برطانیہ کے قومی ادارہ صحت (این ایچ ایس) کے مطابق جنسی خواہش میں کمی کا مسئلہ ہر پانچ میں سے ایک مرد کو درپیش ہے جبکہ خواتین کو یہ مسئلہ اس سے زیادہ متاثر کر سکتا ہے اور ان کی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر جنسی خواہش میں کمی کے مسئلے کی شرح مردوں سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہے مگر جنسی خواہش میں کمی کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ آپ کی جنسی زندگی کو سنگین طبی مسائل یا خطرات لاحق ہیں۔ اس کی وجوہات میں آپ کی پیشہ ورانہ زندگی (یعنی کہیں آپ کو کام کی جگہ یا آفس میں کوئی مسئلہ تو نہیں) یا ذہنی تناؤ جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ زندگی کے مخصوص مراحل جیسے حمل، بچے کی پیدائش یا دودھ پلانے سے متعلق ہو سکتی ہیں۔
تاہم، اگر جنسی خواہش میں کمی کا مسئلہ غیر متوقع طور پر بار بار پیش آ رہا ہو یا مستقل ہو، تو اس کے پیچھے وجوہات کے تعین کے لیے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
ماہر نفسیات کیٹرینا ڈی موریس کہتی ہیں کہ ’سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جنسی خواہش میں کمی کا مسئلہ ہے کیا۔‘
کیٹرینا ڈی موریس برازیلین ایسوسی ایشن آف سیکشوئل میڈیسن کی سیکریٹری بھی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بعض اوقات جنسی خواہش میں کمی کے مسئلے کو عضو تناسل میں ایستادگی کے مسئلے یا نامناسب جنسی کارکردگی سے جوڑ کر الجھا دیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ صرف اور صرف جنسی خواہش کے نہ ہونے کا معاملہ ہے۔‘
اینڈو کرائنولوجسٹ ڈیاگو فونسیکا کے مطابق زندگی کی کسی سٹیج پر جنسی خواہش میں کمی یا اس کے ختم ہونے کی علامات اگر لگاتار چھ ماہ تک رہیں تو ہی اس کے علاج کے لیے تشخیصی عمل سے گزرنا چاہیے۔
ان کے مطابق کلینکل تشخیص کے عمل کے دوران بھی ہر انفرادی شخص کی صورتحال پر غور کرنا ضروری ہے۔
ماہرین کی مدد سے ذیل میں ہم چار ایسے عوامل کا تذکرہ کر رہے ہیں جو جنسی خواہش میں تبدیلی کی وجہ ہو سکتے ہیں۔
زندگی کے مختلف مراحل میں ہونے والی تبدیلیاں
سیکس کی خواہش میں کمی کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ذہنی تناؤ، تھکاوٹ، روٹین کی تبدیلی اور طرز زندگی، وہ وقت جب سیکس ممکن ہو سکتا ہے کسی اور سرگرمی میں بیت جائے جیسا کہ بچوں کا خیال رکھنا۔
کیٹرینا کا کہنا ہے کہ ’ضروری نہیں کہ یہ کسی بیماری کی وجہ سے ہو کیوں کہ شادی شدہ جوڑوں میں سیکس کی طلب میں وقت کے ساتھ کمی ہونا عام چیز ہے لیکن جب تک سیکس اطمینان بخش رہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جنسی خواہشات میں کمی کی وجہ کوئی بیماری نہیں ہے۔‘
نفسیاتی مسائل
ڈپریشن اور ذہنی تناؤ جیسے مسائل بھی کافی حد تک جنسی خواہشات کم کر سکتے ہیں۔
کیٹرینا کے مطابق جن مریضوں کو ڈپریشن کا سامنا ہوتا ہے، ان میں جنسی خواہش کی کمی دماغ میں کیمیائی عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کیوںکہ سیروٹونن اور ڈوپامین میں تبدیلی کے باعث خوشی اور جذبات کے احساسات متاثر ہوتے ہیں۔
’ایسے کیسز میں علاج سے بہتری ممکن ہوتی ہے۔‘
چند ادویات جن کا استعمال ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کے علاج کی غرض سے کیا جاتا ہے، کے باعث بھی جنسی خواہشات کم ہو سکتی ہیں۔
تاہم ایسا علاج میسر ہے جو ان اثرات کو کم کرنے میں مددرگار ہو سکتا ہے لیکن ایسا صرف کسی طبی ماہر کی مدد سے ہی ممکن ہے جو دوا کی مقدار میں کمی لا کر یا پھر ورزش کی مدد سے جنسی خواہشات کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ڈپریشن کا علاج جنسی خواہشات میں کمی کی وجہ سے ترک نہیں کر دینا چاہیے کیوں کہ لاعلاج ڈپریشن خود بھی جنسی عمل کو متاثر کرتا ہے اور نفسیاتی ادویات کو اچانک ترک کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
کٹرینا کا کہنا ہے کہ ’یہ بات ضروری ہے کہ مریض کھل کر اپنے کسی قسم کے خدشات، چاہے وہ جنسی خواہشات سے متعلق ہی کیوں نہ ہوں، ڈاکٹر کے سامنے رکھے۔‘