بلاگخبریں

وہ سائے کہ جو مرنے والوں کے بعد ان کے پیچھے رہ گئے

آج اس بات کو 80 سال بیت چکے کہ ناگاساکی کے اوپر ۔۔۔ایک ایٹم بم گرا تھا ۔کہتے ہیں کہ اس بم کو أصلاً ایک اور شہر ’’کوکورا ‘‘ پر گرائے جانا تھا لیکن ۔۔۔کوکورا میں بہت زیادہ دھند چھائی ہوئی تھی مگر پائلٹ کے لیے آرڈرز ۔۔۔بڑے واضح تھے کہ اگر ’’کوکورا ‘‘ نہیں ۔۔۔ تو دوسرے بڑے شہر ناگاساکی کے اوپر گرا دینا ۔اور آج کی تاریخ ۔۔۔ یعنی 9 اگست کی صبح کو جب ’’fat man‘‘ نامی یہ بم ناگاساکی پر گرا ۔۔۔تو لمحوں کے اندر اندر ہر چیز ۔۔۔ بخارات میں تبدیل ہو گئی ۔

درخت ، انسان ، پانی ، جانور ، کچھ بھی نہ بچا لیکن کچھ جگہوں پر ایسا ہوا ۔۔۔کہ وہ چیز تو اپنی جگہ سے فناء ہو گئی لیکن اس کا سایہ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔ پیچھے رہ گیا ۔مثلاً سیڑھیوں پر بیٹھے ایک شخص کا سایہ کہ جو ’’Sumitomo‘‘ بینک کے باہر بیٹھااس وقت ۔۔۔ شاید بینک کے کھلنے کا انتظار کر رہا ہو گا ۔یا پھر ایک ماں اور بچے کا سایہ کہ جو دھماکے کے وقت ایک دوسرے کو ۔۔۔ گلے لگائے ہوئے تھے ۔کہتے ہیں کہ یہ دوسرا سایہ سالوں تک ۔۔۔ اپنے دیکھنے والوں کو ڈراؤنے خواب دکھاتا رہا تھا ۔لیکن جو کچھ بھی بخارات بن کر اوپر گیا ، اگلے کئی دن تک ۔۔۔وہ کالے رنگ کی ایک بارش بن کر نیچے برستا رہا تھا ۔سیاہ رنگ کی چکنی ، لیس دار بارش کہ جس کے متعلق آج بھی ۔۔۔ناگاساکی کے دیہاتوں میں ایک داستان مشہور ہے کہ جو لوگ اس بارش میں بھیگ گئے ان کی جلد پر ۔۔۔ ایسے دھبے اور سائے بن گئے کہ جو ساری زندگی ۔۔۔ ان کے جسم پر نقش رہے تھے ۔ایک خاتون ’’کائیکو یاماموٹو‘‘ کہ جو اس وقت ایک چھوٹی سی بچی ہی تھیں بتاتی ہیں کہ میں اور میری ماں ۔۔۔شہر سے بھاگ رہے تھے کہ اچانک ۔۔۔ یہ کالی بارش شروع ہو گئی کہ جس کی بوندیں ٹھنڈی اور پرسکون نہیں بلکہ ۔۔۔ گرم اور جلنے کی سی بدبو والی تھیں ۔ہم نے اپنی اپنی چادریں اوڑھ لیں اور ہم ۔۔۔ اندھا دھند بھاگ رہے تھے ۔ میں رو رہی تھی اور میری ماں چلا رہی تھی کہ بیٹا مونہہ مت کھولنا ورنہ یہ زہر تمہارے اندر چلا جائے گا ۔اور ہم دیکھ رہے تھے کہ ساری رات زمین ۔۔۔ نیلے رنگ کی روشنی دیتی رہی کہ جیسے وہ بھاگنے والوں کو ۔۔۔ راستہ دکھا رہی ہو ۔سالوں بعد ماہرین کہتے ہیں کہ وہ cherenkov radiation ہو سکتا ہے لیکن مقامی لوگ آج بھی اسے ۔۔۔ راہ دکھانے والی روشنی ہی کہتے ہیں ، جبکہ وہ سائے کہ جو مرنے والوں کے بعد ان کے پیچھے رہ گئے تھے ۔کچھ سائے تو چند سالوں بعد مدہم ہو گئے لیکن کچھ سائے کئی سالوں تک ۔۔۔ ویسے کے ویسے ہی رہے تھے ۔اگر آپ کبھی ناگاساکی میں بچ جانے والے لوگوں کہ جنہیں جاپانی زبان میں ’’ہیباکوشہ‘‘ کہتے ہیں ، ان کے بتائے ہوئے واقعات پڑھیں ۔۔۔تو وہ بتاتے ہیں کہ ان سائیوں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے ان کے مالک وہیں کھڑے ابھی بھی ۔۔۔ بچائے جانے کا إنتظار کر رہے ہوں ۔بعد میں کچھ لوگوں نے ان سائیوں کو مٹانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ دھو کر ، رگڑ کر ، کھرچ کر لیکن وہ سائے پھر سے واپس آ جاتے ۔ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے بم کی تابکاری نے سائے کو پتھر کے اندر گہرائی تک ۔۔۔ پرنٹ کر دیا تھا ۔اگر آپ کبھی ان سائیوں کو دیکھیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ ایک لمحے ۔۔۔ صرف ایک لمحے پہلے زندگی کتنے معمول پر ہوتی ہے جبکہ اگلے ہی لمحے ۔۔۔آپ کی ساری دنیا بدل سکتی ہے ۔ یہ زندہ سائے اور کالی بارش دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایٹم بم کے بانی ڈاکٹر اوپن ہائمر نے یہ کیوں کہا تھا کہ اب ۔۔۔میں ایک موت بن گیا ہوں ، دنیاؤں ۔۔۔ کو تباہ کرنے والا ۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تکلیف دہ یادوں سے ایک عبرت ناک واقعہ ۔۔۔میری طرف سے آپ سب کے لیے ۔

پڑھنے کے لیے شکریہ فرقان قریشی

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت