی ہوں۔۔۔ہیر نے سوالیہ نظروں سے مہرو کو دیکھایشب نے۔۔۔۔یشب۔۔۔۔۔۔یشب خان نے۔۔۔۔۔؟؟؟؟وہ حیران ہوئیہوں۔۔۔۔۔اسی نے بتایاکب۔۔۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔؟؟؟جھیل کے پاس۔۔۔۔۔اردوناول کہانیاں ہیر منہ کھولے ساکت تھی۔۔۔۔۔تو کیا اس شخص کو وہ سرسری سی ملاقات ابھی تک یاد تھیکیا ہوا۔۔۔۔کچھ غلط کہا میں نے۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکی شکل دیکھ کر بولیہوں۔۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اصل میں وہ۔۔۔۔ہیر میں تمہیں چھ سال پہلے سے جانتی ہوں جب تم پہلی بار یشب سے ملی تھی۔۔۔۔ہیر نے حیرت سے مہرو کو دیکھااصل میں یشب نے تمہارے بارے میں مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔۔۔۔۔وہ اس ملاقات کے بعد کئی بار وہاں جھیل کے پاس تم سے ملنے کی امید لیے گیا تھا مگر تم اسے دوبارہ نہیں ملی۔۔۔۔۔۔یشب ان دنوں لندن میں پڑھ رہا تھا اور چھٹیوں پر آیا تھا جب تم اسے ملی پھر ہر بار وہ جب بھی چھٹیوں پر آتا تو جھیل کنارے ضرور جاتا تھا۔۔۔۔مگر تم نے دوبارہ اسے نہیں ملنا تھا سو نہی ملی۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات ماضی کا حصہ بن گئی۔۔۔۔میں نے بھی پھر دوبارہ کبھی یشب سے تمہارے بارے میں نہیں پوچھا۔۔۔۔کیونکہ حدید کے آنے سے میں کافی سے زیادہ مصروف ہو چکی تھی اور سچ پوچھو تو میں اس بات کو بھول ہی چکی تھی۔۔۔۔جس روز تم پنچائیت سے آئی تھی اس روز مجھے تمہارے پورے نام کو سن کر شاک لگا تھا۔۔۔۔کیونکہ یشب کو جو لڑکی چھ سال پہلے ملی تھی جسے وہ پسند کرنے لگا تھا اس کا نام بھی ہیر دلاور خان تھا۔۔۔۔تب۔۔۔۔تب میں نے یشب سے ہی کنفرم کیا کہ تم وہی ہیر ہو جو اسے جھیل پر ملی تھی۔۔۔۔؟؟اس کے اقرار کے بعد میرے دل میں تمہارے لیے جو تھوڑا بہت میل تھا وہ بھی ختم ہو چکا تھا۔۔۔۔۔اور یقین مانو ہیر جہاں تک میرا خیال ہے یشب تم پر صرف ظاہری غصہ کرتا ہے اندر سے وہ ابھی بھی۔۔۔۔۔بھابھی۔۔۔۔۔یشب کی بھاری آواز پر جہاں مہرو کو بریک لگا وہاں ہیر بھی کھلا منہ بند کرتی سر جھکا گئییش۔۔۔یشب تم۔۔۔۔؟؟جی میں۔۔۔۔کونسی کہانیاں سنا کر دل بہلا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔وہ طنز کرتا ہیر کی طرف آیااور تم۔۔۔۔تم یہ معصوم سی شکل بنا کر سب کی ہمدریاں سمیٹ کر میرے خلاف کر دو گی تو یہ بھول ہے تمہاری۔۔۔۔۔ یشب چپ ہو جاؤ تم۔۔۔۔یوں چیخ چلا کر اپنا غصہ ہیر پر نکال کر کس کو دھوکا دے رہے ہو خود کو ، ہیر کو یا ہم سب کو۔۔۔۔مان کیوں نہیں لیتے کہ ہیر آج بھی تمہارے دل میں۔۔۔۔بسسسس۔۔۔۔۔اس سے آگے کچھ نہیں۔۔۔۔یشب نے ہاتھ اٹھا کر مہرو کی بات کاٹیمیرے دل میں آپ کی ہیر نہ کبھی تھی اور نہ ہی کبھی ہو گی غور سے سن لیں اس لیے ان باتوں سے اسکا جی مت بہلائیں کیونکہ میں اسے۔۔۔۔۔۔خان جی وہ بڑے خان مردانے میں۔۔۔۔یشب کی ایک خونخوار نظر نے سکینہ کی بولتی بند کی وہ جانتی تھی وہ کیا کر چکی ہے۔۔۔۔ دوبارہ ایسی غلطی ہوئی تو۔۔۔نن۔۔۔۔۔نہیں خان جی۔۔۔۔۔دوبارہ نہیں ہو گیوہ ایک تیکھی نظر اس پر ڈالتا مردانے کی طرف بڑھ گیا کتنی دفعہ کہا ہے سکینہ کے جب وہ بات کر رہا ہو تو بیچ میں مت کاٹا کرو جانتی تو ہو اس کے مزاج کو مگر نہیں بے عزتی کروانے کی عادت جو پڑ چکی ہے تمہیں۔۔۔۔۔مہرو نے ڈپٹامعاف کر دیں۔۔۔مہرو باجی آئندہ نہیں ہو گیاچھا ٹھیک ہے جاؤ۔۔۔۔۔سکینہ جان بخشی پر اندر کی طرف بھاگ گئیمہرو نے ہیر کا کندھا ہلایا۔۔۔۔ہیر اسکی باتوں کو دل پر مت لو ایسے ہی جو منہ میں آتا ہے بول دیتا ہے چلو میرے ساتھ بی بی جان کے کمرے میں ۔۔۔آپ چلیں میں آتی ہوں۔۔۔ہیر مدھم سا منمنائینہیں میرے ساتھ ہی چلو میں نے انہیں کچھ دیر پہلے خوشخبری سنائی تھی تمہارا پوچھ رہی تھیں چلو چل کر نصیحتیں اور دعائیں لے لو۔۔۔۔مہرو نے ٹہوکا دیاہوں چلیں۔۔۔۔۔وہ کھڑی ہوئیدونوں آگے پیچھے بی بی جان کے کمرے کیطرف چلی گئیں…………………………………………………….….مہرو عشاء کی نماز پڑھ کر ہٹی تھی جب گل اجازت مانگتی اندر داخل ہوئیمہرو باجی۔۔۔۔۔۔ہیر بی بی کو چھوٹے خان بلا رہے ہیں۔۔۔پیغام پر ہیر کا میگزین کا صفحہ پلٹتا ہاتھ ایک لمحے کو ساکت ہوامہرو نے ایک نظر اسے دیکھ کر گل کو اچھا کہہ کر رخصت کیا اور خود ہیر کی طرف آئیہیر جاؤ۔۔۔۔۔یشب بلا رہا ہےمیں۔۔۔۔میں نہیں جاؤں گی بھابھیدیکھو ہیر تم اسکی بیوی ہو حویلی میں سب کو پتہ چل چکا ہے کہ تم یشب کے بچے کی ماں بننے والی ہو۔۔۔پھر یوں کمرہ الگ کر کے کیوں دوسروں کو باتوں کا موقع دے رہی ہو۔۔۔یوں کہیں بھابھی کہ دو دن میں ہی اکتا گئیں ہیں مجھ سے۔۔۔وہ روہانسی ہوئیتم ایسا سمجھ رہی ہو تو میں تمہاری بات کو جھٹلاؤں گی نہیں۔۔۔۔۔کیونکہ میں وہ سوچ رہی ہوں جو تم دونوں ہی نہیں سوچ اور سمجھ پا رہے۔۔۔۔ٹھیک ہے میں جا رہی ہوں۔۔۔۔ہیر کمبل ہٹا کر کھڑی ہوئیخفا ہو کر جا رہی۔۔۔۔۔؟؟نہیں۔۔۔۔۔۔تو پھر رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے۔۔۔۔۔مہرو اسکے پاس آ کر مسکرائیمیری صورت ہے ہی ایسی۔۔۔ایویں۔۔۔۔تمہاری صورت تو اتنی پیاری ہے کہ جسکی صرف آنکھوں کو دیکھ کر ہی یشب خان آفریدی عرف کھڑوس مر مٹا تھا۔۔۔۔ہیر لفظ کھڑوس پر کھلکھلا اٹھییہ ہوئی ناں بات یوں ہی ہنستی رہا کرو۔۔۔۔عنقریب وہ پھر سے تمہارے قدموں میں ہو گا بچے۔۔۔۔۔مہرو نے اسکے سر پر ہاتھ رکھے بنگالی بابا کی نقل اتاریبھابھی۔۔۔۔سوچو ذرا یشب۔۔۔۔خان۔۔۔۔۔آفریدی تمہارے قدموں میں کیسا لگے گا۔۔۔۔؟؟؟ مہرو نے شرارت سے آنکھ دبائیبھابھھھھھھیییییی۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔چلو جاؤ اب رب راکھا کہیں وہ محترم بندوق لے کے ہی نہ تمہیں رخصت کروانے آ جائیںہیر اسکی بات پر مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی…………………………………………………………ہیر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی اسکی نظر سامنے کھڑے یشب پر پڑی جو اسے ہی دیکھ بلکہ گھور رہا تھاوہ سر جھکائے مضبوط قدم بڑھاتی قریب آئیآپ نے بلایا۔۔۔۔۔؟؟؟تمہارا کمرہ کونسا ہے۔۔۔۔؟؟؟تیکھے انداز میں پوچھا گیاپتہ نہیں۔۔۔تو پھر کسے پتہ ہے۔۔۔۔؟؟؟تیوری چڑھیآپ کو۔۔۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔وہ استہزایا ہنساآج کے بعد یہ ڈرامہ رچایا تو بلکل بھی اچھا نہیں کروں گا میں۔۔۔پہلے کونسا اچھا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ دل میں بڑبڑائیسن رہی ہو میری بات۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔ہیر نے سر ہلا دیاعمل بھی ہونا چاہیے۔۔۔۔۔اور ہاں بی بی جان کو میرے ہاتھ اٹھانے کا تم نے بتایا تھا۔۔۔؟؟؟یشب نے اسے بازو سے کھینچ کر قریب کیانن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ہیر نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر جھرجھری لی۔۔۔جو بے انتہا سرخ تھیںوہ خوف کے باعث چند سکینڈ سے زیادہ اسکی لال انگارہ آنکھوں میں نہیں دیکھ پائی تھیتو پھر انہیں خواب آیا کہ میں نے تم پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔۔یشب بلند آواز میں بولامم۔۔۔۔میں نے نہیں بتایا خان۔۔۔۔وہ تو انہوں نے گال پر نشان دیکھ لیے تھے تو۔۔۔۔۔۔وہ ہلکا ہلکا لرزتی بولییشب نے ایک نظر اس کے گالوں پر ڈالی اور جھٹک کر اسے پیچھے دھکیلاہیر اس جھٹکے کے لیے تیار نہ تھی اس لیے پیچھے کو الٹے منہ زمین پر گریاماں۔۔۔۔ں۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔۔ں۔۔۔۔اسکے منہ سے چیخ بلند ہوئییشب نے ہر گز نہیں سوچا تھا کہ وہ اتنے ہلکے سے جھٹکے پر اتنی بری طرح سے گرے گیہیر۔۔۔۔واٹ ہیپنڈ۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔تم ٹھیک تو ہو ناں ہیر۔۔۔۔۔۔۔وہ اس پر جھکا پوچھ رہا تھاہیر تکلیف کی وجہ سے صرف نفی میں سر ہلا پائیکیا ہوا۔۔۔بھابھی۔۔۔۔۔بھابھی۔۔۔۔۔وہ ہیر کا سر گود میں رکھے مہرو کو پکار رہا تھاخا۔۔۔۔۔خان۔۔۔۔ہو۔۔۔۔۔سپٹل۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں بمشکل اتنا ہی کہہ پائییشب اسکے منہ سے لفظ ہوسپٹل سنتا جلدی سے اسے بازؤں میں اٹھائے نیچے کی طرف بھاگا………………………………………………………سوری خان صاحب ہم کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پائےآپکی مسز کا مس کیرج ہو گیا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر رضیہ نے افسردہ انداز میں خبر سنائیدھڑام۔۔۔۔۔دھڑام۔۔۔۔۔دھڑام۔۔۔۔۔یشب خان آفریدی اپنی بنائی گئی اونچائی سے منہ کہ بل دھڑام سے گرا تھا۔۔ہیر کیسی ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ اتنی مدھم آواز سے بولا کہ ڈاکٹر بمشکل سن پائیںٹھیک ہیں مگر فلحال غنودگی میں ہیں آپ مل سکتے ہیں۔۔۔۔روم میں شفٹ کر دیا ہے۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔وہ سر ہلا کر کہتا اپنے بھاری قدم گھسیٹتا ہیر کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔یہ کیا کر دیا یشب خان تم نے۔۔۔۔؟؟اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں ختم کر دیا۔۔۔۔ کیا اب اسکا انتقام خود سے لو گے جیسے شمس کا انتقام ہیر سے لیتے رہے ہو۔۔۔۔؟؟وہ تو بےقصور تھی بیچاری۔۔۔۔ مگر تم۔۔۔تم تو انجانے میں ہی سہی پر قصوروار بن چکے ہو یشب خان۔۔۔اپنی ہی اولاد کو کھا گئے ہو تم۔۔۔انسان ہو یا پھر درندے جو اپنی ہی اولاد کو نوچ گھوسٹ لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟بولو کیا ہو تم۔۔۔۔۔۔؟؟اسکا ضمیر کھینچ کھینچ کے طمانچے مارتا اسے آئینہ دیکھا رہا تھااب کیا کرو گے خود کیساتھ۔۔۔۔؟؟؟کیا وہی مار پیٹ وہی لعن طعن کرو گے خود کیساتھ جو ہیر کیساتھ کر چکے ہو اسکی سزا کے طور پر۔۔۔۔؟؟نہیں۔۔۔۔۔اسکا ضمیر استہزائیہ ہنسا۔۔۔۔تم خود کیساتھ ایسا کچھ کیوں کرو گے بھلا مرد جو ٹہرے اور وہ ٹہری ایک عورت۔۔۔۔۔جس کی پرواہ کیے بغیر تم نے اس سے ناروا سلوک روا رکھا۔۔۔۔جسے وہ زبان بند کیے سہتی رہی سہتی رہی۔۔۔۔تمہیں پروا ہی کب تھی اسکی یہ جو اب تمہاری شکل اتری ہے۔۔۔تمہاری آنکھوں میں نمی ہے تو یہ پچھتاوا ہے تمہارا اپنی اولاد کھونے کا نہ کے ہیر کیساتھ برے رویے کا۔۔۔نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں ہیر سے۔۔۔۔۔یشب تڑپ کے بڑبڑایا کیا۔۔۔۔؟؟کیا ہیر سے۔۔۔۔۔؟؟میں محبت کرتا ہوں ہیر سے۔۔۔۔وہ وہیں پیلر سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا اونہہ۔۔۔۔محبت۔۔۔۔اسے محبت کہتے ہیں تو پھر نفرت کسے کہتے ہیں یشب خان۔۔۔۔۔؟؟چند منٹ دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہیبولو اب چپ کیوں ہو گئے۔۔۔۔؟؟اپنی بکواس بند کرو۔۔۔میں ہیر سے محبت کرتا ہوں۔۔۔کرتا تھا۔۔۔کرتا رہوں گا سمجھےتم۔۔۔۔۔یشب گھٹنوں سے سر اٹھا کر باآواز بلند چلایاوہاں سے گزرتے سویپر نے رک کر حیرت سے یشب کو زمین پر بیٹھے اکیلے ہی چلاتے دیکھایشب اسکی نظروں میں موجود حیرت اور تجسس دیکھ کر خود کو کوستا اٹھ کر ہیر کے روم کی طرف چلا گیا۔۔۔مگر قدم اب بھی کہیں کے کہیں پڑ رہے تھے۔۔۔وہ بمشکل خود کو گھسیٹ کر کمرے میں داخل ہوا ہیر بیڈ پر ہوش خرد سے بیگانہ پڑی تھی۔۔۔ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی جبکہ دوسرا نیچے کو لٹک رہا تھا یشب آہستگی سے چلتا پاس آیا اور ہیر کے لٹکتے ہاتھ کو بیڈ پر رکھایہ۔۔۔یہ ہیر تو وہ ہیر نہ تھی جس نے پہلی ملاقات میں ہی یشب آفریدی کے دل کو گدگدایا تھا۔۔۔۔۔جسے دیکھ کر یشب کو پھر سے اسے دیکھنے کی چاہ ہوئی تھی۔۔۔۔ جسکی ایک جھلک کی خاطر وہ کئی بار جھیل پر گیا تھا۔۔۔۔۔جس کی شبیہہ یشب کے دل میں دھندلی ضرور ہو گئی تھی مگر مٹی نہیں تھی۔۔۔یہ تو کوئی اور ہی ہیر تھی جو صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی۔۔۔۔۔پیلی رنگت ، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، سوکھے پھٹک ہونٹ۔۔۔کمزور و لاغر سی۔۔۔یشب کو یاد آیا جب وہ اسے تہہ خانے سے نکال کر کمرے میں لایا تھا تو رات کو وہ اندھیرے میں زمین پر اوندھے منہ گری تھی۔۔۔۔اور یشب نے اسکی بھری بھری ہیلتھی جسامت پر چوٹ کی تھی اور کرین منگوانے کا مشورہ دیا تھا اور اب۔۔۔۔اب تو وہ اس ہیر سے آدھی رہ چکی تھی۔۔۔۔۔یشب کے دل کو کسی نے مٹھی میں جکڑا۔۔۔میں انتقام میں اتنا اندھا ہو چکا تھا کہ بنا جرم کے تمہیں سزا دی۔۔۔۔میں اتنا گر گیا تھا کہ میں نےتم پر ہاتھ اٹھایا۔۔تمہاری ان آنکھوں میں آنسو لایا جن پر مر مٹا تھا میں۔۔۔۔۔وہ مزید آگے ہواتم۔۔۔۔۔تمہیں۔۔۔۔اپنی باتوں سے ٹارچر کیا۔۔۔۔بے وجہ ڈپٹا تم پر اپنا غصہ نکالا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟؟کیوں میں اپنی بدلے کی آگ تمہارے وجود میں اتارتا رہا۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟؟؟یشب کی آنکھ سے ایک آنسو نکل کر ہیر کے ڈرپ لگے ہاتھ پر گرامجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے معاف کر دو ہیر اس انتقام کی آگ میں جل کر میں اپنا ہی نقصان کر بیٹھا۔۔۔اپنی ہی اولاد کو کھا گیا میں۔۔۔۔مجھے معاف کر دو پلیز۔۔۔۔وہ بے آواز بولتا دل میں ہیر سے ہمکلام تھامیں نے بہت برا کیا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔بہت زیادتیاں کی ہیں۔۔۔بہت برا ہوں میں۔۔۔۔بہت برا۔۔۔اس نے جھک کر ہیر کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔۔۔ہو سکے تو معاف کر دو مجھے ۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں تمہیں دیکھ کر ڈر چکا تھا ہیر۔۔۔۔۔کہ کہیں پھر سے تمہارا اسیر نہ ہو جاؤں مگر۔۔۔۔مگر میں یہ بھول چکا تھا کہ میں تو پہلے ہی تمہارا اسیر ہوں اب کیا ہوں گا۔۔۔۔؟؟چند مزید آنسو گر کر ہیر کے سنہری بالوں میں جذب ہو گئےبار بار تمہیں دیکھنے کی چاہ کی تھی میں نے مگر جب یہ چاہ پوری ہوئی تو میرا انتقام اس چاہ کے مقابل ڈٹ گیا۔۔۔۔میرا انتقام مجھ سے سب کچھ چھین لے گیا ہے ہیر۔۔۔۔۔دیکھو۔۔۔۔دیکھو اس بدلے کے چکر میں میرے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔۔۔۔تمہارے گھر والوں کو تکلیف دینے چلا تھا میں۔۔۔۔اور آج پھر سے اپنی قیمتی چیز کھو جانے کی تکلیف سے گزر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔جو بھی ہوا سب میرا قصور ہے۔۔۔۔۔میری ہی وجہ سے ہمارا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی چلا گیااب کیا یہ انتقام میں خود سے لوں گا۔۔۔۔۔۔؟؟نہیں۔۔۔۔۔اسکے اردگرد گونجاجب نہیں۔۔۔۔۔تو پھر میں یشار لالہ کے خون کا بدلہ تم سے کیوں لے رہا تھا ہیر۔۔۔۔میں کیوں اسقدر گر گیا کہ خود کو۔۔۔۔ایکسکیوزمی سر۔۔۔۔۔۔نرس کی آواز پر یشب اپنے آنسو پونچھتا پیچھے ہٹامجھے یہ انجیکشن دینا تھا انہیں۔۔۔ہوں۔۔۔۔وہ سر ہلاتا کمرے سے نکل گیانرس نے حیرت سے کھڑوس سے یشب خان کی یہ حالت دیکھیلگتا ہے کافی محبت ہے اپنی بیوی سے۔۔۔۔حیرت ہے اسے غصے کے علاوہ بھی کچھ آتا ہے۔۔۔۔ویسے رومینس کرتے ہوئے کیسا لگتا ہو گا۔۔۔۔؟؟؟ ناذمہ ) نرس) ہونٹ پر انگلی رکھے سوچنے لگیکھڑے کھڑے فوت ہو چکی ہو کیا۔۔۔؟؟آمنہ نے روم میں اینٹر ہو کر اس پر طنز کیاارے نہیں میں تو بس۔۔۔۔۔وارڈ میں راؤنڈ لو جا کر تمہاری ڈیوٹی ہے وہاں۔۔۔۔پتہ ہے مجھے میری استانی مت بنو ڈاکٹر رضیہ نے انجیکشن لگانے بھیجا تھا مجھے یہاں۔۔۔۔تو کیا لگا دیا۔۔۔۔۔؟؟ آمنہ نے بھنویں اچکائیںلگا رہی ہوں۔۔۔۔لگا کر جلدی ڈیوٹی پر آؤ میں تمہاری ملازمہ نہیں کہ تمہاری آدھی ڈیوٹی بھی میں ہی دوں۔۔۔۔۔وہ کہہ کر واپس مڑ گئیآ رہی ہوں ابھی۔۔۔۔ناذمہ نے منہ بگاڑتے ہوئے ہاتھ سیدھا کر کے اسکی پشت پر لعنت بھیجی اور ہیر کے بازو سے وین ٹٹولنے لگی……………………………………………………….کیسی طبیعت ہے اب تمہاری۔۔۔۔۔ہیر نے آنکھیں کھولنے پر مہرو کو خود پر جھکے پایاہوں۔۔۔۔۔اس نے آہستہ سا سر ہلایاچلو تھوڑی ہمت سے اٹھو۔۔۔میں تمہیں سوپ پلا دوں۔۔۔۔مہرو نے اسے سہارا دے کر ترچھا سا بیٹھایا اور سوپ پلانے لگیتین ، چار چمچ لینے کے بعد ہیر نے مزید پینے سے منع کیاتھوڑا سا اور پی لو۔۔۔۔نہیں بھابھی بس۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔لٹا دوں پھر۔۔۔۔۔؟؟؟نہیں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔۔۔۔وہ مدھم سا بولیبی بی جان بھی آنے کا کہہ رہی تھیں مگر میں نے منع کر دیا ڈاکٹر رضیہ نے شام تک ڈسچارج کرنے کا کہا ہے۔۔۔۔مہرو کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا بات کرے۔۔۔۔تم پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گاہیر خاموشی سے کچھ بھی کہے بنا سامنے دیوار کو دیکھتی رہیہیر۔۔رر۔۔۔چند منٹ بعد پھر سے مہرو نے پکاراہیر نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھاہیر جو ہو گیا اسے بھول جاؤ دیکھو ہماری قسمت میں جو لکھا ہو وہ تو ہو کر ہی رہتا ہے اس لیے تم پریشان مت ہو اوپر والا اور دے دے گابھابھی مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔۔۔مہرو کی باتوں کے جواب میں وہ بس یہی کہہ پائیاچھا لیٹ جاؤ پھر۔۔۔۔مہرو نے آگے بڑھ کر اسے لیٹنے میں مدد کی اور اس پر چادر درست کر کے پاس پڑی چئیر پر بیٹھ گئیہیر نے لیٹ کر اپنی نم آنکھیں موند لیں۔۔مہرو افسردگی سے ہیر کے کپکپاتے ہونٹوں اور پلکوں پر سجی نمی کو دیکھ رہی تھی…………………………………………………………یشب نے نرس کے آنے پر کمرے سے نکل کر مہرو کو فون کیا تھابیس ، پچیس منٹ بعد مہرو ڈرائیور کیساتھ ہوسپٹل آ گئی تھییشب کچھ کہے بنا نظریں چراتا ہوا باہر چلا گیا تھارات کو ہیر ایک ، دو بار ہوش میں آئی تھی مگر غنودگی میں اور اب دوبارہ صبح ہوش آیا تھا ڈاکٹر رضیہ نے چیک اپ کے بعد شام تک ڈسچارج کرنے کا کہا تھاشام کو مہرو ڈرائیور کیساتھ ہی ہیر کو واپس حویلی لے آئی تھیبی بی جان نے بہت پراثر اور ٹہرے ہوئے لہجے میں ہیر کو سمجھایا اور ہمت دی تھی۔۔۔۔مہرو اسے میڈیسن دے کر یشب کے کمرے میں چھوڑ کر چلی گئی تھیہیر خاموشی سے چھت کو گھور رہی تھی جب بالکونی کا دروازہ کھول کر کوئی اندر آیا ہیر جانتی تھی کون ہو گا اس لیے اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں یوں جیسے اب نہ کھولنے کی قسم کھا لی ہو۔۔۔۔یشب شکستہ قدموں سے چلتا بیڈ کے پاس آیاہیر نے آنکھوں کیساتھ اپنی سانس بھی بند کر لی ہیر۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولاہیر۔۔۔رر۔۔۔پھر سے پکاراہیر کیطرف سے خاموشی پا کر وہ جھکا اور لب اسکے ماتھے پر رکھےاس لمس پر ہیر نے کرب سے آنکھیں کھول کر یشب آفریدی کی آنکھوں میں دیکھا تو بنا کسی خوف کے دیکھتی چلی گئی

ہیر نے یشب آفریدی کے لمس پر کرب سے آنکھیں کھولیںکیسی طبیعت ہے اب۔۔۔۔؟؟وہ شرمندہ شرمندہ سا بولازندہ ہوں۔۔۔ایسے مت کہو ہیر۔۔۔۔میں ہیر نہیں ہوں۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔کس بات کی معافی خان آپ تو حق پر تھے ناں۔۔۔۔وہ طنزیہ ہوئیمیں مانتا ہوں میں غلط تھا۔۔۔۔۔اب کیا فائدہ اب تو ہو چکا جو ہونا تھا۔۔۔ویسے بھی جو ہوا بلکل ٹھیک ہوا۔۔ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔میں کونسا یہاں خوشیاں سمیٹنے آئی تھی جو خوشی راس آتی مجھے۔۔۔۔۔ہیر میں شرمندہ ہوں تم سے میں نے ہر گز نہیں چاہا تھا کہ ہمارا بچہ۔۔ ہمارا۔۔۔۔۔؟؟؟ہمارا نہیں یشب خان صرف میرا۔۔۔صرف میرا بچہ تھا۔۔۔۔اگر آپ کا ہوتا تو آپ وہ سب نہ کرتے جو کر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ چیخنا چاہتی تھی مگر آنسوؤں کیوجہ سے اسکی آواز گھٹ گھٹ کر نکل رہی تھیمیں جان بھوج کر کیوں کروں گا ایسا ہیر یہ سب غلطی سے۔۔۔میں کیوں مان لوں یہ سب غلطی سے ہوا۔۔۔۔وہ اسکی بات کاٹتی بولی جب میں یہاں چلاتی رہی کہ شمس لالہ نے یشار خان کا خون جان بھوج کر کسی دشمنی میں نہیں کیا بلکہ غلطی سے ہوا تو آپ نے مانی تھی میری بات جو میں مانوں۔۔۔۔؟؟کوئی بھی باپ اپنی اولاد کو کیسے مار سکتا ہے۔۔۔۔وہ بے بسی سے کہتا اپنی بے گناہی کا یقین دلانا چاہ رہا تھااس دنیا کا کوئی بھی مرد کچھ بھی کر سکتا ہے خان۔۔۔چاہے وہ باپ ہو ،شوہر ہو ،بھائی ہو یا بیٹا ہووہ کچھ بھی کر سکتا ہےاور میں ہر رشتے میں مرد کو جانچ چکی ہوں خان۔۔۔مجھ سے بہتر کون جان پایا ہو گا آپ مردوں کی اصلیت کیا ہے۔۔۔۔۔۔جس کے باپ نے اسے بیٹے کے جرم میں ونی کر دیا۔۔۔جس کے بھائی نے اسے اپنی غلطی کی سزا بھگتنے بھیج دیا۔۔۔۔۔جس کے شوہر نے اسے خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی کے سوا کچھ نہ سمجھا۔۔۔۔اور ۔۔۔اور جسکی اولاد اس دنیا میں آ کر ناجانے کیا کرتی اس کے ساتھ آپ نے اچھا کیا۔۔۔۔۔بہت اچھا کیا کہ پہلے ہی ختم کر کے مجھے مزید اذیت سہنے سے بچا لیاہیر۔۔۔مم۔۔۔مجھے معاف کر دو پلیز۔۔۔۔وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر بولاہیر تکیے میں منہ چھپائے ہچکیوں سے رونے لگیہیر۔۔رر۔۔۔یشب نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلائیںپلیز خان۔۔۔۔پلیز مجھے چند دن سوگ منانے کی اجازت دے دیں۔۔۔۔مجھے خود کو اگلے امتحان کے لیے تیار کرنے دیں۔۔۔۔ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں خان۔۔۔۔آپ کو خدا کا واسطہ ہے۔۔۔۔چھوڑ دیں مجھے میرے حال پر۔۔۔۔۔۔۔وہ گھٹی گھٹی آواز میں رونے لگیابھی پہلی محبت کے،بہت سے قرض باقی ہیںابھی پہلی مسافت کی،تھکن سے چور ہیں پاؤںابھی یہ زخم تازہ ہیں،یہ بھر جائیں تو سوچیں گےدوبارہ کب اجڑنا ہے۔۔۔!یشب کے پاس اب پیچھے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔۔چند منٹ اس نے وہاں بیٹھ کر ہیر کی پشت کو دیکھا اور ایک دکھ بھری نظر اس کے ہچکیاں لیتے وجود پر ڈال کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیاکیونکہ اب وہ اسے مزید اذیت نہیں دینا چاہتا تھا”میری محبتیں بھی عجیب تھیں٬میرا فیض بھی کمال تھاکبھی سب ملا بنا طلب٬کبھی کچھ نہ ملا سوال پر!!………………………………………………………………ہیر کی طبیعت کافی سنبھل گئی تھی۔۔۔ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا تھا اسے ہوسپٹل سے گھر آئے۔۔۔اس رات کے بعد ہیر نے دوبارہ یشب کو کمرے میں نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔اور نہ ہی کسی سے اس کے بارے میں کچھ پوچھا تھااب بھی وہ آہستگی سے چلتی ہوئی ہال کمرے میں آئی جہاں بی بی جان اور مہرو موجود تھیںارے ہیر تم کیوں آ گئی کچھ چاہیے تھا تو انٹر کام سے بتا دیتی۔۔۔۔مہرو اسے دیکھ کر جلدی سے کھڑی ہوئینہیں کچھ نہیں چاہیے تھا میں کمرے میں رہ رہ کر تھک چکی تھی اسی لیے خود ہی باہر آ گئی۔۔۔۔۔وہ آہستگی سے کہتی انکی طرف آئیاچھا آؤ بیٹھو۔۔۔۔مہرو نے اپنے ساتھ جگہ خالی کیاسلام علیکم۔۔۔۔بی بی جانوعلیکم سلام۔۔۔۔کیسی طبیعت ہے اب۔۔۔۔؟؟اللہ کا شکر ہے بی بی جان ٹھیک ہوں اب۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرائیہوں۔۔۔۔ہمیں ہر حال میں شکر گزار ہی رہنا چاہیے بچے۔۔۔۔مہرو تم ہیر کو اپنے ساتھ ہی لے جانا دل بہل جائے گا اس کا اور واپسی پر ہمارے ساتھ آ جائے گیجی بی بی جان۔۔۔۔میں بھی یہی سوچ رہی تھی اور شاپنگ وہیں سے کر لوں گی جا کر اپنی بھی اور ہیر کی بھی۔۔۔حدید کے لیے تو یشب کل بہت کچھ خرید لایا تھاہوں جیسے مناسب سمجھو۔۔۔۔وہ مسکرائیںہیر لاتعلق سی بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھیہیر تم اپنی پیکنگ کر لینا بلکہ میں ہی کر دوں گی۔۔۔۔پرسوں شام نکلیں گے ہم۔۔۔۔کہاں جانا ہے۔۔۔۔۔؟؟لال حویلی میرے میکے۔۔۔۔۔وہ میرے چھوٹے بھائی کی شادی طے ہو گئی ہے اگلے ہفتے کی اور ہم ایک ہفتہ پہلے جائیں گے وہاں۔۔۔۔مہرو نے مسکرا کر اطلاع دیجی۔۔۔۔۔ہیر نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیاہیر تم چاہو تو کل جا کر اپنے گھر والوں سے مل آنا۔۔۔۔یشب کچھ نہیں کہے گا۔۔۔بی بی جان نے اسکی مرجھائی ہوئی صورت دیکھ کر کہانہیں بی بی جان میرا دل نہیں جانے کو۔۔۔۔۔میں باہر لان میں جا رہی ہوں وہ آہستگی سے کہتی ہال سے نکل گئیتم نے پوچھا مہرو کے کیسے گری تھی اس رات۔۔۔۔۔ نہیں بی بی جان۔۔۔۔مت پوچھنا اب سنبھل جائے گی وقت کیساتھ۔۔۔وہ افسردہ ہوئیںجی نہیں پوچھتی۔۔۔۔۔۔میں چائے لاؤں آپ کے لیے۔۔۔؟؟ہاں۔۔۔۔۔۔لے آؤ پھر جا کر نماز پڑھوں گیابھی لاتی ہوں۔۔۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی چائے بنانے کیچن کیطرف چلی گئی………………………………………………………………انہیں لال حویلی آئے دو دن ہو گئے تھے۔۔۔مگر وہاں آ کر بھی ہیر کی حالت پر کچھ خاص اثر نہیں پڑا تھا۔۔۔۔وہ ویسی ہی گم سم سی تھی۔۔۔۔اب بھی وہ اس کمرے میں جو اسے ایز آ گیسٹ دیا گیا تھا اکیلی ہی بیٹھی اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی جب مہرو کمرے میں آئیہیر یہاں کیوں بیٹھی ہو۔۔۔۔باہر سب لڑکیاں ڈھولک پر گیت گا رہی ہیں اور تم یہاں اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنائے بیٹھی ہو۔۔۔۔مجھے گیت گانے نہیں آتے بھابھی۔۔۔۔تو کون کہہ رہا ہے گیت گاؤ ۔۔۔سنو اور انجوائے کرو بس۔۔۔چلو اب اٹھو جلدی سے میں تمہارے کپڑے نکالتی ہوں چینج کرو اور چلو میرے ساتھ۔۔۔۔۔بھابھی آپ میرا اتنا خیال مت رکھا کریں میں اس قابل نہیں ہوں۔۔۔۔وہ افسردہ مسکراہٹ سے بولیمیں اچھے سے جانتی ہوں تم کس قابل ہو اور مجھے کیا کرنا ہے سمجھی۔۔۔۔اب اٹھو جلدی سے۔۔۔وہ ڈپٹتی ہوئی کبڈ کی طرف بڑھییہ والا سوٹ بہت اچھا لگے گا تم پر کیا خیال ہے۔۔۔۔؟؟مہرو نے ییلو اور ریڈ کنٹراس کا سوٹ نکالا۔۔۔۔ وہ کل ہی اپنی اور ہیر کی ساری شاپنگ کر آئی تھی ہیر نے جانے سے منع کر دیا تھا اس لیے وہ اپنی پسند سے ہی اس کے لیے بھی ڈریسز لے آئی تھیاچھا ہے۔۔۔۔تو پھر اٹھو اور اٹھ کر پہنو اسے۔۔۔۔مہرو نے ہینگر اسکی طرف بڑھایاہیر ہینگر تھام کر چینج کرنے چلی گئی………………………………………………………… بڑے سے ہال کمرے میں لڑکیاں گول دائرے کی شکل میں بیٹھیں تھیں درمیان میں ڈھولک رکھی تھی جسے ایک لڑکی بڑے ماہرانہ انداز میں بجا رہی تھی باقی لڑکیاں اردگرد بیٹھیں ڈھولک کی تھاپ پر تالیاں پیٹتی ہوئیں گیت گانے میں مصروف تھیںہیر بھی کچھ فاصلے پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ تالی بجانے لگیاسے شمس لالہ کی شادی یاد آئی جب حویلی میں کتنی رونق تھی اور ہیر کو اکلوتی بہن ہونے کے ناطے کچھ ایکسٹرا پروٹوکول دیا گیا تھاکتنا ہلگا گلا کیا تھا سب لڑکیوں نے مل کر۔۔۔۔۔وہ بجھے دل سے ہلکی ہلکی تالی بجا رہی تھی جب حدید اسکے پاس آ کر بیٹھاچاچی۔۔۔۔آپ کو کلیپنگ کرنی نہیں آتی کیا۔۔۔۔۔؟؟چاچی۔۔۔۔اس نے ہیر کی خاموشی پر بازو ہلا کر متوجہ کیاہوں۔۔۔ہاں۔۔۔کیا ہوا کچھ کہا۔۔۔۔؟؟ہیر چونک کر سیدھی ہوئیآپ کیسے کلیپنگ کر رہی ہیں میں سیکھاؤں آپ کو کلیپنگ کرنا۔۔۔۔۔وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھاہوں۔۔۔۔۔ہیر نے مسکرا کر سر ہلایایہ دیکھیں۔۔۔۔۔حدید نے دونوں ہاتھوں کو زور سے ایک دوسرے پے مار کر پرجوش انداز میں تالی بجائیایسے۔۔۔اب آپ کریں۔۔۔۔ہیر نے بھی اسی کے انداز میں دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر مارے مگر کچھ خاص جوش سے نہیںاووہو ایسے نہیں۔۔۔۔چاچی ایسے۔۔۔۔اس نے سر پر ہاتھ مار کر پھر سے تالی بجانے کا عمل دوہرایااوکے۔۔۔اب کی بار ہیر نے اس کو مکمل فالو کیاگڈ۔۔۔۔اب آ گئی آپ کو بھی۔۔۔۔اب ایسے ہی بجائیں آپ۔۔۔۔۔وہ خوش ہوااتنے زور سے بجاؤں گی تو میرے ہاتھ دکھنے لگ جائیں گے۔۔۔۔کوئی بات نہیں میں رات میں آپ کے ساتھ سوؤں گا تو دبا دوں گا۔۔۔حدید نے فورا اسکے خدشے کاحل پیش کیاہیر اسکی بات پر دل سے مسکراتی اسے اپنے ساتھ لگا گئیمیرا بچہ۔۔۔۔۔اس نے جھک کر حدید کے بالوں کا بوسہ لیاچاچی مجھ سے فرینڈ شپ کریں گی۔۔۔؟؟ضرور کروں گی۔۔۔۔چاچو کو مت بتائیے گا پھر۔۔۔۔۔وہ رازداری سے بولاکیا۔۔۔۔؟؟یہی کہ ہم فرینڈز ہیں۔۔۔۔اسنے ہیر کے کان کے پاس جا کر آہستہ سے بتایا کہ کوئی سن نہ لے۔۔۔وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟ ہیر حیران ہوئیانہوں نے مجھے منع کیا ہے فرینڈز بنانے سے سکول میں بھی میرا کوئی فرینڈ نہیں ہے بس کلاس فیلوز ہی ہیں سب۔۔۔۔آپ نے پوچھا نہیں کہ فرینڈز کیوں نہیں بناتے۔۔۔؟؟پوچھا تھا مگر انہوں نے کہا ابھی میں چھوٹا ہوں جب بڑا ہو جاؤں گا تب بتائیں گے اورتب تک صرف چاچو ہی میرے فرینڈ رہیں گے۔۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔ہیر نے سر ہلایاتو پھر ہماری فرینڈشپ پکی ہے ناں۔۔۔؟؟؟بلکل۔۔۔۔۔وہ مسکرائیچلیں پھر۔۔۔۔حدید نے ہاتھ کو پنچ مارنے کے انداز میں گول کیایہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟یہ ہماری فرینڈشب سائین ہے۔۔۔۔میں اور چاچو بھی ایسے کرتے ہیںاوکے۔۔۔۔۔پر مجھے کیا کرنا ہو گا اب۔۔۔ہیر اسکی باتوں میں کافی بہل گئی تھیآپ بھی ایسے ہی بنائیں پھر ہم ایک دوسرے کو ہلکا سا پنچ ماریں گےاوہ اچھا۔۔۔ہیر نے مسکراتے ہوئے ہاتھ کا مکا بنایادونوں نے اپنا اپنا پنچ مارا اور کھلکھلا کر ہنس پڑے ……………………………………………………………بھابھی میں اور حدید کچھ دیر کو باہر گھوم پھر آئیں۔۔۔۔۔؟؟ہیر نے کیچن میں مصروف مہرو سے پوچھاچلی جاؤ مگر کسی ملاذمہ کو لے کر جانا ساتھ۔۔۔کافی پیچیدہ راستے ہیں بھول نہ جاؤ کہیں۔۔۔ڈونٹ وری بھابھی انہی پیچیدہ علاقوں کی پیداوار ہوں میں۔۔۔۔۔ہیر لاپرواہی سے مسکرائیجانتی ہوں مگر پھر بھی احتیاط ضروری ہے۔۔۔۔مجھے تسلی رہے گئی۔۔۔ٹھیک ہے بھیج دیں۔۔۔۔۔ہاں میں بانو کو بھیجتی ہوں تم کوئی موٹی شال اوڑھو موسم بدل رہا ہے۔۔۔جی۔۔۔۔ہیر کو اماں یاد آئیں وہ بھی اسی طرح فکر کرتیں تھیں جسطرح مہرو بھابھیارے کیا ہوا ہیر۔۔۔۔مہرو اسکی گالوں پر پھسلتے آنسو دیکھ کر آنچ دھیمی کرتی اسکے پاس آئیبھابھی آپ بہت اچھی ہیں۔۔۔وہ کہتی ہوئی اسکے گلے لگ کر رو پڑیچند منٹ بعد مہرو نے اسے خود سے الگ کیاتم بھی بہت اچھی ہو۔۔۔اسی لیے تو میں تمہاری پرواہ کرتی ہوں۔۔۔۔مہرو نے اسکے آنسو صاف کیےچلو اب جاؤ پھر اندھیرا پھیل جائے گاجی۔۔۔۔۔ہیر دوپٹے سے آنکھیں رگڑتی باہر نکل گئی……………………………………………………………چاچی چھپن چھپائی کھیلتے ہیں۔۔۔۔۔حدید نے اچھلتے ہوئے مشورہ دیاوہ اس وقت حویلی سے کافی آگے نکل آئے تھے۔۔۔۔واقعی وہ کافی پیچیدہ ایریا تھا۔۔۔۔پتھریلا اونچا نیچا سا۔۔۔۔۔سر سبز درختوں میں گھرا۔۔۔۔بلکل جنگل جیسا۔۔۔چھپن چھپائی تو لڑکیاں کھیلتی ہیں۔۔۔ہیر نے مسکراہٹ دباتے پوچھاہاں تو آپ اور بانو لڑکیاں ہی ہیں۔۔۔۔ہیر اور بانو اسکی بات پر مسکرا دیںپر آپ کیا کریں گے پھر۔۔۔۔؟؟؟میں بھی آپ لوگوں کو کمپنی دینے کو کھیل لوں گا۔۔۔۔اسکے شرارتی انداز پر ہیر کھکھلا کر ہنس پڑیبہت چالاک ہو تم پہلے کیوں نہیں ملے مجھے۔۔۔۔میں تو ملنا چاہتا تھا پر آپ اپنے روم سے ہی نہیں نکلتی تھیں۔۔۔وہ فورا بولااوہ سیڈ۔۔۔۔چلو کوئی بات نہیں اب تو مل چکے ہیں ناں۔۔۔۔ہیر نے اسکا ناک کھینچایس۔۔۔۔۔۔۔چلیں اب گیم شروع کرتے ہیں اوکے پہلے آپ اور بانو چھپیں میں آپ دونوں کو ڈھنڈوں گی۔۔۔ہیر نے اپنی باری لگائیاوکے چلو بانو ہم چھپتے ہیں۔۔۔۔وہ بانو کا ہاتھ پکڑتا آگے کی طرف بھاگازیادہ دور نہیں جانا ہے قریب قریب ہی چھپنا۔۔۔۔اوکے چاچی۔۔۔۔وہ بلند آواز سے کہتا کچھ فاصلے پر موجود درخت کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ گیاچند منٹ بعد ہیر نے دونوں کو ڈھونڈ نکالاپھر جو پہلے پکڑا جاتا وہی اگلی باری دیتا یونہی کافی وقت گزر گیا جب ہیر نے گیم ختم کرنے کا اعلان کیانہیں ایک لاسٹ بار پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔چاچی آپ فورا ہی مجھے ڈھونڈ نکالتی ہیں اب میں وہ اس طرف چھپوں گا جہاں آپ ڈھونڈ نہیں پائیں گی۔۔۔۔۔حدید نے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں کیطرف اشارہ کیاحدید بیٹا دیر ہو جائے گی دیکھو اندھیرا ہو رہا ہے۔۔۔نہیں ہوتا اندھیرا بس ایک آخری بار پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔پلیز۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ پکڑتا ملتجی ہوااوکے دس از لاسٹ۔۔۔۔اوکے ڈن۔۔۔۔۔وہ ہیر کے مان جانےخوشی سے اچھلاچلو چھپو جلدی سے میں آنکھیں بند کر رہی ہوں۔۔۔۔ہیر کے کہنے پر وہ اسکو بتائی گئی جگہ کی مخالف سمت بھاگاچند سیکنڈ بعد ہیر آنکھیں کھولتی اسی طرف گئی جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا مگر حدید وہاں نہیں تھا ہیر نے قریب قریب سب جگہوں پر دیکھا مگر وہ اس طرف ہوتا تو ملتا۔۔۔اس نے فکرمندی سے اسے آواز دی حدید۔۔د۔۔د۔۔دحدید کہاں ہو بیٹا۔۔۔؟؟ میں ہار گئی ہوں تم جہاں بھی ہو آ جاؤ۔۔مگر بے سود۔۔۔۔۔وہ پریشان سی واپس پلٹیکیا ہوا ہیر بی بی۔۔۔؟؟بانو اپنا جوتا لینے گئی تھی جو کھیلتے ہوئے گہرائی میں گر گیا تھا بانو وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔حدید۔۔۔۔کیا ہوا حدید بابا کو۔۔۔۔؟؟پتہ نہیں کہاں چھپ گیا ہے میں اتنی آوازیں دے چکی ہوں مگر کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔بانو کہتی ہوئی آگے کی طرف چل پڑیہیر نے وہیں کھڑے کھڑے پھر سے کئی آوازیں دیں مگرحدید کا کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔۔۔چند منٹ بعد بانو بھی خالی ہاتھ لوٹ آئی ہیر بی بی اسطرف نہیں ہیں حدید بابا۔۔۔اوہ میرے مالک یہ کیا ہو گیا۔۔۔۔۔وہ فکرمندی سے بولیبی بی جی حویلی چل کر بتاتے ہیں تاکہ۔۔۔۔۔نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔حدید کو لیے بغیر کیسے چلے جائیں تم۔۔۔تم رکو یہاں میں اردگرد دیکھتی ہوں۔۔۔میں بھی چلوں آپ کے ساتھ۔۔۔۔؟؟نہیں بانو تم یہیں رکو اگر حدید یہاں آ گیا تو ہمیں نہ پا کر پریشان ہو گا۔۔۔تم ایسا کرنا اگر وہ آ گیا تو مجھے آواز دے دیناجی بی بی۔۔۔۔ہیر اسے نصیحت کرتی تیز تیز قدم اٹھاتی پھر اسی طرف چلی گئی جس طرف حدید نے اشارہ کیا تھاوہ جھاڑیوں کو ہٹا ہٹا کر دیکھتی بہت آگے نکل گئی تھی اوپر سے اندھیرا بھی بڑھتا جا رہا تھامگر اسے پرواہ کب تھی اس اندھیرے کی وہ تو بس حدید کو تلاش کر لینا چاہتی تھی جسے اپنی ذمہ داری پر ہی ساتھ لائی تھیدل میں آیت الکرسی کا ورد کرتے وہ مزید آگے سے آگے بڑھتی ناجانے کتنی دور آ گئی تھی۔۔۔مگر حدید پھر بھی نہیں ملا۔۔۔وہ وہیں زمین پر بیٹھ کر سر گھٹنوں پر رکھے اپنی پھولتی سانسیں ہموار کرنے لگی بانو ٹھیک کہہ رہی تھی ہمیں واپس جا کر بتا دینا چاہیے تاکہ وہ لوگ حدید کو ڈھونڈ سکیں کہیں رات۔۔۔۔۔رات۔۔۔۔!!!! ہیر نے لفظ رات پر جھٹکے سے سر اٹھایارات تو ہو چکی تھی۔۔۔۔ہر طرف گہرا اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔ہیر کی ہارٹ بیٹ مس ہوئیاوہ میرے خدا۔۔۔میں کہاں آ گئی ہوں۔۔۔۔؟؟اس نے کھڑے ہو کر چاروں طرف دیکھامم۔۔۔۔۔میں کسطرف سے آئی تھی۔۔۔۔اسے ہر راستہ ایک جیسا ہی لگ رہا تھاچاروں طرف گھنے درخت ، جھاڑیاں اور چھوٹے بڑے پتھر تھےوہ دھڑکن سنبھالتی سامنے کی طرف بھاگی مگر تھوڑا آگے جا کر گہرائی تھی وہ پھر سے واپس پلٹتی اسی جگہ پر آئی جہاں سے بھاگی تھیاسے اپنے پیروں تلے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیاب۔۔۔اب کس طرف کو۔۔۔۔؟؟وہ گھبرا کر کہتی چاروں طرف گھوم کر سیدھی کھڑی ہوئیچند منٹ خاموش رہنے کے بعد وہ التجائیہ نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتی دائیں جانب بھاگی کچھ دور جا کہ اسے لگا کہ یہ وہی راستہ ہے جہاں سے وہ آئی تھیاسی بات سے اسکی ہمت بڑھی اور وہ مزید تیز رفتاری سے بھاگنے لگی ہیر کے کانوں میں جانوروں کی عجیب و غریب اور خوفناک آوازیں گونج رہیں تھیںمیرے مالک رحم کر مجھ پر۔۔۔۔وہ با آواز بلند دعا مانگتی سامنے پڑے پتھر سے زور دار انداز میں ٹکرائی اس تصادم میں جوتا ٹوٹنے کیساتھ اسکے انگوٹھے کا ناخن بھی اکھڑ چکا تھاوہ تکلیف کی شدت سے پاؤں پکڑ کر زمین پر بیٹھیاوئی ماں۔۔۔۔اللہ جی۔۔۔۔۔وہ ہونٹوں پر دانت جمائے تکلیف برداشت کرنے کی کوشش کرنے لگیچند منٹ بعد ہیر نے اس اندھیرے میں اپنی پوری آنکھوں کو کھول کر زخم دیکھنے کی کوشش کیاسکے پاؤں کے انگوٹھے کا آدھا ناخن اکھڑ چکا تھا اور آدھا ہلکا سا ساتھ جڑا لڑھک رہا تھاہیر نے درد کی شدت سہتے ہوئے اس آدھے ناخن کو بھی اکھاڑنا چاہا۔۔۔اس مقصد کے لیے اس نے ہاتھ ناخن کے پاس لے جا کر آنکھیں سختی سے میچ لیںہونٹ بھینچے وہ ناخن اکھڑنے ہی والی تھی جب اوپر سے کوئی چیز اس پر گری۔۔۔۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔۔۔۔ہیر کی فلک شگاف چیخ بے ساختہ تھی…………………………………………………………بانو بے چینی سے ہیر کی واپسی کا انتظار کر رہی تھیمزید کچھ دیر انتظار کے بعد وہ گھبراہٹ سے ہاتھ مسلتی اسی طرف بڑھی جس طرف ہیر گئی تھی۔۔۔ابھی وہ جھاڑیوں کے پاس ہی پہنچی تھی جب پیچھے سے حدید کی آواز آئیبانو۔۔۔۔۔۔۔وہ فاصلے پر کھڑا پکار رہا تھابانو اسکی آواز پر خوشی سے واپس پلٹتی اس تک آئیحدید بابا کہاں تھے آپ۔۔۔۔۔؟؟میں اور ہیر بی بی کتنا پریشان تھیں آپ کے لیے۔۔۔۔ڈھونڈا بھی آپ کو پر آپ نہیں ملے ۔۔۔۔وہ پرجوش سی بولیمیں وہاں پتھر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا مجھے چاچی کی آواز آ رہی تھی جب وہ مجھے پکار رہیں تھیں۔۔۔حدید نے فخریہ انداز میں بتایاتو پھر آپ سامنے کیوں نہیں آئے۔۔۔۔بانو حیرت سے بولیوہ ہر بار ہی مجھے ڈھونڈ لیتی تھیں میں نے سوچا اس بار مشکل جگہ پر چھپوں گا اور دیکھا وہ خود سے مجھے نہیں ڈھونڈ سکیں۔۔۔۔میں خود ہی آ گیا واپس۔۔۔۔وہ جوش سے اپنی چالاکی بتا رہا تھایہ کیا ہو گیا۔۔۔۔اب۔۔۔۔اب ہیر بی بی کو کون ڈھونڈے گاچاچی بھی چھپ گئی ہیں کیا۔۔۔؟؟حدید اپنی سمجھ کے مطابق بولاوہ آپ کو ڈھونڈنے گئی تھیں پر اب تک نہیں لوٹیں۔۔۔۔۔بانو فکر مندی سے کہتی بلند آواز میں ہیر کو پکارنے لگیہیر۔۔۔ررر۔۔۔ررر۔۔۔بی بیہیر بی بی۔۔۔۔۔وہ منہ کے گرد ہاتھوں کا گولا بنا کر پھر سے چلائیچاچی۔۔ی۔۔ی۔۔یچاچی۔۔ی۔۔ی۔۔حدید بھی دیکھا دیکھی چلانے لگاکئی بار چلانے کے بعد بھی ہیر کا کوئی جواب نہ پا کر بانو حدید کا ہاتھ تھامتی تیز تیز قدموں سے واپس لال حویلی کی طرف چل پڑی۔

بانو حدید کا ہاتھ پکڑے جب حویلی میں داخل ہوئی تو مؤذن عشاء کی اذان دے رہے تھے۔وہ تیز تیز قدم بڑھاتی جیسے ہی بڑے کمرے میں آئی تو وہاں موجود افراد کی نظر فورا اس تک پہنچیچاچو۔۔۔۔۔حدید یشب کو دیکھ کر بانو سے بازو چھڑواتا اسکی طرف بھاگایشب نے اسے گود میں لیتے ہوئے چٹاچٹ پیار کر ڈالایشب اور بی بی جان شام میں ہی لال حویلی پہنچے تھے۔۔۔کہاں تھے تم لوگ اتنی دیر کر دی ہم سب پریشان ہو رہے تھے ہیر کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟ مہرو بانو کی طرف لپکتی ایک ہی سانس میں بولیوہ۔۔۔۔وہ مہرو باجی وہ۔۔۔۔یشب بانو کی بوکھلاہٹ پر حدید کو گود سے اتارتا اس تک آیاکیا وہ وہ لگا رکھی ہے ہیر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟یشب کی غراہٹ پر بانو بنا رکے ایک ہی سانس میں اے ٹو زی ساری بات بتا گئیجسے سن کر سب ساکت تھےسب سے پہلے یشب کا سکتہ ٹوٹا اور وہ آندھی طوفان بنے وہاں سے نکلا تھایشب۔۔۔۔یشب۔۔۔۔مہرو پکارتی اسکے پیچھے بھاگی مگر اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنی جیپ جارحانہ انداز میں ریورس کر چکا تھامہرو تم اندر جاؤ ہیر مل جائے گی ان شا اللہ۔۔۔۔ یہیں کہیں ہو گی وہ۔۔۔۔زبیر خان ) مہرو کا بڑا بھائی ( نے اسکے سر پر تسلی کے انداز میں ہاتھ رکھاجی لالہ۔۔۔۔وہ پریشان سی سر ہلاتی اندر چلی گئیزبیر خان نے زیاد خان (چھوٹا بھائی) اور کچھ ملازموں کو ساری بات سمجھائیجسے سمجھتے ہوئے سب سر ہلاتے آگے پیچھے اپنی اپنی جیپوں کی طرف بڑھ گئے ہیر کو ڈھونڈنے کے لیے۔۔۔…………………………………………………………….یشب بانو کی بتائی گئی جگہ پر پہنچ چکا تھا جیپ وہ کافی پیچھے چھوڑ آیا تھا کیونکہ درختوں کے جھرمٹ میں جیپ مزید آگے لے جانا ممکن نہ تھایشب نے چاروں طرف نظر دوڑا کر پوری طاقت لگاتے ہوئے بلند آواز میں کئی بار ہیر کو پکارا مگر کوئی بھی جواب نہ پاکر وہ موبائل ٹارچ کی روشنی میں دائیں جانب بھاگاکیونکہ بانو کے مطابق ہیر اسی طرف گئی تھیوہ دیوانوں کی طرح ہیر۔۔۔۔ہیر پکارتا آگے سے آگے بڑھتا جا رہا تھااردوناول کہانیاں ………………………………………………………اوپر درخت سے سانپ ، چھپکلی یا جو کچھ بھی گرا تھا گرتے ساتھ ہی ادھر أدھر رینگ گیا تھا مگر ہیر کے وجود پر مارے خوف کے کپکپی طاری ہو گئی تھیمیرے مالک مجھے اس مصیبت سے نکال دے۔۔۔میں اس جنگل میں موجود جانوروں کی خوراک بن کر مرنا نہیں چاہتی پلیز میری مدد فرما۔۔۔۔اس نے اپنے رب سے فریاد کرتے ہوئے کھسک کر درخت سے ٹیک لگائی اور اول آخر درود پاک اور سات بار آیت الکرسی کا ورد کر کے پھونک سے اپنے گرد حصار باندھااپنے آنسوؤں کو اچھی طرح آستین سے رگڑ کر ہیر نے پھر سے پاؤں کے ناخن کو اکھیڑنے کی ہمت مجتمع کی آنکھیں بند کر کے اس نے اللہ کا نام لیا اور جھٹکے سے آدھا اکھڑا ناخن کھینچ لیاتکلیف کی اٹھتی ٹیسوں کو برداشت نہ کرتے ہوئے ہیر نے ایک دردناک چیخ ماری نسوانی چیخ پر یشب اپنی دوڑ کو بریک لگاتا رک کر آواز کی سمت کا تعین کرنے لگا…………………………………………………………مہرو بچے بیٹھ جاؤ تھک جاؤ گی۔۔۔۔۔۔بی بی جان نے مہرو کو بے چینی سے ٹہلتے دیکھ کر کہابی بی جان ہیر ناجانے کس حال میں ہوگی۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئیمل جائے گی ان شا اللہ۔۔۔۔۔۔انہوں نے تسلی دیآپ کو پتہ ہے ہمارے علاقے میں رات کو پہاڑی گیڈر اور کتے کتنی کثرت سے نکل آتے ہیں مجھے تو سوچ سوچ کر ہی وحشت ہو رہی ہے بی بی جان۔۔۔۔۔تم پریشان مت ہو اللہ اسے اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔۔۔۔بی بی جان نے ٹہرے ہوئے لہجے میں ہیر کو اللہ کے سپرد کیاآمین۔۔۔۔۔مہرو نے دل سے آمین کہہ کر صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں …………………………………………………………ہیررررر۔۔۔۔۔۔۔ہیر کو اپنے قریب ہی کہیں یشب کی پکار سنائی دییشب۔۔۔۔یشب کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔وہ درد کی پرواہ کیے بغیر درخت کے سہارے کھڑی ہوئیہیرررررر۔۔۔۔۔۔۔۔پھر سے آواز آئییشب کہاں ہیں آپ۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔میں یہاں ہوں یشب۔۔۔۔۔وہ چلائیبلآخر یشب اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گیاہیر کو اپنے سامنے زندہ سلامت دیکھ کر یشب کو اپنے وجود میں ایک عجب سا سکون سرائیت کرتا محسوس ہوادوسری طرف ہیر نے اس تک پہنچنے کے چکر میں پاؤں اٹھایا مگر درد کی وجہ سے وہ ایک قدم بھی چل نہیں پائی اور لڑکھڑا کر گرییشب جلدی سے درمیانی فاصلہ عبور کرتا اس تک پہنچاتم ٹھیک ہو ہیر۔۔۔۔۔وہ اسے سیدھا کرتا بے قراری سے بولاہیر تو ابھی تک شاک میں تھی کہ یشب واقعی اس کے پاس آ چکا ہے۔۔۔اوپر والے نے اسکی فریاد سن لی ہے۔۔۔وہ دونوں یک ٹک بنا پلک جھپکائے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔مدھم روشنی ، رات کا سناٹا ، کھلا آسمان ہلکی ہلکی سرد ہوا سب مل کر ان کے آس پاس ایک پرفسوں سا منظر پیش کر رہے تھے ہیر نے ٹرانس کی کیفیت میں اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے ہاتھ بڑھا کر یشب کے چہرے کو چھوا یشب اس لمس کو پاتے ہی بے اختیار ہو اٹھاوہ چھو رہا تھا ہیر کے ہاتھوں کو اسکی من موہنی صورت کے ایک ایک نقش کو عجب دیوانوں سی حالت میں چھو رہا تھا وہ اسے۔۔۔۔۔۔جو اسکی پہلی اور آخری محبت تھی۔۔۔۔جو اسکی بیوی تھیہیر یقین کے اس عملی مظاہرے پر کسمسا کر پیچھے ہٹی یشب نے ہوش میں آتے ہوئے اپنے عمل پر نظریں چرا کر سر جھکا دیادونوں کے بیچ فسوں خیز سی خاموشی چھا گئیچند منٹ بعد اس بولتی خاموشی کو یشب نے ہی توڑنے میں پہل کیتم۔۔۔۔تم ٹھیک ہو ہیر۔۔۔۔۔؟؟گھر چلیں پلیز۔۔۔۔وہ مدھم آواز میں بولیہوں۔۔۔۔ہاں چلو۔۔۔۔یشب سر جھٹکتا کھڑا ہواہیر کوشش کے باوجود بھی کھڑی نہ ہو پائیکیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟یشب اسکے چہرے پر کرب کے تاثرات دیکھ کر فکرمندی سے اسکے سامنے گھٹنوں کہ بل بیٹھاہیر پاؤں پکڑے درد برداشت کر رہی تھی۔۔۔یشب نے موبائل کی روشنی ڈالتے ہوئے تکلیف کی وجہ جاننے کی کوشش کییہ۔۔۔۔یہ کیسے ہوا۔۔۔۔؟؟وہ خون سے بھرا پاؤں دیکھ کر فکرمند ہواہیر سر جھکائے خاموش رہی وہ یشب کی کسی بھی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی بلکہ یوں خاموش تھی جیسے نہ بولنے کی قسم کھا لی ہو۔۔۔ یشب نے اسکا جواب نہ پا کر جیب سے رومال نکال کر اسکے انگوٹھے پر باندھنے کے لیے ہاتھ بڑھایاسسی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔۔۔ہیر نے اسکا ہاتھ جھٹک دیاہیر خون نکل رہا ہے یہ رومال باندھنے دو مجھے۔۔۔نن۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔وہ گھبراتی ہوئی مزید پیچھے ہوئیکم آن یار۔۔۔کچھ نہیں ہو گانہیں۔۔۔نہیں بہت پین ہو رہا ہے پلیز ہاتھ مت لگائیںنہیں ہو گا پین آئی پرامس۔۔۔۔یشب نے مزید کچھ سنے بنا اسکا پاؤں سیدھا کر کے انگوٹھے پر رومال باندھ دیاہیر نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخ دبائیچلیں اب۔۔۔۔۔یشب نے رومال باندھ کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے رضامندی لیہوں۔۔۔۔۔ہیر کے ہاں میں سر ہلانے پر یشب نے جھک کر اسے قیمتی متاع کی طرح احتیاط سے بازؤں میں سمیٹ کر سینے سے لگایا اور واپسی کے لیے چل پڑا……………………………………………………………وہ ہیر کو لے کر حویلی کے رہائشی حصے کیطرف آیاہیر۔۔۔رر۔۔۔مہرو تیزی سے انکی طرف آئییہ۔۔۔۔یہ کیا ہوا ہے پاؤں پر یہ چوٹ کیسے آئی۔۔؟؟وہ پریشانی سے بولیمہرو کی آواز سنتے ہی حویلی میں موجود سب لوگ کونوں کھردروں سے وہاں آ کر کھڑے ہو گئے شادی والا گھر تھا بہت سے مہمان تھے جو اس وقت گولائی میں ہیر اور یشب کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔۔۔عجیب سا فلمی سین کری ایٹ ہو گیا تھا جہاں ہیرو اپنی ہیروئین کو بانہوں میں لیے سب کے بیچوں بیچ کھڑا تھاہیر سچویشن دیکھتے ہوئے شرمندگی سے یشب کو کمرے میں لے جانے کا کہہ رہی تھیاور یشب وہ تو جیسے کان بند کیے کھڑا مہرو اور وہاں موجود دیگر بزرگ خواتین کے سوالات کے جوب دے رہا تھا کہ ہیر کہاں سے۔۔؟؟ اور کیسے ملی؟؟۔۔۔چوٹ کیسے آئی۔۔؟؟ وغیرہمہرو نے ہیر کی شکل پر رقم بے بسی کے تاثرات دیکھ کر یشب کو بلند آواز میں ہیر کو کمرے میں لے جانے کا کہایشب سر ہلاتا اسے لیے کمرے کی جانب چلا گیا جہاں ہیر ٹہری ہوئی تھیکمرے میں آ کر یشب نے احتیاط سے اسے بیڈ پر بیٹھایاپین تو نہیں ہو رہا اب۔۔۔۔۔۔؟؟فکر مندی سے پوچھا گیاہیر نے بنا جواب دیے رخ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔۔۔ مجھے تم سے محبت ہے ، ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!محبت بھی ستاروں سی٬گلوں سی آبشاروں سی٬صبح دم نکلتے پھولوں سی٬کناروں سے گلے ملتی لہروں سی٬رم جھم برستی بارش سی،آسمان پہ بکھرے دھنک رنگوں سی،کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی،کسی نازک کلائی میں چھنکتی چوڑیوں سی،مجھے تم سے محبت ہے ،ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!یشب کچھ دیر بیڈ کے پاس کھڑا اداس نظروں سے اپنی دید کی پیاس بھجاتا رہا اور پھر کمرے سے نکل گیا………………………………………………………کچھ دیر بعد زبیر خان ، یشب اور مہرو ڈاکٹر کے ساتھ ہیر کے کمرے میں داخل ہوئےڈاکٹر نے زخم کا معائنہ کرنے کے بعد بینڈیج کی اور پین کلر دے کر چلا گیایشب یہ ہلدی ملا دودھ ہے اپنی نگرانی میں ہیر کو پلا دو ورنہ دودھ پینے کے معاملے یہ بہت چور ہے میں تب تک مہمانوں کے کھانے کا انتظام وغیرہ دیکھ لوں جا کر۔۔۔۔مہرو نے دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھاجی بھابھی۔۔۔۔یشب نے سائیڈ ٹیبل سے دودھ کا گلاس اٹھایا اور بیڈ پر ہیر کیساتھ ہی بیٹھا۔۔۔یشب کے اتنا پاس بیٹھنے پر ہیر کے چہرے پر ابھرتی ناگواری کو دیکھ کر مہرو مسکراہٹ دباتی باہر نکل گئیاب کمرے میں وہ دونوں تھے اور خاموشی۔۔۔۔پی لو یہ۔۔۔۔۔یشب نے گلاس اسکے منہ کے پاس لے جا کر کہاپی لوں گی رکھ دیں۔۔۔۔وہ بے زاری سے بولیبھابھی کہہ کر گئیں ہیں میں پلاؤں۔۔۔۔ میرے ہاتھ سلامت ہیں میں پی سکتی ہوں خود سے۔۔۔۔۔مگر میں اپنے بڑوں کا کہا نہیں ٹالتا اس لیے پیو اسے۔۔۔۔یشب نے سیریس ہوتے ہوئے گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایاہیر نے ہاتھ کی پشت سے گلاس کو پیچھے جھٹکا جس سے آدھا دودھ نیچے اور آدھا یشب کے کپڑوں پر گراواٹس رونگ۔۔۔۔۔؟؟اسکی تیوری چڑھیرونگ میں نہیں رونگ آپ کر رہے ہیں اپنے مزاج سے۔۔۔۔۔۔۔پیو اسے۔۔۔۔۔وہ بھی یشب تھا اڑیل گھوڑا کیطرح بضد۔۔۔نہیں پیؤں گی۔۔۔۔وہ بھی ضدی ہوئیانف از انف پیو یہ جو بچا ہے ورنہ الٹے ہاتھ کا ٹھپڑ دوں گا۔۔۔۔زیادہ دیر کول رہنا یشب کی عادت نہ تھیدے دیں ٹھپڑ کئی دن جو ہو گئے نہ مارے ہوئے اس لیے دل چاہ رہا ہو گا۔۔۔۔ویسے بھی میرا سکون آپ سے برداشت ہی کب ہوتا ہے۔۔۔میرا ضبط مت آزماؤ ہیر۔۔۔۔۔مت کریں ضبط۔۔۔۔کریں جو کرنا ہے۔۔۔۔وہ گالوں پر پھسلتے آنسو پونچھتی بولیاب کیا کر دیا میں نے جو برسات شروع کر دی۔۔۔یشب اسکے آنسو دیکھ کر چڑاہیر نے بنا کوئی جواب دیے برسات جاری رکھی۔۔۔۔۔اچھا چلو بند کرو رونا۔۔۔۔۔یشب نے اپنے ایک ہاتھ سے اسکے دونوں ہاتھ ہٹا کر دوسرے ہاتھ سے اسکے آنسو پونچھے اور آگے کو جھک کر ماتھے پر بوسہ لیایہ تو آدھا گر گیا ہے میں نیا لاتا ہوں۔۔۔۔یشب دودھ کے آدھے گلاس کو دیکھ کر کہتا باہر نکل گیاہیر تو اسکی ہمت پر ششدر تھی یہ۔۔۔یہ کیا کر رہا ہے آج۔۔۔۔۔؟؟؟اونہہ۔۔۔زبردستی تسلط جمانا چاہ رہے ہیں۔۔۔جب دل چاہا سینے سے لگا لیا جب چاہا پرے دھکیل دیا۔۔۔۔وہ کڑھتی ہوئی بڑبڑائیپانچ منٹ میں یشب دودھ کا بھرا گلاس لیے حاضر تھایہ پکڑو۔۔۔۔پی لو گی یا میں پلاؤں پھر۔۔۔۔۔؟؟؟ہیر نے غصے سے دیکھتے ہوئے گلاس پکڑ کر ایک ہی سانس میں خالی کر دیاگڈ۔۔۔۔اب لیٹ کر آرام کرو یشب نے اسکے پیچھے تکیہ ٹھیک کیا اور اسے پکڑ کر زبردستی لٹا کر کمبل اوڑھا اور خود چینج کرنے واش روم چل دیاہیر نے آنکھیں بند کیں اور دل کھول کر یشب کو کوسنے لگی جو زبردستی کمبل ہوا جا رہا تھا………………………………………………………رات کا ناجانے کونسا پہر تھا جب بھوک کی وجہ سے ہیر کی آنکھ کھلیاس نے ترچھا سا اٹھ کر سائیڈ لیمپ آن کیا اور بیڈ کی دوسری سائیڈ پر سوئے یشب پر ایک سرسری نظر ڈالیاب کیا کروں۔۔۔۔؟؟ صبح ناشتہ کیا تھا اور دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا، رات کو بھی صرف دودھ کا گلاس پیا تھا۔۔۔۔یہ سوچ کر اس کی بھوک مزید چمک اٹھیخود ہی کیچن تک جاتی ہوں۔۔۔۔وہ اٹھنے لگی تھی کہ رک گئیاگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا میں اتنی بھوکی ہوں کہ آدھی رات کو کیچن میں کھا پی رہی ہوں۔۔۔۔تو پھر کیا کروں۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئیجس نے جو سوچنا ہے سوچے مجھے کیا۔۔؟؟وہ پیٹ میں دوڑرتے چوہوں سے مزید نہ لڑ سکی اس نے پھر سے مزے سے سوئے یشب پر نظر ڈالیان کو کہہ دیتی ہوں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی سوچ کو جھٹکتی وہ خود ہی کیچن تک جانے کا فیصلہ کر کے اٹھی، کمبل ہٹایا اور ٹانگ کو پکڑ کر نیچے رکھا بیڈ کورز کو جکڑ کر اٹھنے کی کوشش کی مگر پاؤں میں اٹھتی ٹیسوں کی وجہ سے کامیاب نہ ہو پائیکچھ دیر بعد پھر کوشش کی مگر سی۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔ی کرتی ہوئی پھر سے بیٹھی رہ گئیکیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟؟یشب نے خمار آلود آنکھوں کو رگڑتے ہوئے پوچھا وہ روشنی کی وجہ سے جاگا تھا۔۔۔۔اسے کمرے میں مکمل اندھیرا کر کے سونے کی عادت تھی حتی کہ زیرو پاور بلب کی روشنی بھی نہیں۔۔۔۔مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔ہیر اسے دیکھے بنا منمنائیتو مجھے جگا دیتی۔۔۔روکو میں بھابھی کو کہتا ہوں۔۔۔۔یشب نے سیل اٹھایانہیں آپ بھابھی کو کیوں تنگ کریں گے اس وقت۔۔۔۔میں خود ہی چلی جاؤں گی کیچن تک۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔۔یشب جانتا تھا وہ پاؤں میں درد کی وجہ سے چل نہیں پائے گی مگر اسکے کہنے پر جان بھوج کر اوکے کہتا خاموش ہو گیاہیر نے دو چار منٹ تک ویٹ کیا کہ یشب پھر سے روک دے گا مگر وہ چپ ہی رہا۔۔۔وہ اسے کوستی بیڈ کو مضبوطی سے تھامے بمشکل کھڑی ہوئیپاؤں کو گھسیٹتی ایک قدم آگے بڑھی مگر پین ناقابل برداشت تھاوہ پھر سے بیڈ پر بیٹھی۔۔۔۔کیوں جانا نہیں ہے کیا کیچن تک۔۔۔۔؟؟؟استہزائیہ پوچھا گیاآپ خاموش رہیں جب کچھ کر نہیں سکتے تو منہ بھی بند رکھیں۔۔۔۔میں پیار میں بھی بد تمیزی کا قائل نہیں ہوں اس لیے سوچ سمجھ کر بولا کرو۔۔۔تو کون مانگ رہا ہے آپ سے پیار۔۔۔۔۔؟؟وہ اسکی بات پر سیخ پا ہوتی پیچھے کو مڑیضروری نہیں کہ ہر چیز مانگی جائے بعض اوقات بنا مانگے ہی وہ سب مل جاتا ہے جو انسان چاہتا ہے۔۔۔۔وہ رسان سے بولامگر میں ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی۔۔۔میں تو چاہتا ہوں ناں پھر تمہارے چاہنے نا چاہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔؟؟یشب کندھے اچھکا کر کہتا اٹھ بیٹھاہاں۔۔۔ہاں آپ مرد جو ہیں جب جو چاہیں گے زبردستی حاصل کر لیں گے۔۔۔بلکل۔۔۔۔۔وہ اسے چڑانے کے انداز میں مسکرایااونہہ مطلب پرست۔۔۔۔ہیر نے سر جھٹک کر منہ پھیر لیااب بھوک نہیں کیا۔۔۔۔؟؟یشب نے اسے لیٹتے دیکھ کر پوچھانہیں۔۔۔۔۔لٹھ مار جواب آیافائن۔۔۔۔لیمپ آف کرو اور دوبارہ مت چلانا سمجھی۔۔۔۔۔ہیر نے خاموشی سے لیمپ آف کیا اور پیٹ میں اچھل کود مچاتے چوہوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زبردستی آنکھیں بند کر لیں۔۔………………………………………………………………اٹھو۔۔وو۔۔۔یشب نے اسکا کمبل ہٹا کر کہامجھے نہیں کھانا ہے۔۔۔۔۔۔وہ نروٹھی سی بولییشب اسکے لیٹنے کے بعد اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا اور اب وہ کھانے کی ٹرے لیے اسکے سرہانے کھڑا تھاتم سے پوچھا نہیں میں نے کھانا ہے یا نہیں۔۔۔۔یشب نے اسکے بازو کو پکڑ کر زبردستی اٹھایا اور بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھا دیاٹرے اسکے سامنے رکھی۔۔۔ کھاؤ گی یا میں کھلاؤں۔۔۔۔؟؟؟تیوری چڑھا کر پوچھا مجھے بھوک نہیں میں۔۔۔۔۔وہ اسکی بات پوری ہونے سے پہلے خود سامنے بیٹھا اور چمچ میں چاول بھر کر اسکے منہ کی طرف بڑھایاہیر نے بھی ضدی انداز میں ہونٹوں کو آپس میں مضبوطی سے بھینچ لیاٹیک اٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیر آئی سیڈ ٹیک اٹ۔۔۔۔وہ پھر سے بولاہیر منہ بند کیے اسے دیکھتی رہی۔۔۔اگر ان نینوں سے قتل کرنے کا ارادہ ہے تو محترمہ یہ کام آپ کچھ سال پہلے کر چکی ہیں۔۔۔۔یشب نے اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتے پا کر چھیڑا اور جھک کر ان خفا خفا نینوں پر محبت کی پہلی مہر ثبت کی۔۔۔آپ۔۔۔۔آپ بہت برے ہیں یشب خان آفریدی۔۔۔۔آپ سے برا انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔۔وہ منہ ہاتوں میں دئیے رونے لگیمیں واقعی بہت برا ہوں اور مجھے مجبور مت کرو کہ میں پھر سے کچھ برا کروں۔۔۔یشب نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسکے ہاتھ ہٹائےکیا ہے آپ کو۔۔۔۔۔؟؟وہ چڑچڑی ہو رہی تھی یشب کی حرکات پر۔۔۔۔اچھا کچھ دیر کے لیے لڑائی روکتے ہیں تم کھانا کھا لو پھر یہیں سے کنٹی نیو کریں گے رائٹ۔۔۔۔۔وہ اسکا سر تھپتھپا کر کہتا سیگرٹ اور لائٹر اٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔۔جانتا تھا کہ ہیر اسکی موجودگی میں نہیں کھائے گیاس کے جانے کے بعد ہیر نے کچھ دیر مزید رو کر آنسو رگڑے اور چمچ اٹھا کر اپنا فیورٹ مٹن پلاؤ کھانے لگیوہ چند منٹ میں ہی پوری پلیٹ چٹ کر چکی تھی۔۔۔………………………………………………

ہیر آئینے کے سامنے کھڑی بال سلجھا رہی تھی جب یشب کمرے میں داخل ہواہیر نے پاس پڑے کاؤچ سے دوپٹہ اٹھایا مگر اسکے دوپٹہ اوڑھنے سے پہلے ہی یشب اس تک پہنچ چکا تھاہٹیں سامنے سے۔۔۔۔۔پہلے بتاؤ کہ اتنی اچھی کیوں لگنے لگی ہو مجھے۔۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ باندھے آنکھوں میں محبت سموئے پوچھ رہا تھایہ آپ کا مسلہ ہے آپ ہی کو پتہ ہو گا۔۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولیسامنے سے ہٹیں خان۔۔۔۔۔۔۔۔ہیر تم مجھے۔۔۔۔یشب نے اسے بازو سے کھینچ کر سینے سے لگایا اور اردگرد بازوؤں کا گھیرا ڈالایہ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں خان چھوڑیں مجھے اپنی حد میں رہیں آپ۔۔۔۔وہ بوکھلائیتم مجھے حد میں رہنے ہی کب دیتی ہو ہیر۔۔۔۔مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے بہت سا وقت ضائع کر دیا تم سے دور رہ کر۔۔۔۔وہ اسکے بال چھیڑتا افسردہ سا بولاخان پلیز۔۔۔ززز۔۔۔ہیر خود کو چھڑواتی منمنائیوہ اس کی کھلی زلفوں میں منہ چھپاتا مدہوش سا ہو رہا تھاخان ہوش کریں اور چھوڑیں مجھے ورنہ ابھی چلا کر سب کو اکٹھا کر لوں گی میں۔۔۔یشب اسکی دھمکی پر ہنسااچھااااا۔۔۔۔۔۔۔۔مگر جب سب اکھٹے ہو جائیں گے تو کیا بتاؤ گی چلانے کی وجہ۔۔۔۔؟؟وہ محظوظ سا پوچھ رہا تھاپلیز چھوڑیں مجھے خان۔۔۔۔۔مجھے آپکی قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ہیر اسکے ہاتھ ہٹاتی چلائیہیر کی بات پر یکدم یشب کی گرفت ڈھیلی پڑی جسکا فائدہ اٹھا کر وہ حصار سے نکلتی جلدی سے دوپٹہ اٹھا کر لڑکھڑاتی ہوئی کمرے سے نکل گئییشب اب بھی اپنی جگہ پر ساکت سا کھڑا تھا۔۔۔”مجھے آپکی قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔مجھے آپکی قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔”اس کے اردگرد ہیر کا کہا گیا فقرہ گونج رہا تھا……………………………………………………………ہیر باٹم گرین کلر کی فراک کیساتھ چوڑی دار پاجامہ اور ہم رنگ کھوسہ پہنے، ہلکے میک اپ اور لائٹ سی میچینگ جیولری کیساتھ وہ نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھیاس نے بالوں کو کھلا چھوڑنے کی بجائے چوٹیا بنائی اور چوٹیا سے نکلی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑس کر دوپٹہ سلیقے سے سر پر اوڑھا اور باہر لان کی طرف آ گئی جہاں مایوں اور مہندی کا اکٹھا انتظام کیا گیا تھاوہ آہستگی سے چلتی ہوئی بی بی جان کے پاس آ کر بیٹھ گئیلڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر پشتو گیت گا رہیں تھیں۔۔مینہ دا خکلو سنگہ کیگی، مالہ چل نہ رازی،حسینوں سے محبت کیسی کی جاتی ہے، میں نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔وئی اللہ سوگ پہ چہ سہ رنگا گرانے گی، ما لہ چل نہ رازی،او میرے رب دوسروں کے دل میں کیسے جگہ پیدا کی جاتی ہے، میں نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔ہیر بھی ہلکی ہلکی تالی بجاتی گیت کے بول گنگنانے لگی جی بی بی جان آپ نے بلایا۔۔۔۔۔یشب کی آواز پر ہیر کے مسکراتے گنگناتے ہونٹ ایکدم ساکت ہوئےجسے یشب نے بہت چبھتے انداز میں دیکھا تھاہاں بچے۔۔۔۔تمہارے بابا جان کا فون آیا تھا تمہیں واپس آنے کا کہہ رہے تھے کوئی مسلہ ہو گیا ہے زمینوں کا شاید۔۔۔۔انہوں نے مجھے کال کیوں نہیں کی۔۔۔؟؟تمہارا فون بند تھا اس لیے…بی بی نے وجہ بتائیجی۔۔۔۔پھر میں نکلتا ہوں ابھی۔۔۔۔یشب گھڑی دیکھتا بولاارے اتنی بھی جلدی نہیں ہے صبح نکل جانا ویسے بھی اندھیرا گہرا ہو گیا ہے اب تو۔۔۔وہ فکر مند ہوئیںبی بی جان میں کوئی بچہ نہیں ہوں جو اندھیرے سے ڈر جاؤں گا۔۔۔۔ابھی نکلوں گا تو دو،تین گھنٹے تک حویلی پہنچ جاؤں گابی بی جان نے اسکے چہرے پر اٹل انداز دیکھ کر ہاں میں سر ہلا کر جانے کی اجازت دی۔۔۔۔۔اور مختلف آیات کا ورد کر کے اس پر پھونک ماری۔۔۔۔۔فی امان اللہ۔۔۔۔یشب نے انکی دعا لی اور اچٹتی نظر ہیر کے بےنیاز چہرے پر ڈال کر واپس اندر کی جانب بڑھ گیاہیر نے منہ پھیر کر ایک نظر اسکی چوڑی پشت پر ڈالی اور سر جھٹک کر پھر سے گیت کی طرف متوجہ ہو گئی……………………………………………………………یشب لال حویلی سے واپس تو آ گیا تھا مگر اسکا دماغ ابھی بھی ہیر کی بات میں ہی اٹکا ہوا تھاہیر نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔؟؟؟؟وہ پریشان سا سیگرٹ پھونکتا ٹیرس پر ٹہل رہا تھاکیا واقعی اسے میری نزدیکی ، میری قربت سے وحشت ہوتی ہے۔۔۔۔؟؟ وہ خود سے پوچھ رہا تھااگر ہاں تو کیوں۔۔۔۔۔؟؟اس کیوں کا جواب اسکے ضمیر نے اسے آئینہ دکھا کر دیا تھااسے اسکا اصلی چہرہ دکھایا تھا وہ چہرہ جس پر ہمہ وقت غصے کا ، بدلے کا ، انتقام کا نقاب چڑھا رہا تھا۔۔۔۔۔اس نقاب کو پہنے وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ ہیر بے قصور ہے۔۔۔۔وہ اسکی بیوی ہے۔۔۔۔۔ہیر ہی وہ لڑکی ہے جس نے اسے پہلی دفعہ محبت کا امرت چکھایا تھا۔۔۔۔۔۔۔اس سب کے باوجود تم نے اس کیساتھ جو سلوک روا رکھا۔۔۔۔اس کے بدلے میں اس سے محبت کی امید کر رہے ہو۔۔۔۔وہ محبت جو تمہارے دل میں بھی موجود تھی مگر تم نے انتقام کی آڑ میں چھپا دیا۔۔۔۔اب اگر تمہیں احساس ہو گیا ہے کہ تم غلط تھے۔۔۔۔تم اپنا رویہ اسکے ساتھ بدل چکے ہو تو ضروری نہیں کہ وہ فورا تمہاری پزیرائی کرے۔۔۔۔اس لیے وقت۔۔۔۔وقت دو۔۔۔یشب خان۔۔۔۔۔خود کو بھی اور ہیر کو بھی۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گااسکے ضمیر نے ایک اچھا مشورہ دیا تھا اسے۔۔۔اور یشب نے اپنے ضمیر کی بات مان لی تھی۔۔۔اسے واقعی ہیر کو وقت دینا چاہیے سب کچھ ایکسیپٹ کرنے کے لیے۔۔۔۔وہ ہیر کو واپس اپنے تک پلٹنے کا وقت دے گا وہ فیصلہ کر چکا تھا۔۔………………………………………………………….ولیمے سے فارغ ہوتے ہی ہیر نے بی بی جان کے کہنے پر اپنی اور انکی واپسی کی پیکینگ مکمل کر لی تھییشب تو مہندی کی رات ہی واپس چلا گیا تھا اور مہرو نے ابھی مزید چند دن یہاں رکنا تھا۔۔۔۔ اس لیے بی بی جان اور ہیر ولیمے سے اگلے دن ہی ڈرائیور کے ساتھ واپسی کے لیے چل پڑیں تھیںتین گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد گاڑی ان کے گاؤں کے روڈ سے ذرا پیچھے ہی چڑ۔۔۔۔ڑ۔۔۔۔۔۔ڑ کی آواز کیساتھ جھٹکا کھا کر بند ہو گئیکیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟میں دیکھتا ہوں بی بی جان۔۔۔۔۔ڈرائیور مؤدب سا کہتا گاڑی سے نکل کر چیک کرنے لگاپندرہ بیس منٹ انتظار کے بعد وہ دروازے سے سر اندر ڈال کر بولا۔۔۔بی بی جان میری سمجھ میں نہیں آ رہی خرابی حویلی فون کر دوں وہاں سے حشمت آ جائے گا آپ لوگوں کو لینے۔۔۔۔؟؟ابھی بی بی جان نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ ہیر چلا اٹھی۔۔۔لالہ۔۔۔لہ۔۔۔شمس لالہ۔۔۔۔۔وہ جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی لالہ۔۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔۔شمس لالہ۔۔۔۔۔وہ سڑک کنارے کھڑی چلا رہی تھیخان سائیں چھوٹی بی بی۔۔۔۔۔ڈرائیور نے بیک مرر سے ہیر کو ہاتھوں سے اشارہ کرتے دیکھ کر شمس کو بتایا جو پیچھلی سیٹ پر بیٹھا سیل پر بزی تھاکہاں۔۔۔۔۔۔؟؟وہ چونک کر سیدھا ہواپیچھے۔۔۔۔۔شمس نے مڑ کر پیچھے دیکھا اور واقعی ہیر کو کافی پیچھے سڑک کنارے کھڑے دیکھ کر فورا پجارو سے باہر نکلااب وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اسکی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔شمس کے پاس آنے پر ہیر خود پر کنٹرول کھوتی اسکے سینے سے لگ کر وہ روئی کہ اپنے اردگر موجود سب کی آنکھوں کو نم کر دیا۔۔۔شمس نے اسکے سر کا بوسہ لیتے ہوئے اسے خود سے الگ کر کے آنسو صاف کیےکیسی ہے میری گڑیا۔۔۔۔۔؟؟؟زندہ ہوں۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولیکون ہے ساتھ۔۔۔۔؟؟ شمس نے اسکی مرجھائی سی صورت دیکھ کر بات بدلیبی بی جان۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔شمس نے گاڑی کا دروازہ کھول کر پیسینجر سیٹ پر بیٹھیں بی بی جان کو سلام کیاوعلیکم سلام۔۔۔۔۔کیسے ہو بچے۔۔۔۔؟؟بی بی جان اپنے مخصوص ٹہرے ہوئے متاثر کن لہجے میں بولیںاللہ سائیں کا شکر ہے۔۔۔۔آپ لوگ بیچ راہ میں کیوں رک گئے۔۔۔؟؟؟گاڑی میں کوئی مسلہ ہو گیا ہے ابھی حویلی سے ڈرائیور بلواتے ہیں تاکہ گھر جا سکیں۔۔۔۔بی بی جان نے کہااگر آپ مجھے اس قابل سمجھیں تو میں چھوڑ دیتا ہوں آپ لوگوں کو۔۔۔۔شمس دل پر ہاتھ رکھے آگے کو جھکابی بی جان کشمکش میں تھیں کہ کیا جواب دیں۔۔۔۔کوئی بات نہیں اگر آپ نہیں جانا چاہتیں تو مجھے برا نہیں لگے گا۔۔۔۔۔شمس ان کے چہرے کے اتارچڑھاؤ دیکھ کر بولاارے نہیں بچے ایسی بات نہیں ہم چلتے ہیں تمہارے ساتھ۔۔۔۔انہوں نے ہیر کی طرف دیکھ کر شمس کیساتھ جانے کی رضامندی دی اور گاڑی سے نکل آئیںاللہ بخش تم گاڑی ٹھیک کروا کر حویلی لے آنا۔۔۔۔ہم شمس خان کیساتھ جا رہے ہیںجو حکم بی بی جان۔۔۔۔۔اللہ بخش مؤدب ہوااتنے میں شمس کا ڈرائیور گاڑی ان تک لے آیا تھاشمس نے بی بی جان کو بیٹھنے میں مدد کی۔۔۔۔۔۔ہیر بھی اپنے دل میں امڈتی خوشی سنبھالتی گاڑی میں آ بیٹھیپندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد جو روڈ آنا تھا اس روڈ پر تین سڑکیں تھیں جو تین مختلف گاؤں کو جاتی تھیں ان تین میں سے ایک ہیر کے گاؤں کو اور دوسری یشب کے گاؤں کی طرف جاتی تھی اس روڈ پر پہنچتے ہی بی بی جان کو نا جانے کیا سمائی کہ بول اٹھیںدائیں جانب لے چلو۔۔۔۔۔۔شمس اور ہیر نے بیک وقت ان کی طرف دیکھاوہ راستہ ہیر کے گاؤں کیطرف جاتا تھاجی۔۔۔۔۔شمس نے سر ہلاتے ہوئے ڈرائیور کو اپنی حویلی جانے کا کہابیس منٹ بعد وہ لوگ حویلی کے اندر تھےہیر ناقابل یقین خواب کی سی کیفیت میں تھی۔۔۔۔۔۔وہ پورے سات ماہ بعد اپنوں سے ملنے والی تھی۔۔۔جسکی خوشی ہی نرالی تھی۔۔۔اسکے چہرے پر قوس قزح کے کئی رنگ بکھر رہے تھے وہ آگے بڑھنے کی بجائے جھجھکتی ہوئی بی بی جان کی طرف مڑیبی بی جان نے اسکے چہرے پر امڈتی خوشی دیکھ کر مسکراتے ہوئے سر ہلا کر اندر جانے کی اجازت دیہیر نے انہیں سہارا دیا اور اپنے بھاری قدم گھسیٹتی رہائشی حصے کی طرف بڑھیہیر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ روئے یا ہنسے۔۔۔عجب سی حالت تھی دل و دماغ کی۔۔۔۔۔ہیر۔۔۔رر۔۔۔بی بی۔۔۔۔رحیمہ کی چیخ پوری حویلی میں گونجی تھی جسے سنتے ہی سب ایک ایک کر کے وہاں آ موجود ہوئےہیر میری بچی۔۔۔۔۔سب سے پہلے اماں ہی ہوش میں آتی اسکی طرف بڑھیں اور اسے سینے سے لگا کر رونے لگیںکہاں تھی تو۔۔۔میری تو آنکھیں ترس گئیں تھیں اپنی بچی کو دیکھنے کے لیے۔۔۔۔کیسی ہو میری جان۔۔۔۔انہوں نے اس کے چہرے کو چومتے ہوئے پوچھامیں ٹھیک ہوں اماں۔۔۔۔وہ خدیجہ کے آنسو صاف کرتی مدھم سا کہتی پیچھے ہوئی پھر باری باری سب آ کر اسے گلے لگا کر ملتے جا رہے تھےکافی دیر ملنے ملانے کا سلسلہ چلتا رہا کوئی دس پندرہ منٹ بعد جا کر ہیر کی جان بخشی ہوئیخدیجہ نے اسے اپنے پہلو میں بیٹھا لیا اور بیتے سات ماہ کی کٹھا سننے لگیںہیر نے انہیں خود پر گزری ہر قیامت چھپا کر مہرو اور بی بی جان کی محبتوں کو بڑھا چڑھا کر بتایا تھا۔۔۔جس پر خدیجہ کافی مطمعین ہو گئی تھیں کہ جسطرح بھی سہی انکی بیٹی اچھے لوگوں میں ہی گئی تھیبی بی جان کو بھی خاص الخاص پروٹوکول دیا گیا تھاحویلی میں عجب سی چہل پہل معلوم ہو رہی تھی ہر کوئی بی بی جان اور ہیر کی آؤ بھگت کرنے میں بچھا جا رہا تھاوہ سب(ہیر کے گھر کی خواتین ، چچیاں ، کزنز ) سب دالان میں بیٹھے تھےخدیجہ نے سب کی موجودگی میں بی بی جان سے یشار خان کے خون کی معافی مانگی اور انہیں اس دن کا سارا قصہ سنانے لگیں۔۔۔۔۔۔ ) اس دن شمس قریبی علاقے میں ہرن کے شکار پر گیا ہوا تھا۔۔۔۔وہ اور سمندر خان (ملازم ( دو ہرنوں کا شکار کر کے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں پہاڑی گیڈر سامنے آ گیا۔۔۔۔شمس نے اس پہاڑی گیڈر کو دیکھ کر ہی گولی چلائی تھی۔۔۔۔پر اس لمحے یشار خان کا بلاوا آ چکا تھا۔۔۔۔بدقسمتی سے شمس کی بندوق سے نکلی گولی جھاڑیوں کے پیچھے سے آتے یشار خان کو خون میں نہلا گئی۔۔۔۔گولی یشار کے عین سینے پر دل کی جگہ پر لگی تھی اور وہ اسی لمحے جان کی بازی ہار گیا تھا۔۔۔۔اس بات کو مہرو اور یشار کے گھر والے مان چکے تھے سوائے یشب خان آفریدی کے۔۔۔جس نے اس بات کو جھوٹ قرار دے کر ماننے سے انکار کر دیا تھا اور پنچائیت بیٹھائی گئی تھی )خدیجہ نے ہیر کی زبانی اسکے ساتھ کیے گئے اچھے سلوک پر بی بی جان کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیااتنی مہمان نوازی اور پزیرائی پر بی بی جان نے انہیں یقین دلایا کہ ان کے دل میں ان سب کے لیے کوئی میل نہیں ہے۔۔۔۔۔کیونکہ موت تو اٹل ہے جو ہر حالت میں آ کر ہی رہے گی پھر ان لڑائی جھگڑوں سے کیا حاصل۔۔۔۔۔؟؟…………………………………………………………بی بی جان نے تنہائی ملتے ہی ہیر کو وہاں رکنے کا کہا تھا۔۔۔۔جسے سن کر وہ ہچکچائی بی بی جان یشب۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں کہے گا میں سنبھال لوں گی اسے تم فکر مت کرو۔۔۔انہوں نے تسلی دیمگر بی بی جان۔۔۔۔۔۔۔تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟میرا یہ مطلب نہیں تھا بی بی جان آپ تو میرے لیے۔۔۔۔وہ انکے ہاتھ پکڑے رو پڑیمجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا بی بی جان کہ آپ کا کن الفاظ میں شکریہ ادا کروں۔۔۔۔مجھے تمہارے شکریے کی ضرورت نہیں ہے بچے تم میرے لیے مہرو سے ہر گز کم نہیں ہو۔۔۔۔بی بی جان نے اسکے ہاتھ تھپتھپا کر حوصلہ دیا۔۔۔۔۔چلو شاباش اب رونا بند کرو اور شمس سے کہو مجھے ڈرائیور کیساتھ حویلی بھجوا دےبی بی جان کھانا کھا کر جائیے گا ناں اماں اور بھابھی خاص آپ کے لیے۔۔۔۔۔ارے نہیں جاؤ جا کر منع کرو کھانا کھانے میں بہت دیر ہو جائے گی اتنی خاطر مدارت تو کر دی ہے باقی پھر کبھی سہی میں اب نکلوں گی بس۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔ہیر سر ہلاتی کیچن کی طرف چلی گئیاماں کو بی بی جان کا میسج دیا اور رحیمہ کو شمس کو لینے بھیجا جو مردانے میں تھا………………………………………………………شمس خود چھوڑ کر آنا چاہتا تھا مگر بی بی جان نے منع کر دیا اسلئیے وہ ڈرائیور کیساتھ ہی روانہ ہو گئیں تھیں یشب ٹیرس پر ٹہلتا سیل کانے سے لگائے کال میں بزی تھا جب پجارو اندر داخل ہوئی انجانی گاڑی کو اندر آتے دیکھ کر وہ کال بند کرتا گرل کی طرف آیابی بی جان کو گاڑی سے نکلتے دیکھ کر وہ حیران ہوتا نیچے ہال میں چلا آیااسلام وعلیکم بی بی جان۔۔۔۔۔۔۔یشب نے آگے بڑھ کر انہیں سہارا دیاوعلیکم سلام کیسے ہو۔۔۔۔۔؟؟فٹ ہوں آپ سنائیں کیسی گزری شادی۔۔۔۔؟؟شادی بھی اچھی گزر گئی خدا جوڑی سلامت رکھے دونوں کی۔۔جی بلکل۔۔۔۔۔یشب نے سر ہلایاتمہارے بابا جان کہاں ہیں اور زمینوں کا مسلہ ہو گیا حل۔۔۔۔۔؟؟بابا جان کمرے میں ہیں شاید اور زمینوں کا مسلہ بھی حل ہو چکا ہے۔۔۔ آپ کس کیساتھ آئیں ہیں بی بی جان….؟؟گاڑی خراب ہو گئی تھی راستے میں وہیں سے کروا لی تھی۔۔۔۔ٹھیک ہے پھر میں بھی آرام کروں بہت تھکن ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔بی بی جان بات گول مول کرتیں اپنے کمرے کیطرف چلی گئیںیشب چاہنے کے باوجود بھی ان سے وہ نہ پوچھ سکا جو پوچھنا چاہتا تھا…………………………………………..…………..…ہیر خوش بھی تھی اور بے چین بھی۔۔۔خوش وہ اپنے گھر آ کر اور گھر والوں سے مل کر تھی اور بے چین وہ یشب کی وجہ سے تھیناجانے یشب نے کیسا ری ایکٹ کیا ہو گا جب بی بی جان نے میرے یہاں ہونے کا بتایا ہو گا۔۔۔۔۔یقینا بہت غصہ آیا ہو گا اور اس غصے کی لپیٹ میں پوری حویلی کے ملازم آ چکے ہوں گے اب تک۔۔۔۔ وہ اپنی قیاس کے گھوڑے دوڑا رہی تھیپتہ نہیں یشب اتنا غصہ کیوں کرتے ہیں ۔۔۔؟؟کیا ہو جائے اگر ہر وقت بات بے بات غصہ نہ کریں تو۔۔۔۔ذرا ذرا سی بات پر تیوری چڑھ جاتی محترم کی۔۔۔۔ہیر بی بی۔۔۔۔۔ہیر بی بی نیچے وہ۔۔۔۔۔وہ آئے ہیں۔۔۔۔ رحیمہ گھبراتی بوکھلاتی اسکے کمرے میں آئیکون وہ۔۔۔۔۔؟؟؟وہ۔۔۔۔۔وہ ہیر بی بی۔۔۔۔یشب خان۔۔۔۔۔یشب خان۔۔۔۔۔۔۔ہیر کے ہاتھ میں پکڑا گلاس زمین سے ٹکڑا کر کرچی کرچی ہو چکا تھا…………………………………………………………یشب بی بی جان کے جانے کے بعد اپنے کمرے میں آ کر لیب ٹاپ پر بزی تھا جب اسکا سیل وائبریٹ ہوابھابھی کالنگ دیکھ کر اس نے کال اوکے کی ۔۔۔۔ہیر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟؟دوسری طرف چھوٹتے ہی پوچھا گیاہیررر۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ہاں ہیر اسکا سیل کیوں آف جا رہا ہے۔۔۔ میری اس سے بات کروا دو۔۔۔۔گھر پہنچ کر بتایا ہی نہیں اس نے۔۔۔میں یہاں فکر مند ہو رہی ہو ؟؟؟ مہرو ایک ساتھ ایک ہی سانس میں بولیجسٹ آ منٹ بھابھی۔۔۔۔۔۔ہیر کے پاس سیل کہاں سے آیا۔۔۔۔۔؟؟تم میری بات کرواؤ اس سے یہ انویسٹی گیشن پھر کر لینا۔۔۔۔۔۔کیسے بات کرواؤں میں۔۔۔۔؟؟کیوں ابھی تک آئے نہیں وہ لوگ کیا۔۔۔۔؟؟مہرو پریشان ہوئیبی بی جان آ گئیں ہیں مگر ہیر۔۔رر۔۔ہیر کہاں ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو ٹھٹھکیمجھے کیا پتہ۔۔۔۔میں تو سمجھا کہ آپ نے اپنے ساتھ روک لیا ہو گانہیں۔۔۔نہیں ہیر اور بی بی جان اللہ بخش کیساتھ نکلیں تھیں صبح 10 بجے اور اب شام ہو گئی ہے۔۔۔۔تم ایسا کرو بی بی جان سے پوچھو جا کر ہیر کدھر رہ گئی۔۔۔؟؟جی۔۔۔۔یشب عجلت میں فون بند کرتا بی بی جان کے کمرے میں آیا وہ مغرب کی نماز پڑھ رہیں تھیں یشب بے چینی سے ٹہلتے ہوئے ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگابی بی جان نے دعا مانگنے کے بعد یشب کو ٹہلتے دیکھ کر پکاراکیا ہوا یشب خیریت۔۔۔۔۔؟؟بی بی جان ہیر کہاں ہے۔۔۔۔؟؟ بھابھی کی کال آئی تھی تو پتہ چلا کہ وہ بھی آپ کیساتھ ہی نکلی تھی لال حویلی سے پھر راستے میں کہاں رہ گئی۔۔۔۔؟؟وہ بے چین دیکھائی دے رہا تھاتم بیٹھو بچے میں بتاتی ہوں سب۔۔۔بیٹھو میری جان۔۔۔۔۔۔۔بی بی جان نے اسکے تیور دیکھ کر پچکارایشب بادلانخواستہ بیٹھ گیا۔۔۔ اصل میں گاؤں سے کچھ پیچھے راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی۔۔۔۔وہیں ہمیں شمس خان مل گیا۔۔شمسسسس۔۔۔۔۔وہ بیٹھے سے کھڑا ہوابات مکمل ہونے دو یشب۔۔۔کیا بات۔۔۔؟؟ یہی کہ آپ اسے اس قاتل کیساتھ روانہ کر آئیں ہیں۔۔۔۔وہ بھڑک اٹھایشب بچے میں خود بھی دلاور خان کی حویلی گئی تھی۔۔۔ہیر تو واپس آنا چاہ رہی تھی میں ہی زبردستی وہاں چھوڑ آئی اسے۔۔۔بی بی جان نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہایشب۔۔۔۔یشب کہاں جا رہے ہو بچے۔۔۔؟؟؟ بات تو سنو۔۔۔۔بی بی جان پکارتیں رہ گئیں مگر یشب غصے سے بھرا سنی ان سنی کرتا حویلی سے نکل گیا

ہیر کہاں ہے بلائیں اسے۔۔۔۔۔وہ بھناتا ہوا بولایشب بیٹا بیٹھو۔۔۔۔بیٹھ کر بات ہوتی ہے۔۔۔۔دلاور خان نے اسکے تیوروں کے برخلاف تحمل سے کہا تھامیں یہاں بیٹھنے نہیں آیا ہیر کو لینے آیا ہوں۔۔۔ہیر کو بے شک لے جانا ساتھ وہ بیوی ہے تمہاری مگر سکون سے دو گھڑی بیٹھو تو۔۔۔۔۔پلیز آپ وہ کریں جو میں کہہ رہا ہوں۔۔۔۔نہ میں یہاں بیٹھنے کو آیا ہوں اور نہ ہی بیٹھوں گا۔۔۔۔۔یشب نے ایک تلخ نظر فاصلے پر کھڑے شمس پر ڈال کر کہاہیر پیلر کی اوٹ میں کھڑی یشب کا چلانا سن رہی تھی مگر سامنے آنے کی ہمت نہ تھیہیر کو بلاؤ کہاں ہے وہ۔۔۔۔دلاور خان نے خدیجہ بیگم کو کہاجی۔۔۔۔۔وہ سر ہلاتیں اٹھنے ہی والی تھیں کہ ہیر انکے جانے سے پہلے ہی پلر کی اوٹ سے نکل کر جھکے سر سے سامنے چلی آئییشب نے اسے سرخ آنکھوں سے دیکھا ضرور مگر فلوقت اپنے غصے پر قابو پا کر ہی بولاچلو لینے آیا ہوں۔۔۔۔۔۔ ہیر جانتی تھی اس بلاوے کا مقصد مگر کچھ کر نہیں سکتی تھی ایک طرف باپ اور بھائی تھے تو دوسری طرف شوہر تھا شوہر بھی وہ جو کبھی دل میں رہ چکا تھا جسکی ہر بات وہ پتھر پر لکیر جان کر مانتی آئی تھی مگر اب جب سے مس کیرج ہوا تھا وہ یشب کیساتھ کافی منہ ماری کر چکی تھی مگر اس وقت وہ کچھ ایسا کر کے نیا پینڈوراباکس کھولنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے خاموشی سے سر جھکائے کسی کی طرف بھی دیکھے بنا باہر کی جانب چل پڑیجانتی تھی کہ اگر گھر والوں پر نظر پڑ گئی تو جانا بہت مشکل ہو جائے گایشب بھی سب پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے اسکے پیچھے ہی باہر آ گیا تھا………………………………………………………واپسی کا راستہ خاموشی سے کٹا۔۔۔بی بی جان راہداری میں بے چینی سے ٹہلتیں ان کا انتظار کر رہیں تھیںجب وہ دونوں آگے پیچھے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے ہیر کو دیکھ کر یشب پر ایک ملامتی نظر ڈالی۔۔۔ جس پر وہ نظریں چراتا آگے بڑھ گیاہیر بی بی جان کے پاس آئی۔۔۔۔ آپ کیوں کھڑی ہیں یہاں۔۔۔۔؟؟چلیں کمرے میںبی بی جان خاموشی سے اسکے ساتھ کمرے میں آئیںکسی کی بھی نہیں سنتا یہ۔۔۔۔ناجانے کس پر چلا گیا۔۔۔۔اتنا غصہ تو کبھی خان ) خاقان آفریدی ( نے بھی نہیں کیا جتنا یہ کرتا ہے۔۔۔۔اللہ ہدایت دے بیٹھو یہاں۔۔۔۔بی بی جان نے ہیر کا بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے بیڈ پر بیٹھایامیں شرمندہ ہوں تم سے ہیر۔۔۔میں کتنے مان سے تمہیں وہاں چھوڑ کر آئی تھی اور یشب نے تمہیں چند گھنٹے بھی رکنے نہیں دیابی بی جان آپ کیوں شرمندہ ہیں۔۔۔مجھے ملنا تھا سب سے۔۔۔۔مل لیا اس لیے رکنے یا نہ رکنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ بجھی بجھی سی بولیپھر بھی اتنے مہینوں کی دوری تھی کچھ وقت تو ۔۔۔۔۔۔کوئی بات نہیں بی بی جان مجھے بلکل بھی برا نہیں لگا بلکہ میں تو خوش ہوں کہ کم وقت کے لیے ہی سہی میں اپنے گھر والوں سے مل آئی اور ویسے بھی مجھے آج یا کل یہیں آنا تھا تو پھر آپ کیوں شرمندہ ہو رہی ہیںبی بی جان نے بہت فخر سے اسے دیکھا تھا تمہارے ہر عمل میں تمہاری ماں کی اعلی تربیت جھلکتی ہے ہیر۔۔۔۔اور مجھے فخر ہے کہ تم میرے یشب کی شریک حیات ہو۔۔۔وہ مسکرائیںتم جس طرح کے حالات میں یہاں آئی تھی۔۔۔جس طرح سے یشب کا برا رویہ سہا اور سہہ کر برداشت کیا۔۔۔۔۔ سچ پوچھو تو میں تمہارے صبر اور دھیمے مزاج کی قائل ہو چکی ہوں۔۔۔۔۔میں بلکل ایسی ہی لڑکی یشب کی زندگی میں لانا چاہتی تھی۔۔۔۔ میری ایک بات مانو گی ہیر۔۔۔۔انہوں نے آس بھرے لہجے میں کہہ کر اسکے ہاتھ تھامےجی بی بی جان کہیں۔۔۔۔۔ہیر بچے یشب کو بھی اپنے جیسا بنا دو۔۔۔ہیر نے حیرانگی سے انکی طرف دیکھا۔۔۔۔اپنے جیسا مطلب۔۔۔۔؟؟؟؟میرے کہنے کا مطلب ہے کہ اپنے جیسا صابر اور دھیمے مزاج کا۔۔۔میں ایک ماں ہونے کے ناطے یہ نہیں کر سکی مگر تم ایک بیوی ہونے کے ناطے یہ کرنے کی کوشش کرو ہیر۔۔۔۔۔تم جس رشتے میں اسکے ساتھ بندھ چکی ہو وہ رشتہ جتنا نازک ہے اتنا ہی مضبوط بھی اور اس رشتے کا تقاضہ بھی تو یہی ہے کہ جب دونوں فریق میں سے کوئی ایک غلط ہو تو دوسرے کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل سے اپنی محبت سے اسکی غلطیوں کو درگزر کر کے اصلاح کرے۔۔۔میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ تم اپنی محبت سے اسے بدل دو۔۔۔۔کیونکہ اگر تم چاہو تو یشب کی کی گئی زیادتیوں کو بھلا کر اسے بدل سکتی ہو ہیر۔۔۔۔جب سے مس کیرج والا واقعہ ہوا ہے میں نے دیکھا ہے وہ کافی بدل گیا ہے تمہارے ساتھ۔۔۔۔تم بھی دل بڑا کر کے سب بھلا دو میری جان۔۔۔۔دونوں خاندانوں میں موجود رنجشوں کو مٹانے کی کوشش کرو کہ یہ سب تم ہی ممکن کر سکتی ہو بچے۔۔۔۔۔کرو گی ناں ایسا۔۔۔۔؟؟؟انہوں نے ہیر کے ہاتھوں پر دباؤ ڈالاجج۔۔۔۔۔جی بی بی جان میں۔۔۔۔میں کوشش کروں گی کہ سب ٹھیک ہو جائےہوں۔۔۔۔مجھے تم سے ایسے ہی جواب کی امید تھی۔۔۔۔خوش رہو آباد رہو۔۔۔۔بی بی جان نے مسکراتے ہوئے اسکا سر تھپتھپایا جاؤ جا کر کھانا کھا لو اور آرام کرو تھک گئی ہو گیآپ نے کھا لیا۔۔۔۔؟؟نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔تم ایسا کرو سکینہ سے کہو مجھے یہیں دے جائے اب باہر جانے کی ہمت نہیں۔۔۔۔جی میں بھجواتی ہوں ابھی۔۔۔۔۔ہیر مسکرا کر کہتی باہر چلی گئی…………………………………………………………ہیر کھانے سے فارغ ہو کر جب کمرے میں آئی تو یشب بیڈ پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا ایک سرسری نظر اس پر ڈال کر پھر سے ٹی وی دیکھنے لگا۔۔ہیر آہستگی سے چلتی ڈریسنگ روم میں چینج کرنے چلی گئیچینج اور وضو کر کے وہ کمرے میں آئی اور خاموشی سے ٹی وی کا سوئچ آف کر دیایشب ایک لمحے کو اسکی ہمت پر عش عش کر اٹھا مگر اسے جائے نماز اٹھاتے دیکھ کر کوئی بھی تلخ بات کہنے سے باز رہاہیر نے تسلی سے عشاء کی نماز ادا کی اور لائٹ آف کر کے بیڈ کے پاس آئیمجھے کہاں سونا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟میرے پہلو میں۔۔۔۔فٹ جواب آیاصد شکر کہ وہ لائٹ آف کر چکی تھی ورنہ بلاوجہ یشب اسکا مزاق اڑاتا۔۔۔۔ہیر اپنے بلش کرتے گالوں پر ہاتھ پھیر کر بیڈ کی دوسری سمت آ کر لیٹ گئییشب نے بھی خاموشی سے دوسری طرف کروٹ بدل لی۔۔۔ہیر اسکے خاموشی سے کروٹ بدل لینے پر حیران تھی۔۔یہ۔۔۔۔یہ خاموش کیوں ہیں۔۔۔اور غصہ بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔حیرت ہے لینے تو یوں گئے تھے جیسے آج ہی قتل کر دیں گے میرا اور اب۔۔۔۔۔چلو اچھا ہے خاموش ہیں ورنہ پھر سے جواب میں کوئی تلخ بات میرے منہ سے نکل جاتی اور پھر نئے سرے سے جھگڑا۔۔۔۔اتنے دن کی تھکن تھی کب سوچتے سوچتے ہیر کی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا…………………………………………………………ہیر گہری نیند میں تھی جب اسے گھٹن کا احساس ہوا یوں جیسے کوئی بہت بھاری چیز اس پر رکھی ہو۔۔۔۔۔اس نے غنودگی میں ہی ایک دو بار ہاتھ کو ہلا کر اس چیز کو ہٹانے کی کوشش کی مگر یہ کیا۔۔۔؟؟وہ باوجود کوشش کے ہاتھ نہ ہلا پائی اب کے ہیر نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔ مگر کمرے میں چھایا گھپ اندھیرا اسکے دل کی دھڑکن مزید بڑھا گیا۔۔۔۔۔اسے یشب کی مکمل اندھیرا کر کے سونے کی عادت سے سخت نفرت محسوس ہوئی۔۔ہیر نے اسی اندھیرے میں اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔۔چند منٹ کے غوروخوض کے بعد اسے اپنے کان کے پاس یشب کے ہلکے ہلکے خراٹوں اور سانسوں کی آواز محسوس ہوئیاوہ۔۔۔۔۔میں یہاں کیسے آ گئی۔۔۔۔؟؟وہ حیران تھی وہ تو بیڈ کی بلکل پائنتی سے لگ کر سوئی تھی پھر یشب کے اتنے قریب کیسے۔۔۔۔۔؟؟؟اس نے کسمسا کر اپنا ہاتھ آزاد کروایا جو یشب کی گرفت میں تھا یشب کا ایک بازو اسکے سر کے نیچے جبکہ دوسرا ہیر کے اوپر سے گزار کر دوسری سائیڈ پر رکھ کر اسے قید کیا گیا تھا یشب کے بازو سے ہی ہیر کو خود پر کسی وزنی چیزکا احساس ہوا تھا۔۔۔۔کیا مصیبت ہے۔۔۔۔۔ہیر زور لگانے کے باوجود بھی یشب کا بازو ہٹا نہ پائیکونسی مصیبت۔۔۔۔۔یشب نے کہتے ہوئے اسے مزید قریب کیاوہ ہیر کے جھٹکوں پر جاگ گیا تھا جو وہ اسکے بازو کو ہٹانے پر مار رہی تھیبازو ہٹائیں خان۔۔۔۔مجھے گھٹن ہو رہی ہے۔۔۔۔خان کی جان۔۔۔۔۔۔کیسی گھٹن۔۔۔۔۔؟؟؟وہ موڈ میں بولاہیر اس ڈائیلاگ پر سخت بدمزا ہوئیخان پلیز۔۔۔۔لائٹ تو آن کریں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔مجھ سے یا اندھیرے سے۔۔۔؟؟؟وہ یشب ہی کیا جو بات کی کھال نہ اتارےدونوں سے۔۔۔۔۔۔ہٹائیں بازو کس قدر بھاری ہے یوں جیسے انسان کا نہیں بلکہ لوہے کا ہو۔۔۔۔وہ چڑ کر بولییشب نے اسکے چڑنے پر مسکراتے ہوئے سائیڈ لیمپ آن کیاہیر اسکی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی پرے کھسکی۔۔۔۔۔۔میں نے تمہاری جگہ اپنے پہلو میں بتائی تھی سنا نہیں تھا کیا تمہیں۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ ایکدم سے پنتیرا بدلتا اپنے مخصوص کرخت لہجے میں بولامیں اکیلی ہی سوتی ہوں اس لیے مجھے کسی کے پہلو میں سونے کی عادت نہیں۔۔۔وہ بھی بنا لحاظ رکھے بولیمیں کسی کی نہیں اپنی بات کر رہا ہوں سمجھی۔۔۔۔۔۔۔مجھے سونے دیں خان اتنے دن کی تھکن ہے۔۔۔۔وہ جمائی روکتی اسے دیکھ کر صلح جو انداز میں بولیتھکن تو مجھے بھی ہے مگر۔۔۔۔۔۔وہ بات روکتا مسکرایاہیر اسکے تیور سمجھ چکی تھی اسی لیے ایک ہی جست میں بیڈ سے نیچے اترییشب اسکی پھرتی پر مسکرا اٹھاسو جاؤ۔۔۔۔۔۔مجھے بھی کوئی شوق نہیں تم سے رومینس کرنے کا۔۔۔۔وہ جل کر کہتا لائٹر اور سیگرٹ اٹھا کر بالکونی میں نکل گیا۔۔۔۔یہ یشب کی دوسری بری عادت تھی کہ جب نیند سے ایک دفعہ جاگ جاتا تو پھر دوبارہ نہیں سوتا تھاہیر جانتی تھی یہ بات اسی لیے اس نے یشب کے جانے کے بعد پرسکون ہو کر کمبل لپیٹا اور نیند سے بھاری ہوتی آنکھیں سختی سے میچ لیں…………………………………………………………مجھے بتا تو دیتی کہ تم اپنے گھر والوں سے ملنے چلی گئی ہو میں ہر گز یشب کو کال نہ کرتی تو اسے پتہ بھی نہیں چلنا تھا تم ایک آدھ دن تک رہ لیتی وہاں۔۔۔۔۔مہرو کو یشب نے رات ہی بتا دیا تھا کہ بی بی جان ہیر کو اسکے گھر چھوڑ آئیں تھیں اور وہ اسی وقت جا کر واپس لے آیا تھا اس لیے اب وہ ہیر سے فون پر بات کرتی ایسا کہہ رہی تھیآج نہیں تو کل پتہ چل ہی جاتا بھابھی پھر بلاوجہ غصہ ہوتے۔۔۔ اوہ تو اب نہیں ہوا کیا غصہ۔۔۔۔۔؟؟؟نہیں۔۔۔۔۔۔بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو حیران تھیجی۔۔۔۔۔۔ارے واہ۔۔۔۔یعنی کہ تبدیلی آئے گی نہیں بلکہ آ چکی ہے۔۔۔۔مہرو شوخی سے بولیاتنا سب ہو جانے کے بعد کیا فائدہ ایسی تبدیلی کا۔۔۔۔۔۔۔۔ہیر بے دل ہوئیدیر آید درست آید اس لیے ناشکری مت کرو۔۔۔۔ بلکہ شکر ادا کرو کہ یشب جیسا ہٹلر بدل رہا ہے۔۔۔اور پتہ ہے اسکے بدلنے سے سب سے زیادہ فائدہ تمہیں ہی ہونے والا ہے۔۔۔مہرو مسکراہٹ دبا کر بولیوہ کیسے۔۔۔۔۔؟؟تمہیں ہر وقت اسکی سڑی ہوئی غصے سے لال پیلی صورت ہی دیکھنے کو ملتی تھی ۔۔۔کم از کم اب وہ مسکرا تو دیا کرے گا تمہیں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔مہرو نے بات کے آخر پر خود ہی قہقہہ لگا کر مزا لیابھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔۔ہیر لٹ کان کے پیچھے کرتی مسکرائیاچھا اور کوئی نئی تازی سناؤ دو پھر۔۔۔۔۔کیسی نئی تازی۔۔۔۔۔؟؟؟یاد ہے تمہیں پہلے بھی جب میں لال حویلی سے واپس آئی تھی تو تم نے مجھے تائی بننے کی خوشخبری سنائی تھی اس لیے اس بار بھی میں ایسی ہی نیوز سننے کی منتظر رہوں گی تیار رہنا۔۔۔۔۔۔مہرو نے چھیڑابھابھھھھی۔۔۔۔۔ہیر بلش کرتی شرما گئیارے یار۔۔۔۔۔تم یقینا شرما رہی ہو گی۔۔۔ہے ناں۔۔۔۔؟؟؟ مہرو ہنسیبھابھی میں فون رکھ رہی ہوں پھر بات ہو گی خدا حافظ۔۔۔۔ہیر نے جلدی سے کہہ کر کال بند کیتوبہ ہے بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔وہ مسکرا کر پلٹتی یشب سے ٹکرائی جو اسکے بلکل پیچھے ہی کھڑا تھاکیا برائیاں کر رہی تھی میری۔۔۔۔؟؟ بھابھی کیساتھ۔۔۔۔مجھے کیا ضرورت ہے آپ کی برائیاں کرنے کی۔۔۔۔وہ کہتی ہوئی سائیڈ سے ہو کر بیڈ کیطرف آئیہیر کب تک چلے گا یہ سب۔۔۔۔۔؟؟؟کیا سب۔۔۔۔؟؟تمہاری بےگانگی اور کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ خفا خفا سا بولااونہہ۔۔۔۔میری چند روزہ بےگانگی سہی نہیں جا رہی محترم سے اور خود جو بےگانگی دیکھائی تھی وہ بھول گئے شاید۔۔۔کیا سوچ رہی ہو۔۔۔۔۔؟؟؟مجھے وقت چاہیے۔۔۔۔۔وہ سرگوشی میں بولیکس لیے۔۔۔۔۔؟؟؟آپ کے اس مزاج کو سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے۔۔۔۔مگر میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ہوں ہیر۔۔۔۔جو گزر گیا وہ کافی تھا مگر اب میں اس وقت کو تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ایک لمحہ بھی ضائع کیے بنا۔۔۔وہ محبت سے کہتا قریب آیاکس قدر مطلب پرست ہیں آپ۔۔۔۔۔۔یعنی کہ اب بھی زبردستی مسلط ہونا چاہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ پٹاخ سے بات اسکے منہ پر مار گئیہیر کی بات یشب کے دل پر گھونسے کی مانند پڑی۔۔۔۔نہیں میں اب تم سے کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا کسی بھی قسم کی۔۔۔اس بار فیصلہ کرنے کا اختیار میں تمہیں دیتا ہوں ہیر۔۔۔۔ تمہارا فیصلہ ہی آخری ہو گا اور میں تمہارے ہر فیصلے کو قبول کروں گا۔۔۔۔تم چاہو تو واپس اپنے گھر اور گھر والوں کے پاس جا سکتی ہو ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔اور اگر نہیں تو۔۔۔۔۔وہ رکاتو پھر کبڈ کے 3rd ڈراڑ میں تمہارے لیے وہ چیز پڑی ہے جس میں میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوںمیں زیادہ وقت دینے کا قائل نہیں ہوں اس لیے ایک ہفتہ ہے تمہارے پاس۔۔۔۔اس ایک ہفتے میں میں تمہیں بلکل ڈسٹرب نہیں کروں گا اسلیے اچھی طرح سوچ لو اور پھر فیصلہ کرو۔۔۔مگر خیال رہے کہ میں ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔اگر تم واپس جانا چاہو گی تو میں بلکل بھی رکاوٹ نہیں بنوں گا اور اگر تمہارا فیصلہ میرے حق میں ہوا تو۔۔۔۔۔اس ڈراڑ میں موجود تمہارے لیے خریدی گئی چیز کو پہن کر تیار رہنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہفتہ مطلب اگلے سنڈے۔۔۔۔۔یشب نے حساب لگا کر اسے فیصلہ سنانے کا دن بتایامیں بے چینی سے اس دن کا اور تمہارے ڈسیزن کا منتظر رہوں گاسو ٹیک یور ٹائم۔۔۔۔۔یشب سنجیدگی سے اسے اپنا فیصلہ سناتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیاپیچھے ہیر ساکت کھڑی تھیکیا وہ واپس جانا چاہتی ہے ہمیشہ کے لیے۔۔۔؟؟؟اسکا دماغ اسکے دل سے سوال کر رہا تھا……………………………………………………………یشب کے دئیے گئے وقت کے مطابق چار دن گزر چکے تھے۔۔۔ان چار دن میں یشب اس سے بلکل لاتعلق ہو گیا تھا وہ ایک کمرے میں بلکل اجنبی بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔اجنبی تو وہ پہلے بھی تھے مگر اس اجنبیت میں دشمنی تھی ، انتقام تھا اور اب وہ یکسر بےگانہ ہو چکا تھاہیر باوجود کوشش کے کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔۔۔۔دل اور دماغ میں ایک عجیب سی جنگ چھڑ چکی تھی۔۔۔۔۔۔دماغ اسے واپس جانے کا مشورہ دے رہا تھا تاکہ یشب کو اسکے کیے گئے سلوک کی سزا مل سکے جبکہ دل اس کے برخلاف یشب کی حمایت کر رہا تھا۔۔۔۔دل چیخ چیخ کر اسے یہیں رہنے کا مشورہ دے رہا تھا جہاں وہ شخص تھا جسے اس نے اپنے باپ اور بھائی کے علاوہ ایک اچھے مرد کی حثیت سے سوچا تھا ورنہ اس پہلے تو کسی مرد نے ہیر کو اسطرح متاثر نہیں کیا تھا جیسے یشب خان آفریدی نے پہلی ملاقات کے بعد اسے بے چین کر دیا تھا جو اب اسکا شوہر تھا اسکا محرم۔۔۔۔جسے کبھی اس نے اس روپ میں دیکھنے کی تمنا کی تھی۔۔۔۔۔چونکہ ایک نامحرم مرد کو سوچنا بھی گناہ کے زمرے میں ہی آتا ہے اس لیے ہیر نے بروقت ہی اپنی تمناؤں کو لگامیں ڈال لیں تھیںمگر اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب جسے بھی سہی اور جن حالات میں بھی سہی اسکی یہ تمنا پوری ہو چکی تھی۔۔۔پھر کیونکر وہ اس شخص سے الگ ہو پاتی۔۔۔۔؟؟؟اسے بی بی جان کی چند دن پہلے کی گئی نصیحتیں یاد آ رہیں تھیں جن میں انہوں نے اسے یشب کی غلطیوں کو درگزر کر کے دونوں فیملیز میں موجود رنجشوں کو ختم کرنے کا کہا تھا۔۔۔اسے مہرو کی وہ باتیں یاد آ رہیں تھیں جن میں مہرو نے ہیر کے سامنے یشب کی اس سے محبت کا اقرار کیا تھا۔۔۔۔۔وہ محبت جو آج سے کئی سال پرانی تھی جسے وقت کی دھول مٹی میں اٹا ضرور گئی تھی مگر ختم نہیں کر پائی تھی۔۔۔وہ محبت جو اب پھر سے اسکی منتظر تھی۔۔۔۔۔بانہیں پھیلائے اسے سمیٹنے کے لیے تیار کھڑی تھی۔۔۔۔مگر وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا کرے۔۔۔۔اسی کشمکش میں مزید دو دن پر لگا کر اڑ گئے۔۔۔۔کل سنڈے تھا ہیر کے فیصلہ سنانے کا دن۔۔!!!……………………………………………………………یشب بہت بے چینی اور بے قراری سے ایک ایک دن گن کر گزار رہا تھاوہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اگر خدانخواستہ ہیر نے واپسی کا فیصلہ سنا دیا تو وہ کیا کرے گا کیسے کرے گا قبول اس کا یہ فیصلہ اور یہیں پر آ کر اسکا سارا غصہ سارا طنطنہ جھاگ بن کر بیٹھ جاتا۔۔۔۔کیا تھا اگر میں خود کے غصے پر تھوڑا سا کنٹرول رکھنا سیکھ جاتا تو کم از کم اتنا پریشان تو نہ ہونا پڑتا مجھے۔۔۔۔انسان ہمیشہ غصے میں ہی کچھ ایسا کر جاتا ہے جو بعد میں اسکے اپنے لیے ہی تکلیف کا باعث بن جاتا ہےاسی لیے تو ہمارے مذہب میں غصہ حرام قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔تاکہ دونوں فریقین اسکے شر سے محظوظ رہیں۔۔۔۔مگر انسان اس وقت سمجھتا ہے یہ سب۔۔۔۔جب اسکے اپنے ہاتھ میں سوائے پچھتاوے کہ اور کچھ نہیں رہتا۔۔۔۔۔یشب کا بھی یہی حال تھا۔۔۔۔وہ ہیر کیساتھ اپنے روا رکھے گئے سلوک،،،،اپنے عمل،،،،اپنے غصے پر پچھتا رہا تھاکسی نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔۔غصے میں خاموشی کے چند لمحات ،پچھتاوے کے ہزار لمحات سے بہتر ہیں !مگر یہ سمجھ یشب کو اب آیا تھا جب وقت اسکے ہاتھ سے ریت کی مانند پھسل چکا تھا۔۔۔۔”کاش”کہ یشار لالہ کا خون شمس خان نے نہ کیا ہوتا۔۔۔۔۔”کاش” کے ہیر شمس خان کی بہن نہ ہوتی۔۔۔۔”کاش” کہ میں نے بابا جان کی بات مان لی ہوتی۔۔۔۔۔”کاش” میں اپنے غصے کو قابو میں رکھ کر ہیر کیساتھ وہ سب نہ کرتا جو کر چکا۔۔۔۔۔ایسے بہت سے "کاش” تھے یشب کہ پاس۔۔۔۔۔۔۔مگر وقت اب وہ نہیں رہا تھا کہ وہ اپنے ان سارے "کاشں” کو پورا کر سکتا۔۔۔گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنی ہر بات،،،،ہر عمل بہت سوچ سمجھ کر اٹھائے تاکہ بعد میں پچھتاوے کا کوئی "کاش” نہ رہ جائے ۔۔۔۔یشب آفریدی کی طرح۔۔۔۔۔۔۔

آج سنڈے تھا ہیر کے فیصلہ سنانے کا دن اور وہ فیصلہ کر چکی تھی۔۔۔۔۔مگر دل ناجانے کیوں بے چین سا تھا صبح سے۔۔۔۔اب بھی وہ حویلی کے پیچھلے احاطے میں درخت کے نیچے بنائے گئے پتھر کے بینچ پر بیٹھی اسی اداسی اور بےچینی کے بارے میں سوچ رہی تھی جب حدید کی آواز اسے حقیقت میں کھینچ لائیچاچی۔۔۔۔۔۔۔اس نے چہکتے ہوئے پیچھے سے بازو ہیر کے گلے میں ڈالےارے چاچی کی جان۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔۔؟؟ہیر نے خوشگوار حیرت سے کہتے ہوئے اسے اپنے سامنے کیاابھی ابھی۔۔۔۔۔۔وہ اچھلابتایا بھی نہیں آنے کا۔۔۔۔؟؟میں نے ممی سے کہا تھا کہ آپ کو سرپرائز دیں گےہوں۔۔۔بہت اچھا سرپرائز دیا بھئی۔۔۔ہیر نے مسکراتے ہوئے اسکے گال چومےممی کہاں ہیں۔۔۔۔؟؟؟ہال میں بی بی جان کے پاس۔۔۔۔تو چلو پھر ہم بھی وہیں چلتے ہیں۔۔۔وہ حدید کا بازو پکڑ کر کھڑی ہوئیچلیں۔۔۔۔۔وہ اچھلتا کودتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔کاش کہ شمس لالہ سے یشار خان کا خون نہ ہوا ہوتا تو حدید اتنی سی عمر میں باپ کی شفقت سے محروم نہ ہوتا۔۔۔۔۔ہیر حدید کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے سوچتی اسکے پیچھے پیچھے ہی ہال میں آئیاسلام وعلیکم۔۔۔۔۔ہیر مسکرا کر کہتی مہرو کے گلے لگیمیں صبح سے ہی اداس تھی شکر ہے آپ لوگ آ گئے۔۔۔۔ارے بھئی اداسی کی وجہ۔۔۔۔۔مہرو نے رازداری سے پوچھاکوئی وجہ نہیں۔۔۔۔وہ مسکراتی ہوئی بی بی جان کے تخت پر بیٹھیاچھا اور سنائیں وہاں سب کیسے تھے۔۔۔۔؟؟ہیر کے پوچھنے پر مہرو انہیں وہاں کی باتیں سنانے لگی………………………………………………………………یشب ڈیرے پر تھا جب اسکا سیل بجابابا جان کا نام دیکھ کر اس نے کال اوکے کیجی بابا جان۔۔۔۔۔۔۔یشب کہاں ہو تم۔۔۔۔۔۔۔؟؟میں ڈیرے پر ہوں باباجان خیریت۔۔۔۔۔جلدی حویلی پہنچو۔۔۔۔۔وہ عجلت میں بولےکیا ہوا سب ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔۔۔یشب فکر مند ہواتم آو پھر بتاتا ہوں۔۔۔۔۔بابا جان نے کہہ کر کال کاٹ دییشب پریشان ہوتا اپنی جیپ کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔اگلے دس منٹ میں وہ ان کہ سامنے تھاکیا بات ہے بابا جان آپ پریشان لگ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟ہوں۔۔۔۔۔۔انہوں نے اثبات میں سر ہلایادلاور خان نے بندہ بھجوایا تھا پیغام دے کر۔۔۔۔۔۔کیسا پیغام۔۔۔۔؟؟یشب انکی بات پر چونکاہیر کی بھرجائی کا انتقال ہو گیا ہے۔۔۔۔۔شمس خان کی بیوی کا۔۔۔۔اوہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوایہ تو وہاں جانے پر ہی پتہ چلے گا تم ایسا کرو ہیر کو لے کر فورا نکلو کیونکہ عصر کے بعد جنازہ ہے اور دو بج چکے ہیں۔۔۔۔۔میں بھی تمہاری بی بی جان کو لے کر جنازے سے پہلے ہی آ جاؤں گاجی۔۔۔۔۔یشب سر ہلاتا اٹھ کر ہال کیطرف آیا جہاں ہیر مہرو کی کسی بات پر ہنس رہی تھی۔۔۔۔۔یشب نے اسکے مسکراتے چہرے کو دل میں اتارا اور آہستگی سے اندر داخل ہوااسلام و علیکم آپ کب آئیں۔۔۔؟؟وہ سنجیدہ سا مہرو سے پوچھ رہا تھاابھی کچھ دیر پہلے تم سناؤ کہاں سے آ رہے ہو۔۔۔۔۔۔؟؟مہرو خوش مزاجی سے بولیمیں ڈیرے پر تھا۔۔۔۔۔ہیر تم جا کر چادر اوڑھ آؤ ہمیں نکلنا ہے ابھی۔۔۔۔۔۔نکلنا ہے کہاں کے لیے۔۔۔۔۔؟؟ہیر کے سوال کو مہرو نے زبان دیہیر کے گھر جانے کے لیے۔۔۔۔۔۔ہیر یشب کے کہے گئے الفاظ پر دھڑام سے نیچے گری تھی۔۔۔۔میرے گھر۔۔۔۔پر خان آپ نے تو مجھے فیصلے کا اختیار دیا تھا پھر کیوں۔۔۔۔۔؟؟وہ پریشان سی دل میں سوچ رہی تھیہیر تم کھڑی کیوں ہو جاؤ ہری اپ۔۔۔۔۔۔وہ گھڑی دیکھتا عجلت سے بولاخیریت ہے ناں۔۔۔۔۔۔ہیر کے وہاں سے چلے جانے کے بعد مہرو نے یشب کے چہرے پر پراسرار سنجیدگی کو دیکھ کر پوچھاشمس خان کی بیوی کی ڈیٹھ ہو گئی ہے۔۔۔۔اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔کیسے۔۔۔۔؟؟؟پتہ نہیں کچھ بھی۔۔۔۔۔بندہ آیا تھا پیغام لے کر عصر کے بعد جنازہ ہے۔۔۔۔یشب نے مختصر بتایامیں بھی چلوں ساتھ۔۔۔۔۔؟؟آپ باباجان لوگوں کیساتھ آ جائیے گا۔۔۔ہوں۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔مہرو نے سر ہلا دیااتنے میں ہیر چادر لپیٹے وہاں آئی۔۔۔اوکے بھابھی۔۔۔۔آپ بی بی جان کو بتا دیجئے گا۔۔۔۔وہ مہرو سے کہتا ہیر کو چلنے کا اشارہ کرتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔ہیر نے افسردہ نظروں سے مہرو کو دیکھا اور کچھ بھی کہے بغیر باہر کی جانب چل پڑی۔۔۔۔۔۔۔…………………………………………………………….ہیر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے۔۔۔؟؟کیا کہے۔۔۔۔۔۔؟؟آخر خان ایسا کیوں کر رہا تھا۔۔۔۔جب فیصلہ میں نے سنانا تھا تو پھر مجھے میرے گھر لے جانے کا مقصد۔۔۔۔؟؟وہ بھی آج ہی۔۔۔۔۔آخر معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟؟وہ دل میں ہمکلام تھی کیونکہ یشب کے سرخ چہرے کو دیکھ کر اس میں کچھ بھی پوچھنے کی ہمت نہ تھی۔۔۔پندرہ منٹ بعد وہ لوگ ہیر کے گاؤں جانے والی سڑک پر چڑھ چکے تھےہیر دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتی خاموشی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔؟؟؟جیسے ہی پراڈو انکی حویلی کیطرف مڑی تھی گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی جو حویلی تک جا رہی تھی۔۔۔ کافی رش تھا وہاں مردوں کا۔۔۔۔کوئی آ رہا تھا تو کوئی جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ہیر کو کسی انہونی کا احساس ہوا وہ فورا پلٹتی یشب کا اسٹئیرنگ پر موجود ہاتھ پکڑ چکی تھیخا۔۔۔۔۔خان کک۔۔۔۔کیا ہوا یہاں۔۔۔۔آپ مجھے کیوں لائے ہیں یہاں۔۔۔۔۔وہ کپکپاتی آواز میں پوچھ رہی تھییشب جو گاڑی پارک کرنے کی مناسب جگہ دیکھ رہا تھا ہیر کے ہاتھ پکڑنے پر متوجہ ہواکچھ نہیں ہوا۔۔۔۔تم پریشان مت ہو۔۔۔۔یشب نے اسکے اڑاے حواس دیکھ کر بتانا مناسب نہ سمجھاخان پلیز۔۔۔بتائیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟وہ خوفزدہ سی بولیگاڑی آگے نہیں جائے گی اس لیے تم یہیں سے حویلی تک چلی جاؤ۔۔۔میں گاڑی پارک کر دوں۔۔۔۔۔یشب اسکی بات نظرانداز کرتے ہوئے بولانن۔۔۔۔نہیں مجھے نہیں جانا آپ۔۔۔۔۔آپ مجھے واپس لے جائیں میں حویلی نہیں جاؤں گیکم آن ہیر۔۔۔۔چلو میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔۔۔یشب اپنی سائیڈ کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اورہیر کیطرف آ کر اس کا ڈور اوپن کیا۔۔۔۔آؤ۔۔۔میں۔۔۔نہیں۔۔۔۔اسکے مزید بولنے سے پہلے ہی یشب اسے باہر نکال چکا تھاوہ ہیر کا ہاتھ تھام کر ساتھ چلتا ہوا حویلی کے گیٹ تک گیااب جاؤ تم میں بھی یہیں ہوں۔۔۔۔۔ہیر نے دونوں ہاتھوں سے یشب کے بازو کو زور سے پکڑا۔۔۔۔۔جیسے کوئی ننھا بچہ کسی اپنے کے دور جانے سے خوفزدہ ہوتا ہے۔۔یشب نے اسے دیکھ کر اندر جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔مگر ہیر اسکا بازو تھامے وہیں کھڑی رہی۔۔۔۔یشب اپنے بازو سے اسکے ہاتھ ہٹا کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔۔چاروناچار ہیر بھی خوفزدہ سی پاؤں گھسیٹتی اندر داخل ہوئی اور وہاں عورتوں کا جھمگٹا دیکھ کر وہ جان چکی تھی کہ اس کا کوئی پیارا اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکا ہے۔۔۔۔مگر کون۔۔۔۔؟؟فلحال وہ یہ جان نہیں پائی تھی…………………………………………………………ہیر جب دس دن پہلے اپنی حویلی آئی تھی تو تب اسے پھوپھی بننے کی خوشخبری ملی تھی۔۔۔ شمس اور پروشہ کی شادی کے چھ سال بعد ان کو اولاد کی نوید ملی تھی۔۔۔۔حویلی میں خوب صدقے و خیرات کیے گئے تھے۔۔۔۔۔جہاں ہر کوئی اس خبر پر خوش تھا وہیں سب ہیر کی غیرموجودگی پر افسردہ بھی تھے۔۔۔۔۔۔خدا خدا کر کے یہ وقت گزرا تھا اور آج وہ خوشی جسکا پیچھلے کئی ماہ سے بے چینی سے انتظار کیا گیا تھا اپنے ساتھ غم بھی لے آئی تھیپروشہ ڈلیوری کے دوران ہی بیٹی کو جنم دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی تھی۔۔۔ ہر آنکھ پرنم تھی ہر دل دکھی تھا پروشہ کی جواں موت پر۔۔۔۔۔۔۔پر قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے بھلا۔۔۔۔؟؟……………………………………………………………چار دن ہو گئے تھے پروشہ کو اس دنیا سے گئے۔۔۔۔مہرو ، بی بی جان ، یشب اور خاقان آفریدی اسکے جنازے کے بعد واپس آفریدی حویلی آ گئے تھےہیر وہیں تھی۔۔۔۔بے چین سی افسردہ سی۔۔۔بہت بڑی قیامت ٹوٹی تھی انکی حویلی پر۔۔۔ہیر چار دن کی بھتیجی کو چپ کرواتی خود بھی رونے لگی تھی۔۔۔۔یہ کیا ہو گیا تھا ان کیساتھ۔۔۔۔۔وہ معصوم سی بچی ہمیشہ کے لیے ماں سے محروم گئی تھی یہیں سوچ ہیر کا کلیجہ کاٹ رہی تھی۔۔۔وہ ابھی شمس لالہ کے کمرے سے ہو کر آئی تھی۔۔۔۔۔۔جو بھابھی کے جانے کے بعد سے بلکل خاموش ہو گئے تھے۔۔۔وہی خاموشی جس خاموشی سے آٹھ ، نو سال پہلے انہوں نے بہت مشکل سے باہر نکالا تھا اسے۔۔۔۔ہیر بہت مشکل سے انہیں چند نوالے کھلا کر آئی تھی۔۔۔۔۔وہ بچی کو گود میں لیے بیٹھی رو رہی تھی جب رحیمہ کمرے میں آئیہیر بی بی اسے مجھے دیں آپ سے چپ نہیں ہو گی۔۔۔۔رحمیہ نے بچی کو اسکی گود سے لیا اور جھلاتے ہوئے لوری دینے لگی۔۔۔۔چند منٹ بعد ہی بچی سو گئی ہیر بی بی اسے یہیں لیٹا دوں۔۔۔۔۔؟؟ہاں لیٹا دو۔۔۔۔۔ہیر نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اور اٹھ کر وضو کرنے چل دی………………………………………………………….ہیر کو دیکھے آج چار دن ہو گئے تھے اور یہی بات یشب کو ڈسٹرب کر رہی تھی وہ اسے اس دن جس حالت میں چھوڑ کر آیا تھا اسے سوچ سوچ کر پیچھلے چار دن سے وہ بے چین تھا۔۔۔۔مہرو اسے چائے دینے آئی تھی۔۔۔جب یشب کو کسی غیر مرئی نکتہ کو گھورتے پایاکیا حالت بنا لی ہے یشب۔۔۔۔خدانخواستہ ہیر وہاں ہمیشہ کے لیے تو نہیں گئی جو تم مجنوں بنے بیٹھے ہو۔۔۔۔بھابھی۔۔۔۔۔مجھے ہیر کی طرف سے پریشانی ہو رہی ہے۔۔۔کیسی پریشانی۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو پاس پڑے کاؤچ پر بیٹھیوہ اسکی حالت بلکل بھی ٹھیک نہیں تھی اس دن۔۔۔۔۔صدمہ بھی تو اتنا بڑا ملا تھا ناں۔۔۔۔مہرو افسردہ ہوئیہوں۔۔۔۔۔پر ہم میں سے کوئی دوبارہ وہاں نہیں گیاتو روکا کس نے ہے دیور جی جب چاہیں چلے جائیں دیدار یار کی خاطر۔۔۔۔۔۔مہرو نے اسکی بے چینی پر چھیڑایشب جھینپ کر مسکرا دیا۔۔۔بھابھی آپ بھی ناں۔۔۔۔۔۔اچھا چلو جلدی سے یہ چائے ختم کرو اور جا کر ہیر سے مل آؤ تاکہ تمہاری شکل پر کچھ تو فریشنیس دیکھنے کو ملے۔۔۔مہرو اسکے بال بکھیرتی مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئییشب نے جلدی سے چائے ختم کی اور چینج کرنے کے بعد ہیر کے گاؤں روانہ ہو گیا اس سے ملنے کے لیے۔۔۔۔۔……………………………………………………………یشب مردانے میں دلاور خان کے پاس ہی بیٹھا تھا۔۔۔۔جب وہ آیا تھا تو شمس خان بھی وہیں موجود تھا۔۔۔۔۔۔اس دوران یشب اور شمس کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی۔۔۔نہ ہی شمس کچھ بولا اور نہ ہی یشب نے اس سے افسوس کیا۔۔۔۔کچھ دیر بعد شمس خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔اسکے جانے کے بعد یشب نے ہچکچاتے ہوئے دلاور خان کو ہیر سے ملنے کا کہا تھا۔۔۔ہاں ضرور ملو بیٹا۔۔۔۔میں سمندر خان سے کہتا ہوں تمہیں وہاں چھوڑ آئے۔۔۔۔دلاور خان اسکا کندھا تھپتھپا کر باہر نکل گئےچند منٹ بعد یشب سمندر خان کیساتھ حویلی کے رہائشی حصے کی طرف آیا۔۔۔۔۔۔۔ہیر ظہر کی نماز پڑھ کر نیچے آ گئی تھی جہاں عورتیں بیٹھیں یسین پڑھ رہیں تھیں۔۔۔۔ہیر بھی انکے درمیان آ کر بیٹھی اور یسین پڑھنے لگی۔۔۔۔عصر کی اذان کے بعد وہ یسین رکھتی اٹھی اور نماز پڑھنے کے لیے کمرے کی طرف بڑھی۔۔۔۔وہ راہداری میں تھی جب اسکی نظر سامنے سے آتے یشب آفریدی پر پڑی۔۔۔ہیر جہاں تھی وہیں رک گئی۔۔۔۔یشب بھی اسے دیکھ چکا تھا۔۔۔۔۔وہ آہستگی سے چلتا پاس آیا۔۔۔۔کیسی ہو۔۔۔۔۔؟؟مدھم سرگوشی ہوئیہیر نے اسکی طرف دیکھا اور اسکی نظروں میں اپنے لیے فکر دیکھتی خود پر کنٹرول کھو کر اسکے سینے سے لگ گئی۔۔۔سب ختم ہو گیا خان۔۔۔۔۔میرے لالہ کا گھر اجڑ گیا۔۔۔۔وہ اکیلے رہ گئے خان۔۔۔۔۔۔ہمارے گھر کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔۔۔۔وہ اسکا گریبان پکڑے روتی ہوئی بول رہی تھیکچھ دیر اسے روتے رہن دینے کے بعد یشب نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سامنے کیا۔۔۔۔۔۔مت روؤ پلیززز۔۔۔۔تمہیں یاد ہے ہیر۔۔۔۔ایک بار میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے عورتوں کے رونے سے نفرت ہے۔۔۔۔تب میرا مطلب صرف تمہیں رونے سے منع کرنا تھا۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا ہیر مگر پھر بھی بہت سا رولایا ہے تمہیں۔۔۔۔۔پر اب۔۔۔۔۔اب مزید نہیں۔۔۔۔۔۔میں ان آنکھوں میں مزید آنسو نہیں دیکھ سکتا ہیر۔۔۔۔۔یشب نے اسکے گال پر پھسلتے آنسو کو انگلی کے پوروں پر لیا۔۔۔۔اب اور نہیں میری جاں۔۔۔۔۔یشب نے اسکی سرخ سوجی آنکھوں کو لبوں سے چھو کر سرگوشی کیاسکی حرکت پر ہیر ہچکچاتی خود میں سمٹ گئیمیں تمہیں دیکھنے آیا تھا دیکھ لیا اب چلتا ہوں۔۔۔۔وہ پیچھے ہٹتا بولاکچھ دیر تو رک جائیں خان۔۔۔۔ہیر بھاری آواز میں بولی رو رو کر اسکا گلا بیٹھ چکا تھایشب نے اسے ساتھ لگا کر سر پر بوسہ دیا۔۔۔میں پھر آؤں گا۔۔۔۔ہوں۔۔۔؟؟جی۔۔۔گھر میں سب کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟ٹھیک ہیں مگر تمہارے بغیر اداس ہیں۔۔۔میں کچھ دن اور رکنا چاہتی ہوں۔۔۔۔ہیر نے سوالیہ نظروں سے یشب کو دیکھارہ لو۔۔۔۔جب تک چاہو مگر۔۔۔۔وہ رکامگر۔۔۔۔۔۔؟؟؟مگر یہ کہ تم رو کر ان نینوں پر مزید ستم نہیں کرو گی ہاں۔۔۔۔۔”ہائے رے تیرے جھیل سے نین !ان نینوں میں ڈوبنے کو دل کرتا ہے،”جی۔۔۔۔۔ہیر نے آہستگی سے سر ہلایااپنا خیال رکھنا میرے لیے۔۔۔۔۔یشب نے محبت سے کہہ کر اسکا ہاتھ چوما اور خداحافظ کہتا پلٹ گیاہیر اسکے اوجھل ہونے تک اسکی پشت کو دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔اس روز ہیر نے یشب کو یہی فیصلہ سنانا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اس کے ساتھ اسکی محرم،،،اسکی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے مگر اس روز وقت نے مہلت ہی نہ دی تھی کہ ہیر یشب کو اپنا فیصلہ سنا پاتی۔۔۔۔۔۔مرد چاہے جو بھی کرے جو بھی کہے مگر ایک وفا شعار عورت ہمیشہ اپنے مرد کی محبت کی پجاری ہوتی ہے۔۔۔۔آپ اس پر جتنے بھی ظلم کرتے رہیں مگر محبت کی ایک نگاہ پڑتے ہی وہ سارے ظلم، سارے زخم بھلا کر پلٹ آتی ہے۔۔۔یہ ہے عورت کی عظمت۔۔۔اور ہیر ایک عظیم عورت تھی۔۔۔۔۔۔…………………………………………………………اماں میں دعا(شمس کی بیٹی)کو اپنے ساتھ ہی لے جاتی ہوں۔۔۔ہیر نے کچھ فاصلے پر کاٹ میں لیٹی اس معصوم پری کو دیکھ کر کہا) پروشہ کی موت کے دس دن بعد ہیر کو ہی بچی کا نام رکھنے کا خیال آیا تھا۔۔۔۔اس نے شمس کو کہا مگر شمس ہیر پر چھوڑتا سائیڈ پر ہو گیا۔۔تب ہیر نے بچی کا نام دعا شمس خان رکھا تھا )کیسی باتیں کر رہی ہو ہیر۔۔۔۔دعا کو تم کیوں لے جاؤ گی بھلا۔۔۔؟؟خدیجہ حیران ہوئیںیہاں کون کرے گا اسکی دیکھ بھال۔۔۔؟؟تم اپنے گھر اپنے سسرال میں خوش رہو ہمارے لیے یہی بہت ہے۔۔۔۔۔دعا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے میری جان۔۔۔میں زندہ ہوں ابھی اسکی دیکھ بھال کے لیے۔۔۔۔مگر اماں یہ اتنی چھوٹی سی ہے۔۔۔۔۔ہیر فکرمند ہوئیتم بھی اتنی سی تھی جب تمہیں بھی میں نے ہی سنبھالا تھا۔۔۔۔وہ مسکرائیںہوں۔۔۔۔ہیر بھی انکی بات پر مسکرا دیاماں۔۔۔۔مجھ سے لالہ کی اداسی دیکھی نہیں جا رہی اب۔۔۔۔اب آگے کیا ہو گا۔۔۔۔؟؟چند منٹ بعد وہ پھر سے افسردہ ہوتی بولیتم پریشان مت ہو۔۔۔جو زخم دیتا ہے وہ مرہم بھی رکھ دیتا ہے۔۔۔۔وقت کیساتھ وہ بھی سنبھل جائے گا۔۔۔۔تم بس اپنے گھر کی فکر کرو۔۔۔۔میں تمہارے بابا سے کہتی ہوں وہ خود جا کر چھوڑ آئیں تمہیں۔۔۔۔نہیں اماں۔۔۔۔میری یشب سے بات ہو گئی تھی وہ کل صبح آئیں گے مجھے لینے۔۔۔۔چلو اچھا ہے۔۔۔۔خدا میری بچی کو سدا سہاگن رکھے آباد رکھے۔۔۔۔انہوں نے ہیر کا ماتھا چوم کر ساتھ لگایاآمین۔۔۔۔۔ہیر نے کہہ کر سر اماں کی گود میں رکھا اور آنکھیں بند کر لیں……………………………………………………………اگلی صبح وہ سب کی دعاؤں تلے پورے ایک ماہ بعد یشب کیساتھ واپس آ گئی تھیاس ایک ماہ میں مہرو اور یشب ایک ،دو بار اس سے آ کر مل گئے تھے۔۔ہیر کچھ دیر بی بی جان اور مہرو کے پاس بیٹھ کر کمرے میں چلی آئی۔۔یشب کمرے میں موجود نہ تھا۔۔۔۔اس نے چادر اتاری اور بیڈ پر بیٹھ کر سینڈل اتارنے لگی جب یشب سیل کان سے لگائے بات کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔ہیر نے اسے دیکھ کر پاس پڑی چادر پھر سے اوڑھ لی۔۔۔یشب نے ہیر کو دیکھ کر کال بند کی اور اسکے سامنے آ کھڑا ہواویلکم بیک ٹو مائی لائف۔۔۔۔۔۔وہ مسکرایاہیر نے اسکی شوخ نظروں سے بچنے کو سر جھکا کر سائیڈ سے نکلنا چاہا مگر یشب نے اسکا ارادہ بھانپتے ہوئے دونوں طرف بازو پھیلا کر راستہ بند کیاپلیز خان۔۔۔۔۔مجھے چینج کرنے دیں نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ہیر نے ٹھوس جواز پیش کیااوکے پڑھ لینا نماز۔۔۔۔مل تو لو پہلے مجھے۔۔۔میں تو ترس گیا تھا تم سے ملنے کو۔۔۔یشب نے اسکے سرخ پڑتے گالوں کو دیکھ کر قریب کیا۔۔۔۔پلیز خان تنگ مت کریں۔۔۔۔۔وہ منمنائیارے تنگ میں نہیں تم کر رہی ہو مجھے۔۔۔۔یشب نے محظوظ ہوتے ہوئے اسے سینے سے لگا کر کان کے پاس سرگوشی کی ❤❤ آئی لو یو❤❤میری نماز۔۔۔۔۔ہیر یشب کی گرفت میں کسمسائیاوہ یس۔۔۔۔۔نماز زیادہ ضروری ہے۔۔۔۔وہ ہنستا ہوا پیچھے ہٹایار مسکرا تو دو یوں لگ رہا ہے جیسے میں گن پوائنٹ پر رومینس کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔ہیر اسکی بات پر بے اختیار مسکرا دیڈیٹس گڈ۔۔۔۔۔اب جاؤ اس پہلے کہ میرا دل بے ایمانی پر اکسائے۔۔۔۔یشب نے آنکھ دبائیہیر نے اسکی بات سن کر بھاگنے کے انداز میں ڈریسنگ روم میں جا کر دروازہ بند کیایشب کا بلندوبالا قہقہہ اسے بند دروازے سے بھی باخوبی سنائی دیا تھا

خان۔۔۔۔۔۔۔ہیر نے اسکے بازو پر سر رکھ کر پکارا ہوں۔۔۔۔یشب نے اسکی طرف کروٹ لیوہ آپ نے کبڈ کے تھرڈ ڈراڑ میں میرے لیے کیا خرید کر رکھا تھا جسے پہننے کا کہہ رہے تھے اس روز۔۔۔۔تم نے دیکھا نہیں۔۔۔۔؟؟یشب حیران ہوانہیں جس روز دیکھنا تھا اس روز گھر جانا پڑ گیا۔۔۔۔۔وہ اس دن کو یاد کر کےافسردہ ہوئیتو اب دیکھ لو بلکہ پہن کر بھی دیکھا دو مجھے۔۔۔۔۔۔اب۔۔۔۔۔؟؟؟ہاں اب۔۔۔۔۔مگر ہے کیا۔۔۔۔۔؟؟؟خود دیکھ لو جا کر۔۔۔۔یشب نے اسے اٹھایاہیر نے جا کر کبڈ کھولی اور وہاں موجود اتنے بڑے ڈبے میں میرون اور گولڈن برائیڈل ڈریس دیکھ کر پلٹتی واپس آئیوہاں تو برائیڈل ڈریس ہے۔۔۔۔؟؟وہ حیرانگی سے بولیہاں تو۔۔۔۔یشب نے مسکراتے ہوئے سیگرٹ سلگائیوہ پہنوں۔۔۔۔؟؟ہاں جلدی سے پہن کر آؤ۔۔۔۔میں نہیں پہنوں گی۔۔۔۔۔وہ بلش کرتی شرمائییشب اسے شرماتے دیکھ کر پاس آیا کم آن یار۔۔۔جلدی سے پہن کر آؤ میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں ہری اپ۔۔۔۔۔۔یشب اسے پکڑ کر ڈریسنگ روم لایا اور اسے اندر چھوڑ کر خود باہر نکل گیاہیر چاروناچار وہ بھاری بھرکم ڈریس پہن کر جھجھکتی شرماتی باہر آئییشب نے دروازہ کھلنے پر پلٹ کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔وہ بنا کسی بناؤ سنگھار کے اتنی حسین لگ رہی تھی اگر ذرا سج سنور جاتی تو کیا ہوتا۔۔۔۔۔؟؟بیوٹیفل۔۔۔۔اس نے پاس آ کر سرگوشی کیہیر شرماتی ہوئی مزید سمٹ گئییشب نے اسے کندھوں سے پکڑ کر سامنے کیالوکنگ نائیس۔۔۔۔۔آؤ۔۔۔۔وہ اسکا ہاتھ پکڑتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لایاہیر نے آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھ کر نظریں جھکا دیںیشب اسے شرماتے دیکھ کر مسکرایاتم رکو میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔وہ اسے وہاں چھوڑ کر خود ڈریسنگ روم چلا گیاچند منٹ بعد وہ ایک مخملی ڈبہ لیے واپس آیا۔۔۔۔یشب نے ڈبہ کھول کر نیکلس باہر نکالا اور ہیر کے پیچھے کھڑے ہو کر بہت پیار اور احتیاط سے نیکلس اسکے گلے میں پہنا دیایہ تمہارے لیے میں نے تب خریدا تھا جب تم مجھے پہلی بار ملی تھی تم جانتی ہو ہیر تم ،، تمہاری باتیں ،، تمہاری آنکھیں ان سب نے مل کر مجھے ایک ہی ملاقات میں لوٹ لیا تھا تب۔۔۔۔وہ ہلکا سا مسکرایامجھے سمجھ نہیں آ رہا کن الفاظ میں تمہاری تعریف کروں۔۔۔یشب اسے ساتھ لیے کمرے کے بیچوں بیچ آیا۔۔۔ہیر تم مجھے دل سے معاف کر چکی ہو ناں۔۔۔۔؟؟؟جی۔۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلایاہیر کو ایک کتاب میں پڑھی ہوئی یہ بات یاد تھی کہ "زندگی میں کبھی اس انسان کو مت کھونا جو غصہ کر کے پھر خود تمہارے پاس آ جائے” اس لیے وہ سب کچھ بھلا کر یشب کو دل سے معاف کر چکی تھیتھینکس آ لوٹ فار دس۔۔۔تم جانتی ہو ہیر تم بہت عظیم ہو۔۔۔تم نے ناحق اتنے مظالم سہے۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں بہت شرمندہ ہوں مگر اب وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں بےپناہ پیار دوں گا۔۔۔اپنی ساری زیادتیوں کا ازالہ کر دوں گا٬٬ہیر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔میں نے تمہیں بہت رلایا ہے ہیر۔۔۔مگر اب نہیں۔۔۔۔اب صرف محبتیں،، پیار اور مسکراہٹیں ہوں گی۔۔۔بس !وہ مسکرایاساتھ دو گی ناں میرا۔۔۔۔؟؟پریقین لہجے میں سوال ہواجی۔۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلا کر ساتھ دینے کا یقین دلایاتو پھر ایک بات مانو گی میری۔۔۔۔؟؟پیار سے پوچھا گیاجی۔۔۔۔ہیر نے پھر سے سر ہلایاتو پھر کہو۔۔۔۔۔کیا۔۔۔۔۔؟؟؟آئی لو یو۔۔۔۔۔ یشب مسکراہٹ دبا کر بولابات تو ماننا ہو گی اب تم حامی بھر چکی ہو۔۔۔یشب نے اسے نفی میں سر ہلاتے دیکھ کر قریب کیا چلو کہو جلدی سے یار ٹائم ویسٹ ہو رہا۔۔۔۔وہ کلاک کی طرف دیکھتا بولامیں نہیں کہوں گی۔۔۔۔ہیر ہچکچاتی پیچھے ہوئیکیوں نہیں کہو گی جلدی کہو ورنہ۔۔۔اچھاااا کہتی ہوں۔۔۔۔یشب کے تیوروں پر وہ مصنوعی ڈر کر بولیپہلے ہاتھ ہٹائیں۔۔۔یشب نے اسے کندھوں سے تھام رکھا تھاتم کہو گی تو ہاتھ ہٹاؤں گا۔۔۔زه ستا سره مینه لرم (آئی لو یو)۔۔۔۔وہ جلدی سے بولییشب نے اسکے پشتو میں کہنے پر ہنستے ہوئے اسے ساتھ لگا لیا Now we celebrate our first official golden wedding night tonightAgree…..??????یشب نے اسکے کانوں پر ہونٹ رکھ کر سر گوشی میں کہااسکی بات پر ہیر نے بلش کرتے ہوئے مطمعین ہو کر یشب کے کندھے سے سر ٹکا دیایشب نے ہیر کی رضامندی پر پرسکون ہوتے ہوئے اس کے گرد اپنی بانہوں کا مضبوط حصار باندھ دیابے شک ایک لمبے اور تکلیف دہ انتظار کے بعد ہیر کو اسکے صبر کا پھل مل ہی گیا تھا…………………………………………………… کہاں تھے آپ۔۔۔۔؟؟پوری دس کالز کی میں نے سیل کدھر تھا آپکا۔۔۔۔۔؟؟؟ہیر نے یشب کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر چھوٹتے ہی پوچھاارے یار نہ کوئی سلام نہ دعا سیدھا کلاس لینی شروع کر دی۔۔۔۔اسلام علیکم۔۔۔ہیر نے غلطی مان کر جھٹ سلام کیاہوں۔۔۔۔۔۔یشب نے سر ہلا کر جواب دیا اب بتاؤ کیوں کیں دس کالز۔۔۔۔؟؟یشب صوفے پر بیٹھ کر شوز اتارنے لگاآپ کو یاد نہیں کیا۔۔۔۔۔؟؟وہ حیران ہوئیارے بھئی یاد ہوتا تو پوچھتا کیوں۔۔۔۔؟؟مطلب آپکو واقعی یاد نہیں کہ آج ہم نے۔۔۔۔آج ہم کہیں نہیں جا رہے۔۔۔۔یشب اسکی بات اچکتا ڈریسنگ روم میں گھسامطلب یاد ہے آپ کو پھر بھی اتنی دیر کر دی۔۔۔اور ہمیں جانا ہے آج اور ابھی میں چائے لاتی ہوں تب تک آپ چینج کر لیں۔۔۔۔وہ بات کرتی یشب کے پیچھے ہی ڈریسنگ روم میں آئیمجھے تمہارا جوشاندہ نہیں پینا۔۔۔گل سے کہہ دو وہ بنا دے گی چائے۔۔۔یشب اب بھی ہیر کی بنی چائے کو جوشاندہ ہی کہتا تھااونہہ۔۔۔۔مت پئیں۔۔۔وہ سر جھٹکتی انٹرکام کی طرف بڑھی مگر گھر آج ہی جانا ہے مجھے کہہ دیا میں نے بس۔۔س۔۔س۔۔۔!! وہ وہیں کھڑی کھڑی چیخ کر بولی تاکہ آواز یشب تک پہنچ جائےٹھیک ہے چلتے ہیں پر صرف دو گھنٹے کے لیے۔۔۔۔۔وہ اسکی چیخ نما آواز سن کر باہر آیایہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔؟؟میں رات آپ کو بتا چکی تھی کہ اس بار میں دو دن رہ کر آؤں گی گھر۔۔۔۔رات گئی بات گئی۔۔۔۔۔۔۔یشب کندھے اچکا کر کہتا پھر واپس مڑا اور کھٹاک سے واش روم کا دروازہ بند کر گیا۔۔۔اونہہ۔۔۔۔بات گئی میں بھی دیکھتی ہوں کیسے جاتی ہے رات کی بات۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی چائے لینے چلی گئییشب شاور لے کر نکلا تو ہیر چائے لا چکی تھی۔۔۔۔جلدی کریں اب۔۔۔۔۔وہ زچ ہو کر بولی یشب جان بھوج کر ادھر أدھر چیزیں الٹتا ٹائم ویسٹ کر رہا تھاکہا تو ہے کہ کہیں نہیں جا رہے ہم۔۔۔۔۔۔وہ آرام سے کہتا چائے کا کپ تھام کر کاؤچ پر ڈھیر ہواآپ کو مسلہ کیا ہے آخر مجھے میرے گھر لے جانے سے۔۔۔۔۔مسلہ لے جانے سے نہیں سویٹ ہارٹ وہاں چھوڑ کر آنے سے ہے۔۔۔۔ہاں تو صرف دو دن ہی تو ہیں۔۔۔۔تمہارے لیے یہ صرف دو دن ہیں پر یہ دو دن مجھ پر بہت بھاری ہوتے ہیں۔۔۔۔اسنے کپ منہ کو لگایاویسے ایک بات ہے چائے بنانی آ گئی ہے تمہیں۔۔۔یشب جانتا تھا چائے اس نے نہیں بنائی اسی لیے چھیڑ کر آنکھ ماریمیں نے نہیں بنائی چائے۔۔۔۔اس لیے فضول باتوں میں میرا وقت ضائع مت کریں مجھے آج ہی جانا ہے بس۔۔۔چاہے دو گھنٹے کے لیے ہی سہی۔۔۔۔وہ خفا خفا سی دو گھنٹے کے لیے جانے پر مان گئی تو چلو پھر دیر کس بات کی۔۔۔۔۔یشب اسکی خفگی پر مسکراتا ہوا کیز اٹھا کر باہر نکل گیا…………………………………………………………اماں یہ تو بلکل میرے جیسی ہوتی جا رہی ہے۔۔۔۔ہیر نے دعا کو گود میں لے کر جھنجھوڑاخدیجہ مسکرا دیں۔۔۔۔تمہارے بابا بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ہیر کی بچپن کی کاپی ہے بلکل۔۔۔۔اچھا بیٹھو تم لوگ میں ذرا کھانے کا بتا آؤں۔۔۔وہ اٹھنے لگیںارے نہیں آنٹی۔۔۔۔ہم نکل رہے ہیں بس۔۔۔یشب گھڑی دیکھ کر بولاجی اماں یشب کو کام ہے حویلی میں اسلیے میں ہی رکوں گی اور میرے لیے اہتمام کی کیا ضرورت بھلا۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی دعا کے گال پر جھک گئییشب نے دانت پیستے ہوئے اسے گھوری دی مگر ہیر متوجہ ہوتی تو دیکھتی۔۔یشب بیٹا تم بھی کبھی رک جایا کرو گھڑی دو گھڑی کے لیے ہی آتے ہو بس۔۔۔۔جی ضرور رکوں گا آنٹی۔۔۔۔پر ابھی کے لیے تو اجازت دیں۔۔۔۔وہ سیل اٹھا کر خدا حافظ کہتا بنا ہیر کی طرف دیکھے باہر نکل گیاوہ اگر تمہیں چھوڑنا نہیں چاہ رہا تھا تو چلی جاتی ساتھ خفا ہو کر گیا ہے شاید۔۔۔۔خدیجہ بیگم نے یشب کے سرد تاثرات نوٹ کر لیے تھےارے رہنے دیں اماں۔۔۔۔۔دو ماہ بعد دو دن رک جاؤں گی تو کچھ نہیں ہونے والا اور خفگی کی پرواہ کسے ہے۔۔۔۔۔وہ لاپرواہی سے بولیکیوں پرواہ نہیں اسکی خفگی کی شوہر ہے تمہارا۔۔۔۔۔شوہر ہے ماں تو نہیں جو خفگی کی پرواہ ہو۔۔۔۔ہیر۔۔رر۔۔ر۔۔ خدیجہ کی گھوری پر ہیر کھکھلا اٹھیوہاں واپس داخل ہوتے یشب نے انتہائی ناگواری سے ہیر کی کھلکھلاہٹ دیکھی۔۔۔۔وہ میں کیز بھول گیا تھا یشب نے واپس آنے کی وجہ بتائی اور جھک کر ٹیبل سے کیز اٹھا کر تیزی سے نکل گیااسے پکڑیں اماں میں ابھی آئی۔۔۔۔ہیر دعا کو تھما کر جلدی سے باہر نکلییشب۔۔۔۔۔وہ پکارتی پیچھے آئییشب جو گاڑی کا لاک کھول چکا تھا ہیر کی آواز پر پلٹاآپ خفا ہو کر جا رہے ہیں۔۔۔۔؟؟تمہیں کونسا پرواہ ہے میری خفگی کی۔۔۔وہ خفا ہوا اگر پرواہ نہ ہوتی تو پیچھے بھاگی بھاگی نہ آتی میں۔۔۔۔ ہیر منہ پھلا کر بولینہیں ہوں خفا۔۔۔۔یہی بات مسکرا کر کہیں ذرا۔۔۔۔بہت چالاک ہوتی جا رہی ہو۔۔۔۔یشب نے اسکی ناک کھینچیآپکی صحبت ہی کا اثر ہے جناب۔۔۔وہ کھلکھلائیابھی اور بہت سے اثرات دکھانے ہیں تمہیں۔۔۔یشب آنکھ مارتا مسکرایااچھا بس۔۔۔اب جائیں اور جا کر مجھے فون کر دیجئیے گا ورنہ فکر رہے گی مجھے۔۔۔۔فکر ہوتی تو یوں اکیلے نہ جانے دیتی مجھے بلکہ خود بھی ساتھ چلتی۔۔۔صرف دو دن ہی تو ہیں یشب اب اتنا سا تو کر سکتے ہیں ناں میرے لیے۔۔۔۔ضرور کر سکتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔۔ وہ فدویانہ گویا ہوااچھا چلیں اب جائیں خیریت سے گاڑی دھیان سے چلائیے گا۔۔۔۔ہیر نے فکرمندی سے نصیحت کیجو حکم۔۔۔۔یشب جھک کر کہتا گاڑی میں آ بیٹھا۔۔۔ہیر نے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ کیا یشب گاڑی ریورس کر کے ہاتھ ہلاتا گیٹ کیطرف لے گیا۔۔۔یشب کے اوجھل ہونے پر ہیر پلٹی ہی تھی جب شمس مردانے سے آتا دیکھائی دیایشب کیوں چلا گیا کھانے کا وقت ہونے والا ہے روک لیتی اسے۔۔۔۔۔۔شمس نے پاس آ کر کہاانہیں کام تھا اس لیے نہیں روکا۔۔۔۔آپ آئیں۔۔۔۔میرے ساتھ بھی تو بیٹھ جائیں لالہ میں آپ کے لیے ہی رکی ہوں اس بار۔۔۔۔۔وہ لاڈ سے بولیوہ اسکی بات پر مسکرا دیاشمس ہیر اور یشب کو ایکساتھ ہنستے مسکراتے دیکھ کر خوش تھا کہ یشب کا رویہ اسکے اپنے ساتھ جیسا بھی سہی پر ہیر کیساتھ وہ سیٹ ہے اسکی بہن خوش تھی شمس کو اور کیا چاہیے تھا۔۔۔اس نے مطمعین ہو کر ہیر کے کندھے پر بازو پھیلائے اور اسے لے کر اندر بڑھ گیا……………………………………………………………ہیر خدا کے لیے تم اپنے میکے رہنے مت جایا کرو۔۔۔۔مہرو نے میگزین پلٹتے ہوئے کہاہیر آج ہی دو دن رہ کر واپس آئی تھی وہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوئیتمہارے مجنوں کی اتنی سی شکل دیکھنے کو ملتی ہے قسم سے۔۔۔۔۔مہرو محظوظ ہوئیاب دو دن زیادہ تو نہیں ہوتے بھابھی۔۔۔۔ تم ساتھ جا کر ساتھ ہی واپس آ جایا کرو کون سا زیادہ دور ہے۔۔۔۔۔مشورہ آیاآئندہ سوچوں گی۔۔۔۔کون کیا سوچے گا بھئی۔۔۔؟؟یشب کی فریش سی آواز آئیدیکھو ذرا آج کیسا چہک رہا ہے دو دن تو آواز بھی نہیں آئی اسکی۔۔۔۔چلیں آج تو آ گئی ناں۔۔۔۔یشب مہرو کی بات پر مسکرا دیامیں کمرے میں ہوں چائے بھیجوا دو۔۔۔وہ ہیر سے کہتا سیڑھیاں پھلانگ گیاجاؤ بلوا آ چکا ہے تمہارا۔۔۔چائے تو صرف بہانا ہے تمہیں کمرے میں بلانے کا۔۔۔۔مہرو نے آنکھ مارتے ہوئے ہیر کو چھیڑاآپ کو بڑا تجربہ ہے ایسے بلاوں کا۔۔۔۔ہیر کی بات پر مہرو کے مسکراتے لب سکڑ گئےسوری بھابھی میرا مطلب آپ کو ہرٹ کرنا نہیں تھا۔۔۔۔ہیر اپنی جلدبازی میں کہی گئی بات پر شرمندہ ہوئیمیں جانتی ہوں تم جاؤ۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولیہوں۔۔۔۔۔۔ہیر سر ہلاتی اپنی بات پر خود کو کوستی کمرے کی طرف چلی گئی مہرو نے افسردگی سے نظریں اپنے ہاتھوں کی لکیروں پر ٹکا دیںکتنی جلدی ساتھ چھوڑ گئے آپ یشار۔۔۔۔۔ایک آنسو چپکے سے اسکی ہتھیلی پر گرا۔۔۔”آنسو اٹھا لیتے ہیں میرے غموں کا بوجھ،یہ وہ دوست ہیں جو احسان جتایا نہیں کرتے۔۔!! "مہرو نے جلدی سے آنکھوں کو رگڑ کر صاف کیا اور اٹھ کر حدید کے کمرے کی طرف چلی گئی……………………………………………………………یشب۔۔۔۔۔۔یشب اٹھ جائیں اب۔۔۔۔ہیر زور زور سے اسکا کندھا ہلاتے چلائیکیا مصیبت ہے یار۔۔۔۔وہ جھنجھلاتا اٹھ بیٹھاکتنی دفعہ کہا ہے تمہیں یوں اسطرح سوتے کو مت جگایا کرو مگر اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آتی تمہارے۔۔۔۔۔۔وہ تیوری چڑھا کر چلایاہیر اسکے چلانے پر آنکھوں کو پانی سے بھرتی پلٹیاب جگا کر کہاں جا رہی ہو واپس آؤ۔۔۔۔یشب اسکی بھیگی آنکھیں دیکھ چکا تھاہیر واپس آؤ ورنہ جانتی ہو مجھے۔۔۔۔۔ہاں جانتی ہوں آپ بہت برے ہیں۔۔۔۔کم آن ڈارلنگ یہاں آؤ۔۔۔۔وہ پچکارتا ہوا سیدھا ہواخود کو سمجھتے کیا ہیں آپ۔۔۔۔جب اپنا جی چاہا تو جو مرضی کرتے پھریں اور اگر میں کچھ کہہ دوں تو۔۔۔۔ہیر غصے سے پلٹتی اس تک آئییشب نے آگے کو جھک کر اسے پکڑ کر سامنے بیٹھایایہ غصہ آپ پر بلکل سوٹ نہیں کرتا مسز۔۔۔۔ہاں ہر بات پر غصہ کرنے کو آپ جو پیدا ہوئے ہیں۔۔۔۔وہ نروٹھی سی بولی ایگزیٹلی۔۔۔۔۔یشب نے مسکراتے ہوئے ہیر کے سر سے اپنا سر ٹکرایااب بتاؤ کیوں جگایا۔۔۔۔۔؟؟جھیل پر جانا ہے۔۔۔۔۔ واٹ جھیل۔۔۔۔۔؟؟ ابھی کل ہی تو گئے تھے۔۔۔۔وہ حیران ہواکل نہیں تین دن پہلے۔۔۔۔۔تو ہر تین دن بعد وہاں جانا ضروری ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟بلکل ضروری ہے۔۔۔۔۔وہ اٹھلائیتم کچھ زیادہ ہی سر پر نہیں چڑھتی جا رہی۔۔۔۔بیوی ہو بیوی بن کر رہو محبوبہ بننے کی کوشش مت کیا کرو۔۔۔۔سمجھیآپ بھی شوہر ہیں شوہر ہی بن کر رہیں محبوب بننے کی کوشش مت کیا کریں سمجھے ۔۔۔وہ بھی اسی کے انداز میں بولیمیں تو شوہر کیساتھ محبوب بھی ہوں۔۔۔یشب نے اپنے کالر پر موجود اسکے دونوں ہاتھ تھامےتو میں بھی بیوی کہ ساتھ محبوبہ بھی ہوں۔۔۔۔وہ دوبدو بولیمطلب تم ٹلنے والی نہیں۔۔۔۔بلکل نہیں۔۔۔۔۔۔وہ مسکرائیتو پھر چلو ظالم محبوبہ۔۔۔۔یشب نے اٹھتے ہوئے اسکے گال پر بوسہ لیا اور چنج کرنے چلا گیا۔۔۔۔اسے اپنی محبوبہ + بیوی کو جھیل پر جو لے کر جانا تھا۔۔۔مجھے تم سے محبت ہے ، ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!محبت بھی ستاروں سی٬گلوں سی آبشاروں سی٬صبح دم نکلتے پھولوں سی٬کناروں سے گلے ملتی لہروں سی٬رم جھم برستی بارش سی،آسمان پہ بکھرے دھنک رنگوں سی،کسی دلہن کے جوڑے پر سجے جھلمل نگینوں سی،کسی نازک کلائی میں چھنکتی چوڑیوں سی،مجھے تم سے محبت ہے ،ہاں تم سے ہی محبت ہے۔۔!!………………………………………………………ہیر۔۔۔۔۔ہیر۔۔۔رر۔۔۔رر۔۔۔۔۔۔۔یشب تیز سی گھوری دے کر بولاآپ یہاں میرے ساتھ آئے ہیں نہ کہ اپنی دوسری بیوی کیساتھ۔۔۔۔۔وہ نروٹھے پن سے بولیوہ دونوں جھیل پر آمنے سامنے موجود پتھروں پر بیٹھے تھے یشب مسلسل سیل پر بزی تھا ہیر نے اسے بزی دیکھ کر چڑتے ہوئے پانی مٹھی میں بھر کر یشب پر پھینکا تھایشب اسکی بات پر مسکرا دیا۔۔۔۔ہیر اکثر اسکے سیل اور لیب ٹاپ کو دوسری بیوی کہتی تھیتم بولو میں سن رہا ہوں۔۔۔۔آپ میری طرف دیکھیں گے تو بولوں گی میں۔۔۔میں کانوں سے سنتا ہوں مسز۔۔۔۔۔وہ مسکرایاپر مجھے کانوں کیساتھ آنکھیں بھی اپنی طرف متوجہ چاہیں۔۔۔۔کچھ دیر ویٹ کرو یار ضروری میل کر رہا ہوں گھر میں تو تم ٹک کر کوئی کام کرنے نہیں دیتی مجھے۔۔۔۔میں اب بھی ٹک کر کام کرنے نہیں دوں گی ہم یہاں انجوائے کرنے آئے ہیں نہ کہ اس موئے موبائل سے میلز کرنے۔۔۔۔ہیر نے چڑ کر کہتے دونوں ہاتھوں میں پانی بھر کر یشب پر اچھالااس بار پانی کی quantity زیادہ تھی جس سے یشب کے کپڑوں سمیت سیل کی سکرین بھی اچھی خاصی بھیگ گئیوہ جھکا سر جھٹکے سے اٹھاتا کھڑا ہواہیر جانتی تھی وہ اب کیا کرے گا اس لیے جلدی سے پتھر سے اچھل کر پیچھے کو بھاگی۔۔۔۔رک جاؤ ہیر ورنہ اچھے سے جانتی ہو مجھے۔۔۔۔۔یشب اسکے پیچھے آتے بلند آواز سے بولاہاہاہاہا۔۔۔اچھے سے جانتی ہوں اسی لیے تو بھاگی ہوں ورنہ۔۔۔۔یشب کو رفتار تیز کرتے دیکھ کر ہیر اپنی بات چھوڑتی مزید تیزی سے بھاگیہیر۔۔۔۔رر۔۔۔۔یشب بھی اسے پکڑنے کو بھاگاہیر آگے اور یشب اسکے پیچھے بھاگ رہا تھااردگرد لمبے لمبے درختوں کے جھرمٹ تھے جن کے پیچھے اونچے نیچے پہاڑ ان دونوں کو گھاس کے سبزہ زار پر ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔۔۔۔دور دور تک یشب اور ہیر کے علاوہ کوئی ذی روح موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔جھیل کے پانی کی آواز کیساتھ ہیر کے ہسنے اور یشب کی اسے پکارنے کی آوازیں گونج رہیں تھیںہیر اٹس انف رک جاؤ اب۔۔۔۔۔۔یشب نے اس سے کچھ فاصلے پر رک کر کہااچھا۔۔۔اچھا۔۔۔رکتی ہوں۔۔۔۔۔وہ پھولا سانس درست کرتی درخت سے پشت لگا کر لمبے لمبے سانس لینے لگی یشب اسکے سامنے آیا۔۔۔۔۔اب بتاؤ کیا کر رہی تھی۔۔۔۔کچھ۔۔۔کچھ نہیں یشب رکیں۔۔۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ رکھے اپنی سانس کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی تھییشب نے آنکھوں کے درمیان بل ڈالتے ہوئے اسے گھورامیں تو انجوائے کرنے کا کہہ رہی تھی۔۔۔۔ہیر اپنی سانس درست کرتی معصومیت سے بولیتو پھر کرتے ہیں انجوائے۔۔۔۔۔وہ آگے بڑھایشب۔۔۔یشب پلیز۔۔۔۔ہیر اسکے تیور دیکھ کر چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا گئیہاتھ ہٹاؤ۔۔۔۔۔نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔پلیز سوری۔۔۔۔۔وہ منمنائییشب نے اسکی منمناہٹ پر مسکراتے ہوئے اسکے ہاتھ ہٹائے اور آگے کو جھک کر لب اسکے ماتھے پر رکھے پھر ناک پر اور پھر تھوڑی پر۔۔۔۔۔یہ۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔وہ سرخ چہرے لیے چلائیانجوائے۔۔۔۔۔۔یشب مسکراہٹ دباتا کندھےاچکا کر بولاہٹیں پیچھے یشب۔۔۔۔کوئی آ جائے گا شرم کریں کچھ۔۔۔۔۔پہلی بات یشب آفریدی کسی سے ڈرتا نہیں۔۔۔۔دوسری بات تم میری شرعی بیوی ہو۔۔۔۔اور تیسری بات تم نے ہی مجھے انجوائے کرنے پر اکسایا۔۔۔۔۔وہ شرارت سے بولا بہت خراب ہیں آپ۔۔۔۔۔میں نے اس قسم کا انجوائے کرنے کو نہیں کہا تھا۔۔۔ وہ نروٹھے پن سے بولتی واپس جھیل کی طرف بڑھی یشب بھی اسکے پیچھے ہی واپس پلٹاتو کس طرح کا انجوائے کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔؟؟؟ہیر نے پلٹ کر اسے گھوری دی جس پر یشب ڈرنے کی ایکٹنگ کرتا مسکرا اٹھااونہہ۔۔۔وہ سر جھٹکتی آگے چلتی گئیاب واپس چلتے ہیں ہیر مجھے کچھ ضروری میلز کرنی ہیں۔۔۔۔یشب جھیل کنارے واپس پتھر کے پاس پہنچ کر بولاتو جائیں آپ میں ابھی کہیں نہیں جا رہی۔۔۔ ہیر اپنی جگہ پر بیٹھتی بولیکم آن یار پھر سے تین دن بعد حاضری دینے آئیں گے ناں ہم اب چلو اٹھو شاباش۔۔۔۔یشب نے پچکارتے ہوئے اسکا کندھا ہلایانہیں۔۔۔۔۔۔ہیر۔۔۔رر۔۔۔جان ضد مت کرو۔۔۔۔۔کچھ دیر اور یشب۔۔۔۔پھر آئیں گے ناں۔۔۔۔۔سینڈل پہنو شاباس۔۔۔۔وہ بمشکل ضبط سے بولانہیں۔۔۔۔بلکل نہیں پنہوں گی سینڈل۔۔۔۔۔ ہیر نے پھر نفی میں سر ہلایایشب ایک تیز نظر اس پر ڈالتا گھٹنوں کے بل اسکے سامنے بیٹھا اور پاؤں پکڑ کر گود میں رکھا اب وہ سر جھکائے سینڈل ہیر کے پاؤں میں پہنا کر اسکا اسٹریپ بند کر رہا تھا جو نہیں ہو پا رہا تھاہیر کو مہرو بھابھی کی سرگوشی یاد آئی۔۔۔۔عنقریب وہ تمہارے قدموں میں ہو گا بچے۔۔۔۔وہ یاد کر کے مسکرا دیکیا مصیبت ہے یہ۔۔۔۔یشب نے جھنجھلا کر سر اٹھایا اور ہیر کو مسکراتے دیکھ کر سیخ پا ہوتا کھڑا ہوامیں اس منحوس سینڈل کے اسڑیپ سے لڑ رہا ہوں اور محترمہ کے دانت نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔میں آپ کو دیکھ کر نہیں ہنس رہی تھی مجھے تو مہرو بھابھی کی بات یاد آ گئی تھی۔۔۔۔ہیر پھر سے مسکرائیبند کرو سینڈل اور اٹھو ہری اپ۔۔۔۔یشب ہیر کو سختی سے کہہ کر سیل کان سے لگا کر بات کرنے لگاجی شاہ صاحب۔۔۔۔جی جی میں کچھ بزی ہوں ایک آدھ گھنٹے تک میل کر دوں گا۔۔۔اوکے جی ٹھیک ہے اللہ حافظ۔۔۔۔۔یشب نے کال بند کر کے ہیر کو دیکھا جو لاپرواہی سے انگلی پر بالوں کی لٹ لپیٹتی مسکرا رہی تھیاب کیا ہوا۔۔۔۔۔؟؟وہ چڑتا پھر سے نیچے بیٹھ کر اسکا سینڈل بند کرنے لگابتاؤ اسے کیسے بند کرنا ہے۔۔۔۔اس نے اسٹریپ پکڑ کر ابرو اٹھائےاسٹریپ کو یہ جو ہول ہے اس میں سے گزار دیں بند ہو جائے گا۔۔۔۔انتہائی بدتمیز ہو تم۔۔۔۔یشب اسکی مسکراہٹ دیکھ کر جل کر بولاآپ سے کم۔۔۔۔۔۔وہ پھر سے مسکرا کر کہتی یشب کے بال بکھیر گئیچلو اٹھو اب ورنہ ایک تھپڑ کھاؤ گی مجھ سے۔۔۔۔یشب نے سینڈل بند کر کے اسکا بازو پکڑ کر کھڑا کیاچل رہی ہوں۔۔۔بازو تو چھوڑیں کس طرح دبوچ رکھا ہے۔۔۔۔ہیر نے جھٹکے سے بازو یشب کے ہاتھ سے چھڑوایا اور خفگی سے ناک پھلائے آگے بڑھ گئییشب اسکی پھولی ناک دیکھ کر مسکراتا اسکے پیچھے ہی واپسی کے لیے چل پڑا”تمہیں دیکھوں تو مجھے پیار بہت آتا ہے،زندگی اتنی حسین پہلے تو نہیں لگتی تھی۔۔!! "

یشب پلیز مان جائیں ناں صرف دو یا تین دن آئی سوئیر پھر اگلے چار ماہ تک میں جا کر رہنے کی بات نہیں کروں گی۔۔۔ہیر یشب کے پاس کھڑی اسے گھر جا کر رہنے کی بات کر رہی تھیہیر میں تم سے ہزار دفعہ کہہ چکا ہوں کہ مجھ سے وہاں جا کر رہنے کی بات مت کیا کرو۔۔۔۔۔۔اتنی چھوٹی سی بات تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ خفا ہواکل آپ نے مہرو بھابھی سے مجھے چھوڑ کر آنے کی ہامی بھری تھی۔۔۔۔میں بھابھی کی کوئی بات نہیں ٹالتا اس لیے ہاں کہا تھا پر تم سے۔۔۔ مجھ پر روب ڈالنے کی پرانی عادت جو ہے آپ کو۔۔۔۔ہیر سمجھا کرو بات کو۔۔۔۔فائن میں نہیں جا رہی لیکن آپ مجھ سے بات کرنے کی کوشش بھی مت کرئیے گا۔۔۔۔وہ خفگی سے بولیوہ کیوں۔۔۔۔؟؟؟یشب نے ابرو اچکائےجب آپ کو میری پرواہ نہیں تو مجھے بھی نہیں۔۔۔۔میرے پاس ٹائم نہیں ہے حشمت کیساتھ چلی جاؤ۔۔۔وہ اسکی اتری شکل دیکھ کر دھیما پڑاآپ کے پاس میرے لیے ٹائم نہیں ہے۔۔۔۔ہیر کو صدمہ ہواتمہارے لیے نہیں تمہارے ان چونچلوں کے لیے۔۔۔۔تو اب میرے چونچلے حشمت اٹھائے گا کیا۔۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ ناک پھلا کر چیخیسوچ سمجھ کر بولا کرو ہیر ۔۔۔یشب ناگواری سے بولاآپ بھی سوچ سمجھ کر ڈانٹا کریں۔۔۔چلو چھوڑ آتا ہوں تمہیں اب وہاں دو دن رہنا یا دو ہفتے مجھے کوئی پرابلم نہیں۔۔۔وہ ناراضگی سے کہتا گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا……………………………………………………اماں میں لالہ کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔۔۔۔کتنے کمزور ہو گئے ہیں اور بہت کم کم بولنے لگے ہیں۔۔۔۔ہیر دعا کو گود میں بیٹھائے فکرمند سی خدیجہ سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔یشب دو دن پہلے اسے چھوڑ گیا تھاہاں میں اور تمہارے بابا بھی بہت پریشان ہیں شمس کیوجہ سے۔۔۔خدیجہ بھی افسردہ ہوئیںاماں لالہ کے بارے میں آگے کا کیا سوچا ہے آپ نے۔۔۔۔۔؟؟اسکی شادی کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔۔۔۔۔میرا بھی یہی خیال ہے۔۔۔دیکھی کوئی لڑکی آپ نے۔۔۔۔؟؟؟ویسے ہمارے خاندان میں تو کوئی نہیں ہے جو بڑے دل سے دعا سمیت لالہ کو قبول کرے۔۔۔۔سب ہی نک چڑی ہیں۔۔۔ہیر نے برا سا منہ بنایاہوں۔۔۔۔تمہاری چچی سے بات کی تھی میں نے وہ الٹا خفا ہونے لگی کہ میری بیٹی کو مرے ابھی دس ماہ ہوئے ہیں اور آپ شمس کی دوسری شادی کا کہہ رہی ہیںپر آج یا کل شادی تو کرنی ہی ہے ناں لالہ کی۔۔۔۔۔ویسے بھی اب ہی مناسب وقت ہے۔۔۔۔ لالہ کی اجڑی حالت دیکھ کر میرا دل بہت دکھا ہے اماں آپ جلد از جلد کوئی اچھی سی لڑکی دیکھ کر شادی کر دیں کچھ تو سنبھلیں گے وہ۔۔۔۔ویسے اماں کوئی بھی لڑکی دعا کو بیٹی کے روپ میں بہت مشکل سے ہی قبول کرے گی۔۔۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئیجو لڑکی سوچی ہے ہم نے اگر وہاں سے ہاں ہو جائے تو دعا کو ماں بھی مل جائے گی اور شمس کو اچھی بیوی بھی۔۔۔۔ایک منٹ اماں۔۔۔۔آپ نے لڑکی سوچ کر رشتہ بھی پوچھ لیا اور مجھے بتایا بھی نہیں میں دو دن سے یہاں ہوں۔۔۔ہیر انکی بات پکڑ کر بولی میں بتانے ہی والی تھی تمہیں بس وہ۔۔۔۔کون لڑکی ہے۔۔۔۔؟؟ہیر ماں کے انداز سے مشکوک ہوئیہیر تحمل سے سننا میری بات۔۔۔۔انہوں نے تمہید باندھیبولیں بھی۔۔۔۔وہ گڑبڑ جانچتی پریشانی سے بولیوہ ہیر میں نے اور تمہارے بابا نے شمس کے لیے۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔ہم نے۔۔۔۔۔مہرو کا سوچا ہے۔۔۔۔۔خدیجہ نے اٹک اٹک کر ہیر کے پاس دھماکا کیاکیا۔۔۔۔۔؟؟مہرو بھابھی۔۔۔۔۔وہ بیٹھے سے کھڑی ہوئیاماں آپ لوگوں نے رشتہ پوچھ بھی لیا۔۔۔وہ صدمے سے بولیہیر ہم نے مہرو کی اماں اور بھائیوں سے بات کی ہے۔۔۔۔۔۔اماں آپ مجھ سے تو پوچھ لیتیں پہلے۔۔۔غضب خدا کا یہ۔۔۔۔یہ کیا کر دیا آپ لوگوں نے۔۔۔۔۔وہ سر پکڑ کر بولیتمہیں کوئی اعتراض ہے کیا۔۔۔؟؟اعتراض۔۔۔۔؟؟اماں میں اسی گھر میں رہتی ہوں جہاں مہرو بھابھی۔۔۔ہمارا سسرال ایک ہے آپ یشب کو جانتی ہیں پھر بھی آپ نے مہرو بھابھی کے گھر والوں سے رشتہ مانگ لیا وہ بھی مجھے بتائے بغیر ۔۔۔۔۔وہ انتہائی صدمے میں تھیاگر مجھ سے پوچھ لیتیں تو میں۔۔۔۔۔۔۔تم نہیں چاہتی کہ تمہارے لالہ کو کوئی خوشی ملے۔۔۔۔۔؟؟؟خدیجہ اسکی بات کاٹ کر سنجیدگی سے بولیںمیں ایسا کیوں چاہوں گی اماں پر۔۔۔۔ آپ نے لالہ سے پوچھا تھا کیا۔۔۔۔؟؟اس سے بھی پوچھ لوں گی وہ انکار نہیں کرے گا ہمارے فیصلے سے۔۔۔۔اووووف۔۔۔۔یعنی کے یہ صرف آپ دونوں میاں بیوی کی ملی بھگت ہے۔۔۔۔تمہیں کس چیز کی فکر ہے اگر اس رشتے پر کسی کو اعتراض ہوا تو صرف ایک یشب کو ہی ہو گا اور اسے تم سنبھال لینا۔۔۔۔اونہہ۔۔۔۔تم سنبھال لینا آپ جانتی نہیں ہیں انہیں اسی لیے اتنی بے فکری سے کہہ رہی ہیں۔۔۔آپ کو پتہ تھا لالہ کیساتھ یشب کا رویہ۔۔۔وہ تو بات تک نہیں کرتے لالہ سے کجا کہ مہرو بھابھی کی لالہ سے شادی۔۔۔۔۔۔ہیر نے یشب کے غصے سے سرخ چہرے کو سوچ کر جھرجھری لی۔۔۔۔ میری ایک بات یاد رکھیں اماں اگر یشب نے میرے ساتھ کچھ غلط کیا تو اسکے ذمےدار آپ لوگ ہوں گے۔۔۔۔۔وہ چلا کر کہتی سیڑھیاں پھلانگ گئیخدیجہ کو ہیر سے اس قسم کے رویے کی امید نہیں تھی۔۔۔۔وہ پریشان سی بیٹھیں تھیں جب شمس ہال میں آیااماں یہ ہیر کو کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟کیوں کچھ کہا اس نے تم سے۔۔۔۔خدیجہ شمس کی بات سن کر کھڑی ہوئیںنہیں کہا تو کچھ نہیں پر کافی غصے میں نکلی ہے ابھی یہاں سے۔۔۔۔۔شمس نے اسے غصے سے سرخ چہرے سمیت سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تھاایسے ہی ذرا سی بات پر۔۔۔۔۔یہ ذرا سی بات نہیں ہے اماں۔۔۔۔میں سن چکا ہوں سب۔۔۔۔۔شمس نے دکھ اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے کہاہم نے تو بھلا ہی سوچا تھا پر۔۔۔۔ کس کا بھلا۔۔۔۔؟؟؟میرا یا پھر ہیر کا۔۔۔۔۔؟؟؟وہ طنزیہ بولااماں آپ لوگ یشب کا رویہ جانتے تھے میرے ساتھ اس کے باوجود آپ لوگوں نے مجھ سے ہیر سے پوچھے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔۔۔۔وہ بےیقین تھا شمس ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔۔مجھے اور تمہارے بابا کو لگا کہ اسطرح کچھ تو کفارہ ادا ہو جائے گا اس سب کا جو انجانے میں تم سے ہو چکا ہے۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔وہ استہزائیہ ہنساآپ کو کیا لگتا ہے یشب اپنی بھرجائی کو اپنے بھائی کے قاتل کیساتھ باخوشی رخصت کر دے گایشب وہاں کا بڑا نہیں ہے شمس اور ہم نے مہرو کے گھر والوں سے بات کی ہے۔۔۔۔۔جو بھی ہے اماں ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔میں ہیر سے بات کرتا ہوں وہ خود ہی منع کر دے گی ان لوگوں کو یا پھر میں خود زبیر خان (مہرو کا بھائی) سے بات کر لوں گا۔۔۔۔۔۔شمس سنجیدگی سے کہتا واپس مڑاشمس۔۔۔بات سنو۔۔۔۔تم ہیر سے کچھ نہیں کہو گے اس بارے میں اور نہ ہی زبیر خان سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمس۔۔۔س۔۔س۔۔۔ بات سنو میری۔۔۔۔۔خدیجہ پکارتی رہ گئیں مگر وہ ان سنی کرتا ہیر کے کمرے کی طرف بڑھ گیا………………………………………………………ہیر جلے پیر کی بلی بنے کمرے میں ادھر سے أدھر چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔۔اس نے دو دفعہ یشب کو کال کی تھی پر یشب نے کال کاٹنے کے بعد سیل آف کر دیا جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔۔کہیں یشب تک بات پہنچ تو نہیں گئی۔۔۔۔اوف میرے اللہ رحم کرنا۔۔۔۔۔وہ پریشانی سے بولیمجھے۔۔۔۔مجھے مہرو بھابھی کو کال کرنی چاہیے۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔ہیر نے خودکلامی کرتے ہوئے جلدی سے مہرو کا نمبر ڈائل کر کے سیل کان سے لگایااسلام علیکم۔۔۔۔۔مجھے کیسے یاد کر لیا۔۔۔مہرو کی فریش سی آواز پر ہیر کو حوصلہ ہوا کہ بھابھی انجان ہیں اس بات سے۔۔۔۔۔یاد ان کو کیا جاتا ہے جو بھول جائیں۔۔۔ہیر بھی بظاہر شوخی سے بولیبہت پرانا ڈائیلاگ مارا ہے۔۔۔۔مہرو نے چھیڑااچھا بتائیں کیا کر رہی تھیں۔۔۔۔؟؟؟کچھ نہیں کبڈ کو سیٹ کر رہی ہوں۔۔وہ مصروف سی بولی یشب گھر پر ہیں کیا۔۔۔۔؟؟ہیر نے بےچینی سے پوچھانہیں۔۔۔۔کہاں ہیں پھر وہ اصل میں ان کا سیل بھی بند ہے۔۔۔۔۔تمہیں بتا کر نہیں گیا۔۔۔۔؟؟؟کہاں بھابھی۔۔۔۔؟؟؟ہیر کے گرد خطرے کی گھنٹی بجیلال حویلی۔۔۔۔۔۔کیا لال حویلی۔۔۔۔پر کب۔۔۔۔کیا کرنے۔۔۔۔؟؟وہ دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھ کر بولیپتہ نہیں زبیر لالہ کا فون آیا تھا کوئی ضروری بات کرنی تھی بابا جان بھی ساتھ گئے ہیںکونسی ضروری بات۔۔۔؟؟وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولیابھی تو پتہ نہیں ہے بابا جان اور یشب آئیں گے تو پتہ چلے گی۔۔۔۔کب تک آئیں گے وہ لوگ۔۔۔۔۔؟؟؟صبح گئے تھے شام کو واپس آنے کا کہا تھا دیکھو کب تک آتے ہیں۔۔۔۔۔اچھا بھابھی میں بعد میں بات کرتی ہوں آپ سے۔۔۔۔ہیر نے شمس کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر خدا حافظ کہہ کر فون بند کیاآئیں لالہ۔۔۔۔۔وہ خود کو کمپوز کرتی بولیشمس آہستگی سے چلتا اسکے پاس آ کھڑا ہوا۔۔۔۔ہیر تم پریشان مت ہو ایسا کچھ نہیں ہو گا۔۔۔میں زبیر سے معذرت کر لوں گا۔۔۔۔اماں اور بابا کو بات کرنے سے پہلے پوچھ لینا چاہیے تھا ہم سے۔۔۔۔۔شمس نے سنجیدگی سے کہالالہ آپ مجھے حویلی چھوڑ آئیں گے ابھی۔۔۔۔ہیر اسکی بات مکمل ہونے پر بولیابھی۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہواجی مجھے ابھی واپس جانا ہے۔۔۔۔اس بات پر خفا ہو کر جا رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟نہیں لالہ۔۔۔۔۔میری مہرو بھابھی سے بات ہوئی ہے مہرو بھابھی کے گھروالوں نے یشب اور بابا جان کو بلوایا تھا آج اس لیے میں واپس جانا چاہتی ہوں تاکہ مجھے ان لوگوں کے فیصلے کا علم ہو سکے۔۔۔۔۔۔میں نے کہا ہے تم سے میں زبیر خان سے بات کر لوں گا وہ میری بات سمجھ جائے گا۔۔۔۔یشب کیطرح اس نے مجھے اپنے بہنوئی کا قاتل سمجھ کر قطع کلامی نہیں کی۔۔۔۔) زبیر خان اور شمس خان اچھے کلاس فیلوز اور دوست رہ چکے تھے ماضی میں ) نہیں لالہ آپ کسی سے کچھ نہیں کہیں گے اور اگر فیصلہ آپ کے حق میں ہوا تو بھی انکار نہیں کریں گے آپ کو میری قسم۔۔۔۔۔ہیر نے شمس کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھایہ۔۔۔یہ کیا کہہ رہی ہو ہیر میں ہر گز یہ شادی نہیں کروں گا۔۔۔۔۔آپ یہ شادی کریں گے اور ضرور کریں گے لالہ۔۔۔میں آپ کو اپنی قسم دے چکی ہوں اور اگر آپ نے قسم توڑی تو پھر میں ساری زندگی آپ کو اپنی شکل نہیں دکھاؤں گی۔۔۔۔اب مجھے چھوڑ آئیں واپس۔۔۔۔وہ کہتی مڑ کر الماری سے اپنی چادر اور پرس نکال لائیچلیں۔۔۔۔۔ہیر نے شمس کو کھڑے دیکھ کر کہاہیر۔۔۔۔ر۔۔۔۔تم۔۔۔۔لالہ پلیز میں یشب کو سنبھال لوں گی انکی فکر مت کریں۔۔۔۔۔مہرو بھابھی بہت اچھی ہیں اور مجھے پورا یقین ہے وہ آپ کو دعا سمیت قبول کر لیں گی میں انکی بڑائی دیکھ چکی ہوں۔۔۔۔۔بس آپ کو خاموش رہ کر اور جو ہو چکا وہ سب بھلا کر اپنا دل بڑا کرنا ہو گا۔۔۔۔۔اب چلیں مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔ہیر اسکا بازو پکڑ کر کہتی باہر نکل گئی……………………………………….………..…….شمس اسے باہر سے ہی چھوڑ کر جا چکا تھا ہیر نے بھی اسے اندر آنے کا نہیں کہا۔۔۔۔۔وہ بی بی جان سے مل کر کیچن میں مہرو کہ پاس چلی آئی جو اسے دیکھ کر حیران تھی تم تو زیادہ دن کے لیے گئی تھی ناں پھر دو دن میں ہی پلٹ آئی خیریت۔۔۔۔اور نہ ابھی فون پر واپسی کا بتایا۔۔۔۔مہرو ہاتھ صاف کرتی اسکی طرف آئیآپ کو برا لگا میرا آنا۔۔۔۔۔؟؟ ہیر مسکرائیویری فنی۔۔۔۔۔مہرو نے منہ بگاڑ کر ہیر کی بات کا مذاق اڑایااب بتاؤ چائے بناؤں تمہارے لیے اور کس کے ساتھ آئی ہو۔۔۔؟؟لالہ کیساتھ۔۔۔۔۔چائے نہیں پیوں گی ابھی حدید کہاں ہے۔۔۔۔؟؟؟مولوی صاحب کے پاس سیپارہ پڑھنے۔۔۔۔اچھا میں آتی ہوں ابھی چینج کر کے۔۔۔۔وہ کہہ کر اپنے کمرے میں آ گئیہیر بظاہر تو ریلکیس تھی مگر اندر سے وہ یشب کو سوچ کر خوفزدہ تھی وہ آئی بھی اسی لیے تھی تاکہ یشب کے غصے کو ٹھنڈا کر سکے۔۔۔۔۔شمس کو تو کہہ آئی تھی کہ یشب کو سنبھال لے گی مگر اب وہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کہ یشب کو لالہ کے معاملے میں کیسے ہینڈل کرے گی۔۔۔۔یشب کا رویہ ہیر کے ساتھ بلکل ٹھیک ہو چکا تھا پر وہ اب بھی ہیر کے منہ سے شمس کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں سنتا تھاوہ کافی دیر سوچنے کے بعد یشب سے بات کرنے کے لیے مختلف الفاظ ترتیب دے کر کمرے سے نکل آئی۔۔۔۔ اب وہ یشب کی واپسی کی منتظر تھی………………………………………..………..ہیر اور مہرو ہال میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں اور حدید کچھ فاصلے پر بیٹھا گیم کھیل رہا تھا۔۔۔۔ہیر گاہے بگاہے کلاک کیطرف بھی دیکھ لیتی۔۔۔۔۔ڈیڑھ گھنٹے کے کھٹن انتظار کے بعد یشب کی پجارو کا ہارن بجا۔۔۔ہیر نے بےچینی سے پہلو بدلا۔۔۔۔لگتا ہے آ گئے مہرو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔میں دیکھتی ہوں وہ پلٹی ہی تھی جب سامنے سے یشب لال بھبھوکا چہرہ لیے اندر داخل ہوا اور کسی کی طرف بھی دیکھے بنا سیڑھیاں پھلانگ گیااسے کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر پریشان ہوئیمیں دیکھتی ہوں جا کر آپ پریشان مت ہوں۔۔۔۔۔۔ہیر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتی سیڑھیاں چڑھ گئیوہ دھڑ دھڑ کرتے دل کیساتھ آہستگی سے دروازہ کھولتی اندر اینٹر ہوئی۔۔۔۔۔یشب سیل کان سے لگائے ونڈو پین کیطرف منہ کیے بات کرنے میں بزی تھا۔۔۔۔ہیر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بیڈ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئییشب نے مزید پانچ منٹ بات کر کے سیل بند کیا اور پلٹ کر جیکٹ اتارتا واش روم چلا گیا۔۔۔پندرہ منٹ بعد شاور لے کر نکلا۔۔۔بالوں میں برش کیا۔۔۔بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف آ کر لائیٹر اور سیگرٹ کی ڈبی اٹھائی اور بالکنی میں نکل گیا۔۔۔۔یشب نے اس سارے عمل میں ہیر کو مکمل طور پر اگنور کیا تھا۔۔۔وہ بھی خاموش کھڑی رہی۔۔۔یشب کے جانے کہ بعد وہ لمبی سی سانس لیتی ہمت مجتمعکر کے بالکنی کیطرف آئی۔۔۔۔یشب سیگرٹ سلگائے کش لے رہا تھا۔۔۔۔ہیر پاس آئی۔۔۔۔یشب چائے لاؤں آپ کے لیے یا پھر کھانا ہی کھائیں گے اب۔۔۔۔جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔یشب نے منہ سے دھواں نکالتے ہوئے روکھے سے انداز میں کہا۔۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟آئی سیڈ گو فرام ہئیر۔۔۔۔۔یشب۔۔۔۔۔تمہیں سنائی نہیں دیا کیا۔۔۔۔۔؟؟وہ اپنے پرانے انداز میں دھاڑاہوا کیا ہے یشب۔۔۔اسطرح سے کیوں بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئیمیں فلوقت تم سے کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا اسلئیے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔۔بس دفع ہو جاؤ کہنے کی کسر رہ گئی تھیہیر ایک نظر اسکے سرد و سپاٹ چہرے کو دیکھ کر پلٹ گئییشب نے اسکے جانے کے بعد غصے سے گرل پر مکا مارا اور سیگرٹ پیروں تلے مسل کر اسٹڈی میں چلا گیا………………………………………………………کیا ہوا یشب کو وہ غصے میں کیوں تھا اتنا اور کیا بات ہوئی وہاں۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے ہیر کو کیچن میں داخل ہوتے دیکھ کر پوچھاپتہ نہیں مجھ سے کوئی بات نہیں کی کہہ رہے ہیں فلوقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔۔۔۔۔ایسا کیا ہوا ہو گا وہاں۔۔۔۔میں ابھی لالہ سے بات کرتی ہوں۔۔۔۔مہرو کیچن سے باہر نکلیارے نہیں بھابھی اگر وہاں کوئی ایسی ویسی بات ہوئی ہوتی تو یشب ضرور بتا دیتے ویسے بھی باباجان بھی جانتے ہوں گے ہم ان سے پوچھ لیں گے۔۔۔۔ ابھی تو کھانا لگوائیں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔یشب ابھی نہیں کھائیں گے ہم کھا لیتے ہیں بابا جان کا بھی بھجوا دیں مردانے میں۔۔۔۔ہیر نے مسکرا کر کہتے ہوئے بات بدلی تاکہ مہرو زبیر سے کچھ نہ پوچھ سکے اور حدید کو آواز دیتی پلٹ گئیمہرو بھی سر ہلاتی واپس کیچن میں مڑ گئی کھانا لگوانے۔۔۔………………………………………………….رات کے ڈیڑھ بج چکے تھے اور یشب ابھی تک اسٹڈی سے نہیں نکلا تھا ہیر اسکے انتظار میں کروٹیں لے لے کر تھک چکی تھیمزید کچھ دیر انتظار کے بعد وہ اٹھنے کا سوچ رہی تھی جب کلک کی آواز سے اسٹڈی کا دروازہ کھول کر یشب باہر آیاوہ خاموشی سے آ کر بیڈ پر اپنی سائیڈ پر لیٹا اور کروٹ بدل لیکھانا لاؤں آپکے لیے۔۔۔۔۔۔ہیر نے اسکی پشت کو دیکھتے ہوئے پوچھاتم سوئی نہیں اب تک۔۔۔۔۔یشب اسکیطرف پلٹا آپ کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔بھوک نہیں ہے مجھے دوپہر میں کھا لیا تھا۔۔۔یشب۔۔۔۔۔۔ ہوں۔۔۔۔۔۔۔مہرو بھابھی کہہ رہی تھی کہ زبیر لالہ نے کوئی ضروری بات کرنی تھی اس لیے آپ کو اور بابا جان کو بلوایا تھا کیا بات ہوئی وہاں۔۔۔۔۔۔؟؟؟یشب اسکی طرف دیکھ کر استہزائیہ ہنسامیکے سے آ رہی ہو کیا وہاں تمہیں کسی نے کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔۔کس بارے میں۔۔۔۔؟؟؟اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔اسٹاپ ڈس۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا اٹھ بیٹھااس قدر معصوم بننے کی کوشش مت کرو ہیر دلاور خان جیسے کچھ جانتی نہ ہو۔۔۔۔۔ایک دفعہ صرف ایک دفعہ مجھ سے تو بات کر سکتی تھی بھابھی کے گھر والوں سے بات کرنے سے پہلے۔۔۔۔۔پر نہیں محترمہ کو اپنا بھائی جو عزیز ہے ہر رشتے پر۔۔۔۔۔۔۔یشب غصے اور طنز سے پھنکارایشب مجھ سے قسم لے لیں میں کچھ نہی جانتی تھی اس بارے میں۔۔۔۔ آج ہی اماں نے بتایا کہ وہ اور بابا زبیر خان سے رشتے کی بات کر چکے ہیں انہوں نے نہ مجھ سے پوچھا اور نہ ہی شمس لالہ سے ۔۔۔۔یقین کریں میرا۔۔۔۔۔وہ یشب کے غصے پر روہانسی ہوتی بولیکر لیا یقین۔۔۔۔سو جاؤ اب تم۔۔۔۔یشب نے گھور کر کہتے ہوئے لیٹ کر آنکھوں پر بازو رکھ لیاآپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے کیا یشب۔۔۔۔؟؟ہیر سو جاؤ۔۔۔۔۔۔میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گی۔۔۔۔ہیر میں نے کہا سو جاؤ۔۔۔۔۔اگر ایسا ہو جائے تو کچھ برا نہیں شمس لالہ اور مہرو بھابھی کی شادی۔۔۔۔انفف۔۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔یشب غراتا پھر جھٹکے سے اٹھ بیٹھاتم سے کچھ کہہ نہیں رہا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو جی میں آئے بکواس کرتی رہو۔۔۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی میں ایسا کچھ ہونے دوں گا سمجھی۔۔۔۔کیوں نہیں ہونے دیں گے ایسا۔۔۔۔جب آپ اور میں ہنسی خوشی زندگی گزار سکتے ہیں تو پھر مہرو بھابھی اور شمس لالہ کا بھی اس زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا میرا اور آپ کا۔۔۔۔۔ہیر بھی اونچی آواز سے چلائیآواز نیچی رکھو۔۔۔۔ میں آپ کو آپ کے لہجے میں ہی جواب دوں گی یشب خان آفریدی۔۔۔۔۔وہ بے خوفی سے یشب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولیہوں۔۔ں۔۔۔وہ طنزیہ ہنساتو پھر ہیر بی بی اپنی تیاری رکھو کیونکہ اگر ایسا کچھ ہوا تو تمہاری بھی اس حویلی میں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔۔۔مہرو بھابھی اگر یہاں سے رخصت ہوں گی تو تم بھی انکے ساتھ ہی جاؤ گی یہاں سے اپنے لاڈلے شمس لالہ کے پاس۔۔۔۔۔۔یشب نے اپنی لال انگارہ آنکھیں ہیر کے رنگ اڑے چہرے پر فوکس کرتے ہوئے دھمکی دی۔۔ہیر کو یشب سے اس قسم کی دھمکی کی امید نہ تھی وہ دکھ اور حیرانگی سے یشب کو دیکھتی ششدر سی بیٹھی تھی۔۔۔کچھ لوگ دل توڑتے وقت اتنا بھی نہیں سوچتے کہ سامنے والے پر کیا گزرے گی اور یشب۔۔۔وہ تو دل توڑنے اور توڑ کر جوڑنے کا پرانی کھلاڑی تھا”ثواب سمجھ کر وہ ہمارا دل توڑتے ہیںاور ہم۔۔۔۔۔!!!ہم گناہ سمجھ کر شکوہ بھی نہیں کر پاتے۔۔۔۔”

آپ کا مطلب ہے آپ مجھے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔؟؟ہیر لرزتی آواز میں بولیمیں نے ایسا کب کہا۔۔۔۔؟؟؟ یشب اسکے پانیوں سے بھرے نین کٹورے دیکھ کر نرم پڑاابھی کہا آپ نے کہ اگر ایسا ہوا تو میری بھی یہاں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔۔۔۔پانی پلکوں کی باڑ توڑ کر گال پر پھسلا”جھانکیے مت ان آنکھوں میں جناب،ان میں خطرہ ہے ڈوب جانے کا۔۔۔۔!”ارے کیا ہوا۔۔۔۔؟؟یشب نے اسکا بازو تھام کر قریب کیا اور مسکراتے ہوئے ہیر کے آنسو پونچھ کر نم آنکھوں کو لبوں سے چھواغصے میں کہہ دیا یار تم تو سیریس ہی ہو گئی۔۔۔۔میں ایسا کر سکتا ہوں کبھی۔۔۔؟؟وہ پیار سے بولاہیر جانتی تھی یشب کو جب اس پر ٹوٹ کر پیار آتا تھا تو ہی وہ اسکی آنکھوں کو چھوتا تھا۔۔۔اسلئیے ریلیکس ہوتی سیدھی ہو بیٹھیآج کے بعد اگر غصے سے بھی ایسا کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔تم سے برا کوئی ہے بھی نہیں۔۔۔یشب نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کھینچیتم بیویاں بہت چالاک ہوتی ہو ذرا بھنک لگ جائے کہ شوہر کی کمزوری ) ہیر کے آنسو ( کیا ہے ہر بات پر اسی سے بلیک میل کرتی ہو۔۔۔۔ہاں تو آپ شوہروں کو بھی چاہیے کہ ایسی بات ہی نہ کریں کہ بیویوں کو بلیک میل کرنا پڑے۔۔۔۔وہ اٹھلائیاچھا اٹھو کھانے کو لاؤ کچھ بھوک لگ گئی ہے۔۔۔۔پہلے میری پوری بات بنا غصے اور ٹوکنے کے سنیں پھر جاتی ہوں کھانا لینے۔۔۔بولو۔۔۔۔۔یشب نے ریلیکس ہو کر بیڈ کی پشت سے ٹیک لگا کر ٹانگیں سیدھی کیں وہ جانتا تھا ہیر ایسے نہیں ٹلے گییشب اگر ایسا ہو جائے تو کوئی حرج بھی نہیں۔۔۔۔۔مہرو بھابھی اتنی ینگ ہیں ساری زندگی بیوگی کی چادر اوڑھ کر تو نہیں گزار سکتی حدید تو بہت چھوٹا ہے ابھی۔۔۔۔۔بھابھی کے بھی کچھ ارمان ہوں گے خواہشات ہوں گی جو یشار خان کے چلے جانے سے ادھورے رہ گئے ہیں تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ انکی ادھوری خواہشات اور خوشیاں ان کو لٹا دیں۔۔۔کیونکہ اب ان کے بارے میں مجھے آپکو اور باقی گھروالوں کو ہی سوچنا ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔وہ رسان سے بولیمجھ بھابھی کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے ہیر۔۔۔۔۔تو پھر۔۔۔۔۔؟؟؟پھر یہ کہ مجھے انکی شمس خان سے شادی پر اعتراض ہے۔۔۔یشب۔۔۔۔آپ نے ہی مجھ سے کہا تھا ناں کہ ہیر ماضی میں جو بھی ہو چکا اس سب کو بھلا کر نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں تو پھر اب خود کیوں ماضی میں جھانک رہے ہیں۔۔۔۔دیکھیں میں مانتی ہوں شمس لالہ سے یشار خان کا خون ہوا مگر آپ جانتے ہیں کہ یہ سب کسی دشمنی کے تحت نہیں بلکہ غلطی سے ہوا تھا۔۔۔۔۔۔آپ کا رویہ لالہ کیساتھ کیسا ہے میں جانتی ہوں مگر میں نے کبھی بھی آپ سے اس بات کی شکایت نہیں کی۔۔۔۔پھر کیوں آپ سب بھلاتے نہیں ہیں۔۔۔۔لالہ میں کس چیز کی کمی ہے خان۔۔۔وہ پڑھے لکھے ہیں۔۔۔اچھی شکل وصورت کے مالک ہیں۔۔۔۔اتنی بڑی جاگیر کے اکلوتے وارث ہیں۔۔۔۔کچھ دیر کو اس بات کو بھول جائیں کہ لالہ سے آپ کے بھائی کا خون ہوا تھا۔۔۔۔پھر سوچ کر بتائیں کہ کیا وہ ایک مکمل انسان نہیں جس کو ہم مہرو بھابھی کو سونپ سکیں۔۔۔۔۔۔۔ایک منٹ۔۔۔یشب پلیز میری بات مکمل ہونے دیں پہلے۔۔۔۔ہیر نے اسے منہ کھولتے دیکھ کر روکامہرو بھابھی بمشکل ہی تیس کی ہوں گی ابھی تو بہت لمبی زندگی پڑی ہے یشب جسے وہ تنہا نہیں گزار سکتی ہیں۔۔۔۔کسی سہارے کی ضرورت ہے جو ان کو سنبھال سکے انکی خوشیاں لوٹا سکے انہیں مان دے سکے۔۔۔۔اور مجھے پورا یقین ہے شمس لالہ انکے لیے ایک اچھا سہارا ثابت ہوں گے یشب۔۔۔۔وہ دونوں ایک جیسے غم سے گزر چکے ہیں اسلئیے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکیں گے۔۔۔۔۔۔وہ پراثر انداز میں اسے قائل کر رہی تھیتمہیں کیا لگتا ہے بھابھی کے لیے سب کچھ بھلا کر اپنے شوہر کے قاتل کیساتھ زندگی گزارنا آسان ہو گا۔۔۔؟؟آسان نہیں تو مشکل بھی نہیں ہو گا میں جانتی ہوں بھابھی اپنے بڑوں کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے بس آپ چپ رہیں اس معاملے میں۔۔۔ہم مہرو بھابھی کیساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کریں گے یشب۔۔۔اگر وہ مان جاتی ہیں تو پھر آپ کوئی ایشو کری ایٹ نہیں کریں گے اس معاملے کو لے کر۔۔۔۔آپ کو میری قسم۔۔۔ہیر نے یشب کا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھاپوری بلیک میلر ہو۔۔۔۔آپکے ساتھ رہ رہ کر ہو گئی ہوں۔۔۔۔وہ مسکرائیفائن نہیں کروں گا کوئی ایشو کری ایٹ۔۔۔اب خوش۔۔۔بہت خوش۔۔۔۔مننه او ستا سره مینه لرم ډیر خان صاحب۔۔۔۔) تھینکس اینڈ لو یو آ لوٹ خان صاحب)۔۔۔۔۔۔وہ شرارت سے پشتو میں کہتی بیڈ سے نیچے اتریاب جا کہاں رہی ہو جواب تو لیتی جاؤ اپنی بات کا۔۔۔۔۔یشب نے اسے باہر کیطرف جاتے دیکھ کر آواز لگائیآ کر لوں گی جناب۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر ہاتھ ہلاتی کمرے سے نکل گئی………………………………………………………یشب قائل تو لال حویلی سے ہی ہو کر آیا تھا کہ مہرو بھابھی کی شادی کر دینی چاہیے مگر دل شمس خان سے شادی پر راضی نہیں تھاوہ یہ بات اچھے سے جانتا تھا کہ شمس نے کسی دشمنی کی بنا پر یشار کو قتل نہیں کیا تھا کیونکہ ان لوگوں کی کبھی کسی بھی قبیلے سے کوئی دشمنی نہ رہی تھی۔۔۔۔خاقان آفریدی صلح جو اور نرم طبیعت کے مالک تھے لہذا انکی نہ ماضی میں کوئی دشمنی تھی اور نہ ہی حال میں۔۔۔۔۔تو پھر شمس یشار لالہ کا خون کیوں کر کرتا۔۔۔۔؟؟زبیر خان نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔۔ اگر شمس ارادتا یشار کو قتل کرتا تو پھر اسکی ڈیڈ باڈی لے کر خود حویلی نہ آتا۔۔۔اور نہ ہی زبیر خان کو فون کر کے بتاتا کہ اس کے ہاتھوں سے یشار خان آفریدی کو گولی لگ گئی ہے۔۔۔۔یہ سب اچانک ہوا تھا جس میں شمس کا کوئی قصور نہیں تھا یشب۔۔۔تو پھر کیونکر اس بات کو لے کر انکار کیا جائے۔۔۔۔۔زبیر نے یشب کو سمجھاتے ہوئے کہاوہ سب اس وقت لال حویلی کے دالان میں بیٹھے شمس کے پرپوزل پر بات کر رہے تھے۔۔۔۔اور ویسے بھی میں شمس کو ایک عرصے سے جانتا ہوں ہم کلاس فیلوز رہ چکے ہیں وہ دوست تھا میرا۔۔۔۔ایک اچھا اور سلجھا ہوا انسان ہے وہ۔۔۔۔۔یونیورسٹی کے زمانے میں وہ اکثر حویلی آتا جاتا رہتا تھا اماں بھی مل چکی ہیں شمس سے۔۔۔۔زبیر خان نے اماں کی طرف اشارہ کیاہاں یشب بچے۔۔۔۔شمس اچھا اور سلجھا ہوا لڑکا ہے زبیر ٹھیک کہہ رہا ہے۔۔۔اماں نے بھی شمس خان کی حمایت کیاس گھر کے بڑے اور مہرو کے بھائی ہونے کے ناطے مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ہے یشب۔۔۔۔۔انہوں نے بھی اپنی بیٹی تمہیں دے رکھی ہے پھر اس رشتے کے پیچھے ان لوگوں کی بری نیت نہیں ہو سکتی۔۔۔۔ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچو۔۔۔۔۔زبیر نے بات مکمل کر کے یشب کا کندھا تھپکامجھے بھابھی کی شادی پر کوئی مسلہ نہیں ہے لالہ میں شمس خان کو انکے شوہر کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتا بس۔۔۔۔کوئی اور اچھا رشتہ بھی تو مل سکتا ہے ہمیں۔۔۔۔یشب شکستہ سا بولامل سکتا ہے۔۔۔۔مگر۔۔۔۔مگر کچھ نہیں زبیر۔۔۔۔یہ یہاں کا بڑا نہیں ہے کہ اس کے فیصلے کو ترجیع دی جائے۔۔۔۔مجھے تمہیں اور بھرجائی (مہرو کی امی) کو جب کوئی اعتراض نہیں تو پھر یشب کا اعتراض کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔۔خاقان آفریدی نے بھی زبیر خان کے فیصلے کی حامی بھریجب میرا انکار یا اقرار کوئی اہمیت نہیں رکھتا تو پھر اس محفل کا حصہ کیوں بنا رکھا ہے مجھے۔۔۔۔آپ لوگوں کا جو دل کرے وہ فیصلہ کریں۔۔۔میں صرف مہرو بھابھی کے فیصلے کو ہی ترجیع دوں گا اگر انکو کوئی مسلہ ہوا تو میں ان کیساتھ کھڑا ہوں گا بابا جان۔۔۔۔میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔وہ سپاٹ چہرے سے کہتا باہر نکل گیاوہاں تو سب راضی تھے شمس خان کے رشتے پر سوائے یشب کے۔۔۔۔۔جب میں مہرو بھابھی کے فیصلے کیساتھ ہوں تو پھر مزید اس معاملے پر کچھ اور سوچنے کو باقی نہیں بچتا۔۔۔یشب نے لال حویلی میں ہوئی بات چیت کو سوچ کر لمبی سی سانس خارج کی اور خود کو ریلیکس کرتا تکیے پر سر رکھ کر لیٹ گیا………………………………….…….…………میں یشب کو تو ٹھنڈا کر چکی ہوں اس معاملے پر مگر مہرو بھابھی کو کیسے قائل کروں گی۔۔۔۔؟؟یشب نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔مہرو بھابھی کے لیے ہر گز آسان نہیں ہو گا شمس لالہ کو اپنے شوہر کے روپ میں قبول کرنا۔۔۔۔وہ سوچتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی جب گل نے بی بی جان کا پیغام دیا وہ ہیر کو اپنے کمرے میں بلا رہیں تھیں۔۔۔ہیر بلاوے پر انکے کمرے کی طرف بڑھ گئیبی بی جان آپ نے بلایا۔۔۔۔۔؟؟اس نے بی بی جان کے کمرے میں آ کر پوچھاہاں آؤ بیٹھو یہاں مجھے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔ہیر جانتی تھی کہ ضروری بات کیا ہو گی اسلیئے سر ہلاتی انکے سامنے بیٹھ گئیخان نے مجھے بتایا کہ لال حویلی والوں نے کیوں بلوایا تھا انہیں۔۔۔۔بی بی جان نے گلا کھنکار کر بات شروع کیجی۔۔۔۔۔تم جانتی تھی پہلے سے یہ بات۔۔۔۔۔؟؟انہوں نے سوالیہ نظروں سے ہیر کو دیکھانہیں بی بی جان اماں اور بابا نے مجھ سے پوچھے بغیر ہی بھابھی کہ گھر والوں سے بات کر لی تھی مجھے بھی کل ہی بتایا اماں نے۔۔۔۔۔اگر مجھے علم ہوتا تو میں آپ لوگوں سے اجازت کے بعد ہی مہرو بھابھی کہ گھر والوں سے بات کرنے کا کہتی انہیں۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔۔بی بی جان مطمعین ہوئیںآپ کو برا لگا بی بی جان۔۔۔۔؟؟نہیں بچے مجھے کیوں برا لگے گا مہرو میری بھتیجی بھی ہے میں بھی چاہتی ہوں کے وہ ایک خوشگوار زندگی گزارے۔۔۔اس رشتے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے لال حویلی میں۔۔۔۔یہاں بھی صرف یشب اور مہرو کو ہی اعتراض ہے۔۔۔۔۔بی بی جان یشب سے بات ہو گئی ہے میری انہوں نے کہا کہ اگر بھابھی راضی ہوئی تو انکو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔۔۔۔بھابھی سے بات کر لی آپ نے۔۔۔۔؟؟؟ہاں ابھی تمہارے آنے سے پہلے کی تھی بھابھی ) مہرو کی امی )کا فون آیا تھا کہہ رہی تھی کہ وہ زبیر کو بھیج رہی ہیں مہرو کو لینے کے لیے اس لیے ایک دفعہ میں بات کر لوں اس سے۔۔۔۔پھر کیا کہا بھابھی نے۔۔۔۔؟؟ہیر پرجوش ہوئیکہہ رہی ہے اسے شادی ہی نہیں کرنی۔۔۔۔وہ حدید کیساتھ ہی زندگی گزار لے گی۔۔۔۔اسے اب کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔۔۔۔بی بی جان کی بات پر ہیر کا منہ لٹک گیامیں نے تمہیں اسی لیے بلایا ہے ہیر بچے مہرو سے بات کرو جا کر کہ زندگی بغیر کسی مرد کے سہارے کے گزارنا آسان نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچے اس بارے میں۔۔۔۔جی بی بی جان میں کرتی ہوں بات۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔زبیر کے آنے سے پہلے ہی بات کر لینا شاید شام تک وہ آ جائے مہرو کو لینے۔۔۔۔جی میں جاتی ہوں ابھی۔۔۔ہیر سر ہلاتی کمرے سے باہر نکلی اور بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ ترتیب دیتی مہرو کے کمرے کیطرف چل پڑی…………………………………………………ہیر جب مہرو کے کمرے میں داخل ہوئی تو مہرو صوفے پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھیبھابھی۔۔۔۔۔اس نے پاس آ کر پکاراہوں۔۔۔۔مہرو آنسو پونچھتی سیدھی ہوئیآپ رو رہی ہیں۔۔۔۔؟؟؟ہیر نے اسکی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر پوچھانہیں۔۔۔۔بس ایسے ہی تم آؤ بیٹھو۔۔۔۔وہ افسردہ سا مسکرا کر بولیہیر اسکے ساتھ ہی صوفے پر ٹک گئیبھابھی وہ میں۔۔۔۔ہیر کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے بات شروع کرے۔۔۔۔وہ میں آپ سے ضروری بات کرنے آئی تھی۔۔۔۔وہ ہچکچا کر بولیاگر تمہیں بی بی جان نے یہاں بھیجا ہے تو میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہیر۔۔۔۔۔۔بھابھی پلیز ایک دفعہ میری بات سن لیں۔۔۔وہ ملتجی ہوئیہیر پلیز میرے لیے یہ سب آسان نہیں ہے۔۔۔۔بھابھی شمس لالہ بہت اچھے ہیں۔۔۔ ہیر کی بات پر مہرو نے پرشکوہ نظروں سے اسے دیکھالالہ نے یشار خان کو جان بھوج کر نہیں مارا تھا بھابھی۔۔۔۔ہیر نے وضاحت دی میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔تو پھر اس بات کو سوچنے میں کیا برائی ہے بھابھی۔۔۔۔کوئی برائی نہیں ہے پر میں شادی ہی نہیں کرنا چاہتی تو پھر سوچ کر کیا کروں گی۔۔۔۔؟؟مہرو دکھی لہجے میں بولیبھابھی آپ لالہ کیساتھ بہت اچھی زندگی گزاریں گی مجھے پورا یقین ہے۔۔۔۔ایک بار۔۔۔۔صرف ایک بار سب کچھ بھلا کر اس بارے میں سوچیں تو۔۔۔۔سوچ لوں گی۔۔۔۔وہ کہہ کر کھڑی ہوئیبھابھی پلیز ہم سب آپ کے اچھے کے لیے ہی کہہ رہے ہیں۔۔۔۔میں جانتی ہوں ہیر۔۔۔۔سب میری بھلائی چاہتے ہیں۔۔۔۔آپ خفا ہو گئی ہیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟میں کیوں خفا ہوں گی تم سے ہیر۔۔۔۔بھابھی میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی پہلے کل ہی اماں نے بتایا کہ بابا زبیر لالہ سے رشتے کی بات کر چکے ہیں۔ میں تم سے خفا نہیں ہوں ہیر۔۔۔۔تم بہت اچھی ہو اور میں تم سے خفا نہیں ہو سکتی۔۔۔۔مہرو نے اسکے گال پر ہاتھ رکھے پیار سے کہاتو پھر میری بات مان لیں ناں بھابھی۔۔۔ہیر نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیاکہا ہے ناں سوچوں گی۔۔۔آپ مجھے ٹال رہی ہیں۔۔۔۔نہیں ٹال رہی ہوں۔۔۔ابھی لال حویلی جاؤں گی تو وہاں بھی سب یہی بات کریں گے جیسے صبح بی بی جان اور بابا جان نے کی۔۔۔۔اور اب تم۔۔۔۔سب کے بار بار کہنے سے مجھے ماننا پڑے گا ہیر۔۔۔۔کیونکہ میں ایک عورت ہوںمیری اپنی کوئی مرضی ہو نہ ہو پر مجھے اپنے گھر والوں کی مرضی کے مطابق ہی چلنا پڑے گا یہی زندگی ہے ہم عورتوں کی ڈگڈگی بن کر زندگی گزارتے جاؤ۔۔۔۔وہ تلخی سے کہتی کبڈ کیطرف بڑھیتم بھی تو جانتی ہو۔۔۔۔تمہارے ساتھ ایک عورت ہونے کے ناطے جو ہو چکا ہے وہ سب بھولا تو نہیں ہو گا تمہیں۔۔۔؟؟مہرو نے کبڈ کا ایک پٹ کھولتے ہوئے کہامجھے یاد ہے سب بھابھی شاید چاہ کر بھی بھول نہیں پاؤں گی مگر اسکے بدلے مجھے اتنا کچھ مل چکا ہے کہ میں اس سب کو خود ہی یاد نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔آپ کو یاد ہے ایک دفعہ آپ نے ہی کہا تھا کہ ہیر صبر سے برداشت کر لو ایک نہ ایک دن تمہیں اس صبر کا پھل ضرور ملے گا۔۔۔۔تو بھابھی مجھے وہ پھل مل چکا ہے۔۔۔اس لیے میں چاہتی ہوں آپ بھی دل میں کوئی خوف، وہم یا زبردستی رکھے بغیر سوچیں۔۔۔ہم عورتوں کی واقعی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ہم اپنے باپ، بھائیوں اور شوہروں کی خواہشات کے آگے سر جھکاتی آئی ہیں اور آگے بھی جھکاتی رہیں گی۔۔۔مگر اس بات پر بھی انکار نہیں کہ ایک عورت کو زندگی گزارنے کے لیے مرد کے سہارے کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔چاہے وہ سہارا باپ کی صورت میں ہو بھائی یا پھر شوہر کے۔۔۔۔ان سہاروں کے بغیر ہم عورتیں کچھ بھی نہیں ہیں بھابھی۔۔۔۔ہیر رسان سے کہتی مہرو کو قائل کر لینا چاہتی تھیمیں مانتی ہوں یہ بات کہ مرد کا سہارا ایک عورت کے لیے بہت ضروری ہے ہیر۔۔۔اس لیے میں سوچوں گی اس بارے میں۔۔۔آپ یہ مت سوچئیے گا بھابھی کہ شمس لالہ میرے بھائی ہیں میں اس لیے آپ کو فورس کر رہی ہوں۔۔۔میں صرف اتنا چاہتی ہوں کہ آپ بھی ایک اچھی زندگی گزاریں ہماری طرح۔۔۔۔ہیر کہتی ہوئی اسکے پیچھے ہی کبڈ تک آئیہوں۔۔۔۔مجھے تمہارے خلوص پر کوئی شک نہیں ہے ہیر۔۔۔۔مہرو نے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لیابھابھی آپ شمس لالہ کیساتھ بہت خوش رہیں گی۔۔۔۔اس لیے میری ریکویسٹ ہے کہ آپ اس بارے میں ضرور سوچئیے گا کسی بھی دباؤ کے بغیر۔۔۔۔۔ہیر نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر دبائے میری خواہش ہے کہ آپ میری بھابھی بنیں۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر بولیہوں سوچوں گی ضرور۔۔۔۔مہرو نے مدھم سا مسکرا کر ہیر کو مطمعین کیامگر وہ خود مطمعین نہیں تھی۔۔۔۔………………………………………………زبیر خان مہرو اور حدید کو آ کر لے گیا تھا۔۔۔۔ہیر کافی بے چینی سے مہرو کے فیصلے کی منتظر تھی۔۔۔۔مہرو کو لال حویلی گئے دو ہفتے ہونے والے تھے مگر ابھی تک وہاں سے ہاں یا ناں میں کوئی جواب نہیں دیا گیا تھا۔۔۔ہیر کی بات مہرو سے ہر دو ، چار دن بعد ہو جاتی تھی مگر اس بارے میں دوبارہ انکے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔۔۔ہیر کی بے چینی آوٹ آف کنٹرول ہوئی تو وہ بی بی جان کے پاس آ بیٹھیبی بی جان تسبیح کر رہی تھیں۔۔۔مہرو بھابھی کب تک آ رہی ہیں بی بی جان آپ کی بات ہوئی ان سے۔۔۔۔؟؟وہ دوپٹہ انگلی پر لپٹتی بے چینی سے بولیہوں۔۔۔ہوئی تھی بات کہہ رہی تھی ابھی کچھ دن اور رکے گی وہاں۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلایا اب وہ اگلی بات پوچھنا چاہ رہی تھی مگر سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے پوچھے۔۔۔۔۔بی بی جان نے اسے بے چینی سے پہلو بدلتے دیکھ کر خود ہی پوچھ لیاہیر بچے کوئی اور بات کرنی ہے کیا۔۔۔۔؟؟؟جج۔۔۔۔جی بی بی جان۔۔۔۔تو پھر پوچھو ہچکچا کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔وہ مسکرائیںوہ۔۔۔۔۔۔۔بی بی جان مہرو بھابھی نے کیا فیصلہ کیا پھر۔۔۔۔۔۔؟؟؟دل کی بات زبان پر آئیتمہاری بات نہیں ہوئی مہرو سے۔۔۔۔۔؟؟؟ہوئی تھی مگر اس بارے میں نہیں ہوئی۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔بھابھی سے بات ہوئی تھی انہوں نے ہی بتایا کہ مہرو نے وقت مانگا ہے سوچنے کے لیے۔۔۔۔۔وہ لوگ تو راضی ہیں مگر بھابھی کہہ رہی تھیں زبیر نے کہا ہے کہ مہرو کو فورس نہ کیا جائے اس معاملے پر وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہ ہی جواب دلاور خان تک پہنچا دیا جائے گا۔۔۔۔۔اب دیکھو مہرو کب فیصلہ کرتی ہے۔۔۔۔۔بی بی جان نے تفصیلا ہیر کو آگاہ کیاہوں۔۔۔۔میں بھی منتظر ہوں بھابھی کے فیصلے کی۔۔۔وہ مایوسی سے بولییشب نہیں آیا پشاور سے ابھی۔۔۔۔؟؟؟کل شام تک آئیں گے ابھی بات ہوئی تھی میری ان سے۔۔۔۔۔آپ کے لیے چائے لاؤں بی بی جان۔۔۔۔۔ہوں لے آؤ۔۔۔۔۔۔سردی بڑھ رہی ہے اب تو ہر دو گھنٹے بعد چائے پینے کو دل کرتا ہے۔۔۔۔۔بی بی جان مسکرا کر بولیں میں ابھی لاتی ہوں۔۔۔۔ہیر بھی مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی…………………………………………………بی بی جان سے بات کرنے کے بعد ہیر کی بے چینی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔۔۔۔مہرو بھابھی ناجانے کیا فیصلہ کریں گی پہلے تو امید تھی کہ انکے گھر والے راضی ہیں اس رشتے پر اب تو زبیر خان بھی فیصلہ بھابھی کو سونپ چکا ہے۔۔۔اور بھابھی۔۔۔۔۔؟؟؟ وہ پریشانی سے ٹہلتی سوچ رہی تھیمیں بھابھی سے بات کروں پھر سے۔۔۔؟؟نہیں۔۔۔وہ کیا سوچیں گی میرے بارے میں کہ میں نے اسکا اتنا خیال رکھا اور یہ صرف اپنے بھائی کے بارے میں ہی سوچ رہی ہے۔۔۔۔مجھے خاموشی سے انتظار کرنا ہو گا۔۔۔زندگی تو انہوں نے گزارنی ہے بہتر ہے کہ وہ خود ہی بنا دباؤ کے فیصلہ کریں۔۔۔۔کیا سوچ رہی ہو اسطرح اسٹیچو بن کر۔۔۔۔۔یشب ابھی کمرے میں آیا تھا ہیر کو ایک ہی جگہ سٹل دیکھ کر اسکے پاس آ کر بولاآپ۔۔۔۔آپ کب آئے۔۔۔۔۔؟؟ہیر یشب کی آواز پر چونک کر سیدھی ہوئیابھی آیا ہوں۔۔۔۔آپ کس مراقبے میں مصروف ہیں۔۔۔۔وہ مسکرایاکسی مراقبے میں بھی نہیں۔۔۔اور آپ تو کل آنے والے تھے ناں۔۔۔؟؟ تو واپس چلا جاؤں کیا۔۔۔۔؟؟یشب جیکٹ اتارتا خفگی سے بولاارے نہیں میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا۔۔۔اچھا بتائیں میری ساری چیزیں لائے ہیں ناں۔۔۔۔۔؟؟نہ کوئی خیر خیریت نہ کھانا پینا۔۔۔بس اپنی چیزوں کی پڑی ہے۔۔۔۔بہت مطلب پرست ہو گئی ہو۔۔۔۔۔وہ خفا ہواہیر اسکی بات پر کھلکھلا اٹھی۔۔۔۔اچھا بتائیں کیسے ہیں۔۔۔۔؟؟پورے دو دن میرے بغیر کیسے گزرے۔۔۔۔؟؟ اور کیا کھانا پینا پسند کریں گے خان صاحب۔۔۔۔وہ شرارت سے کہتی دل پر ہاتھ رکھے جھکییشب اسکی حرکت پر مسکرا دیا۔۔۔۔دو دن بہت خراب گزرے تمہارے بغیر تم جیسی چڑیل مجھے اپنا عادی ہی اس قدر بنا چکی ہے کہ اب تمہارے بغیر ایک دن بھی گزارنا مشکل ہے۔۔۔یشب بات کرتے اسکی طرف بڑھ رہا تھامیں ہوں ہی ایسی کہ لوگ جلد ہی میرے اسیر ہو جاتے ہیں۔۔۔وہ اترا کر بولیبلکل۔۔۔۔یشب مسکراہٹ دباتا اس تک پہنچایشب کیا کر رہے۔۔۔۔ہیر اس کی گرفت میں مچلیاب دو دن کا رومینس بھی تو کرنا ہے جو ڈیو ہے۔۔۔۔۔وہ آنکھ دباتا بولابہت خراب ہیں آپ۔۔۔۔پہلے شاور لے کر فریش ہوں کچھ کھا پی لیں پھر رومینس کیجئے گا۔۔۔۔لہذا اب مجھے چھوڑیں۔۔۔۔۔وہ کاموں کو ترتیب دے کر بولیتم ایسا کرو ایک رومینس چارٹ بنا کر کمرے میں دروازے کے پاس لگا دو۔۔۔ جس پر رومینس کرنے کا دن اور ٹائم لکھا ہو۔۔۔۔تاکہ مجھے آسانی ہو سکے۔۔۔۔سارے موڈ کو خراب کر دیتی ہو۔۔۔۔یشب چڑتا خفگی سے بولااچھا بس اتنے معصوم مت بنیں جیسے میں تو آپ کو جانتی نہیں۔۔۔ہیر مسکراتے ہوئے اسکی گرفت سے نکلیمیں آپ کے لیے چائے لینے جا رہی ہوں تب تک فریش ہو جائیں۔۔۔۔ہری اپ۔۔۔۔۔چائے تمہارے ہاتھ کی نہ ہو تو چلے گی ورنہ رہنے دو چائے۔۔۔۔یشب بدمزا منہ بنا کر بولااب اتنی بھی بری نہیں بتاتی۔۔۔وہ خفا ہوئییہ تو ان سے پوچھو جو تمہارے ہاتھ کی جوشاندہ نما چائے پینے کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔۔۔۔۔اونہہ۔۔۔۔خود تو ہل کر ایک گلاس پانی تک نہیں پی سکتے اور دوسروں کی بنی چیزوں میں سے نقص نکالتے ہیں۔۔۔۔وہ ناک چڑھا کر بولیبہت چالاک ہوتی جا رہی ہو تم۔۔۔۔۔پھر بھی آپ سے کم ہی ہوں۔۔۔۔وہ بھی بدلہ چکاتی باہر کو بھاگی کیونکہ یشب اسے پکڑنے کو آگے بڑھا تھا پر ہیر نے بروقت باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا تھا

مہرو اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی تھی۔۔۔اسے لال حویلی آئے دو ہفتوں سے اوپر ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ جب یہاں آئی تھی تو اماں نے زبیر لالہ کی موجودگی میں ہی اس سے شمس خان کے پرپوزل پر بات کی تھی۔۔۔۔اسکی ہچکچاہٹ کو دیکھتے ہوئے زبیر نے یہ کہہ کر اسے مطمعین کر دیا تھا کہ اسکے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہو گی وہ جو بھی فیصلہ کرے گی وہی سب کو قبول ہو گا۔۔۔۔جسکی وجہ سے مہرو کافی پرسکون ہو گئی تھی مگر اب وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے جو دوسرا آپشن اسکے سامنے رکھا تھا اس سے وہ پھر سے اپ سیٹ ہو گئی تھی۔۔۔اس دن تو انہوں نے صرف شمس کے پرپوزل پر اسکا ذاتی ڈسیزن مانگا تھا مگر اس سے اگلے دن وہ مہرو کے کمرے میں آ کر اسکے لیے آیا دوسرا پرپوزل بھی بتا گئے تھے۔۔۔۔جس سے مہرو بے چین ہو گئی تھی کیونکہ زبیر لالہ نے فیصلہ کرنے کی آزادی تو اسے دے دی تھی مگر پر کاٹ کر۔۔۔۔۔۔۔انکا کہنا تھا کہ مہرو کو ان دو پرپوزلز میں سے ہی ایک کو فائنل کرنا ہے۔۔۔۔شطرنج کا صرف ایک پتہ ہی مہرو کہ ہاتھ میں دیا تھا انہوں نے۔۔۔۔۔مہرو نے ٹھیک ہی کہا تھا ہم عورتیں اپنے مردوں کے لیے قربانی دیتی آئی ہیں اور دیتی رہیں گی۔۔۔۔دوسرا پرپوزل مہرو کے تایا زاد ابرار خان کا تھا جسکے تین بچے تھے۔۔۔بڑا بیٹا دس سال کا تھا۔۔۔۔بیوی چند ماہ پہلے چل بسی تھی اور اب پھر سے ابرار خان کو شادی کی سمائی تھی۔۔مہرو ابرار خان کے رنگین مزاج کو برسوں پہلے سے جانتی تھی۔۔۔جانتے تو سب ہی تھے پھر بھی زبیر لالہ نے ناجانے کیوں ان لوگوں کو منع کیے بغیر پرپوزل مہرو کے سامنے رکھ دیا تھا۔۔۔۔اب مہرو کے پاس صرف دو آپشن تھے شمس خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابرار خان اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کو سلیکٹ کرنا تھا انکار کا آپشن زبیر خان اس سے واپس لے چکا تھاوہ کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔اسی لیے اس نے واپس جانے کا سوچا تھا تاکہ وہاں جا کر یشب سے مشورہ کر سکے۔۔۔۔۔وہ بھابھی دیور اور کزنز کے علاوہ اچھے دوست بھی تھے جو بلا جھجھک اپنے پرسنلز ایک دوسرے سے شئیر کر لیا کرتے تھے۔۔ اسی لیے مہرو نے یشب سے مشورہ کرنے کا سوچ کر خود کو مطمعین کر لیا تھا………………………………………………مہرو جانے سے پہلے شہربانو سے ملنے آئی تھی۔۔۔۔شہربانو مہرو کی خالہ زاد اور ابرار خان کی چھوٹی بھابھی تھیوہ کافی دیر شہربانو سے باتیں کرنے کے بعد واپس آنے کے لیے راہداری میں سے گزر رہی تھی جب سامنے سے ابرار خان آتا دیکھائی دیا۔۔۔مہرو نے اسے دیکھ کر سر جھکا لیا اور بڑے بڑے قدم اٹھانے لگی تاکہ جلدی سے باہر نکل جائے۔۔۔مگر ابرار خان نے اسکے برابر آتے ہی بازو پھیلا کر راستہ روکاکیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔؟؟؟وہ سر اٹھا کر ناگواری سے بولیمیں نے رشتہ بھجوایا تھا مگر زبیر نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔وہ گردن اکڑا کر بولا تو۔۔۔۔؟؟؟تو یہ کہ کب تک جواب ملے گا۔۔۔۔وہ کلف لگی گردن اکڑائے کھڑا تھاابرار لالہ ابھی بھابھی کو مرے صرف تین ماہ ہوئے ہیں اور آپ کو شادی کی پڑ گئی۔۔۔۔مہرو نے شرم دلانا چاہیاسکی بات پر وہ مونچھوں کو بل دیتا مسکرایامیں مرد ہوں۔۔۔۔مرد۔۔۔۔مہرو بی بی۔۔۔۔مرد ہیں تو مرد بنیں یوں اپنے گھر کی بہن بیٹیوں کا راستہ روک کر۔۔۔۔مہرو نے اسکی طرف دیکھا اور ابرار خان کی آنکھوں میں ہمیشہ والی گندگی دیکھ کر وہ بات ادھوری چھوڑتی سائیڈ سے ہو کر آگے بڑھ گئیاونہہ۔۔۔چیپ انسان۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر نکلیمہرو نے جب سے جوانی میں قدم رکھا تھا تب سے ہی اسنے ابرار خان سے کترانا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔ایک تو وہ رنگین مزاج مرد تھا کلی کلی منڈلانے والا اور دوسرا مہرو کو ہمیشہ اسکی بے باک نظروں سے الجھن ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ جب کبھی مہرو کی نظریں اسکی نظروں سے ملتیں تھیں تو مہرو کا دل چاہتا تھا کہ وہ کہیں چھپ جائے کسی ایسی جگہ پر جہاں ابرار خان کی گندی اور بےباک نظریں اس تک نہ پہنچ پائیں۔۔۔حالانکہ وہ مہرو سے چودہ، پندرہ سال بڑا تھا پھر بھی مہرو اس کے سامنے سے کتراتی تھی شادی سے پہلے تو وہ تایا کے گھر آتے ہوئے بانو کو ہمیشہ اپنے ساتھ لاتی تھی ابرار خان سے متعلق اپنے دل میں موجود خوف کی وجہ سے۔۔۔۔۔ اور اب وہ کیونکر اس شخص کے حق میں فیصلہ دے دے گی جس کی نگاہوں کی بےپردہ تپش سے ایک عرصہ اس نے کتراتے اور چھپتے گزارا تھامہرو نے واپسی کہ چند منٹوں میں ہی فیصلہ کر لیا تھا۔۔۔ابرار خان سے تھوڑی دیر کی ملاقات ہی اسکے ڈسیزن لینے میں مددگار ثابت ہوئی تھی………………………………………………اوووف۔۔۔ف۔۔۔ف۔۔۔۔یشب مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔ہیر خوشی سے بھرپور آواز میں چہکییشب ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھا تھا۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے لال حویلی سے فون آیا تھا کہ مہرو بھابھی نے شمس خان کہ حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔۔۔جب سے یہ خبر سنی تھی ہیر کے تو قدم ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے اسکے برعکس یشب سنجیدہ اور خاموش سا تھا۔۔۔۔یشب نے ہیر کی بات پر سر اٹھا کر اسکے خوشی سے جگمگاتے چہرے کو دیکھا اور لمبی سی سانس لیتا اٹھ کر ہیر کی طرف آیا۔۔میں ابھی ایک تھپڑ سے یقین دلا دیتا ہوں تمہیں کہ ایسا ہو چکا ہے۔۔۔۔یشب نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے پیچھے سے حصار میں لیاویری فنی۔۔۔۔۔۔ہیر نے ناک چڑھایااٹس ناٹ فنی۔۔۔آئی کین ڈو۔۔۔۔میں جانتی ہوں آپ ایسا کر سکتے ہیں ماضی میں کافی تھپڑ کھا چکی ہوں۔۔۔۔بھول جاؤ ماضی کو۔۔۔۔یشب نے اسکی لٹ انگلی پر لپیٹیبھول چکی ہوں۔۔۔۔پھر بھی طعنے دیتی ہو۔۔۔۔۔کبھی کبھار دینے پڑ جاتے ہیں۔۔۔۔ہیر معصومیت سے بولیمت دیا کرو کبھی کبھار بھی مجھے وہ سب یاد آ جاتا ہے جو میں تمہارے ساتھ کر چکا ہوں۔۔۔۔۔وہ افسردگی سے بولامیں مذاق کر رہی تھی خان۔۔۔ہیر نے اسکے سنجیدہ سے تاثرات پر آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو دیکھ کر کہاہوں۔۔۔۔جانتا ہوں۔۔۔۔یشب اسکی لٹ کھینچتا پیچھے ہٹاآپ اتنے سیریس کیوں ہو رہے ہیں۔۔۔۔ مہرو بھابھی کا فیصلہ آپ کو اچھا نہیں لگا کیا۔۔۔؟؟ہیر نے پوچھتے ہوئے یشب سے سیگرٹ چھینی جو وہ منہ میں لے چکا تھانہیں مجھے اس ڈسیزن پر کوئی اعتراض نہیں ہے میں انکے ساتھ ہوں۔۔۔۔یشب نے سنجیدگی سے کہایہی بات مسکرا کر کہیں۔۔۔۔۔یہ سیگرٹ واپس کرو اور جاؤ جا کر کچھ کام وام کرو دن بدن پھیلتی جا رہی ہو اور مجھے موٹی لڑکیاں بلکل پسند نہیں۔۔۔۔او ہیلو مسٹر۔۔۔۔میں لڑکیاں نہیں آپکی بیوی ہوں۔۔۔۔موٹی، بھدی ،کالی، پیلی جیسی بھی ہو جاؤں آپکی بیوی ہی رہوں گی سمجھے۔۔۔۔۔ہیر انگلی اٹھا کر بولیسمجھ گیا۔۔۔۔یشب نے اسکی انگلی پکڑ کر ہلکی سی مڑوریاوئی ماں۔۔۔۔کسقدر جلاد صفت انسان ہیں آپ۔۔۔ وہ انگلی سہلاتی چیخیجلاد صفت کے علاوہ بہت رومینٹک بھی تو ہوں۔۔۔۔یشب نے آنکھ ماریاونہہ۔۔۔۔اس نے ناک چڑھایامیں جا رہی ہوں نیچے بی بی جان نے بلوایا تھا مجھے۔۔۔۔۔آپ بھی آ جائیں۔۔۔۔تم جاؤ۔۔۔۔مجھے کچھ کام ہے وہ کر کے آتا ہوں۔۔۔۔یشب نے لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے کہایہ تو دیتی جاؤ۔۔۔۔اس نے سیگرٹ کی ڈبی کیطرف اشارہ کیا جو ہیر کے ہاتھ میں تھیاونہہ۔۔۔۔اسکے بغیر تو سانس بھی نہیں آئے گی محترم کو۔۔۔اسنے بڑبڑاتے ہوئے ڈبی یشب کی طرف اچھالیجسے یشب نے کیچ کر کے وکٹری کا نشان بنایا اور ہیر کی طرف ہوائی کس اچھالیوہ مسکراتی ہوئی باہر نکل گئی……………………………………………..……مہرو کے اقرار کے بعد دلاور خان اور خدیجہ لال حویلی جا کر شادی کی تاریخ لے آئے تھےچونکہ اس شادی کو عام روایتی انداز میں نہیں کیا جانا تھا لہذا سادگی سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا گیا خاقان آفریدی کی خواہش تھی کہ ہیر انکی حویلی سے رخصت ہو۔۔۔۔پر یشب کو یہ گوارا نہیں تھا کہ شمس خان اسکی حویلی میں اسکے بھائی کی بیوہ کو بیاہنے آئے۔۔۔۔لہذا اس نے بابا جان کو منع کر دیا تھا۔۔اب مہرو کو لال حویلی سے ہی رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی میں جانا تھا۔۔۔۔وہ نہ تو خوفزدہ تھی اور نہ ہی کنفیوز صرف خاموش تھی۔۔۔۔کیونکہ بسا اوقات انسان ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں نہ تو کوئی خوشی اثر کرتی ہے اور نہ ہی تسلی ، ،نہ باہر بسنے والی دنیا اور نہ ہی اندر کا موسم۔۔۔بس ایک عجیب سی خاموشی چھائی رہتی ہے طبیعت پر ۔۔۔۔۔ایسی ہی کیفیت مہرو کی تھی وہ بھی خاموش تماشائی بنی سب کچھ ہوتے دیکھ رہی تھی۔۔۔ہیر یشب کیساتھ لال حویلی مہرو سے ملنے آئی تھی۔۔۔وہ بہت خوش تھی کہ مہرو نے شمس خان کے حق میں فیصلہ کیا۔۔۔۔اسنے مہرو کو یقین دلایا تھا کہ وہ شمس خان کیساتھ بہت خوش رہے گیمگر مہرو تو یشب کی بات پر ہی اڑی ہوئی تھی۔۔۔یشب نے باتوں باتوں میں مہرو سے کہا تھا کہ وہ حدید کو اپنے پاس ہی رکھے گامہرو تب تو چپ رہی مگر اب جیسے جیسے نکاح کا دن قریب آ گیا تھا وہ فکرمند ہو گئی تھی یشب کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا میں ماں ہوں حدید کی۔۔۔۔میں مانتی ہوں وہ اس حویلی کا وارث ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ حدید کو مجھ سے دور کر دیا جائے۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گی۔۔۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے یشب کا نمبر ملایا یشب لیپ ٹاپ پر بزی تھا جب اسکا سیل وائبریٹ ہوا۔بھابھی کالنگ لکھا دیکھ کر اس نے کال اوکے کی۔اسلام علیکم۔۔۔۔۔وعلیکم السلام۔۔۔۔۔کیسے ہو۔۔۔۔۔؟؟میں ٹھیک ہوں آپ سنائیں کیسے یاد کیا مجھ نا چیز کو۔۔۔۔خفا ہو مجھ سے۔۔۔۔۔۔کیا ہو سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟یشب نے الٹا اسی سے سوال پوچھا نہیں۔۔۔۔ایگزیٹلی۔۔۔۔حدید کیسا ہے۔۔۔.؟؟وہ مصروف سا بولاوہ ٹھیک ہے یشب۔۔۔۔مجھے حدید کے بارے میں ہی تم سے بات کرنی تھی۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولیکیسی بات۔۔۔۔؟؟؟اس دن تم کہہ گئے تھے کہ حدید کو تم اپنے پاس رکھو گے۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔یشب نے سر ہلاتے ہوئے لیپ ٹاپ پر سینڈ کو کلک کیا اور لیپ ٹاپ آف کر کے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائییشب تم جانتے ہو میں اسکی ماں ہوں۔۔۔؟؟جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔پھر تم نے ایسا کیوں کہا۔۔۔۔؟؟کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ یشار خان کا خون شمس خان کی حویلی میں پرورش پائے۔۔۔پھر تو یشار خان کی بیوہ کو بھی اس حویلی میں جانا سوٹ نہیں کرتا۔۔۔بھابھی مجھے اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔آپ نے ابرار خان کے مقابلے میں شمس خان کا پرپوزل ایکسیپٹ کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے۔۔۔پر حدید کا وہاں رہنا میں مناسب نہیں سمجھتا۔۔۔۔وہ رسان سے بولاہیر نے تم سے کچھ کہا ہے اس بارے میں۔۔۔۔؟؟؟مہرو مشکوک ہوئی کہ شاید ہیر کے گھر والوں نے منع کیا ہو حدید کو ساتھ لانے سےنہیں وہ کیوں کہے گی کچھ۔۔۔۔مجھے ہی یہ مناسب نہیں لگا تھایشب میں حدید کو ساتھ لے کر ہی جاؤں گی۔۔۔۔تمہیں لگتا ہے میں اس کے بغیر رہ سکتی ہوں یا پھر وہ میرے بغیر۔۔۔۔؟؟؟وہ روہانسی ہوئیبھابھی آپ زیادہ دور نہیں ہوں گی میں حدید کو ملوا لایا کروں گا۔۔۔۔یشب اسے قائل کر لینا چاہتا تھابلکل نہیں۔۔۔۔حدید میرے ساتھ ہی جائے گا یشب میں تمہاری یہ بات بلکل نہیں مانوں گی۔۔۔۔۔جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔۔۔یشب نے کہہ کر کھٹاک سے کال بند کیکس سے بات کر رہے تھے۔۔۔۔۔؟؟ہیر نے کمرے میں داخل ہو کر یشب کا سرخ چہرہ دیکھاکسی سے نہیں۔۔۔۔۔وہ غصے سے کہتا کشن کو لات مار کر کیز اٹھاتا باہر نکل گیاہیر نے افسردگی سے یشب کی پشت کو دیکھا۔۔۔۔۔۔جب سے مہرو بھابھی نے لالہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا یشب کافی سے زیادہ سنجیدہ رہنےلگا تھا۔۔۔یشب کا رویہ کچھ برا بھی نہیں تھا۔۔۔۔ہیر نے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچا تھا۔۔۔اس کا اکلوتا بھائی جوانی میں ہی چلا گیا تھا یہ دکھ بہت بڑا تھا اور اب اپنے بھائی کی بیوہ کو اسی شخص کے حوالے کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل۔۔۔۔۔۔۔……………………………………………….مہرو کو یشب سے بات کرنے کے بعد یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے کوئی غلط فیصلہ کر لیا ہو۔۔۔۔وہ افسردہ سی بیٹھی تھی جب اماں اسٹک کے سہارے چلی آئیںایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔۔؟؟وہ پاس آ کر تخت پر بیٹھیںکچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔مہرو مسکرا کر سیدھی ہوئیپریشان ہو۔۔۔۔۔؟؟؟نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے اپنے پیر کے انگوٹھے کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایاشمس اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔۔زبیر کے ساتھ پڑھتا رہا ہے اس لیے زبیر بھی مطمعین ہے۔۔۔۔مجھے بھی ابرار کے مقابلے میں وہ ہی مناسب لگا تھا۔۔۔تم پریشان مت ہو وقت کیساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا میری بچی۔۔۔۔۔انہوں نے مہرو کے جھکے سر پر ہاتھ پھیرامہرو ان کا لمس پا کر بے قابو ہوتی انکی گود میں سر رکھ کر رو پڑیاماں بہت مشکل ہے میرے لیے یہ سب قبول کرنا۔۔۔۔۔ایسا مت کریں آپ لوگ اماں۔۔۔۔۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔مجھے۔۔۔۔۔مجھے یہ شادی نہیں کرنی ہے۔۔۔وہ روتی ہوئی کہہ رہی تھیمیں یشار کے قاتل کو شوہر کے روپ میں کیسے قبول کروں گی اماں۔۔۔۔۔مجھ سے یہ سب نہیں ہو گا۔۔۔۔روک دیں سب انکار کر دیں ان لوگوں کو۔۔۔۔۔ایسا مت کہہ میری بچی۔۔۔۔اللہ تجھے وہ ساری خوشیاں دے جنکی تجھے خواہش ہے۔۔۔۔۔میں ماں ہوں تیری مجھ سے تیری یہ اجاڑ زندگی نہیں دیکھی جاتی مہر۔۔۔ایسا مت کہہ جو ہو چکا اور جو ہو رہا ہے وہ سب اوپر والے کی مرضی ہے اسے اللہ کی رضا جان کر قبول کر لے میری جان۔۔۔۔۔۔میں مرنے سے پہلے تجھے خوش وخرم دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔اماں ایسا مت کہیں پلیز۔۔۔۔مہرو ماں کی بات پر تڑپ کر پیچھے ہٹیاللہ آپ کو میری بھی زندگی لگا دے اماں آپ ہمیشہ ہمارے سر پر سلامت رہیں۔۔۔۔مہرو نے انکے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگایامیں اپنی زندگی گزار چکی ہوں مہر اور اب پاک پروردگار سے اپنے بچوں کی خوشیوں کے لیے دعا گو ہوں۔۔۔۔وہ پاک ذات میرے بچوں کو خوش رکھے مجھے اور کیا چاہیے۔۔۔۔انہوں نے پیار سے مہرو کے بال سنوارےماما۔۔۔واٹ ہیپنڈ آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟حدید پھولے سانس سے وہاں کھڑا فکر مندی سے مہرو کو آنسو پونچھتے دیکھ رہا تھا۔۔۔وہ باہر بچوں کیساتھ کھیل رہا تھا اور ابھی وہاں آیا تھاکچھ نہیں میری جان میں رو نہیں رہی تھی۔۔۔گیم ختم ہو گیا آپ کا۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے مسکراتے ہوئے پوچھایس پھوپھو۔۔۔۔گیم ختم ہو گیا اب جلدی سے ہم سب کو نوڈلز بنا کر دیں۔۔۔۔۔زیان (زبیر خان کا بیٹا )نے حدید سمیت اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کیطرف اشارہ کیااوکے میں ابھی بنا کر دیتی ہوں۔۔۔۔تم لوگ دادو کے پاس بیٹھو۔۔۔۔۔مہرو مسکراتی ہوئی ان سب کے لیے نوڈلز بنانے کیچن کیطرف چلی گئی۔۔۔۔…………………………………………….……آج جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کے دن ہی شمس اور مہرو کا نکاح رکھا گیا تھا بابا جان ، بی بی جان اور ہیر کل ہی لال حویلی آ چکے تھے یشب کو آج آنا تھا نکاح سے پہلے۔۔۔۔۔ہیر اپنے گھر جا کر خدیجہ کیساتھ ساری تیاریاں کروا آئی تھی اور اب اسنے مہرو کی طرف سے ہی شامل ہونا تھاجمعے کی نماز کے بعد نکاح کا ٹائم مقرر ہوا تھا اور اب سب مرد نماز پڑھنے گئے ہوئے تھےہیر کے گھر والے بھی چند ایک مہمانوں کیساتھ آ چکے تھے مگر یشب کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا ہیر نے اسے کال کی مگر یشب کا سیل آف تھاکہاں رہ گئے ہیں یشب۔۔۔؟؟؟وہ بے چینی سے ٹیرس پر ٹہلتی اسکا انتظار کر رہی تھیجب مہرو اسکے پاس آئی۔۔۔۔مہرو نے آف وائٹ کلر کی فراک پہنی تھی جس پر گولڈن کلر کا کام ہوا تھا ہیر ہی یہ ڈریس اسکے لیے لائی تھی اپنی پسند سے۔۔۔بالوں کو چوٹیا میں قید کر رکھا تھا جس میں سے چند ایک لٹیں ادھر أدھر بکھری ہوئی تھیں ہلکے میک اپ اور جیولری کے ساتھ سوگوار سی وہ بہت پیاری لگ رہی تھیوہ نہیں آئے گا۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بولیہیر نے مہرو کی بات پر پلٹ کے اسے دیکھا۔۔میری صبح بات ہوئی تھی بھابھی کہہ رہے تھے کہ نکاح سے پہلے آ جائیں گے۔۔۔نکاح سے پہلے نہیں نکاح کے بعد آئے گا وہ۔۔۔۔۔مہرو لمبی سی سانس لے کر کہتی باہر دیکھنے لگیآپکی بات ہوئی تھی ان سے۔۔۔۔؟؟؟نہیں۔۔۔۔میں جانتی ہوں اسے۔۔۔۔آپ انکی وجہ سے پریشان مت ہوں بھابھی۔۔۔۔ہیر نے اسکی افسردہ شکل دیکھ کر تسلی دیہیر وہ مجھ سے کبھی خفا نہیں ہوا تھا پر اب ہو چکا ہے۔۔۔۔یشب آپ سے خفا نہیں ہو سکتے ہیں بھابھی وہ آپکی بہت عزت کرتے ہیں۔۔۔وہ تسلی آمیز انداز سے بولیہاں میں جانتی ہوں پر وہ مجھ سے خفا ہے حدید کے معاملے پر۔۔۔۔حدید کے معاملے پر۔۔۔۔۔کیسا معاملہ۔۔۔۔؟؟ہیر حیران ہوئیوہ چاہتا ہے میں حدید کواپنے ساتھ نہ لے کر جاؤں بلکہ اس کے پاس چھوڑ دوں۔۔۔۔مہرو افسردگی سے بولیایسا کیسے ہو سکتا ہے بھابھی حدید بہت چھوٹا ہے کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔۔ یشب نے ایسے ہی کہہ دیا ہو گا آپ پریشان مت ہوں میں بات کر لوں گی ان سے۔۔۔۔ نہیں ہیر۔۔۔۔اسنے ٹھیک ہی کہا تھا حدید یشار کا خون ہے۔۔۔۔۔وارث ہے اس خاندان کا پھر کیسے وہ کسی اور کے گھر میں پرورش پا سکتا ہے۔۔۔۔۔ وہ کسی اور کا گھر نہیں بھابھی آپ کا گھر ہو گا۔۔۔حدید کی ماں کا گھر۔۔۔ہیر نے محبت سےکہامہرو ہیر کی بات پر افسردگی سے مسکرا دیتم بہت اچھی ہو ہیر۔۔۔۔اور آپ مجھ سے زیادہ اچھی ہیں بھابھی۔۔۔۔ہیر نے اسکے ہاتھ تھامےہیر تم۔۔۔۔تم حدید کا خیال رکھنا۔۔۔۔میں اسے ساتھ لے کر نہیں جاؤں گی وہ اپنے باپ کے گھر میں ہی پرورش پائے گامگر بھابھی وہ کیسے رہے گا آپ کے بغیر۔۔۔۔ ہیر فکرمند ہوئیرہ لے گا وہ جیسے باپ کے بغیر رہ رہا ہے۔۔۔۔وہ افسردہ ہوئیایسا کچھ بھی نہیں ہو گا بھابھی حدید آپ کے ساتھ ہی جائے گا میں یشب کو منا لوں گی آپ ٹینشن مت لیں پلیز۔۔۔تم یشب سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرو گی ہیر میں نے حدید کو سمجھا دیا تھا رات کہ وہ تم لوگوں کیساتھ رہے گا۔۔۔۔ایسا کیوں کیا آپ نے وہ بچہ ہے ابھی۔۔۔۔ہیر پریشان ہوئیکل وہ بچہ بڑا ہو گا اور جب وہ مجھ سے پوچھے گا کہ ماما آپ نے بابا کے قاتل کیساتھ شادی کیوں کی تو میں کیا جواب دوں گی اسے ہیر۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو گالوں پر پھسلےبچے تو پیار کے بھوکے ہوتے ہیں بھابھی جہاں سے پیار ،، محبت اور توجہ ملے وہیں کے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔پر آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے باپ کے قاتل کے گھر پرورش نہیں پا سکتا تو ٹھیک ہی کہہ رہی ہوں گی۔۔۔۔۔میں حدید کا خیال رکھوں گی مجھے بہت عزیز ہے وہ آپ فکر مت کریں۔۔۔۔ہیر سپاٹ سے انداز میں کہہ کر وہاں سے چلی آئیناجانے کب تک لالہ قاتل ہی کہلاتے رہیں گے۔۔۔وہ افسردگی سے سوچتی نیچے ہال میں آ گئیپہلے وہ یشب کے نہ آنے سے پریشان تھی اور اب بھابھی کی باتوں نے اسے مزید پریشان کر دیا تھا………………………………………………نکاح ہو چکا تھا اور مہرو کے کہنے کے مطابق یشب واقعی نہیں آیا تھاہیر بھی ٹھیک سے خوش نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔۔پہلے جتنی وہ خوش تھی مہرو اور شمس کی شادی سے اب اتنی ہی افسردہ بیٹھی تھینکاح کے بعد کھانے کا انتظام تھا۔۔۔۔کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دلاور خان نے ان لوگوں سے واپسی کی اجازت چاہی تھی۔۔ہیر اور شہربانو مہرو کو وہیں ہال میں لے آئیں تھیں جہاں مہمان خواتین بیٹھیں تھیںہیر یشب ابھی بھی نہیں آیا۔۔۔۔مہرو نے ہیر کے کان کے پاس سرگوشی کیاسکا چہرہ گھونگھٹ نکال کر چھپایا گیا تھانہیں۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔مہرو نے افسردگی سے سر ہلا دیاہیر بچے چلو مہرو کو لے کر وہ لوگ باہر انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔بی بی جان نے ہال میں داخل ہو کر کہاجی بی بی جان۔۔۔۔ہیر نے سر ہلا کر مہرو کا بازو تھاما اور باہر کی جانب چل پڑیراہداری میں کھڑیں سب رشتے دار عورتیں باری باری مہرو سے ملتی اور دعائیں دیتی جا رہی تھیںکچھ آگے جا کر مہرو نے ہیر کا ہاتھ تھاما جو اسکے بازو پر تھایشب سے کہنا میں بھی اس سے خفا ہوں۔۔۔۔لہذا میرے سامنے مت آئے اب وہ۔۔۔۔میں آپ کے سامنے آ چکا ہوں۔۔۔۔۔یشب کی آواز پر جہاں ہیر پلٹی وہیں مہرو نے بھی چادر پیچھے سرکائی اور پرشکوہ نگاہوں سے یشب کو دیکھاآپ مجھ سے خفا ہو کر مت جائیں کیونکہ میں آپ سے خفا نہیں ہوں۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولاتو پھر کہاں تھے اب تک جانتے ہو میں نے اور ہیر نے تمہارا کتنا انتظار کیا۔۔۔۔۔مہرو کے آنسو پلکوں سے نیچے گرےپلیز روئیں مت آپ ) آج وہ مہرو کو بھابھی کی بجائے آپ کہہ کر بات کر رہا تھا )۔۔۔۔۔یشب نے اسکے کندھوں کے گرد بازو پھیلایابہت برے دوست ثابت ہوئے ہو تم ۔۔۔۔مہرو نے اسکے بازو پر مکا جڑابرا تو میں ہوں ہی اپنی نند سے پوچھ لیں۔۔۔۔یشب نے مسکرا کر ہیر کی ناک کھینچیجوابا ہیر نے زور سے اسکا ہاتھ جھٹک دیا جو خفگی کی علامت تھااور کتنی دیر ہے بھئی۔۔۔باہر سب انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔زبیر خان نے انکی طرف آتے پوچھا جی بس آ رہے ہیں۔۔۔۔ہیر نے مہرو کو دیکھامہرو نے ایک خاموش نظر پاس کھڑے یشب پر ڈالی ہمیشہ خوش رہیں۔۔۔۔یشب نے مہرو کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور باہر جانے کی بجائے اندر کیطرف چلا گیاہیر نے مہرو کی چادر کو درست کیا اور اسے ساتھ لیے باہر نکل گئی

مہرو سب بڑوں ، بزرگوں کی دعاؤں تلے رخصت ہو کر شمس خان کی حویلی آ چکی تھی۔۔۔ہیر بھی اسکے ساتھ آئی تھی۔۔۔چند روایتی رسموں کے بعد ہیر مہرو کو اسکے کمرے میں لے آئی تھی۔۔۔یہ کمرہ ہیر نے ہی ڈیکوریٹ کروایا تھا وہ مہرو کو شمس اور پروشہ کے کمرے میں نہیں لے جانا چاہتی تھی اسی لیے اس نے مہرو اور شمس کے لیے نیا کمرہ سیٹ کروا دیا تھا۔۔۔۔ہیر نے مہرو کو کمرے میں لا کر بیڈ پر بیٹھایایہ آپ کا کمرہ ہے بھابھی۔۔۔۔اسکی ہر چیز آپکی ملکیت ہے بلکہ یہ حویلی یہ گھر بھی آج سے آپ ہی کا ہے۔۔۔۔امید ہے آپ بنا کسی تکلف کے یہاں کی ہر چیز کو یہاں کے مکینوں سمیت اپنا سمجھیں گی۔۔۔۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کو بہت سی خوشیوں سے نوازے۔۔۔۔وہ سب خوشیاں جو آپ کا حق ہیں۔۔۔۔۔میں اب چلتی ہوں۔۔۔۔آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دیں۔۔۔ہیر نے تفصیلی بات کر کے پو چھانہیں۔۔۔۔۔مہرو نے نفی میں سر ہلایاٹھیک ہے میں جاتی ہوں آپ ریلیکس ہو کر بیٹھیں بھابھی۔۔۔۔۔۔حدید کو میں اپنے ساتھ ہی سولاؤں گی ہیر حدید کو بھی اپنے ساتھ ہی لے کر آئی تھیہوں۔۔۔۔۔بیسٹ آف لک۔۔۔۔۔وہ مسکرا کر کہتی کمرے سے چلی گئیپیچھے مہرو بے چینی سے انگلیاں چٹخانے لگی۔۔۔۔دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔۔ہتھیلیاں بار بار پسینے سے بھیگتیں جنہیں وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کپڑوں سے رگڑ کر صاف کر لیتی۔۔۔۔عجیب سی ہیزیٹیشن تھی حالانکہ نکاح سے پہلے وہ بلکل بھی کنفیوز نہ تھی پھر اب کیوں ایسا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے دل کی دھک دھک سے بے چین ہو کر پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا اور پینے لگی۔۔۔۔پانی پی کر وہ سیدھی ہوئی تھی جب آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھلا اور شمس اندر داخل ہوا۔۔۔۔مہرو نے اسے دیکھے بغیر ہی سر جھکا دیا۔۔۔۔شمس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا بیڈ کے قریب آ کھڑا ہوامہرو بیڈ سے ٹانگیں نیچے لٹکا کر ہاتھوں کو مضبوطی سے دبوچے سر جھکائے بیٹھی تھی شمس نے ایک نظر اسکے جھکے سر کو دیکھ کر آہستگی سے سلام کیامہرو نے سر کی ہلکی سی جنبش سے اسکے سلام کا جواب دیامیں جانتا ہوں یہ سب آپ کے لیے آسان نہیں تھا۔۔۔۔۔۔میں یشار کا قاتل ہوں اور اسکے قاتل کو کسی بھی رشتے میں قبول کرنا یقینا آپ کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔۔۔۔۔۔بے شک میں نے یشار خان کو جان بھوج کر نہیں مارا تھا مگر اسے گولی میرے ہاتھوں ہی لگی تھی۔۔۔۔۔جس کا پچھتاوا مجھے آج تک ہے اور شاید مرتے دم تک رہے گا۔۔۔۔شمس نے افسردگی سے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے کہابابا زبیر کو اچھے سے جانتے تھے اسی لیے انہوں نے مجھ سے مشورہ کیے بغیر ہی اس سے رشتے کی بات کر لی۔۔۔۔اگر مجھے انکے فیصلے کا علم ہوتا تو میں بلکل بھی انہیں اس بات کی اجازت نہ دیتا کیونکہ جس طرح یہ سب آپ کے لیے مشکل ہے اسی طرح میرے لیے بھی۔۔۔۔۔میں خود کو آپ کا مجرم تصور کرتا تھا اور شاید آگے بھی کرتا رہوں۔۔۔۔مجھ سے جو ہو چکا اسکی کوئی معافی نہیں ہے میں جانتا ہوں لیکن پھر بھی آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔۔ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔۔وہ سانس لینے کو رکامہرو دم سادھے شمس کو سن رہی تھی۔۔آپکے گھر والوں کے دل بہت بڑے ہیں میں انکی بڑائی کی دل سے قدر کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس قابل جانا کہ اپنی بیٹی میرے حوالے کی۔۔۔۔۔یہ گھر آپ کا ہے۔۔۔۔۔۔آپ جس طرح چاہیں یہاں رہ سکتی ہیںمیں کسی بھی معاملے میں آپ کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔آپ کو میری ذات سے کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔۔۔۔۔وہ پھر سے رک کر سانس لینے لگامجھے کسی چیز کی کوئی جلدی نہیں ہے۔۔۔۔اس لیے آپ ریلیکس ہو کر رہیں۔۔۔۔۔میں خود کو اور آپ کو وقت دینا چاہتا ہوں اس رشتے کو قبول کرنے کا۔۔۔۔۔۔کیونکہ وقت ہی ہر زخم،، ہر دکھ کا بہترین مرہم ثابت ہوتا ہے۔۔۔۔آپ جتنا چاہیں وقت لے سکتیں ہیں۔۔۔۔۔میں آپکے ہر عمل ہر فیصلے کی دل سے قدر کروں گا۔۔۔لہذا آپ ریلیکس ہو جائیںشمس اپنی بات مکمل کر کے ایک اچٹتی نظر مہرو کے جھکے سر اور انگلیاں چٹخاتے ہاتھوں پر ڈال کر اسٹڈی کی طرف چلا گیااور وہ واقعی ریلیکس ہو چکی تھی۔۔۔۔مہرو نے سر اٹھا کر شمس کی پشت کو دیکھا اور پرسکون ہو کر سر بیڈ کی بیک سے ٹکا دیا۔۔۔۔۔وہ جس بات سے کنفیوز تھی اس بات کے لیے شمس اسے وقت دے چکا تھا اور مہرو کو وقت ہی تو چاہیے تھا۔۔۔۔۔…………………………………………………….اگلے دن چند ضروری مہمانوں کی موجودگی میں ولیمے کا چھوٹا سا فنکشن ارینج کیا گیا تھالال حویلی اور آفریدی حویلی سے سب آئے تھے سوائے یشب کہ۔۔۔۔۔ہیر کی یشب سے ناراضگی کا گراف مزید اونچا ہو گیا تھا۔۔۔۔وہ فنکشن کے بعد واپس نہیں جانا چاہتی تھی مگر بی بی جان کے کہنے پر وہ انکار نہ کر سکی تھی اسلئیے انکے ساتھ ہی واپس آ گئی۔۔۔۔۔۔مہرو بھی حدید کو لیے ایک ، دو دن رہنے اپنے گھر والوں کیساتھ واپس چلی گئی تھیوہ لوگ جب حویلی پہنچے تو یشب گھر پر نہیں تھا ہیر نے چینچ کرنے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی اور بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔۔۔۔کافی دن کی تھکان تھی اسلیے کب اسکی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نہ چلا……………………………………………………یشب جب کمرے میں داخل ہوا تو ہیر کے سوئے ہوئے وجود کو دیکھ کر اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔۔۔۔وہ تو سوچ رہا تھا محترمہ چار ، پانچ دن تک واپس نہیں آنے والی ہیں۔۔۔۔مگر اب اسے دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھاہیر گہری نیند میں تھی یشب نے مسکراہٹ دبا کر اسکی چہرے پر آئی لٹ کو پکڑ کر زور سے کھینچاکیا ہوا۔۔۔۔کون۔۔۔۔۔؟؟ہیر ڈر کر اٹھ بیٹھیسامنے یشب کو مسکراتے دیکھ کر وہ غصے سے چیخی یہ کیا بدتمیزی تھی۔۔۔۔۔؟؟؟؟بدتمیزی۔۔۔۔کیسی بدتمیزی۔۔۔؟؟وہ انجان بنااتنی اچھی نیند آئی تھی مجھے اور آپ نے جگا دیا شیم آن یو مسٹر۔۔۔۔اب کھڑے ہو کر دانت کیوں نکل رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ چڑ کر بولیچڑیل لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔یشب نے اسکے بکھرے بالوں کی طرف اشارہ کیااور آپ بھی بھوت لگ رہے ہیں یوں ہنستے ہوئے۔۔۔۔اچھا بتاؤ اتنی جلدی کیسے واپسی ہو گئی۔۔۔۔؟؟میں آپ کو جواب دینے کی پابند نہیں لہذا مجھے سونے دیں۔۔۔۔ہیر نے کمبل میں منہ چھپایاپابند تو ہو تم میری۔۔۔۔مگر ہوا کیا ہے جانانه (ڈارلنگ) ۔۔۔۔؟؟؟یشب نے چھیڑتے ہوئے اسکا کمبل ہٹایایشب کیا مسلہ ہے۔۔۔۔۔۔؟؟کیا ہوا خفا کیوں ہو۔۔۔؟؟ آپ تو ننھے کاکے ہیں ناں جو جانتے نہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟ہاہاہاہا۔۔۔۔۔یشب اسکے لفظ ننھے کاکے پر دل کھول کر ہنساہیر غصیلی نظروں سے اسے گھور رہی تھیچلو ساری خفگی ختم کر کے دوستی کرتے ہیں۔۔۔۔وہ مسکراہٹ دباتا ہاتھ بڑھا کر اسکے سامنے بیٹھامجھے کوئی دوستی ووستی نہیں کرنی آپ سے آپ جانتے ہیں آپ نے کیا کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟سوری فار ڈیٹ۔۔۔۔۔کتنا آسان ہے آپ کے لیے کچھ بھی کر کے سوری کہہ دینا۔۔۔وہ ابھی بھی خفا تھیمسلہ کیا ہے سوری کر تو رہا ہوں اب اور کیا کروں۔۔۔۔۔؟؟مجھ سے بات مت کریں۔۔۔۔یہ تو ہو نہیں سکتا۔۔۔۔یشب نے اسکی ناک کھینچیمیرا نہیں تو بھابھی کا خیال کر لیتے وہ بار بار آپ کا پوچھ رہی تھیں۔۔۔میں نے کتنی کالز کیں آپ کو۔۔۔۔کیا یہی ویلیو ہے میری آپکی نظر میں کہ آپ میری کال کاٹ کر اپنا سیل آف کر دیں۔۔۔وہ خفگی سے بولیسوری۔۔۔۔۔آج کے فنکشن میں بھی نہیں آئے آپ۔۔۔۔؟؟سوری۔۔۔۔۔اور بھابھی سے آپ نے یہ کیوں کہا کہ حدید انکے ساتھ نہیں جائے گا بلکہ یہاں رہے گا۔۔۔۔۔ہیر بات یاد آنے پر گھور کر بولی میں نے کہا تھا ان سے مگر اب میں اپنی بات سے پیچھے ہٹ چکا ہوں۔۔۔۔حدید بہت چھوٹا ہے اور اسے ماں کی ضرورت ہے۔۔۔۔باپ تو مر چکا ہے اور اب میں اسے ماں سے جدا کر کے ماں کی ممتا سے محروم نہیں کرنا چاہتا لہذا میں اپنی یہ بات واپس لے چکا ہوں تم انہیں بتا دینا۔۔۔۔۔۔انہیں۔۔۔کنہیں۔۔۔۔؟؟ہیر نے ابرو اٹھائےمسز شمس دلاور خان کو۔۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے کہتا اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیااونہہ۔۔۔مسز شمس۔۔۔بھابھی بھی تو کہہ سکتے تھے۔۔۔۔ہیر نے ناک چڑھایااسے یشب کا مہرو کو بھابھی کی بجائے مسز شمس کہنا اچھا نہیں لگا تھا……………………………………….………………دو دن بعد شمس مہرو کو لینے لال حویلی گیا تھا۔۔۔۔مہرو حدید کو وہیں چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔اس نے زبیر لالہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ آئیں۔۔۔۔۔زبیر خان نے جواب میں کیا۔۔۔۔؟؟کیوں۔۔۔۔؟؟جیسے سوال پوچھنے کی بجائے اچھا کہہ کر اثبات میں سر ہلا دیا تھاشمس حدید کو جانتا تھا۔۔۔وہ اس سے مل بھی چکا تھا اسلیے واپسی پر وہ مہرو سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ حدید کو ساتھ کیوں نہیں لائی۔۔۔۔۔۔؟؟مگر عجیب سی ہچکچاہٹ آڑے آ رہی تھی اسی لیے وہ خاموشی سے ڈرائیونگ کرتا رہا اور مہرو کو حویلی چھوڑ کر خود ڈیرے پر چلا گیا۔۔۔……………………………………………………زبیر خان اگلے ہی دن حدید کو آفریدی حویلی چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔۔جب بی بی جان اور بابا جان کو یشب کی بات پتہ چلی تھی کہ وہ حدید کو مہرو کی بجائے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے تو بابا جان نے یشب کو اچھی خاصی سنائیں تھیںجسے یشب سر جھکائے خاموشی سے سنتا رہا تھا۔۔۔۔کچھ فاصلے پر کھڑی ہیر جانتی تھی یہ خاموشی کا لاوا اسی پر پھٹے گا کیونکہ ہیر نے ہی بی بی جان اور بابا جان کو یشب کی حدید سے متعلق بات بتائی تھی مگر خلاف توقع یشب نے ہیر سے بازپرس کرنے کی بجائے اسے یہ کہا کہ کل وہ جا کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئے۔۔۔۔ہیر نے یشب کو بھی ساتھ جانے کا کہا تھا مگر وہ نہیں مانا۔۔۔۔یوں ہیر اگلے دن بی بی جان کو ساتھ لے کر حدید کو مہرو کے پاس چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔مہرو جہاں خوش تھی حدید کے آنے پر وہیں تھوڑی اپ سیٹ بھی تھی کہ شاید وہاں کے مکینوں کو حدید کا وہاں آنا اچھا نہ لگے۔۔۔۔۔۔مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔………………………………………………………وقت کسی کی پرواہ کیے بغیر گزرتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔مہرو کو وہاں آئے ایک ماہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔اس ایک ماہ میں اس کے اور شمس کے درمیان کچھ نہیں بدلا تھا وہ آج بھی پہلے دن کی طرح ایک ہی کمرے میں دو اجنبی بن کر رہ رہے تھے۔۔۔۔مہرو کے لیے صرف شمس خان ہی اجنبی تھا اب تک کیونکہ حویلی کہ باقی مکین جن میں دلاور خان ،، خدیجہ اور حویلی کی چار ، پانچ ملازمیں شامل تھیں وہ ان سب سے اپنی خوش مزاجی کے باعث گھل مل گئی تھی۔۔۔۔مہرو آفریدی حویلی کی طرح یہاں بھی بہو ہونے کا پورا پورا حق ادا کر رہی تھی۔۔۔۔۔اس نے حویلی کی بہت سی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تھیں۔۔۔۔جنہیں وہ بہت خوش اسلوبی سے انجام دے رہی تھی۔۔۔۔۔خدیجہ مہرو کے اس رویے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہیں تھیں جنہیں مہرو کی شکل میں اتنی اچھی بہو مل گئی تھی اچھی تو خیر پروشہ بھی تھی مگر تھوڑی نخرے والی تھی جبکہ مہرو میں نام کا بھی نخرہ نہ تھا۔۔۔۔اس لیے خدیجہ بھی خوشی خوشی ہر کام کو مہرو کے مشورے سے ہی کرتی تھیں۔۔۔۔یوں ساس ،، بہو کی اچھی بن گئی تھی۔۔اس وقت مہرو روتی ہوئی دعا کو گود میں لیے بہلا رہی تھی جب حدید وہاں آیاماما یہ کیوں رو رہی ہے لائیں اسے مجھے دیں میں چپ کرواتا ہوں۔۔۔نہیں اسے بھوک لگی ہے ابھی دودھ پی کر چپ ہو جائے گی۔۔۔۔مہرو نے رحیمہ سے فیڈر پکڑ کر دعا کے منہ کو لگائیجسے وہ چپ ہو کر پینے لگی۔۔۔ ماما آپ کو پتہ ہے بابا کہہ رہے تھے وہ کچھ دنوں تک اسلام آباد جائیں گے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔۔حدید خوشی سے بولابابا۔۔۔۔؟؟بابا کون۔۔۔۔؟؟شمس بابا اور کون۔۔۔۔۔؟؟یہ انکل بابا کب ہوئے۔۔۔۔؟؟مہرو حیران تھی۔۔۔حدید تو شمس کو انکل کہتا تھا پھر اب بابا کیسے۔۔۔۔۔؟؟وہ شاکڈ تھیوہ انکل ہیں آپ کے بابا نہیں۔۔۔۔۔مہرو نے تحمل سے سمجھایاوہ آپکے ہزبینڈ ہیں ماما تو میرے بابا ہی ہوئے ناں۔۔۔۔۔حدید سمجھداری سے بولامہرو اسکے منہ سے اتنی گہری بات سن کر ساکت تھی کس نے کہا تم سے۔۔۔۔۔؟؟؟کسی نے نہیں۔۔۔۔میں جانتا ہوں ان کی اور آپ کی شادی ہو چکی ہے۔۔۔۔وہ آپ کے ہزبینڈ ہیں اور میرے بابا۔۔۔۔میری ان سے شادی ہو چکی ہے مگر وہ تمہارے بابا نہیں ہیں حدید۔۔۔۔مہرو غصے سے بولیآپ نے ہی کہا تھا حدید دعا آپ کی بہن ہے۔۔۔۔۔دعا تو شمس انکل کی بیٹی ہے پھر میری بہن کیسے ہوئی۔۔۔؟؟حدید سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھتا پوچھ رہا تھاوہ انسان کا بچہ تھا یا شیطان کا مہرو حیران تھی اسکی بات پر۔۔۔۔۔دعا آپکی بہن ہے مگر شمس آپکے بابا نہیں ہیں وہ آپکے انکل ہیں اور آپ انہیں انکل ہی کہیں گے۔۔۔۔اب کے مہرو نے پیار سے سمجھایانو۔۔۔۔میں انہیں بابا ہی کہوں گا۔۔۔۔وہ بضد تھااسکی بات پر مہرو نے غصے سے اسے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا مگر پیچھے سے کوئی اسکا ہاتھ تھام کر روک چکا تھامہرو نے گردن موڑی اور پیچھے کھڑے شمس پر ایک غصیلی نظر ڈال کر جھٹکے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچاحدید بیٹا میں آپکی وڈیو گیم لے آیا ہوں۔۔۔۔جا کر چیک کرو وہی ہے جو آپ نے کہی تھی۔۔۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرااوکے بابا۔۔۔۔۔وہ اچھل کر کہتا نیچے بھاگ گیابچے پر ہاتھ اٹھا رہیں تھیں آپ۔۔۔۔؟؟چند منٹ کی خاموشی کو شمس کی آواز نے توڑابچے جب غلطی کریں تو سدھارنے کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔بلکل۔۔۔۔مگر صرف غلطی پر۔۔۔۔۔شمس نے تصیح کیمہرو نے اسکی بات پر سوالیہ نظریں اٹھائیںحدید کچھ غلط نہیں کہہ رہا تھا اگر وہ مجھے انکل کی بجائے بابا کہنا چاہتا ہے تو اس میں برا کیا ہے۔۔۔۔؟؟آپ اسکے بابا نہیں ہیں۔۔۔۔میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔مگر میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے بابا کہے مجھے اچھا لگے گا۔۔۔۔۔اور ویسے بھی دعا بھی تو آپکی بیٹی نہیں ہے پھر بھی آپ اسے ایک ماں ہی کی طرح ٹریٹ کر رہی ہیں میں نے تو آپ کو ایسا کرنے سے نہیں روکا۔۔۔دعا ابھی چھوٹی ہے۔۔۔۔۔مہرو آہستگی سے بڑبڑائیحدید بھی اتنا بڑا نہیں ہوا کہ اسے باپ کی ضرورت نہ رہے۔۔مجھے آپ سے بحث نہیں کرنی۔۔۔۔وہ چڑ کر بولیشمس اسکے چڑنے پر مسکرا دیافائن۔۔۔۔مجھے بھی اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہنا۔۔۔۔حدید مجھے بابا ہی کہے گا اور آپ اسے اس بات سے نہیں روکیں گی۔۔۔شمس کہہ کر جھکامہرو اسکے جھکنے پر سانس روک چکی تھیشمس نے جھک کر مہرو کی گود میں لیٹی دعا کے گال پر بوسہ لیا اور مہرو کے اردگرد اپنی خوشبوئیں بکھیرتا واپس مڑ گیا………………………………………………………اس دن کے بعد مہرو نے حدید کے شمس کو بابا کہنے پر نہیں ٹوکا تھا۔۔۔۔حدید شمس سے کافی اٹیچ ہو چکا تھا۔۔۔۔جسکی بڑی وجہ شمس کیطرف سے ملنے توجہ اور محبت تھیمہرو بھی شمس کی حدید سے محبت پر خاموش اور مطمعین ہو گئی تھی۔۔۔۔اب اکثر اسکے اور شمس کے درمیان حدید اور دعا ڈسکس ہونے لگے تھے۔۔۔۔۔جس سے یہ ہوا تھا کہ دونوں کی ایک دوسرے سے بات کرنے کی ہچکچاہٹ کافی کم ہو گئی تھیہیر اکثر وہاں آتی رہتی تھی مگر یشب کے بغیر۔۔۔۔یشب مہرو سے ہفتے دو ہفتے بعد فون پر بات کر لیتا تھا البتہ حدید کو وہ حشمت کو بھیج کر بلوا لیتا۔۔۔یوں حدید پورا دن یشب کیساتھ گزار کر شام میں واپس آ جاتا۔۔۔دن نارمل روٹین کیمطابق گزرتے جا رہے تھے۔۔۔………………………………………………………مہرو اور خدیجہ تخت پر بیٹھیں باتیں کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔قریب ہی دعا باکر میں بیٹھی اسے آگے پیچھے گھسیٹ رہی تھی جبکہ حدید کچھ فاصلے پر راہداری میں اپنی نئی سائیکل دوڑا رہا تھا جو شمس کل ہی اسکے لیے لایا تھا۔۔۔۔رحیمہ۔۔۔۔رحیمہ۔۔۔۔۔مہرو نے وہیں بیٹھے بیٹھے رحمیہ کو آواز دیجی مہرو باجی۔۔۔۔۔وہ بوتل کے جن کیطرح حاضر ہوئییہ دعا کے فیڈر کو گرم پانی سے اچھی طرح دھو کر رکھو پھر میں فیڈر بناتی ہوںبی بی جی۔۔۔میں یہ خان سائیں کے لیے چائے لے جا رہی تھی یہ دے آؤں آ کر دھوتی ہوں۔۔۔۔رحیمہ نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے آگے کییہ میں لے جاتی ہوں تم جلدی سے یہ فیڈر دھو دو۔۔۔۔مہرو نے چائے کی ٹرے اسکے ہاتھ سے پکڑیاماں میں یہ چائے دے آؤں۔۔۔۔۔ہوں۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔خدیجہ مسکرا کر بولیںمہرو چائے لیے کمرے میں آئی پر کمرہ خالی تھا شمس شاید اسٹڈی میں تھاوہ اسٹڈی میں گئی مگر وہ بھی خالی تھی پر شمس کی چیزیں وہیں پڑیں تھی جسکا مطلب تھا وہ وہیں تھا مگر اب شاید باہر نکلا ہو۔۔مہرو ٹرے اسٹڈی ٹیبل پر رکھ کے جیسے ہی مڑی اسکی نظر کتاب میں رکھی مخملی ڈبیا پر پڑی جو آدھی سے زیادہ کتاب کے اندر تھی صرف ایک سرا نظر آ رہا تھا۔۔۔یہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو کو تجسس ہوامجھے کیا جو بھی ہو۔۔۔۔وہ کندھے اچکا کر واپس مڑیدیکھ لیتی ہوں دیکھنے میں کیا حرج ہے۔۔۔۔۔؟؟وہ دل میں موجود تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر واپس ٹیبل تک آئی۔۔۔۔اس نے کتاب کو کھولا تو بیچ میں واقعی میرون مخملی ڈبیا تھی مگر وہ ڈبیا لمبی تھی جیسے کسی بریسلٹ کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔مہرو نے ایک نظر اسٹڈی کے بند دروازے پر ڈالی اور جلدی سے ڈبی کھول دییہ کیا۔۔۔۔۔؟؟؟وہ ڈبی میں موجود پائل دیکھ کر ساکت تھیوہ اور ناجانے کتنی دیر ساکت رہتی کہ شمس کی آواز پر چونک کر مڑیآپ کیا کر رہیں ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟وہ میں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔یہ پائل آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟مہرو کے ساکن لبوں نے ہلکی سی جنبش کی تھییہ پائل۔۔۔۔شمس نے اسکے ہاتھ میں پکڑی پائل کیطرف اشارہ کیاجی۔۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔پائل۔۔۔۔۔”میری پائل”۔۔۔۔۔مہرو نے لفظ میری پائل پر زور دے کر سپاٹ نظروں سے شمس کو دیکھتے ہوئے سردوسپاٹ انداز میں پوچھا تھا

جی یہ پائل آپ کی ہے۔۔۔۔شمس نے گلا کھنکارتے ہوئے کہامیں جانتی ہوں یہ میری ہی ہے۔۔۔۔پر یہ آپ کے پاس کیسے آئی۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے سوالیہ نظریں شمس کے سنجیدہ چہرے پر فوکس کرتے پوچھاآپ کو یاد ہو گا جب زبیر نے MBA کے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں سب سے زیادہ Gp لی تھی تو اسنے ہم سب کلاس فیلوز کو پارٹی دی تھی اپنی حویلی میں۔۔۔۔۔۔اوہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔ہ۔۔۔۔۔مہرو نے لمبی سی سانس لی اسے وہ دن یاد تھا جب شمس لالہ نے اپنے تھرڈ سمیسٹر میں کلاس میں ٹاپ کیا تھا پیچھلے دو سمیسٹرز میں وہ تیسرے نمبر پر تھے پر اس بار انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اپنے دوستوں سے بیٹ لگا چکے ہیں کہ اس سمیسٹر میں وہ اگلے دونوں بوائز کو کراس کریں گے اور ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔وہ واقعی انہیں کراس کر گئے تھے۔۔۔۔جس پر لالہ نے اپنی کلاس کے سولہ سترہ جتنے بھی بوائز تھے سب کو حویلی میں ٹریٹ دی تھی۔۔۔مہرو دالان میں میگزین گود میں رکھے بےزار سی بیٹھی تھی جب شہربانو اسکے پاس آئی ایسے کیوں بیٹھی ہو مہر۔۔۔۔؟؟؟کچھ نہیں بور ہو رہی ہوں۔۔۔۔۔مہرو سیدھی ہوئیارے بھئی اتنی اونچی میوزک کو سن کر بھی بور ہو رہی ہو۔۔۔(یہ اونچی میوزک مردانے میں زبیر خان اور اسکے دوستوں نے اپنی پارٹی میں لگا رکھا تھا)خالی خولی میوزک سے کیا خاک انجوائے کروں گی میں۔۔۔انجوائے تو وہ سب لڑکے کر رہے ہوں گے ناچ کود کر۔۔۔۔مہرو چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر حسرت سے بولیاونہہ۔۔۔۔کس قدر واہیات ناچتے ہیں یہ لڑکے۔۔۔؟؟؟بانو نے ناک چڑھایاتمہیں یاد نہیں ابرار لالہ کی شادی میں ان کے دوستوں نے مل کر کسقدر گندا اور واہیات ڈانس کیا تھا۔۔۔۔بانو وہ ڈانس یاد کرکے سخت بدمزا ہوئیہاں اور ہم سب لڑکیاں اسی واہیات ڈانس کو دیکھنے رات 2 بجے تک چھت پر رہیں تھیں۔۔۔۔۔مہرو نے ابرو چڑھا کر بانو کا مذاق اڑایاوہ تو تمہیں اور زرکا کو شوق تھا دیکھنے کا اور ہم باقی سب مفت میں پس گئی تھیں۔۔۔۔۔۔بانو کو اس رات زبیر خان سے پڑنے والی ڈانٹ اچھی طرح یاد تھیشوق تو مجھے اب بھی ہے۔۔۔۔۔مہرو نے مسکراہٹ دبا کر آنکھ ماریشہربانو اسکی بات سمجھ کر اچھلی۔۔۔ نہ بابا نہ۔۔۔۔۔میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔۔۔۔۔اس نے ہاتھ کان کو لگا کر منع کیامان جاؤ ناں پلیز۔۔۔۔۔۔پلیزززززز۔۔۔۔۔پلیز بانو۔۔۔۔۔ہر گز نہیں۔۔۔اگر خالو ) مہرو کے بابا) کو یا پھر زبیر لالہ کوپتہ چل گیا تو۔۔۔۔۔؟؟؟شہربانو ابھی بھی رضامند نہ تھینہیں چلے گا ناں ان کو پتہ وہ ڈیرے پر ہیں میں نے گل کو بھیج کر پتہ کروا لیا تھا اور لالہ اپنے دوستوں میں بزی ہیں۔۔۔۔۔بس تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔۔مجھے بس یہ دیکھنا ہے کہ پڑھے لکھے لڑکے کیسا ڈانس کرتے ہیں۔۔۔تف ہے تم پر۔۔۔۔۔۔بانو نے اسکے منہ پر ہاتھ سیدھا کیاچھوڑو یہ لعن طعن آ کر کر لینا فلحال چلو جلدی کرو۔۔۔۔۔چلوووووو۔۔۔۔۔۔مہرو اسکا بازو گھسیٹتی زبردستی ساتھ لے کر مردانے کی طرف چل پڑیوہاں پہنچ کر مہرو نے آگے جا کر ساری راہداری چیک کی اور راستہ کلئیر دیکھ کر کافی پیچھے کھڑی شہربانو کو ہاتھ ہلا کر آنے کو کہاشہربانو اسکے اشارے پر ادھر أدھر دیکھتی ڈرتی جھجھکتی اس تک آئی شکر ہے بانو ہال کا دروازہ کھلا ہے۔۔۔۔مہرو نے ایکسائیٹڈ ہو کر سرگوشی کیجلدی دیکھو جو بھی دیکھنا ہے۔۔۔۔شہربانو اکتا کر بولیتم نیچے بیٹھ کر دیکھنا میں اوپر سے دیکھو گی اوکےہوں۔۔۔۔شہربانو نے مروت میں ہلکا سا سر ہلا دیا ورنہ اسے یہ سب دیکھنے کا کوئی شوق نہیں تھامہرو نے ہال کے پاس پہنچ کر دیوار سے لگ کر ہلکا سا سر آگے کو جھکایا اور اندر جھانکااووئے۔۔۔۔واہ۔۔۔۔۔بانو وہ دیکھو کالی شرٹ والا بریک ڈانس کر رہا ہے بلکل ویسا ہی جیسا اس دن ٹی وی میں۔۔۔۔بانو دیکھ رہی ہو۔۔۔۔بانو۔۔۔۔مہرو نے آگے کو جھکے جھکے ہی نیچے اور پیچھے ہاتھ مار کر بانو کو تلاشہ مگر بانو وہاں ہوتی تو ملتی۔۔۔۔۔کہاں گئی۔۔۔۔۔؟؟وہ مشکوک ہوتی سیدھی ہو کر پیچھے پلٹیاور پیچھے کھڑے مسکراہٹ دباتے لڑکے کو دیکھ کر اسکا سانس رک چکا تھاچند لمحے منہ کھول کر اسے دیکھنے کے بعد مہرو نے جلدی سے چادر کے پلو سے منہ ڈھانپا جیسے پہلے شمس وہاں آنکھیں بند کیے کھڑا ہو۔۔شمس اسکی حرکت پر کھل کر مسکرا دیا۔۔وہ۔۔۔وہ آپ پلیز زبیر لالہ کو مت بتائیے گا کہ آپ نے مجھے یہاں دیکھ لیا ہے۔۔۔۔مہرو زبان تر کر کے بولیآپ زبیر لالہ کی کیا لگتی ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟شمس نے مسکراہٹ دبا کر پوچھامم۔۔۔میں۔۔۔۔۔جی آپ۔۔۔۔۔۔وہ ابھی بھی مسکراہٹ دبائے ہوئے تھامیں انکی کچھ نہیں لگتی۔۔۔۔مہرو اسکی ابھرتی مسکراہٹ پر کنفیوز ہو کر کہتی بھاگ کھڑی ہوئیشمس پلٹ کر اسے بھاگ کر جاتے ہوئے دیکھ رہا تھامہرو بھاگتی ہوئی راہداری کے اینڈ پر پڑے گملے میں اڑ کر دھڑام سے زمین بوس ہوئی شمس اسے گرتے دیکھ کر اسکی طرف بڑھامہرو نے منہ موڑ کر پیچھے دیکھا اور شمس کو آتے دیکھ کر پھرتی سے اٹھی اور جلدی سے راہداری مڑ کر مردانے سے نکل کر حویلی کے رہائشی حصے میں داخل ہوئی۔۔۔شمس جب وہاں پہنچا تو مہرو تو جا چکی تھی مگر گملے کے پاس اسکی پائل گری تھی جسے شمس نے جھک کر اٹھایا اور ہتھیلی پر پھیلا کر مسکرا دیا۔۔۔۔”کیا سوچ کہ تم باندھتی ہو پیروں میں پائل،ان کی چھن چھن سے ہزاروں ہو چکے ہونگے گھائل۔۔۔”۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔ہ۔۔۔۔یہ تو نو دس سال پہلے کی بات ہے اور آپ نے اتنی پرانی چیز سنبھال رکھی تھی۔۔۔۔۔مہرو حال میں لوٹتی حیران سی پوچھ رہی تھیمیں آپ کو تب ہی لوٹا دینا چاہتا تھا مگر کس کے ہاتھ لوٹاتا۔۔۔۔زبیر کو بتانے سے آپ نے منع کیا تھا اور میں کسی ملازم کے ہاتھ نہیں بھجوا سکتا تھا کہ ناجانے وہ کیا سمجھتا۔۔۔۔اسی لیے آپکی پائل کو آپکی امانت کے طور پر سنبھال لیا تھا۔۔۔۔شمس ایک پرسکون سانس ہوا کے سپرد کرتا بولامگر اب میں اس کا کیا کروں گی۔۔۔؟؟یہ تو ایک ہے۔۔۔مہرو پائل کو ہاتھ میں جھلاتی بولیدوسری کہاں گئی جو آپ کے پاس تھی۔۔۔؟؟وہ تو میں نے شہربانو کو دے دی تھی کیونکہ وہ ایک پائل پہنتی تھی اور میں دو۔۔۔۔میری اسکے ساتھ کی گم ہو گئی تو میں نے وہ ایک اسے دے دی۔۔۔اسکا بھی حل ہے میرے پاس۔۔۔آپ رکیں ذرا میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔۔شمس اسے کہہ کر خود اسٹڈی سے نکل گیاکیسا حل۔۔۔۔یہ کہاں گئے اب۔۔۔۔۔؟؟مہرو حیران سی کھڑی سوچ رہی تھیجب شمس ویسی ہی مخملی ڈبیا لیے وہاں آیایہ لیں۔۔۔۔اس میں کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو حیران ہوئیکھول کر دیکھ لیں۔۔۔۔۔مہرو نے ہچکچاتے ہوئے ڈبیا پکڑ کر کھولی اندر بلکل مہرو کی پائل کے جیسی دو پائلز تھیںیہ۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے ابرو اٹھا کر شمس کو دیکھایہ بھی تب ہی بنوائیں تھیں۔۔۔۔جب آپکی پائل ملی تھی۔۔۔۔میں نے سوچا تھا ہو سکتا ہے دوسری پائل بھی وہیں کہیں گر کر گم ہو گئی ہو اسلئیے یہ دو لیں تھیں۔۔۔پر میں اب ان کا کیا کروں گی۔۔۔؟؟وہ ابھی بھی کنفیوز تھیجو پہلے کرتی تھیں۔۔۔۔میں اب پائلیں نہیں پہنتی۔۔۔تو اب پھر سے پہننا شروع کر دیں مجھے اچھا لگے گا۔۔۔وہ سنجیدگی سے اپنی پسند بتا رہا تھامہرو نے ایک نظر شمس کی طرف دیکھا اور اسکے چہرے پر نظر آتے انوکھے رنگوں کو دیکھ کر جلدی سے وہاں سے نکل آئییہ۔۔۔۔یہ ان کو کیا ہو گیا اچانک۔۔۔۔؟؟مجھے اچھا لگے گا۔۔اونہہ۔۔مہرو اسکی نقل اتارتی سر جھٹک کر سیڑھیاں اتر گئی………………………………………………………شمس کے فقرے "مجھے اچھا لگے گا” نے مہرو میں بہت کچھ بدل دیا تھا۔۔۔۔وہی مہرو جو ہر وقت سمپل اور گھریلو حلیے میں رہتی تھی اب بن سنور کر رہنے لگی تھی ناجانے کیوں۔۔۔۔؟؟خدیجہ مہرو کی اس تبدیلی سے بہت خوش تھیں وہ تو مہرو کو کہہ کہہ کر تھک چکیں تھیں کہ بن سنور کر رہا کرے مگر مہرو جی اچھا کہہ دیتی مگر عمل نہیں کرتی تھی۔۔۔۔۔اور اب اسکی تبدیلی پر خدیجہ بہت خوش اور مطمعین تھیں۔۔خوش تو شمس بھی تھا مہرو کی اس کایا پلٹ دیکھ کر مگر فلحال خاموشی سے صرف جج کر رہا تھا۔۔کل شمس نے مہرو سے اپنے کسی دوست کے گھر جانے کا کہا تھا اور اب مہرو اسی کے لیے تیار ہو رہی تھی جب شمس کمرے میں آیا مہرو پاؤں چئیر پر رکھے پائل کا لاک کھولنے کی کوشش کر رہی تھی مگر لاک تھا کہ کھلنے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔کیا بکواس ہے یہ کھل کیوں نہیں رہا۔۔۔۔وہ اکتا کر بڑبڑائیلائیں میں کھول دیتا ہوں۔۔۔۔شمس نے پاس آ کر فورا اپنی خدمات پیش کیںمہرو نے خاموشی سے پائل اسے پکڑا دی۔۔اور اپنی لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑس کر دوپٹہ سیٹ کیا۔۔یہ لیں کھل گئی ہے میں پہنا دوں۔۔۔۔؟؟؟”چھوئے تو نہیں کسی کے پاؤں میں نے لیکن !!وہ پائل باندھنے کا بولے تو سوچ سکتا ہوں۔۔۔!!”نن۔۔۔۔نہیں میں پہن لوں گی۔۔۔مہرو نے بوکھلاتے ہوئے جلدی سے پائل واپس پکڑ لیہوں۔۔۔۔شمس سر ہلاتا ڈریسنگ روم چلا گیا۔۔۔۔۔چند منٹ بعد وہ گولڈن کلر کا خوبصورت سا باکس لیے واپس آیا یہ سیٹ پہن لیں۔۔۔۔شمس نے باکس مہرو کی طرف بڑھایاجو پہنا ہے وہ اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔۔۔؟؟اس نے تیز نظروں سے شمس کو دیکھاوہ بھی اچھا ہے مگر اب یہ والا پہن لیں۔۔۔۔مہرو نے مزید بحث کیے بنا سر ہلا کر باکس پکڑ کر کھولاہمممم۔۔۔۔چوائس تو اچھی ہے۔۔۔۔اس نے سوچتے ہوئے ائیر رنگز اور چین باہر نکالی اور پہلے سے پہنا سیٹ اتارنے لگی شمس انتہائی انہماک سے آئینے میں نظر آتے اسکے سراپے کو نظروں کے حصار میں لیے کھڑا تھامہرو اسکے ٹکٹکی باندھنے پر تھوڑا کنفیوز ہوئی مگر جلدی جلدی کر کے اسنے شمس کا دیا سیٹ پہنا اور پیچھے پلٹیاچھی لگ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔انتہائی سنجیدہ تاثرات سے تعریف کی گئیمیں جانتی ہوں۔۔۔۔۔مہرو کھٹاک سے جواب مارتی اپنا پاؤچ اور چادر لیے باہر نکل گئیاونہہ۔۔۔مسکرانا تو گناہ سمجھتا ہے یہ شخص۔۔۔وہ بڑبڑاتی ہوئی حدید اور دعا کے کمرے کیطرف بڑھ گئیشمس اسکے جواب پر مسکرا کر سر جھٹکتا پیچھے ہی باہر آ گیا………………………………………………………ارے واہ بھابھی آپ تو پہچانی ہی نہیں جا رہیں۔۔۔۔۔۔ہیر نے مہرو کے سامنے آ کر اسکی بلائیں لیں آپ مہرو ہی ہیں ناں۔۔۔۔؟؟؟ یا میں کسی غلط جگہ آ گئی ہوں۔۔۔۔۔؟؟بلاوجہ مکھن مت لگاؤ بدتمیز۔۔۔۔مہرو کے ہونٹوں پر شرمیلی مسکان ابھریواہ۔۔۔واہ۔۔۔ما شا اللہ۔۔۔۔کیا شرمیلی ہنسی ہے لالہ دیکھیں گے تو فورا لٹو۔۔۔۔کیا دیکھیں گے لالہ۔۔۔۔؟؟؟شمس نے اندر داخل ہو کر ہیر کی آدھی بات پکڑیبھابھی کو۔۔۔۔۔۔۔ہیر کی بات پر مہرو نے اسکی کمر پر مکا جڑاشمس مسکرا کر سامنے موجود صوفے پر بیٹھا اور مہرو کو نظروں میں لیاجو ہلکے پنک کلر کے ڈریس کیساتھ میچنگ لپ اسٹک اور چوڑیاں پہنے جھجھکتی ہوئی نکھری نکھری اور پیاری لگ رہی تھیمیں چائے لاتی ہوں۔۔۔۔مہرو کنفیوز ہوتی جلدی سے کھڑی ہوئیکوئی چائے وائے نہیں پینی ابھی۔۔۔آرام سے بیٹھیں۔۔۔۔ہیر نے اسے پکڑ کر پھر سے بیٹھا دیااور تم سناؤ کب آئی۔۔۔۔؟؟گھر میں سب کیسے ہیں۔۔۔۔۔؟؟شمس نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر ہیر سے پوچھامیں کچھ دیر پہلے آئی ہوں۔۔۔۔گھر میں بھی سب ٹھیک ہیں۔۔۔۔آپ سنائیں کیا چل رہا ہے آج کل۔۔۔۔؟؟ہیر نے شرارتی انداز میں آنکھوں کو گھمایا اور ساتھ مہرو کے چٹکی لیشمس اسکی حرکت پر مسکرا دیا جبکہ مہرو اسے گھور کر کھڑی ہوئیمیں ابھی آتی ہوں۔۔۔ارے نہیں بھابھی بیٹھیں تو ابھی میں آئی ہوں وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے شام تک چلی جاؤں گی۔۔۔۔۔وہ آنکھیں پٹ پٹا کر معصومیت سے بولیشام تک تو ہو ناں یہاں۔۔۔۔۔مہرو دانت پیس کر کہتی ہاتھ چھڑوا کر ہال سے نکل گئی۔۔۔وہ جانتی تھی ہیر شمس کیوجہ سے جان بھوج کر اسے تنگ کر رہی تھی۔۔ہیر مسکراتی ہوئی اٹھ کر شمس کیساتھ آ کر بیٹھی۔۔بڑے دانت نکل رہے ہیں لالہ خیریت۔۔۔۔۔؟؟اس نے شمس کی مسکراہٹ پر چھیڑابلکل۔۔۔۔۔وہ پھر سے مسکرایابھابھی کو بتا دیا کیا۔۔۔۔۔؟؟اوں ہوں۔۔۔۔۔شمس نے نفی میں سر ہلایاتو بھابھی میں یہ تبدیلی کب آئی۔۔۔۔؟؟؟پوچھ لیتی۔۔۔تمہاری تو کافی دوستی ہے ان سے۔۔۔۔کب بتائیں گے لالہ۔۔۔۔۔۔؟؟؟وہ سنجیدہ ہوئیبتا دوں گا جلدی کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟جلدی۔۔۔۔؟؟؟محترم آپ لوگوں کے نکاح کو پانچ ماہ ہونے والے ہیں۔۔۔۔ہیر ناک پھلا کر بولیبتا دوں گا۔۔۔۔۔تم فکر مت کرو۔۔۔۔مائی سویٹ ڈول۔۔۔۔شمس نے مسکرا اسکے پھولے ناک کو کھینچالالہ مزید وقت ضائع مت کریں۔۔۔۔۔اتنے سال کافی نہیں ہیں کیا۔۔۔۔؟؟؟کہا ہے ناں بتا دوں گا۔۔۔اب چھوڑو اس بات کو۔۔۔۔یہ بتاؤ یشب کیسا ہے۔۔۔۔؟؟؟ٹھیک ہیں آجکل الیکشن کا بھوت سوار ہے ان پر۔۔۔۔۔۔وہ برا سا منہ بنا کر بولیالیکشن۔۔۔۔؟؟ہوں کہہ رہے ہیں اس بار اپنے علاقے سے الیکشن لڑیں گے۔۔۔بابا جان نے بھی روکا ہے میں نے بھی مگر وہ یشب آفریدی ہی کیا جو کسی کی بات مان جائیں۔۔۔۔وہ چڑیشمس اسکے چڑنے پر مسکرا دیاچلو کرنے دو اسے شوق پورا۔۔۔ایک بار میں ہی عقل آ جائے گی تمہارے نالائق شوہر کو۔۔۔۔اوہ۔۔۔میرا نالائق شوہر۔۔۔۔؟؟؟ہیر کو صدمہ ہواہاں تمہارا نالائق شوہر۔۔۔۔شمس مسکراہٹ دباتا کھڑا ہواآپ کو پتہ ہے یشب لندن کے ڈگری ہولڈر ہیں۔۔۔۔ایسی ڈگری کا کیا فائدہ جب بندہ عقل سے ہی پیدل ہو۔۔۔۔۔لالہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔لہ۔۔۔۔۔ہیر کے چیخنے پر وہ قہقہہ لگاتا ہال سے نکل گیاکہہ تو ویسے ٹھیک ہی رہے ہیں۔۔۔۔۔ہیر یشب کے چہرے کو تصور میں لا کر مسکرا کر سوچتی اماں کے کمرے کی طرف چلی گئی………………………………………………………مہرو عشاء کی نماز پڑھ رہی تھی جب شمس کمرے میں داخل ہواایک نظر مہرو کو دیکھ کر وہ چینچ کرنے چل دیا۔۔۔۔مہرو آخری رکعتوں میں تھی جب وہ چینج کر کے واپس آیا اور بیڈ کے پاس پڑے صوفے پر بیٹھ کر مہرو کی پشت کو محویت سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔”حسرت سے دیکھتے رہے ماضی کو اسطرح۔۔۔جیسے کہ لوٹ آئیں گے وہ دن جو گزر گئے۔۔۔”مہرو نے آخری سلام پھیرا اور تسبیح پڑھنے لگی۔۔۔۔۔وہ شمس کی طرف منہ کیے بغیر بھی اسکی نظریں خود پر ٹکی محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔اب تو ایسا اکثر ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔۔شمس ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھتا۔۔۔۔شروع شروع میں جب کبھی ایسا ہوتا تو مہرو کو دیکھتے پا کر شمس فورا اپنی نظریں جھکا لیتا تھا مگر اب مہرو کے دیکھنے پر بھی وہ بنا شرمندہ ہوئے اسے دیکھتا رہتا۔۔۔مجبورا مہرو ہی کنفیوز ہو کر ادھر أدھر ہو جاتی تھی۔۔۔۔یہ نہیں تھا کہ مہرو کو اسکی نظروں سے الجھن ہوتی تھی مگر وہ شمس کے اسطرح تسلسل سے دیکھنے پر ٹھٹھک ضرور جاتی تھی۔۔۔۔یوں جیسے شمس کی نظروں میں ایسا کچھ خاص ہو۔۔۔کچھ بہت خاص۔۔۔۔پر مہرو ہر دفعہ اسے اپنا وہم سمجھ کر جھٹلا دیتی۔۔۔تسبیح کے بعد اسنے ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگی۔۔۔۔شمس ابھی بھی بنا پلک جھپکائے اسے ہی دیکھ رہا تھامہرو نے دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرے ، جائے نماز تہہ کر کے رکھااور اپنے وہم کو یقین میں بدلنے کا فیصلہ کرتی شمس کی طرف چلی آئی………………………………………………………یشب پلیز مان جائیں ناں۔۔۔۔ہیر نے یشب کے سامنے بکھری فائلوں کو اٹھا کر اسکی پہنچ سے دور کیاہیر۔۔ر۔۔ر۔۔۔۔۔تنبیہہ ہوئیپلیزززززز۔۔۔۔۔اب کچھ نہیں ہو سکتا میرا اتنا پیسا لگ چکا ہے اب تمہارے کہے میں آ کر سارا پیسہ ڈبو دوں۔۔۔۔؟؟؟یشب ہر روز کی اس بحث سے تنگ آ چکا تھا جس میں ہیر اسے الیکشن سے ڈراپ آوٹ کرنے پر اکسا رہی تھیپیسہ مجھ سے زیادہ اہم ہے۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئیمیں ایموشنل بلیک میلنگ میں نہیں آنے والا۔۔۔۔۔یشب نے ہاتھ اٹھائےخان پلیز۔۔۔۔میری خاطر۔۔۔۔کہا ہے ناں نہیں۔۔۔۔مطلب پیسہ زیادہ ضروری ہے مجھ سے۔۔۔۔آپ کے نزدیک میں بکواس کر رہی ہوں اتنے دن سے۔۔۔۔۔کم آن۔۔۔۔ہیر آخر تمہیں میرے الیکشن لڑنے سے مسلہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟مجھے پولیٹیشنز پسند نہیں۔۔۔۔وہ ناک چڑھا کر بولیوہ کیوں۔۔۔۔؟؟یشب نے مسکراہٹ دبا کر پوچھاکیونکہ وہ کرپٹ ہوتے ہیں۔۔۔۔وہ معصومیت سے بولیمگر میں تو نہیں ہوں ناں کرپٹ۔۔۔۔؟؟تو ہو جائیں گے جب سیاست میں آئیں گے۔۔۔۔مجھے پسند نہیں ہے یشب ختم کریں ناں یہ قصہ۔۔۔کیا ضروری ہے ہم روز اس بات پر بحث کریںکر دیا ختم اور کچھ۔۔۔یشب نے سیگرٹ اور لائٹر اٹھایامیں سیریس ہوں محترم۔۔۔۔ہیر نے دانت رگڑےمیں بھی سیریس ہوں محترمہ۔۔۔میرے سر کی قسم کھائیں۔۔۔۔یہ ہر چھوٹی بڑی بات پر اپنا سر کیوں بیچ میں لے آتی ہو اور پھر زبردستی اسکی قسم بھی اٹھواتی ہو۔۔۔یشب ہیر کی اس عادت سے باخوبی آگاہ تھا اسلیے چڑ کر بولاکیونکہ آپ کا کیا بھروسہ زبانی کلامی بات پر مکر جائیں۔۔۔۔اس نے کندھے اچکائےاور اگر قسم سے بھی مکر جاؤں تو۔۔۔۔؟؟؟نہیں۔۔۔میں جانتی ہوں آپ میرے سر کی قسم سے کبھی نہیں مکریں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔یشب اسکے پریقین انداز پر مسکرا دیاتو پھر کھائیں قسم۔۔۔۔ہیر نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھاتمہاری قسم۔۔۔۔۔۔پورا کہیں۔۔۔۔ہیر تمہاری قسم میں الیکیشنز میں حصہ نہیں لوں گا پیسے کی مجھے پرواہ نہیں۔۔۔اور اگر کسی کے کہے میں آ کر مکر جاؤں تو ہیر کا مرا ہوا منہ دیکھوں۔۔۔یشب مسکراتے ہوئے حلف نامہ سن رہا تھا اسکی آخری بات پر مسکراہٹ روک کر سیریس ہواسوچ سمجھ کر بولا کرو جو منہ میں آتا ہے بنا سوچے سمجھے بول دیتی ہو۔۔۔۔وہ خفگی سے بولاجو بھی ہے آپ کو میری پوری بات کے بعد ہی رہائی ملے گی۔۔۔یشب نے اسکا اٹل انداز دیکھ کر آخری بات چھوڑ کر باقی حلف نامہ مکمل کیا اور اسکے ہاتھ ہٹا کر اٹھ گیا جس سے ہیر نے اسکے بازو دبوچ کر قید کر رکھا تھا بہت برے ہیں آپ۔۔۔۔؟؟وہ خفا خفا سی بولییشب نے مسکرا کر اسکی چوٹیا کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور اسکے پیچھے سے فائلز اٹھا کر اسٹڈی چلا گیااسکے جانے کے بعد ہیر بھی مطمعین ہوتی نماز پڑھنے اٹھ گئی۔۔۔۔وہ پورے ایک ماہ کی کوشش کے بعد یہ معرکہ سر کر چکی تھی یشب کو منا کر اس لیے شکرانے کے نوافل ادا کرنا تو بنتا تھا۔۔…………………………………………………….…چائے لاؤں۔۔۔۔مہرو نے کھڑے کھڑے شمس سے پوچھانہیں۔۔۔۔۔۔۔شمس نے نفی میں سر ہلایامجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔جی کریں۔۔۔۔شمس اسکی بات پر سیدھا ہوامگر مہرو سر ہلاتی اسٹڈی میں چلی گئیشمس اسکے مشکوک انداز پر حیران تھاچند منٹ بعد مہرو ایک درمیانے سائز کا ڈبہ لیے وہاں آئی۔۔۔۔۔وہ ڈبہ جیولری باکس کے مشابہ تھا۔۔۔۔ڈبے کے بیرونی ڈیزائن سے وہ کافی یونیق اور ایکسپینسیو لگ رہا تھامہرو نے پاس آ کر ڈبہ شمس کے سامنے موجود ٹیبل پر رکھاشمس سانس روکے ساکت تھا۔۔۔۔مہرو نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ڈبہ کھولا اور اس میں موجود چھوٹی مخملی ڈبیوں کو باہر نکالنے لگیاس نے ایک ایک کر کے ساری ڈبیاں باہر نکالیں اور آخر میں دل کی شیپ کا بنا کارڈ بھی باہر نکالاساری ڈبیاں نکال لینے کے بعد اب وہ باری باری ان ڈبیوں کو کھول کر ان میں سے پائلیں نکال کر ٹیبل پر رکھنے لگی۔۔۔وہ تقریبا پچاس سے زیادہ ڈیزائنز کی گولڈ ، ڈائمنڈ ، چاندی اور ناجانے کس کس سٹف کی بنی پائلز تھیں۔۔۔۔۔مہرو نے سب کو نکال دیا۔۔۔۔ٹیبل بلکل کسی جیولری شاپ کا منظر پیش کر رہا تھاپائلوں کا ڈھیر لگانے کے بعد مہرو نے وہ ہارٹ شیپ کا کارڈ اٹھایا اور اس پر بندھا ربن کھول دیاIt’s all For My L❤ve “ Meher ”مہرو نے با آواز بلند اس میں لکھی عبارت پڑھیشمس اب بھی سانس روکے ساکت تھا۔۔۔کون ہے۔۔۔۔یہ مہر۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو نے شمس کو دیکھتے ہوئے بمشکل تحمل سے پوچھااسے جو شک تھا جو وہم تھا وہ آج اسے یقین میں بدل دینا چاہتی تھی۔۔میں نے پوچھا کون ہے یہ مہر۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو اسکی خاموشی پر بلند آواز سے چلائی میری بات۔۔۔!!یہ مہر کون ہے۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے چبھتے ہوئے شمس کی بات کاٹی آپ۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ہیں یہ مہر۔۔۔۔۔!! شمس نے اعتراف کر کے کسی مجرم کی مانند جھکا سر مزید جھکا دیا

آپ۔۔۔!! شمس کے مدھم سے اقرار پر مہرو کٹے پتنگ کی مانند گرنے کے انداز میں صوفے پر بیٹھی اسکا شک ٹھیک نکلا تھا۔۔کیا۔۔۔کب۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔؟؟ایسے بہت سے سوالات مہرو کے اردگرد ہلچل مچا رہے تھےمگر وہ اس انکشاف پر دنگ سی بیٹھی تھی۔۔۔۔یہ کیا کہہ دیا تھا شمس نے۔۔۔۔؟؟؟ نو ، دس سال پہلے اسکی پائل شمس کو ملی تھی تو کیا یہ شخص تب سے۔۔۔۔۔؟؟اوف۔۔ف۔۔ف۔۔ف۔۔۔۔۔اتنے سال۔۔۔۔۔اس سے آگے مہرو سوچ نہیں پائی تھیوہ پوچھنا چاہ رہی تھی مگر الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھےدوسری طرف شمس سر جھکائے اپنے پاؤں کے انگوٹھے کو محویت سے تکے جا رہا تھاچند لمحے یونہی خاموشی کے نذر ہو گئے۔۔۔کچھ دیر بعد مہرو خود کو بولنے کے قابل بناتی سر اٹھا کر شمس کیطرف متوجہ ہوئیکب سے۔۔۔۔۔؟؟؟؟ اسکے ہونٹوں سے مدھم سرگوشی نما آواز ابھریشمس نے ایک لمبی سی سانس ہوا کے سپرد کی۔۔۔۔۔آج نہیں تو کل یہ بات ہونی تھی پھر آج ہی کیوں نہیں۔۔۔وہ خود کو ہمت دلاتا ساری بات کو تفصیلا کرنے کا فیصلہ کر کے سیدھا ہو بیٹھاشاید تب سے جب آپ کو پہلی بار دیکھا تھا یا پھر شاید دوسری بار۔۔۔۔۔۔پہلی۔۔۔۔۔؟؟؟؟ہوں۔۔۔پہلی بار۔۔۔۔آج سے گیارہ سال پہلے ابرار خان کی مہندی کی رات۔۔۔۔۔مہندی کی رات کہاں پر۔۔۔۔۔؟؟مہرو نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھاایکچوئیلی میں اس دن ہرن کے شکار پر اس ایریے میں گیا تھا۔۔۔مجھے بچپن سے ہی ہرن کے شکار کا بہت شوق تھا میرے چچا۔۔۔شمس رکامیرے چچا سے ہی یہ شوق مجھ میں منتقل ہوا تھا وہ اکثر ہرن کے شکار پر مجھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔۔۔۔۔میں اس دن اسی مقصد سے وہاں گیا تھا واپسی پر لیٹ ہو گیا تو سوچا زبیر کی طرف رات گزار کر صبح واپسی کے لیے نکل جاؤں گا۔۔۔۔وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ زبیر کے تایا زاد کی مہندی تھی۔۔۔اور زبیر مجھے زبردستی اپنے ساتھ فنکشن میں لے گیا جہاں ابرار کے دوست یار ناچنے گانے میں مگن تھے۔۔۔اردوناول کہانیاں وہیں میں نے آپ کو دیکھا تھا۔۔۔۔چونکہ ہمارے ہاں مردوں کے فنکشنز علیحدہ ہوتے ہیں مردانے میں جہاں عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی اسی لیے آپ اور آپ کی دیگر کزنز چھت سے یہ منظر دیکھنے میں مگن تھیں۔۔۔۔سب لڑکیاں چہرے ڈھانپ کر کھڑی تھیں مگر آپ بنا چہرہ چھپائے گرل پر گرنے کے انداز میں جھک کر اس فضول سے ناچ گانے کو انجوائے کر رہی تھیں۔۔۔۔۔مجھے آپ لوگوں کا چھپ کر اس واہیات سے ڈانس کو دیکھنا مناسب نہیں لگا تھا اور میں نے وہاں زبیر کو بھیجا تھا تاکہ وہ آپ سب کو وہاں سے ہٹا سکے۔۔۔۔۔وہ سانس لینے کو رکااوہ۔۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔۔۔۔شمس کی بات پر مہرو کے ہونٹ سکڑے تو اس رات ان صاحب کے کہنے پر ہی زبیر لالہ نے وہاں چھاپہ مارا تھا۔۔۔۔اوف خدا کس قدر ڈانٹ پڑی تھی اس رات ہم سب کو۔۔۔۔مہرو نے اس رات زبیر خان سے پڑنے والی ڈانٹ پر جھرجھری لیاور دوسری بار جب آپ کی پائل مجھے ملی تھی۔۔۔۔۔شمس نے اسکی خاموشی پا کر اگلی بات بتائیاتنے سال۔۔۔۔۔۔چند لمحوں بعد مہرو نے پھر مدھم سی سرگوشی کیجی ہاں اتنے سال۔۔۔۔۔شمس صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر ریلیکس ہو کر بیٹھا اسکے سر سے پہاڑ جتنا بوجھ اتر چکا تھا اسی لیے وہ مطمعین ہو گیا تھاکیا ملا آپ کو اس سب سے۔۔۔۔۔؟؟صبر کرنے کا درس اور پھر اس صبر کا پھل۔۔۔۔شمس پرسکون سا بولااونہہ۔۔۔۔صبر۔۔۔۔مہرو استہزائیہ ہوئیآپ جانتے ہیں صبر میں کہیں کسی کو پانے کے لیے کسی کا خون کرنے کا درس نہیں ملتا شمس دلاور خان۔۔۔۔وہ چبا چبا کر کہتی کھڑی ہوئیآپ غلط سمجھ رہی ہیں۔۔۔۔شمس کا اطمینان ایک پل میں اڑن چھو ہوا۔۔۔۔وہ اسکی غلط فہمی پر تڑپ کر سیدھا ہو اٹھاکیا غلط سمجھ رہی ہوں میں۔۔۔یہی کہ آپ نے یشار کو۔۔۔۔مہرو کے الفاظ آنسوؤں کی وجہ سے گلے میں ہی اٹک گئےفار گاڈ سیک۔۔۔۔۔مہرو آپ میری محبت تھیں ضد نہیں جو میں آپ کو پانے کے لیے اتنا گھٹیا فعل انجام دیتا۔۔۔۔وہ دکھ سے بولاپھر کیوں کیا آپ نے صبر۔۔۔۔۔جب محبت کی تھی تو کیوں خاموش رہے۔۔۔بولیں کیوں کیا صبر آپ نے۔۔۔۔۔مہرو نے سامنے آ کر شمس کا گریبان دبوچاکیونکہ میری قسمت میں صبر کرنا لکھ دیا گیا تھا اگر میرا بس ہوتا تو میں آپ کو آج سے نو سال پہلے ہی پا چکا ہوتا جب حشمت خان (مہرو کے بابا) نے میرے منہ پر طمانچہ مارا تھا یہ کہہ کر کہ میں اسکی اکلوتی بیٹی کے قابل نہیں۔۔۔۔۔وہ گریبان پر موجود مہرو کے ہاتھ تھامتا ضبط سے بولاشمس کے اس انکشاف پر مہرو کے ہاتھ اسکے گریبان پر پھسلتے ہوئے پہلو میں آ گرے۔۔۔۔یہ کیا کہا تھا شمس نے۔۔۔۔بابا نے۔۔۔۔وہ بے یقین تھیشمس نے مہرو کی خون نچڑتی شکل دیکھی اسے لگا کہ وہ ابھی زمین بوس ہو جائے گی۔۔۔۔۔اس نے مہرو کو سہارا دیا اور اسکے ساکت وجود کو اپنے ساتھ لگائے بیڈ تک آیامہرو کو بیڈ پر بیٹھا کر شمس نے پاس پڑے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور گلاس اسکی طرف بڑھایامہرو نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔۔۔یوں جیسے پوچھ رہی ہو میں اس گلاس کا کیا کروں۔۔۔شمس نے اسکی حالت دیکھتے ہوئے خود ہی گلاس اسکے ہونٹوں سے لگایامہرو نے چند گھونٹ پینے کے بعد شمس کا ہاتھ پیچھے کیاآپ آرام کریں پھر بات ہو گی۔۔۔۔وہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ اسکا ہاتھ مہرو کی گرفت میں آ چکا تھاشمس نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔ ابھی۔۔۔۔ابھی بتائیں مجھے سب۔۔۔۔اسکے لب پھڑپھڑائےآپ کی طبیعت۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔مہرو نے کہہ کر شمس کا ہاتھ چھوڑ دیاہوں۔۔۔۔شمس سر ہلا کر کچھ فاصلے پر پڑی چئیر گھسیٹ لایا۔۔۔۔وہ دونوں اس وقت آمنے سامنے تھے۔۔۔مہرو بیڈ پر پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی جبکہ شمس اسکے سامنے چئیر پر بیٹھا تھا۔۔یونیورسٹی مکمل ہونے کے بعد مجھے کسی جاب کی تلاش نہیں کرنی تھی چونکہ میں اکلوتا بیٹا تھا لہذا بابا کا جو بھی تھا وہ میرا تھا اور مجھے انکا ایکسپورٹ کا بزنس سنبھالنا تھا۔۔۔۔اسکے علاوہ زمینیں بھی تھیں جنکی دیکھ بھال کے لیے مزارعے موجود تھے مگر ان کو لوک آفٹر مجھے ہی کرنا تھا لہذا میں نے MBA مکمل کرنے کے چند ماہ بعد ہی خود کو بزنس میں ایڈجسٹ کر لیا تھا۔۔۔انہی دنوں اماں کو میرے سر پر سہرا سجانے کا خیال آیا اور وہ یہ سہرا میری پسند میری مرضی سے ہی سجانا چاہتی تھیں چونکہ میری پسند اور مرضی آپ تھیں تو میں نے زبیر خان سے اجازت لے کر اماں اور بابا کو لال حویلی بھیجا تھا اپنا پرپوزل دے کر۔۔۔۔۔وہ سانس لے کر پھر سے بولنا شروع ہواحشمت خان پر ان دنوں نئے نئے الیکشن جیتنے کا بھوت سوار تھا شاید اسی لیے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی خود سے اونچے لوگوں میں بیاہیں گے جو اسکے قابل ہوں گے۔۔۔اور حشمت خان کے شایان شان بھی۔۔۔۔جس پر وہ اپنے حلقے کے چند لوگوں میں بیٹھ کر فخر کر سکے گا۔۔۔۔۔حشمت خان کے ان الفاظ سے انکار پر مجھے بہت غصہ آیا تھا۔۔۔اس نے میرے باپ کو اسکے منہ پر ہی چھوٹے لوگوں کا طعنہ دیا تھا۔۔۔۔۔اگر ان کے سامنے دولت کے معیار سے کوئی چھوٹا بڑا ہوتا تھا تو پھر وہ غلط تھے۔۔۔۔کیا نہیں تھا ہمارے پاس زمینیں، حویلی، گاڑیاں، فیکٹری اور ایسا کیا ہونا چاہیے تھا جو ہمیں ان سے اونچا بنا دیتا۔۔۔۔شمس استہزائیہ ہنسامیں اس بات کا جواب لینے حشمت خان کے پاس جانا چاہتا تھا مگر بابا نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار انسان عزت سے مانگتا ہے اگر مل جائے تو فخر سے وصول کرتا ہے۔۔۔مگر دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز پر فخر نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ بھیک ملنے کے مترادف ہوتی ہے۔۔۔۔اور ہم اتنے گرے پڑے نہیں کہ کسی کی بھیک وصول کریں۔۔۔۔بابا کی بات میرے دل کو لگی تھی۔۔۔۔میں نے آپ سے محبت کی تھی اور میں اپنی عزت اور محبت کی خاطر جھک تو سکتا تھا مگر جھک کر عزت اور محبت نہیں مانگنا چاہتا تھا۔۔۔کیونکہ میں آپ کو پورے فخر سے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا خواہشمند تھا اسی لیے خاموش ہو گیا۔۔زبیر خان نے مجھ سے اس انکار پر معذرت کی تھی ہم اچھے دوست تھے اور اچھے دوست ہی رہنا چاہتے تھے مگر پھر بھی وقت کی گرد بہت سے اچھے رشتوں پر اپنی گرد ڈال جاتی ہے۔۔۔۔یوں میرا اور زبیر کا رابطہ بھی فون کالز پر مشتمل ہو گیا۔۔۔۔۔کئی مہینوں بعد ہم فون پر ایک دوسرے کی خیریت معلوم کر لیتے۔۔۔اور انہی فون کالز میں مجھے آپ کی یشار خان آفریدی سے شادی کا پتہ چلا۔۔۔۔شمس اس وقت کی اذیت کو یاد کر کے خاموش ہوا چند منٹ بعد وہ خود کو کمپوز کرتا پھر سے بولنے کے قابل ہوا۔۔۔اس کے بعد میری طرف سے ان فون کالز کا رابطہ بھی ختم ہو گیا تھا۔۔۔گھر والوں نے میری چپ اور خاموشی کے پیش نظر پروشہ سے میری شادی طے کر دی کہ شاید اس شادی سے ہی مجھ میں کچھ بہتری آئے۔۔۔۔بہتری تو آ چکی تھی مجھ میں شاید پروشہ کی بدولت یا پھر وقت کی بدولت۔۔۔۔۔بہت کچھ نہ ٹھیک ہو کر بھی سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا۔۔۔۔اس دن بھی میں ہرن کے شکار پر ہی گیا تھا جب میری بندوق سے نکلنے والی گولی یشار خان کی جان لے گئی۔۔۔۔شمس نے بات مکمل کر کے لمبی سی سانس لی اور سر کرسی کی بیک سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں یوں جیسے اتنی لمبی مسافت طے کرنے سے تھک گیا ہو۔۔راہ دے وچ کھلونا اوکھااپنا آپ لکونا اوکھااینی ودھ گئی دنیاداریکلیاں بہہ کے رونا اوکھاداغ محبت والا باہولگ جاوے تے دھونا اوکھا۔۔۔۔۔۔۔!!مہرو نے سر اٹھا کر شمس کو دیکھا جس کے چہرے پر تھکن تھی۔۔۔۔دکھ تھا۔۔۔اذیت تھی۔۔۔۔اور۔۔۔شاید اطمینان بھی تھا۔۔۔سب کچھ کہہ دینے کا اطمینان۔۔۔۔آپ کے بابا نے کہا تھا کہ دوسری بار مانگنے سے ملنے والی چیز بھیک تصور کی جاتی ہے تو پھر وہ دوبارہ کیوں گئے میرا ہاتھ مانگنے۔۔۔۔۔؟؟؟مہرو بجھی بجھی سی پوچھ رہی تھیاسکی بات پر شمس آنکھیں کھولتا سیدھا ہوامیں نہیں جانتا۔۔۔۔وہ مجھ سے پوچھے بنا ہی گئے تھے زبیر خان کے پاس۔۔۔۔وہ نظریں چرا کر بولاآپ نہیں جانتے مگر میں جانتی ہوں۔۔۔۔وہ اطمینان سے بولیشمس نے حیرانگی سے دیکھا مہرو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔دوسری بار آپ کے بابا نہیں گئے تھے بلکہ میرے لالہ آئے تھے ان کے پاس۔۔۔۔۔مہرو نے آہستگی سے انکشاف کیاآپ۔۔۔۔آپ سے کس نے کہا۔۔۔۔؟؟شمس اٹک کر بولامیں چند دن پہلے آپ سے خفا ہو کر لال حویلی گئی تھی۔۔۔ شمس نے لفظ خفا پر پھر سے حیرت کا اظہار کیا۔۔آپ نہیں جانتے تھے کہ میں آپ سے خفا ہوں پر میں آپ سے خفا ہو کر ہی گئی تھی۔۔۔اس روز صفائی کے دوران آپکی اسٹڈی سے مجھے یہ باکس ملا تھا۔۔۔مہرو نے ٹیبل پر پڑے باکس کیطرف اشارہ کیااس میں سے نکلے کارڈ پر میں نام مہر پڑھ کر ٹھٹھکی تھی اور اس میں موجود ساری مخملی ڈبیوں میں پائلیں دیکھ کر مجھے شک ہوا کہ یہ مہر میں ہوں۔۔۔میں آپ سے پوچھ کر اپنا شک دور کر سکتی تھی مگر اس وقت مجھے آپ پر بہت غصہ تھا اس لیے میں آپ سے خفا ہو کر لال حویلی چلی گئی تھیوہیں میں نے زبیر لالہ اور اماں کی باتیں سن لیں تھیں۔۔۔مہرو بات کرتے ہوئے انگلی سے اپنی ہتھیلی پر مختلف لائنیں کھینچ رہی تھیاماں کو میرے آپ کے ساتھ خوش نہ ہونے کا خدشہ تھا۔۔۔ان کے خدشے کہ جواب میں لالہ نے کہا کہ مجھے شمس پر پورا یقین ہے کہ وہ مہرو کو خوش رکھے گا اسی لیے تو میں اسکے بابا دلاور خان کے پاس گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔تب نہ سہی اب تو شمس اور مہرو کی شادی ہو سکتی ہے۔۔۔۔ان کا ظرف بلند تھا جو وہ اپنی بیگم کیساتھ میرے کہنے پر شمس کا رشتہ لے کر آئے تھے۔۔۔۔یہ بات سن کر میں الٹے قدموں پلٹ آئی تھی اپنے کمرے میں نہیں بلکہ واپس یہاں آپ کی حویلی۔۔۔کیونکہ اب میں لالہ سے خفا تھی کہ انہوں مجھے بوجھ سمجھ کر پھینکنے کی بات کی۔۔۔مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ انہوں نے خود سے ایسا کیوں کیا مگر اب۔۔۔۔۔اب۔۔۔۔۔شمس نے اسے بات جاری رکھنے پر اکسایاکچھ نہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلایاآپ کو برا لگا یہ سب سن کر کہ میں آپ سے۔۔۔۔پتہ نہیں۔۔۔۔وہ شمس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ کر کھڑی ہوئیکیا ہوا۔۔۔۔؟؟سامنے سے ہٹیں۔۔۔۔مہرو آپ اب بھی خفا ہیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟کیا نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔؟؟الٹا سوال ہواپر اب کیوں۔۔۔۔؟؟ میں آپ کو ساری بات بتا چکا ہوںمیں ساری بات سن کر ہی خفا ہوئی ہوں۔۔۔وہ نتھنوں کو پھلا کر خفگی سے بولیشمس اسکے پھولے نتھنے دیکھ کر مسکرا دیاکیا ہوا۔۔۔۔؟؟مہرو نے حیرت سے اسکی مسکراہٹ دیکھیمیں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں مہر۔۔۔۔شمس نے مسکراہٹ دبا کر محبت کا اظہار کیاسامنے سے ہٹیں آپ۔۔۔وہ شمس کی نظروں سے کنفیوز ہوئیمیری محبت کا جواب اس طرح سے دیں گی کیا۔۔۔۔؟؟وہ حیران تھا مہرو کے چہرے پر نو لفٹ کے تاثرات دیکھ کر۔۔میں آپ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولیتو مجھے اجازت دیں کرنے کی۔۔۔۔میں آپ کو بھی سکھا دوں گا۔۔۔۔مہرو نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔۔۔ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ سجائے ، آنکھوں میں شرارت اور محبت لیے وہ اسی کو دیکھ رہا تھامہرو نظریں جھکا کر نیچے دیکھنے لگیمہر کیا ہم گزری باتوں کو بھلا کر اپنی نئی زندگی کی شروعات نہیں کر سکتے۔۔۔۔؟؟؟وہ مہرو کو مہرو کی بجائے مہر کہہ کر بات کر رہا تھاکیا آپ نے مجھے معاف نہیں کیا اب تک۔۔۔۔۔؟؟؟کر چکی ہوں۔۔۔۔۔پھر یہ دوری کیوں۔۔۔۔؟؟آپ کی وجہ سے۔۔۔۔میری۔۔۔۔؟؟وہ حیران ہواہوں۔۔۔۔مہرو نے سر ہلایاوہ کیسے۔۔۔۔؟؟؟اگر آپ پہلے بتا دیتے کہ آپ مجھ سے محبت کرتے تھے تو۔۔۔۔مہرو نے زبان دانتوں تلے دبا کر خفگی سے شمس کو دیکھامجھے تم سے شکایت ہے۔۔۔۔تم نے زندگی بھر مجھ کو۔۔۔۔ خبر یہ بھی نہ ہونے دی۔۔۔تمہیں مجھ سے محبت ہے۔۔۔اسکی خفا خفا نظریں شمس سے شکایت کر رہیں تھیںمیں آپ سے کیا کرتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟شمس نے اسکی بات پر محظوظ ہو کر پوچھاپلیز مجھے جانے دیں شمس۔۔۔وہ منمنائیپھر سے کہو۔۔۔۔کیا۔۔۔۔؟؟شمس۔۔۔۔اپنا نام تمہارے منہ سے سن کر بہت اچھا لگا مجھے۔۔۔بہت سال پہلے یہ خواہش کی تھی کہ تم مجھے میری ہو کر اسطرح سے پکارو۔۔۔۔شمس ایک دم سے فاصلے مٹاتا آپ سے تم پر آ چکا تھامہرو نے شرما کر پاس سے نکلنا چاہا مگر شمس نے بازو پھیلا کر راستہ روک لیاکیا ہے آپ کو۔۔۔۔؟؟محبت۔۔۔۔وہ محبت سے بولاتو میں کیا کروں۔۔۔۔؟؟محبت۔۔۔۔۔۔۔!شمس کے جواب اور نظروں پر گھبرا کر مہرو اسے پیچھے دھکیلتی دروازے کی طرف بھاگی۔۔مہر۔۔۔۔رر۔۔۔ررکو بات تو سنو میری۔۔۔شمس پکارتا اسکے پیچھے ہی باہر آیامہرو اسکے باہر نکلنے پر دل پر ہاتھ رکھتی قریبی پلر کی اوٹ ہو گئی شمس نے باہر نکل کر ادھر أدھر نگاہ دوڑائی۔۔اتنی جلدی کہاں غائب ہو گئی۔۔۔؟؟وہ کھڑا سوچ رہا تھا جب چند گز کے فاصلے پر بنے پلر کی اوٹ سے چوڑیوں کی کھنک سنائی دی وہ مسکراہٹ دباتا اس جانب بڑھامجھ سے بچ کر کہاں جائیں گی اب۔۔۔کہیں بھی نہیں۔۔۔۔مہرو کھکھلا کر کہتی اسکے ہاتھ جھٹک کر سیڑھیوں کی جانب بھاگیمیں اب بلکل بھی نہیں چھوڑنے والا۔۔۔شمس نے منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکی دی۔۔۔وہ پھر سے اسکی قید سے رفو چکر ہو چکی تھیتو کون کہہ رہا ہے چھوڑنے کو۔۔۔۔وہ کھلکھلاتی سیڑھیاں اتر گئیمہرو کے چہرے پر ان گنت دھنک رنگ بکھرے ہوئے تھے۔۔خود کو چاہے جانے کی خوشی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔کوئی مہرو سے پوچھتا جو اس وقت ہنستی ،مسکراتی ،آنچل لہراتی سیڑھیاں پھلانگ رہی تھیخود کو چاہے جانے کا احساس انسان کو مغرور بنا دیتا ہے۔۔وہ بھی تھوڑی مغرور نظر آ رہی تھی۔۔۔کوئی اسے اتنے سالوں سے چاہتا رہا تھا یہ بات اسے گزرے ماضی کو بھلانے کے لیے کافی تھی۔۔۔دوسری طرف شمس اسکی کھلکھلاہٹ پر پرسکون سا کھڑا اسے زینے اترتے دیکھ رہا تھا۔۔۔آخر اتنے لمبے اور کھٹن صبر کے بعد اسے اسکی محبت مل ہی گئی تھی۔۔۔اسے اسکے صبر کا پھل مل چکا تھا۔۔وہ خوش تھا۔۔۔بہت زیادہ خوش۔۔۔۔۔………………………………………………………کتنے سال گزرے گئے ناں یشب۔۔۔۔۔!!وہ اس وقت جھیل کنارے ایک ہی پتھر پر ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔ہیر نے یشب کے بازو سے اپنا بازو گزار کر سر اسکے کندھے پر رکھا ہوا تھا جبکہ یشب اپنی گود میں دھرا ہیر کا ہاتھ تھامے تھرڈ فنگر میں پہنی رنگ کو آگے پیچھے کر رہا تھاہیر کی بات پر اس نے مسکرا کر "ہوں” کہاآپ کو یاد ہے ہماری پہلی ملاقات۔۔۔بھول سکتا ہوں کیا۔۔۔۔؟؟؟اتنے زیادہ سال گزر چکے ہیں میں سوچتی ہوں تو مجھے حیرت سی ہوتی ہے۔۔۔۔وہ بےیقینی سے بولیحیرت کیوں۔۔۔۔؟؟یشب نے ابرو اچکائےیہی کہ میں نے اتنے سال آپ کو کیسے برداشت کر لیا۔۔یشب کی گھوری پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔۔۔یہ کہو کہ میں نے کیسے تم جیسی موٹی بیوی کیساتھ گزارا کر لیا اسکے باوجود کہ مجھے موٹی لڑکیاں پسند نہیں۔۔۔۔یشب نے بھی پورا بدلہ اتارااب اتنی بھی موٹی نہیں ہوں۔۔۔۔ہیر برا مان کر بولیہو تو۔۔۔۔وہ اسے چڑا کر مسکرایا اچھا بس مذاق چھوڑیں یہ بتائیں ہم کب جا رہے ہیں کاغان۔۔۔۔؟؟بچوں کے ایگزامز تو ختم ہو لینے دو بے صبری محبوبہ۔۔۔۔یشب نے شرارت سے اسکی ناک کھینچیبچوں کے ایگزامز نیکسٹ ویک ختم ہو رہے ہیں۔۔۔۔کل بھابھی کا بھی فون آیا تھا کہہ رہی تھی پروگرام فائنل کر کے بتا دو تاکہ شمس اپنا شیڈول سیٹ کر کے وقت نکال سکیںہاں تو کہہ دو بچوں کے لاسٹ پیپر والے دن تک ریڈی رہیں پھر نکل پڑیں گے۔۔ہوں۔۔۔۔ہیر نے اثبات میں سر ہلایاماما۔۔۔ماما۔۔۔۔۔۔۔چھ سالہ حنین ہیر کو پکارتی ہوئی سامنے سے بھاگتی آ رہی تھی جبکہ حنان بیٹ پکڑے اسکے پیچھے بھاگ رہاتھاواٹ ہیپنڈ۔۔۔؟؟وہ بھاگ کر ہیر کی گود میں منہ چھپا گئی۔۔ماما "باسی نان” مجھے مار رہا ہے۔۔۔اسکی بات پر ہیر اور یشب دونوں نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔ماما یہ مجھے پھر سے باسی نان کہہ رہی ہے۔۔۔حنان پاس آ کر خفگی سے بولاحنین کو سب ہنی کہتے تھے جبکہ حنان کا نک نیم بھی یہی بنتا تھا مگر اسے سب حنان ہی کہتے جس پر وہ اکثر چڑتا کیونکہ اسے لگتا تھا ہنی لفظ حنین کی بجائے اس پر زیادہ جچتا ہے اور محترمہ حنین صاحبہ اسی بات پر اسے باسی نان کہہ کر مزید ٹارچڑ کرتی تھیں۔۔ہنی بیٹا مت تنگ کیا کرو بھائی کو۔۔۔۔ہیر نے حنان کو قریب کرتے ہوئے حنین سے کہا۔۔۔جو اب یشب کی گود میں چڑھ کر اسکا سیل پکڑے کینڈی کرش کھیلنے میں مگن تھی۔یہ ہے ہی باسی نان جیسا۔۔۔گال دیکھیں کیسے پھولے ہوئے ہیں یوں جیسے نان پھٹنے والا ہو۔۔۔حنین۔۔۔ن۔۔۔ن۔۔۔ہیر نے تنبیہہ کیجب کے یشب نے سزا کے طور پر سیل لے کر اسکی پہنچ سے دور کر دیا۔۔بابا۔۔۔بابا پلیز۔۔۔پلیز سیل دیں مجھے گیم کھلینی ہے۔۔۔وہ بےقراری سے بولیپہلے حنان کو سوری بولو۔۔۔۔یشب کی بات پر حنان کا بجھا چہرہ کھل اٹھا۔۔۔حنین میڈم سوری کریں گی مجھ سے وہ گردن اکڑا کر کھڑا ہواہیر مسکراہٹ روکے اسکے ایکسپریشنز دیکھ رہی تھی۔۔حنین نے برا سا منہ بنا کر حنان سے سوری کرنے کی بجائے سوری پھینکا کھٹاک سے عین منہ پر۔۔۔۔۔اٹس اوکے۔۔۔۔حنان نے بھی لٹھ مار انداز میں احسان کر کے سوری قبول کیچلو بھئی تم دونوں کی صلح ہو چکی ہے اب اٹھو گھر چلتے ہیں بی بی جان انتظار کر رہی ہوں گی۔۔۔یشب نے حنین کو گود سے اتار کر کھڑا کیا اور خود بھی کھڑا ہوابابا کچھ دیر اور رکتے ہیں ناں۔۔۔۔حنین نے للچاتی نظروں سے یشب کو سیل پاکٹ میں رکھتے دیکھ کر کہانہیں۔۔ابھی چلو پھر آئیں گے سویٹ ہارٹ۔۔۔وہ مسکرا کر اسکی پونی کھینچتا بازو پکڑ کر چل پڑا۔۔ہیر نے حنان کی جیکٹ کی زپ بند کر کے کیپ اسکے سر پر دی اور چادر درست کرتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔یہ محتصر سا آئیڈل قافلہ ایک دوسرے کیساتھ ہنستا ، مسکراتا، اٹھکلیاں کرتا واپس جا رہا تھا۔۔۔………………………………………………………یہ آفریدی حویلی کے ہال کا منظر ہے جہاں سے ابھی بابا جان اور دلاور خان نکل کر مردانے کی طرف گئے تھے جہاں قبیلے سے آئے کچھ مرد مہمان ان کا انتظار کر رہے تھے۔۔ اور ہال کے اندر موجود تخت پر بی بی جان اور خدیجہ بیگم بیٹھیں آہستہ آواز میں گھٹنوں اور جوڑوں کے درد پر تبادلہ خیال کر رہیں تھیں۔۔۔جبکہ ان سے کچھ فاصلے پر کارپٹ پر چوکڑی مارے چودہ سالہ حدید، سات سالہ حمزہ اور چھ سالہ حنان بیٹھے مسٹر بین دیکھ رہے تھے۔۔۔۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد مسٹر بین کی حرکتوں پر وہ ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر محظوظ بھی ہو رہے تھے۔۔۔۔اب اگر ان سے تھوڑا آگے دائیں جانب دیکھا جائے تو وہاں چھ سالہ حنین اور نو سالہ دعا بیٹھیں ٹیچر ٹیچر کھیل رہی تھیں۔۔۔حنین ٹیچر بنی ہوئی تھی جبکہ دعا اس سے بڑی ہو کر بھی ابھی اسٹوڈینٹ ہی تھی۔۔۔حدید کا حنین کو پٹاخہ کہنا کچھ غلط بھی نہ تھا وہ واقعی اس خاندان میں ایک پٹاخہ ہی تھی۔۔۔حالانکہ حنین اور حنان دونوں ٹوئنز تھے مگر دونوں ایک دوسرے کے الٹ تھے حنین جتنی کلیور اور منہ پھٹ تھی حنان اتنا ہی سیدھا اور شریف تھا مگر حنین سے پوری ٹکر لیتا تھا وہ شریف ہو کر بھی۔۔۔اب یہ تو ہو گئی بچوں کی کہانی اب آگے بڑھتے ہیں بچوں کے اماؤں ، اباؤں کی طرف۔۔۔۔بی بی جان اور خدیجہ جس تخت پر بیٹھیں تھیں اس تخت کے بلکل سامنے صوفوں پر یشب اور شمس لیب ٹاپ اور فائلز کھولے بزنس کے معاملات ڈسکس کر رہے تھے۔۔یشب نے ہیر کے کہنے پر الیکشن سے ڈراپ آوٹ کر دیا تھا اور پھر کچھ عرصے بعد بابا جان کے کہنے پر شمس کیساتھ مل کر لیدر کا بزنس شروع کر دیا تھا اور اب وہ دونوں شافے انڈسٹریز سے ہوئے کنٹریکٹ کو ہی ڈسکس کر رہے تھے شاید۔۔۔۔۔ان کے قریبی سنگل صوفوں میں سے ایک پر مہرو بیٹھی تھی ٹانگیں اوپر کیے گود میں البم رکھے۔۔۔حالیہ کاغان ٹریپ پر لی گئی تصویریں دیکھ رہی تھی۔۔ساتھ ساتھ پاس پڑے باؤل سے پاپ کارن بھی اٹھا کر منہ میں رکھ لیتی۔۔ماما میں یہ لے جاؤں۔۔۔۔حمزہ (شمس اور مہرو کا بیٹا ( نے پاپ کارن کے باؤل کی طرف اشارہ کیاہاں میری جان لے جاؤ۔۔۔۔مہرو مسکرا کر بولیحمزہ باؤل اٹھا کر واپس حدید اور حنان کیطرف بھاگ گیامہرو مسکرا کر ایک نظر بچوں پر ڈالتی پھر سے البم الٹ پلٹ کرتی غور سے تصویریں دیکھنے لگی۔۔۔ہیر نے ہال کے داخلی دروازے میں کھڑے ہو کر یہ منظر اپنی مسکراتی نظروں سے دیکھا۔۔وقت کیساتھ کتنا کچھ بدل گیا تھا۔۔ہیر اور یشب دو عدد ٹوئنز بچوں کے ماں باپ بن چکے تھے۔۔حدید اور دعا کے بعد شمس اور مہرو کو اللہ نے حمزہ سے نوازا تھا۔۔بڑے بزرگ سب ان کے سروں پر سلامت تھے جو کہ اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا احسان تھا ان پر اور سب سے بڑھ کر یشب اور شمس کی صلح اور دوستی تھی۔۔ہیر نے مسکراتے ہوئے یشب کی طرف دیکھا جو شمس کی بات سنتا کان پکڑے ہوئے تھا اور شمس شاید اسے کسی بات پر کھری کھری سنا رہا تھا۔۔اسے بی بی جان کی کہی برسوں پرانی بات یاد آئی۔۔”وقت کیساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ہیر”اور ان کی بات کے جواب میں ہیر نے کہا تھا۔۔۔۔”نہ اب تک کچھ ٹھیک ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ٹھیک ہو گا بی بی جان”مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔ وقت نے واقعی بہت کچھ ٹھیک کر دیا تھا۔۔۔اس نے ایک لمبی سی پرسکون سانس لے کر رب کائنات کی بابرکت ذات کا ڈھیروں ڈھیر شکر ادا کیا اور ہلکی پھلکی ہو کر چائے کی ٹرے لیے آگے بڑھی گئی جہاں اسکے اپنے اسکے ہاتھوں کی بنی چائے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ہیر کی بنی چائے کو اب چائے کہا جا سکتا تھا کیونکہ اب وہ واقعی چائے ہی بناتی تھی نہ کہ جوشاندہ۔۔۔۔۔!وفا کہ قید خانوں میںسزائیں کب بدلتی ہیں؟؟بدلتا دل کا موسم ہے ہوائیں کب بدلتی ہیں؟؟میری ساری دعائیں تم سے ہی منسوب ہیں ہمدممحبت ہو اگر سچی دعائیں کب بدلتی ہیں؟؟کوئی پا کر نبھاتا ہےکوئی کھو کر نبھاتا ہےنئے انداز ہوتے ہیں وفائیں کب بدلتی ہیں؟؟ ••••••••• •••• •••••• ضروری نہیں کہ ہر ونی ہو کر آنے والی ہیر کیساتھ ایسا ہی ہو جسے یشب آفریدی جیسا چاہنے والا شریک سفر ملا۔۔۔۔۔یا پھر ہر بیوہ ہونے والی مہرو کیساتھ کہ جسکے اپنوں نے اسے وہ خوشیاں لوٹائیں جن پر اس کا حق تھا۔۔۔۔۔۔ہمارے ہاں اکثر بہن بیٹیاں اپنے باپ بھائیوں کی خاطر خون بہا اور دیگر ایسے ہی افعال میں ونی کر دی جاتیں ہیں اور پھر انہیں بے زبان جانور سمجھ کر جو سلوک کیا جاتا ہے وہ کسی گناہ سے کم نہیں۔۔۔۔گالم گلوچ، مارپیٹ حتی کہ اکثر اوقات جسم کے کسی حصے کو کاٹ کر اس کو سزا اور اذیت دی جاتی ہے جو اس سارے قصے میں بے قصور ہوتی ہے۔۔اور بیوہ عورت کو بیوگی کی چادر اوڑھا کر سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے کہ اس کا خوشیوں پر کوئی حق نہیں یا پھر اگر وہ شادی کر لیتی ہے تو اس پر تحقیر آمیز جمعلات پھینکے جاتے ہیں۔۔۔کیا ایک مرد کو جنم دینے والی عورت کیساتھ یہ سلوک زیب دیتا ہے۔۔۔۔۔؟؟کیا ایک عورت اتنی ارازاں ہے کہ اسے ان ظالمانہ اور جاہلانہ رسومات کی بلی چڑھا دیا جائےکیا وہ انسان نہیں۔۔۔۔کیا وہ پتھر کی بنی مورت ہے جو جذبات اور احساسات سے مبرا ہو۔۔۔۔کیا وہ اس لیے پیدا کی گئی ہے کہ اپنے ہی جنم دئیے مرد کی محکوم بن جائےنہیں۔۔۔۔۔عورت محکوم نہیں۔۔۔۔نہ ہی اتنی ارازاں کے چند لوگوں کے ہجوم کی بنی پنچائیتوں اور جرگوں میں بیٹھا کر کسی کے بھی حوالے کر دی جائے۔عورت تو۔۔۔۔۔۔۔! عظمت ہے۔۔۔۔۔عزت ہے۔۔۔۔۔ماں ہے۔۔۔۔۔ بہن ہے۔۔۔۔بیٹی ہے۔۔۔۔بیوی ہے۔۔۔۔اتنے خوبصورت رشتے بنتے ہیں اس عورت کیساتھ جو اپنے سگوں کی عزت اور شان و شوکت کی خاطر ایسی فرسودہ اور ظالمانہ رسومات پر قربان کر دی جاتی ہے۔۔۔کیوں۔۔۔؟؟؟کیوں ہوتا ہے ایسا۔۔۔؟؟؟اور کب تک ہوتا رہے گا۔۔۔۔؟؟؟ سوچئیے گا ضرور۔۔۔۔۔!!!”جب ہوس گھائل کرے مجھ کو نظر کے تیر سے۔۔۔اس گھڑی کرتی ہوں شکوہ کاتب تقدیر سے۔۔۔۔ہائے مجھ عورت کی قسمت کیا بتاؤں کیا کہوں۔۔۔؟کاٹتا ہے میری شہہ رگ باپ بھی شمشیر سے۔۔۔غیر چن دیتے ہیں مجھ کو جیتے جی دیوار میں۔۔۔اپنے غیرت میں جکڑتے ہیں مجھے زنجیر سے۔۔۔۔سارے رشتے مجھ کو عبرت ناک دیتے ہیں سزا۔۔۔۔مانگتا ہے مال و زر شوہر بھی مجھ دلگیر سے۔۔۔۔اور جب تیزاب سے جھلسا دیا جائے مجھے۔۔۔۔ہر کسی کو خوف آتا ہے میری تصویر سے۔۔۔عمر بھر خدمت کروں پر پھر بھی ہو جاتی ہوں میں۔۔۔۔گھر سے باہر تین لفظوں کی فقط تحریر سے۔۔۔۔اے رضا مردوں سے میرا ہے فقط اک یہ سوال۔۔۔!کب میں دنیا میں جئیوں گی عزت و توقیر سے۔۔۔۔۔؟؟ •••••••••••••• دی اینڈ •••••••••••••••******************ختم شدہ********************جس جس نے ناول پڑھا اپنی رائے لازمی دیتے جائے🫶

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت

1 of 3