ایسا لگتا تھا وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی ہے‘

’جب میں صبح کے وقت اس کے پاس پہنچتی تھی تو اکثر مجھے اس کے چہرے اور آنکھوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ وہ میری راہ دیکھ رہی ہے۔ جیسے ہی میں اس کے پاس پہنچتی، تو مجھے محسوس ہوتا کہ وہ خوشی محسوس کر رہی ہے۔‘

فاخرہ جب کوما میں چلی گئیں تو بظاہر ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ ’اسے تو نہیں پتا ہوگا کہ اس کی بیٹی وفات پا چکی ہے۔ پتا نہیں وہ کیا سوچتی ہوگی۔‘

فوزیہ عظیم طاہر اپنی بیٹی فاخرہ احمد کے بارے میں بی بی سی سے بات کر رہی تھیں، جو تقریباً پندرہ سال تک کوما میں رہیں اور 28 جون کو ملتان کے نشتر ہسپتال کے ترجمان راؤ نوشاد احمد کے مطابق ان کی طبی موت کا اعلان کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ سنہ 2009 میں ڈیلیوری کے وقت فاخرہ احمد ہسپتال میں زیر علاج تھیں، جب وہ کوما میں چلی گئیں۔ جس بچی کو انھوں نے جنم دیا تھا، وہ دو روز بعد وفات پا گئی تھی۔

اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کروائی تھی، جس کے مطابق فاخرہ کی موت ایک نجی ہسپتال کے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی غفلت کا نتیجہ تھی۔

فاخرہ احمد کے والد قاضی اسماعیل طاہر کا کہنا ہے کہ یہ پندرہ سال ’ہم نے کتنی اذیت میں گزارے اور ہم پر کتنی مشکلات آئیں، یہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔‘

15 سال جو ایک ذہین طالبہ اور بینکر نے کوما میں گزارے

کوما میں جانے سے قبل فاخرہ احمد ایک نجی بینک میں کام کرتی تھیں اور ان کے کئی تحقیقی مقالے بھی شائع ہو چکے تھے۔

فاخرہ کے والد قاضی اسماعیل طاہر، جو ایک سرکاری ملازم تھے، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب وہ زچگی کے لیے اپنے والدین کے گھر آئیں تو اس وقت بھی وہ ایک تحقیقی مقالہ لکھنے کے بعد اسے پوسٹ کروانے کا کہہ رہی تھیں۔

اسماعیل بتاتے ہیں کہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی بیٹی فاخرہ بچپن سے ہی پڑھائی میں ممتاز تھیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرتے ہوئے بینک کی نوکری بھی جاری رکھی اور بینکر بننے کے خواہشمند طلبہ کو پڑھایا بھی۔

فاخرہ کی دونوں بہنیں اور ایک بھائی ڈاکٹر ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر روشناس احمد یاد کرتے ہیں کہ ’مجھے اتنا یاد ہے کہ جب وہ ماں بننے کے لیے ہمارے گھر آئی تھیں تو اس وقت شاید میں نویں کلاس میں تھا۔‘

’میرے امتحانات قریب تھے۔ اس وقت بھی وہ نہ صرف مجھے پڑھا رہی تھیں بلکہ باقاعدہ دیکھتی تھیں کہ میں امتحان کے لیے تیار ہو رہا ہوں یا نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فاخرہ احمد ہی تھیں جن کی بدولت آج میں ڈاکٹر ہوں۔‘

نشتر ٹیچنگ ہسپتال ملتان کی اسٹاف نرس زبیدہ نے تقریباً 12 سال تک آئی سی یو وارڈ میں کام کیا ہے اور اس عرصے میں فاخرہ احمد بھی ان کی زیرِ نگرانی رہی ہیں۔

زبیدہ بتاتی ہیں کہ ان سمیت دیگر اسٹاف کی فاخرہ کے ساتھ ’اُنسیت پیدا ہو گئی تھی۔‘

’فاخرہ آنکھیں تو کھول سکتی تھی مگر حرکت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ بہت کم سوچ اور سمجھ سکتی تھی۔ وہ کروٹ بھی نہیں بدل سکتی تھی۔ اکثر جب ہم وارڈ میں ہوتے تو کبھی کبھار وہ آنکھیں گھما کر ہمیں دیکھتی تھی۔‘

کوما کی حالت میں ایک انسان کسی چیز پر ردعمل نہیں دے پاتا مگر طبی عملہ یہ ضرور نوٹ کرتا رہا کہ ’کبھی ایک ہی طرف لیٹے لیٹے وہ تنگ ہو جاتی تو اس کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے تھے۔ چہرے پر تکلیف کے تاثرات ہوتے تو ہم اس کی کروٹ بدل دیتے تھے جس سے اس کے چہرے کی تکلیف کم ہو جاتی تھی۔‘

زبیدہ کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ فاخرہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے مگر وہ کہتی ہیں کہ ’اس سارے عرصے کے دوران ان کی ماں اور خاندان نے حق ادا کیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فاخرہ کی والدہ نے ان 15 سالوں میں اپنا آرام، سکون، وقت اور سب کچھ اپنی بیٹی کو دینے کی کوشش کی۔ ’وہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں۔‘

ابسٹیئوٹ آف بینکرز ایسوسی ایشن کی تقریب میں فاخرہ احمد کو پہلی پوزیشن لینے پر ایوارڈ دیا گیا تھا

انصاف اور نئی زندگیکی کوشش

قاضی اسماعیل طاہر کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ آف پاکستان، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن، اور حکومت پنجاب کی انکوائریوں میں یہ ثابت ہوا کہ نجی ہسپتال کے ڈاکٹروں اور عملے کی غفلت کی وجہ سے فاخرہ کی یہ حالت ہوئی، مگر آج تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘

انہوں نے بتایا کہ فاخرہ کی ڈیلیوری نارمل تھی، لیکن انہیں ’بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ہم سے اور نہ ہی فاخرہ سے اس کی اجازت لی گئی تھی۔‘

’یہ انجیکشن کسی ماہر ڈاکٹر یا اس کی نگرانی میں نہیں لگایا گیا بلکہ ایک مِڈ وائف نے لگایا۔ تمام انکوائریوں میں یہ ثابت ہوا کہ حد سے زیادہ ڈوز دی گئی تھی۔‘

قاضی اسماعیل طاہر بتاتے ہیں کہ انکوائری رپورٹس میں یہ بھی ثابت ہوا کہ فاخرہ کا ’بلڈ پریشر چیک کرنے کے لیے کوئی مانیٹرنگ سسٹم نہیں تھا۔ جب وہ کوما میں چلی گئیں تو کافی دیر تک کسی کو علم نہیں ہوا۔‘

’نجی ہسپتال میں ایمبولینس تک دستیاب نہیں تھی۔ ایمبولینس بھی باہر سے منگوائی گئی۔‘

’میں ہر جگہ کوشش کر رہا تھا مگر کوئی توجہ نہیں دے رہا تھا۔ صورتحال اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ اس وقت نشتر ہسپتال کی انتظامیہ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ مریض کو اتنے طویل عرصے ہسپتال میں نہیں رکھا جا سکتا جس پر میں نے عدالت سے رجوع کر کے ریلیف حاصل کیا تھا۔‘

انکوائری رپورٹ

2009 میں ہی سپریم کورٹ کے احکامات پر ایک تین رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کی سربراہی ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ملتان ڈاکٹر افتخار حسین قریشی نے کی۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ ’اس افسوس ناک واقعے کا آغاز اس وقت ہوا جب انیستھیزیا لگانے والے ماہر ڈاکٹر ٹیسٹ ڈوز لگانے کے بعد ہسپتال سے چلے گئے، اور ایک مڈ وائف لیول پیرامیڈک، جس کے پاس انیستھیزیا لگانے کی مہارت نہیں تھی، نے ٹاپ اپ ڈوز دی، جس کے بعد مریضہ کی حالت خراب ہو گئی۔ گائناکولوجسٹ نروس ہو گئیں اور درست طریقے سے سی پی آر یعنی مصنوعی تنفس فراہم نہیں کر سکیں۔‘

رپورٹ میں لکھا گیا کہ ’گائناکولوجسٹ نے دوسرے ڈاکٹر کو بلانے میں قیمتی وقت ضائع کیا اور مصنوعی تنفس فراہم کرنے میں اس تاخیر کی وجہ سے مریضہ کے دماغ کو شدید نقصان پہنچا۔‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ہسپتال کی یہ ذمہ داری تھی کہ ڈیلیوری کے پورے عمل کے دوران انیستھیزیا ماہر موجود رہتا‘ اور فاخرہ کی حالت کا ذمہ دار ڈاکٹروں کی غفلت سمیت ملتان کے نجی ہسپتال کی انتظامیہ اور سٹیک ہولڈرز کو قرار دیا گیا۔

عدالتی حکم اور انشورنس کی ادائیگی

قاضی اسماعیل طاہر کو اس بات پر خوشی ہے کہ سول سوسائٹی ان کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’عدالت نے بینک کو ہدایت دی تھی کہ فاخرہ کی انشورنس کی رقم فوراً ادا کی جائے۔‘

انشورنس کے 23 لاکھ روپے میں مزید رقم ملا کر وہ فاخرہ کو لے کر چین کے ایک بڑے ہسپتال بھی گئے تھے۔ انہیں امید تھی کہ جدید ٹیکنالوجی سے ان کا علاج ممکن ہو سکے گا، ’مگر فاخرہ صحتیاب نہ ہو سکی جس کے بعد ہم لوگ واپس ملتان آ گئے۔‘

اس کے بعد فاخرہ کو دوبارہ ملتان کے نشتر ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ ان کے والد کے مطابق ان کا گھر چونکہ ہسپتال سے فاصلے پر تھا اس لیے انہوں نے وہ گھر چھوڑ کر ہسپتال کے قریب کرایہ پر ایک دوسرا گھر ڈھونڈا۔

اس سارے عرصے میں فاخرہ کی والدہ ان کے لیے ہر وقت موجود رہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’15 سال کے دوران میں صرف ایک مرتبہ اپنی والدہ کی وفات پر شہر سے باہر گئی تھی۔ اس کے مختلف کام ہوتے تھے جیسے پیمپر تبدیل کرنا، اس کے کپڑے دھونا، اسے نہلانا۔‘

قاضی اسماعیل طاہر بتاتے ہیں کہ وہ صبح فاخرہ کے پاس جاتیں اور کافی دیر تک وہاں رہنے کے بعد دوپہر کو تھوڑی دیر کے لیے واپس آتیں۔ ’شام کو پھر چلی جاتیں۔ رات کو فاخرہ کے کپڑے وغیرہ دھوتیں اور ان کی ضرورت کا سامان تیار کرتی تھیں۔ اس دوران کبھی ہمارے گھر ایک وقت کھانا پکتا اور کبھی نہیں پکتا تھا۔‘

فاخرہ کی ماں بننے کی تیاریاں

فاخرہ کی والدہ فوزیہ عظیم طاہر کا کہنا تھا کہ فاخرہ کی شادی ارینج میرج تھی۔ انہوں نے شادی کے بعد بھی اپنی ملازمت جاری رکھی۔ ڈیلیوری سے قبل وہ اپنے والدین کے پاس آ گئیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس دوران فاخرہ ’اکثر میرے ساتھ اپنے آنے والے بچے کے بارے میں بات کرتی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ وہ اسے سب سے اچھے سکول میں داخل کروائے گی، اس کی بہترین تربیت کرے گی، اور اسے ایک کامیاب انسان بنائے گی جس پر سب فخر کر سکیں۔‘

’وہ اکثر کہتی تھی کہ میں ملازمت کرتی ہوں اور ملازمت چھوڑنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ پتہ نہیں بچے کی دیکھ بھال کیسے کروں گی۔‘

فاخرہ نے اپنی ڈیلیوری سے قبل بچے کے کپڑے اور دیگر سامان سمیت ہر چیز کی تیاری خود کی۔ ڈیلیوری کے لیے جاتے ہوئے وہ ’بہت خوش تھی کہ وہ ماں بننے جا رہی ہے۔‘

فوزیہ عظیم طاہر بتاتی ہیں کہ جب فاخرہ کوما میں چلی گئیں تو بظاہر لگتا تھا کہ وہ کسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ ’اس کو تو نہیں پتہ ہوگا کہ اس کی بیٹی مر چکی ہے۔ پتہ نہیں وہ کیا سوچتی ہوگی۔ اکثر اوقات جب میں ہسپتال میں اس کے کام کر رہی ہوتی تھی تو مجھے یہ فکر رہتی کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ فاخرہ کے شوہر کچھ دن تک اپنی بیمار بیوی کو دیکھنے ہسپتال آتے تھے مگر ’بعد میں اس نے آنا جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ جوان بچہ تھا، اس نے اپنے مستقبل کا سوچا ہوگا۔ مگر بس اتنا خیال تو ضرور آتا ہے کہ وہ اس کے بچے کی ماں بنی تھی، ہماری تسلی کے لیے ہی پوچھ لیتا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فاخرہ کی موت کی اطلاع کے بعد ’اگر وہ دو جملے بھی بول دیتا تو ہمیں اچھا لگتا۔‘

اس دوران فوزیہ عظیم طاہر نے یہ بھی بتایا کہ ان کا خاندان ہر سال فاخرہ کی سالگرہ مناتا تھا اور دیگر تقریبات جیسے بہنوں کی شادیوں کے موقع پر بھی وہ زیادہ وقت فاخرہ کے بستر کے پاس گزارتے تھے۔

’ لگتا تھا فاخرہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی ہے‘

فاخرہ کی والدہ فوزیہ عظیم طاہر بتاتی ہیں کہ اگرچہ ان کی بیٹی کوما میں تھی مگر اس دوران انھیں یہ بات اطمینان دیتی تھی کہ ان کی سانسیں چل رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں جب صبح کے وقت اس کے پاس پہنچتی تو اکثر مجھے اس کے چہرے اور آنکھوں میں دیکھ کر ایسے لگتا کہ وہ میری راہ دیکھ رہی ہے اور جیسے ہی میں اس کے پاس پہنچتی تو مجھے لگتا کہ وہ خوشی محسوس کر رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ جب میں اس کے کام شروع کرتی تو وہ مجھے کچھ تکلیف محسوس ہوتی مگر جب میں اس کے کام مکمل کر دیتی تو اس وقت مجھے محسوس ہوتا کہ وہ مجھے مسکراہٹ دے رہی ہے۔ اس کی مجھے اتنی خوشی ہوتی کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔‘

فوزیہ عظیم طاہر کا کہنا تھا کہ کوما کے شروع میں ہی فاخرہ مختلف مسائل کا شکار ہوچکی تھی۔ اس کا مدافعتی نظام بالکل ختم ہوچکا تھا۔ وہ مختلف قسم کے انفیکشنز کا شکار ہوچکی تھی۔ ’جب وہ انفیکشن کا شکار ہوتی تو میں اس کی تکلیف محسوس کر لیتی تھی۔‘

پہلے وہ یہ دعا کرتی تھیں کہ فاخرہ کو ان کی زندگی واپس مل جائے اور پھر انفیکشنز سے حالت خراب ہوتی ہوئی دیکھ کر ’میں نے دعا کرنا شروع کر دی کہ اللہ کسی بھی رنگ میں اس کی تکالیف کو ختم کر دے۔‘

فاخرہ کے والد قاضی اسماعیل طاہر یہ پیغام دیتے ہیں کہ ’ہم یہ نہیں کہتے کہ سب ڈاکٹرز اور طبی عملہ لاپروائی کرتا ہے۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس پیشے میں لاپروائی اور غلطی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔‘

’ہم چاہتے ہیں کہ پورے ملک کے ڈاکٹرز اور طبی عملہ ہماری 15 سال کی کہانی سنے۔‘ وہ چاہتے ہیں کہ اب آئندہ کوئی بھی اس درد اور تکلیف سے نہ گزرے جس سے ان کا خاندان گزرا ہے۔

Exit mobile version