ایک طرف جہاں فوٹو جرنلسٹ معتز عزايزہ اور الجزیرہ کے وائل دحدود سمیت سیکڑوں صحافی غزہ کی مسلسل رپورٹنگ میں مصروف ہیں تو وہیں 9 سالہ فلسطینی بچی لامہ ابو جامس بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔
وہ چھوٹی عمر میں صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جنگ زدہ علاقے کی حقیقت دنیا کے سامنے لا رہی ہیں۔
ترکیہ نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کی جانب سے شئیر کی گئی ویڈیو میں لامہ ابو جامس اپنا تعارف کروارہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کی غزہ پر شدید بمباری کے بعد لامہ ابو جامس نے صحافتی ذمہ داریاں سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور کمیونٹی کے بچوں اور خواتین کو درپیش مشکلات رپورٹ کرتی رہیں۔
وہ غزہ کے رفع بارڈر کے قریبی علاقے میں بمباری کے دوران بے گھر ہوگئی تھیں۔
غزہ کی درد ناک کہانیاں اور وہاں کے لوگوں کو درپیش مشکلات کی رپورٹنگ کرنے سے متعلق ویڈیوز وہ اپنے انسٹاگرام پیچ پر اپلوڈ بھی کرتی ہیں۔
مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے 9 سالہ فلسطینی صحافی کا کہنا ہے کہ وہ یہاں روزانہ زخمی افراد اور شہدا کے جسم کے اعضا بکھرے ہوئے دیکھتے ہیں۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لامہ ابو جامس پریس کی سیفٹی شیلڈ جیکٹ پہن کر فلسطینیوں کے انٹرویوز بھی کررہی ہیں۔
9 سالہ لامہ کو صحافت بے حد پسند ہے، انہوں نے کہا کہ ‘میں فلسطین کے بچوں کی آواز کو دنیا تک پہنچانا چاہتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ دنیا فلسطین کے بچوں کی آواز سنے، ہم اذیت، فاقہ کشی اور جبری نقل مکانی کا سامنا کر رہے ہیں، اس سب کے درمیان ہم چاہتے ہیں کہ دنیا فلسطین کی آواز سنے’۔
یاد رہے کہ غزہ میں سرکاری میڈیا آفس کی طرف سے جاری کردہ نئے اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک کم از کم 100 سے زائد صحافی مارے جاچکے ہیں۔
غزہ میں فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
جنگ جیسے علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت تحفظ حاصل ہے، جن کی اسرائیل بار بار خلاف ورزی کررہا ہے۔
فلسطینی صحافیوں نے کہا ہے کہ اسرائیل جان بوجھ انہیں خاموش کرنے کے لیے انہیں نشانہ بنا رہا ہے۔