حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے مضبوط دل اور حوصلہ مند انسان تھے ۔ مشکل سے مشکل وقت اور کڑے سے کڑے حالات میں بھی آپ صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو صبروتحمل ، شجاعت اور مردانگی کا سبق دیا لیکن ان کی زندگی میں بھی چند مواقع ایسے آئے جب ان کی مبارک آنکھیں بے اختیار اشک بار ہوگئیں۔
ان میں سے ایک موقع وہ تھا جب غزوہ احد میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ ان کے گھر تشریف لے گئے ان کے بچوں کو پیار کیا اور ان کی شہادت کی خبر ان کی رفیقہ حیات کو دی ۔ اس موقع پر آپ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
ایک موقع وہ تھا جب آپ کے ڈیڑھ سالہ فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ انتقال کر گئے۔
اس وقت بھی ہزار ضبط کے باوجود آپ کی آنکھیں پُر نم ہوگئیں۔اور ایک موقع وہ تھا جب غزوہ بد رسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ ابوا کے لئے گئے۔ غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک پر حاضر ہوئے جو اسی نواح میں تھی۔ وہاں آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعجب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی آنکھوں میں آنسو ! مطلب یہ تھا کہ آپ تو فرمایا کرتے ہیں کہ مرتے والوں پر رونا نہیں چاہیے لیکن اب آپ جیسے جری اور مضبوط انسان کی آنکھیں بھی نمناک ہیں۔
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بیٹے کی طرف سے اپنی والدہ محترمہ کی جناب میں نذرانہ عقیدت و احترام ہے۔ان آنسووٴ ں کو کم حوصلگی یا تھڑ دلی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ توبے اختیار آنسو ہیں جو اس ”حرم محترم“ میں حاضری کا خراجِ عقیدت ہے ۔ یہ ماں کے ان قدموں میں، جن کے نیچے جنت ہوتی ہے، گلہائے عقیدت کے طور پر آنسووٴں کا گلدستہ ہے۔
سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن اقدس سے جنم لیا اور ان کی آغوش میں پروان چڑھے۔ اس لحاظ سے بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا تمام عالم کی خواتین میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں کہ خاتم الانبیاء کو جنم دینے اور پالنے کا شرف آپ کے حصے میں آیا۔
بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کا تعلق عرب کے معزز ترین قبیلہ بنوقریش سے تھا۔
آپ کے والدوہب بن عبد مناف بن کلاب تھے اور والدہ برة بنت عبدالعزیٰ بن کلاب تھیں۔آپ نہایت پرہیزگار اور پاکباز خاتون تھیں۔ آپ کا نکاح حضرت عبدالمطلب کے پیارے بیٹے حضرت عبداللہ سے ہوا۔ نکاح کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہ تجارت کے لئے شام کو روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر آپ بیمار ہو گئے اور بیماری کی حالت میں واپس آرہے تھے کہ یثرب سے گزرتے ہوئے والد کی ننھیال میں ٹھہر گئے او وہیں وفات پائی۔
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد اس عالم میں بیوگی کا صدمہ اٹھایا کہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بطن مطہر میں پرورش پار ہے تھے۔
20 اپریل571 ء بروز پیر صبح کے وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت آمنہ کو وہ بیٹا عطا کیا جسے آگے چل کر تمام عالم کی فلاح کی ذمہ داری اٹھانا تھی۔ حضرت عبدالمطلب نے پوتے کی خوشی میں قربانی کے لئے اونٹ ذبح کئے اور سارے عرب میں غریبوں کو کھانا کھلایا۔
اس موقع پر تمام قبائل کے بڑے بڑے سرداروں نے بچے کود یکھا اور حضرت عبدالمطلب کو مبارکباد دی۔اس موقع پر آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے بچے کا نام( محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) یعنی بہت تعریف کیا گیا رکھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت عرب میں یہ رواج تھا کہ پیدائش کے بعد شرفاء اپنے دودھ پیتے بچے کو اچھی تربیت اور پرورش کے لئے صحرا یا دیہات میں دایہ کے حوالے کر دیتے تھے تاکہ بچے باہر کی کھلی اور صحت بخش ہوا میں پرورش پاسکیں۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارکہ چھ ماہ ہوئی تو آپ کو بھی قبیلہ بنی سعد کی ایک خاتون حضرت مائی حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر دیا گیا۔
کچھ عرصہ بعد حضرت مائی حلیمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس مکہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس لائیں مگر شہر میں وبا پھیلی ہوئی تھی اس لئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہانے اپنے نورِ نظر اور لخت جگر کو دوبارہ حضرت مائی حلیمہ کے سپرد کر کے واپس بھیج دیا۔
جب مائی حلیمہ دوبارہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس لائیں تو ان کی عمر مبارک تقریباََ چھ سال تھی۔ آپ بڑے توانا او تندرست تھے گویا جس مقصد کے لئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے اکلوتے فرزند کی جدائی کا صدمہ سہا تھا وہ پورا ہو چکا تھا۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے ہمراہ رہنے لگے۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پیارے بیٹے کا بڑا خیال تھا۔
وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتیں۔ حضرت عبداللہ کے انتقال کے بعد حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا ہر سال ان کی قبر کی زیارت کو مدینہ تشریف لے جاتیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر اس وقت چھ برس کی تھی جب آپ کی والدہ آپ کو ساتھ لے کر یثرب (مدینہ) گئیں۔ مدینہ میں ایک ماہ کے قیام کے بعد جب واپس تشریف لا رہی تھیں تو مدینہ اورمکہ کے درمیان ابوا کے مقام پر وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں۔