خبریں

’’وہ اپنے رب کے پاس ہیں”

**ڈاکٹر آلاء النجار کے نو بچوں کی المناک شہادت

وہ اپنے رب کے پاس ہیں

بچے چلے گئے ہیں، آلاء!میں نے بلند آواز میں کہا، مگر انھوں نے نہایت پُرسکون لہجے میں جواب دیا،

’’وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور رزق پا رہے ہیں۔‘‘

یہ دلخراش مکالمہ سحر النجار نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے سنایا۔

سحر کے مطابق جمعے کی شب خان یونس کے علاقے قزان النجار میں ان کی بہن، غزہ کی ماہرِ اطفال ڈاکٹر آلاء النجار کے گھر پر اسرائیلی بمباری ہوئی، جس میں ان کے نو بچے شہید ہو گئے، جبکہ ایک بیٹا شدید زخمی ہے اور ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ ان کے شوہر، ڈاکٹر حمدی النجار بھی اس حملے میں زخمی ہوئے اور انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہیں۔اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے خان یونس میں چند مشتبہ افراد کو نشانہ بنایا، اور شہریوں کی ہلاکتوں سے متعلق الزامات کی جانچ کی جا رہی ہے۔غزہ ٹوڈے پوڈکاسٹ کو دیے گئے انٹرویو میں سحر النجار نے بتایا کہ آلاء النجار شدید ذہنی اور جذباتی صدمے میں ہیں۔ اگرچہ وہ اس وقت صبر و ہمت کا مظاہرہ کر رہی ہیں، مگر سحر کو خدشہ ہے کہ وقت کے ساتھ وہ ٹوٹ جائیں گی۔’’یحییٰ، راکان، رسلان، جبران، حوا، روان، سیدین، لقمان، سدرہ۔۔۔ یہ سب معصوم پھول تھے۔ سب سے بڑے کی عمر بارہ سال اور سب سے چھوٹے کی صرف چھ ماہ۔ ان میں سے تمام بڑے بچے حافظِ قرآن تھے، اور ان کی عمروں میں صرف ایک ایک سال کا فرق تھا۔‘‘

سحر نے مزید بتایا کہ بمباری کے وقت بچ جانے والا آلاء کا واحد بیٹا، آدم، اس وقت ہسپتال میں انتہائی نازک حالت میں ہے اور دو آپریشنز کے بعد بھی وہ زیرِ علاج ہے۔ڈاکٹر آلاء کو اپنے بچوں کی شہادت کی خبر اس وقت ملی جب وہ ناصر میڈیکل کمپلیکس میں دیگر بچوں کی زندگیاں بچانے میں مصروف تھیں۔ ان کے شوہر بھی شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔سحر نے کہا، ’’آلاء اپنے گھر کی طرف دیوانہ وار بھاگ رہی تھیں تاکہ بچوں کو ایک آخری بار دیکھ سکیں، مگر ہم لاشیں نہیں نکال سکے۔۔۔ وہ سب خاکستر ہو چکے تھے، ان کے جسموں کے ٹکڑے تک نہ ملے۔‘‘سحر نے واضح کیا کہ ان کا خاندان کسی عسکری گروہ سے منسلک نہیں، بلکہ سب میڈیکل شعبے سے وابستہ ہیں۔ ’’ہم سب اسی لیے اکٹھے تھے کہ شاید ایک ساتھ رہنے سے زیادہ محفوظ رہیں، مگر یہ سب کچھ لمحوں میں ختم ہو گیا۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’حملے سے پہلے ہمیں خطرے کا احساس ہو رہا تھا، ریڈ کراس سے مدد کے لیے رابطہ بھی کیا۔ طیاروں کی گھن گرج اور لگاتار حملوں نے خوف طاری کر رکھا تھا۔ ہمارے گھر پر ایک میزائل بھی گرا جو خوش قسمتی سے پھٹا نہیں۔‘‘سحر نے بتایا کہ ان کے والد نے سفید جھنڈا بلند کرنے کو کہا تاکہ وہ پڑوسیوں کے گھر تک بحفاظت جا سکیں، مگر اسرائیلی طیاروں نے دوبارہ حملہ کیا۔ایک رشتہ دار، علی نے کہا، ’’ڈاکٹر آلاء نے مجھے گلے لگایا جیسے وہ الوداع کہہ رہی ہوں۔ ان کی آنکھوں میں اب بھی امید تھی کہ ان کا بیٹا زندہ ہے، اور وہ اسے جگانے کی کوشش کر رہی تھیں۔‘‘علی کے مطابق، صرف سات بچوں کی لاشیں مل سکیں جنھیں دو قبروں میں دفن کیا گیا۔ ’’دو بچے ابھی تک لاپتہ ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک ان کو تلاش نہ کر لوں، میں کوشش جاری رکھوں گا تاکہ انھیں عزت کے ساتھ دفن کر سکوں۔‘‘خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ایک اور رشتہ دار یوسف النجار نے دنیا سے درد بھرا مطالبہ کیا:’’بس بہت ہو گیا! ہم پر رحم کریں۔ ہم دنیا بھر کی اقوام، بین الاقوامی برادری، حماس اور دیگر تمام گروہوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہم پر ترس کھائیں۔ ہم مسلسل نقل مکانی، بھوک، اور خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بس کریں۔‘‘

11 سالہ آدم ڈاکٹر آلاء النجار کا واحد زندہ بچ جانے والا بچہ ہے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت