’’میرا سب کچھ ہے میری ماں کی زباں‘‘

21 فروری کومنائے جانے والے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی رپورٹ

یہ بات متعدد تحقیقات سے ثابت ہو چکی ہے کہ کسی بھی معاشرے کی مادری زبان اس کی ترقی اور شرحِ خواندگی میں اضافے میں اہم کردار ادا کر تی ہے۔ تعلیم کی شرح بڑھانے کے لیے سب سے آسان نسخہ مادری زبان کا فروغ ہے ۔اور یہ بالکل حقیقت ہے
میری پہچان، میرا تن من دھن
میرا سب کچھ ہے میری ماں کی زباں
پاکستان کی بات کی جائے تو صرف صوبہ سندھ میں سندھی زبان اور سندھی ثقافت کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے وگرنہ پنجاب میںتو یہ بھی دن دیکھے گئے کہ سالوں قبل صوبائی اسمبلی کے رکن فضل راہی کو محض اس بات پر سپیکر نے اسمبلی سے بے دخل کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنی تقریر پنجابی زبان میں کی تھی۔ اس پر خاصا ہنگامہ ہوا جس کے بعد اسمبلی میں پنجابی زبان میں تقریر کرنے کی اجازتِ عام کا بل پاس ہوا مگر ابھی تک پنجاب اسمبلی میں دیگر علاقائی زبانیں تو دور‘ پنجابی میں بھی تقریر خال خال ہی سننے کو ملتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جس ملک میں دفتری زبان کا درجہ بھی ایک بدیشی زبان کو حاصل ہو‘ وہاں مادری زبانوں کو کس کھاتے میں رکھا جاتا ہو گا۔
انگریزی اور ’’مادری‘‘ زبان کے تناظر میں دو واقعات کا ذکر بہت برمحل ہے۔ جوش ملیح آبادی اپنی کتاب ’’یادوں کی برات‘‘ میں لکھتے ہیںکہ ایک دفعہ میں پاکستان سے واپس بھارت گیا تو نہرو صاحب نے میری اس حوالے سے کافی کلاس لی کہ آپ اردو‘ اردو کرتے ہیں مگر جس اردو کے واسطے آپ نے اپنے وطن کو تج دیا ہے۔ اس اردو کو پاکستان میں کوئی منہ نہیں لگاتا۔ جس پر میں نے شرم سے آنکھیں نیچی کر لیں۔ اُن سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ان کی باتیں سن کر مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا کہ میں نے پاکستان کے ایک بڑے ’’شاندار منسٹر ‘‘ کو جب اردو میں خط لکھا اور اُن صاحب بہادر نے انگریزی میں جواب مرحمت فرمایا، جس پر میں نے جواب الجواب میں یہ لکھا کہ جنابِ والا! میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا، لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی ’پدری‘ زبان میں تحریر فرمایا؟۔
درحقیقت مادری زبان کسی بھی طرح قومی ترقی یا قومی زبان کے لیے خطرہ نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی ملک میں ایک سے زیادہ زبانیں اسی طرح ہیں جیسے چمن میں مختلف رنگ کے پھول۔ ضرورت تو محض ان رنگوں کو نکھارنے کی ہے نہ کہ ان زبانوں کے شگوفوں کو مسلنے کی۔
ایک عالمی ادارے (Living Tongues Institute of Endangered Languages) کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے نصف کے وجود کو معدومیت کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ایک زبان کے مٹ جانے سے محض ایک زبان کی ہی کمی نہیں ہوتی بلکہ اقلیتی زبانوں کے ختم ہو جانے سے اس زبان سے منسلک صدیوں پر محیط تہذیب و ثقافت، انسانی علوم اور تاریخ بھی صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ جو زبانیں خطرے سے دوچار ہیں ان میں سے بعض ایسی بھی ہیں جو محض چند افراد ہی بول سکتے ہیں۔ اسی طرح یونیسکو کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں اور 1950ء سے لے کر اب تک 573 زبانیں ناپید ہو چکی ہیں جبکہ مزید 2500 مقامی زبانوں کے سروں پر معدومیت کا خطرہ منڈلا رہا ہے کیونکہ ان کو بولنے والوں کی تعداد میں روز بروز کمی ہو رہی ہے۔ مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے جبکہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کی معدومیت کے خطرے کے ساتھ بھارت اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ امریکا کی 191، برازیل کی 190، انڈونیشیا کی 147 اور چین کی 144 زبانوں کی بقا خطرے سے دوچار ہے۔ واضح رہے کہ بھارت میں 121 مختلف زبانوں میں 270 سے زائد مقامی یا مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ اردو‘ بنگالی اور کشمیری سمیت 22 زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ برٹش کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 375 ملین افراد کی مادری زبان انگریزی ہے جبکہ باقی لوگ ثانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی بولتے ہیں۔
پاکستان بھی ایک کثیر اللسان خطہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہاں کم از کم 74 زبانیں مختلف لہجوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ صرف خیبر پختونخوا میں 28 سے زائد زبانیں رائج ہیں‘ اسی طرح گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں بھی چند چھوٹی چھوٹی زبانیں بولی جاتی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ بدلتے دور اور رواجوں کے ساتھ ان زبانوں کی بقا کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا جا رہا۔ زبانوں کی معدومیت میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہاں پر مقامی زبانوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، کوئی ایسا سافٹ وئیر تیار نہیں کیا گیا جس میں مقامی سطح پر بولی جانے والی زبانوں کو ٹائپ کیا جا سکے۔ پھر نوجوان نسل میں ان زبانوں کو سیکھنے کا رواج بالکل ناپید ہو چکا ہے کیونکہ یہ زبانیں مقامی، قومی یا عالمی سطح پر نوجوانوں کے کسی کام کی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان زبانوں کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ زبان متروک ہونے کی پہلی علامت زبان کے حروف تہجی سے لاعلمی ہے۔ اس وقت زیادہ تر مقامی زبانیں اگر کہیں لکھی بھی جاتی ہیں تو ان کے لیے اردو رسم الخط ہی استعمال کیا جاتا ہے اور اردو کے حوالے سے بھی گنتی کے چند ہی سافٹ ویئرز دستیاب ہیں۔ اگر یہ روش برقرار رہی تو چند دہائیوں تک ایسی تمام زبانوں کے قصۂ پارینہ بن جانے کا خدشہ ہے۔
ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہماری مقامی زبانوں میں ایک جدید قوم کی زبان بننے کی سبھی صلاحیتیں موجود ہیں ضرورت صرف انہیں تسلیم کرنے کی ہے۔ سبھی پاکستانی مقامی زبانوں کی شناخت کو تسلیم کرنا نہ صرف سیاسی و انتظامی لحاظ سے مصلحت کا تقاضا ہے بلکہ یہ وقت کی پکار بھی ہے۔
نیلسن منڈیلا نے درست ہی کہا تھا ’’اگر تم کسی شخص سے اس زبان میں بات کرو جس کو وہ سمجھتا ہے تو وہ بات اس کے ذہن میں اتر جائے گی لیکن اگر تم اس سے اس کی (مادری) زبان میں بات کرو تو وہ اس کے دل میں اتر جائے گی‘‘۔

 

Exit mobile version