ابرار حسین کا تعلق ہیرا منڈی سے ہے۔ وہ یہیں پیدا ہوئے اور اپنا بچپن اور جوانی اسی علاقے میں گزاری۔ ابرار کی نانی، جو پٹیالہ کے مہاراجہ کے دربار سے منسلک تھیں اور بٹوارے کے بعد پاکستان ہجرت کر آئیں تھیں، کو یہاں ایک گھر الاٹ کیا گیا تھا جس میں آج بھی ابرار کا خاندان مقیم ہے۔
آج کل جب نیٹ فلکس پر انڈین ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کی سیریز ‘ہیرا منڈی’ کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی ہے اور اس پر مختلف تبصرے ہو رہے ہیں کہ آیا اس سیریز میں لاہور کی ہیرا منڈی کی تصویر کشی حقیقت کے قریب ہے یا تاریخی اعتبار سے درست ہے۔
بہت سے لوگ اس علاقے کے عروج و زوال کی داستان اور یہاں کے تمدن کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں۔
لہٰذا، ہم نے سوچا کہ بی بی سی کے قارئین کو اصل ہیرا منڈی کی سیر کروائی جائے اور اس جگہ کے ماضی کے بارے میں بتایا جائے۔
شاہی قلعے سے رشتہ
لاہور کے جنوب میں ٹیکسالی دروازے کے اندر، شاہی قلعے کے قریب چند گلیوں پر مشتمل ہیرا منڈی کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے اور مختلف ادوار میں یہاں کی روایات اور ماحول میں تبدیلیاں آتی رہیں۔
اس کا آغاز مغل دور میں ہوا اور پھر سکھ حکمران آئے، اس کے بعد برطانوی راج اور پھر قیام پاکستان کے بعد کے زمانے، ہر دور میں اس بازار کے رنگ ڈھنگ بدلتے رہے۔
1580 میں جب لاہور کا قلعہ تعمیر ہوا تو اس کے ساتھ ملحقہ علاقے میں پہلے خدمت گاروں کی رہائشگاہیں بنیں، پھر آہستہ آہستہ دربار سے منسلک طوائفیں یہاں آباد ہو گئیں اور یہ ’شاہی محلہ‘ کہلانے لگا۔
سکھ دور میں اسے ’ہیرا منڈی‘ کا نام ملا، انگریز راج میں یہ ’ریڈ لائٹ ایریا‘ کہلایا اور پھر بٹوارے کے بعد اسے ’بازار حسن‘ کے نام سے پہچانا گیا۔
قلعے کے ساتھ خصوری باغ سے ایک دروازہ شاہی محلے کی طرف کھلتا ہے۔ اس دروازے سے ملازم اور طوائفیں دربار تک آتے جاتے تھے۔ یہ دروازہ ’روشنائی گیٹ‘ کہلاتا ہے۔
جوں ہی اس دروازے سے باہر نکلیں تو یہاں کی گلیاں، جو پہلے طوائفوں کے مکانات پر مشتمل تھیں، اب لاہور کی معروف فوڈ سٹریٹ بن چکی ہیں۔
دربار سے وابستہ طوائفیں پیشہ ور فنکار ہوتی تھیں جنھیں اٹھنے بیٹھنے، بات چیت کرنے، زبان و بیان، شعر و شاعری، موسیقی اور رقص کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی اور یہ صرف دربار میں مجرے کرتی تھیں۔
ابرار کہتے ہیں کہ طوائفوں کی رہائش گاہوں والی گلی تمدن کا گہوارہ تھی جہاں بادشاہوں، نوابوں اور امرا کے بچوں کو آداب اور تمیز و تہذیب سیکھنے کے لیے بھیجا جاتا تھا لیکن 1990 میں بازار بند ہوجانے کے بعد یہ بازار ویران ہوگیا۔ یہاں رہنے والی طوائفیں لاہور کے مختلف علاقوں میں پھیل گئیں اور اب اسے حکومت نے فوڈ سٹریٹ میں تبدیل کردیا ہے۔
مغل دربار کی طوائفوں کی زندگیوں پر مبنی بہت سی کہانیاں، افسانے اور فلمیں بن چکی ہیں۔ ان میں انار کلی کا کردار کافی نمایاں ہے، جنھیں شہنشاہ اکبر کے بیٹے جہانگیر سے عشق ہو گیا تھا اور پھر کہانی لکھنے والوں کے مطابق انھیں بادشاہ کے حکم پر زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا تھا۔ جب مغلوں کا خاتمہ ہوا تو انار کلی جیسی طوائفیں بھی قصہ پارینہ بن گئیں۔
ابرار کہتے ہیں کہ اس حد تک تو سنجے لیلا بھنسالی کی سیریز حقائق کے اعتبار سے درست ہے کہ ہیرا منڈی عامیانہ سیکس ورکرز کی آماجگاہ نہیں تھی بلکہ یہاں کی طوائفیں بھی اپنا ایک وقار اور اصول رکھتی تھیں۔ بادشاہوں کی قربت رکھنے کی وجہ سے سماجی طور پر ان کا مقام بھی بلند تھا اور کچھ حد تک معاملات ریاست پر ان کا اثر و رسوخ بھی ہوتا تھا۔
حویلیاں اور’جھروکا‘
ابرار کہتے ہیں کہ بھنسالی کی سیریز میں جس طرح وسیع و عریض حویلیاں دکھائی گئی ہیں، جہاں باغوں اور فواروں کے درمیان ہیرا منڈی کی طوائفوں کو رقص کرتے فلمایا گیا، اس کا ہیرا منڈی سے کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ طوائفوں کی رہائشگاہوں کے پیچھے موجود چند گلیوں پر مشتمل علاقہ ہی اصل ہیرا منڈی ہے۔ یہ تنگ گلیاں ہیں، جہاں نیچے دکانیں ہیں اور اوپر کوٹھے۔
ہر کوٹھے کے سامنے ایک بالکونی ہوتی ہے جسے ’جھروکا‘ کہا جاتا ہے، جو دن بھر پردوں سے ڈھکی رہتی تھی۔
ابرار کہتے ہیں کہ شام کے وقت، طوائفیں بن سنور کر ان جھروکوں میں کھڑی ہو کر اپنے گاہکوں کا انتظار کرتی تھیں۔ گاہک سیڑھیوں سے چڑھ کر اوپر جاتے تھے۔ اندر سے یہ مکان کافی خوبصورت ہوتے تھے لیکن وسیع و عریض نہیں تھے اور نہ ہی کبھی یہاں صحنوں اور باغوں میں طوائفوں نے مجرے کیے۔ مجرے ہمیشہ اندر کمروں میں ہی ہوتے تھے۔
ابرار مزید بتاتے ہیں کہ ضیاء الحق کے دور میں یہاں کے لوگوں کے ساتھ بہت سختی کی گئی۔ حدود آرڈیننس کو استعمال کرکے ہیرامنڈی میں صدیوں سے رہنے والوں کو ہراساں کیا گیا، جس کے باعث رفتہ رفتہ یہ لوگ اس علاقے کو چھوڑ گئے۔
ایک بوسیدہ عمارت کے اجڑے جھروکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابرار نے کہا کہ جو حال ان جھروکوں کا ہے، وہی اب یہاں بچی کچھی طوائفوں کا بھی ہے۔
شاہی محلے سے بازار حسن کا سفر
مغلوں کے اقتدار میں کمی کے ساتھ ہی شاہی محلے کا زوال بھی شروع ہوگیا۔ تاہم، انیسویں صدی کے آغاز میں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت قائم ہوئی تو شاہی محلے کی طوائفوں کی حالت میں کچھ بہتری آئی۔ دربار میں پھر مجرے کا رواج شروع ہوا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی ہیرا منڈی کی ایک مسلمان طوائف موراں مائی کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔ پورے لاہور میں موراں مائی کے حسن کے چرچے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ ایک دن موراں کو دیکھنے کے لیے اس کے کوٹھے پر آئے اور ہمیشہ کے لیے اس کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔ وہ بار بار ہیرا منڈی کے مہمان بنے۔ رنجیت سنگھ نے موراں سے شادی تو نہیں کی، لیکن اس کا اثر و رسوخ کسی مہارانی سے کم نہیں تھا۔ رنجیت سنگھ کے دور میں موراں کے نام کے سکے جاری ہوئے اور ان کے نام پر ناپ تول کے پیمانے منسوب کیے گئے۔
‘ہیرا سنگھ دی منڈی’
رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد، سکھ جرنیل ہیرا سنگھ ڈوگرہ نے اس علاقے کو مرکزی مقام دیا اور ایک غلہ منڈی کا قیام کیا۔ اس منڈی کو ان کے نام پر ‘ہیرا سنگھ دی منڈی’ کہا جانے لگا، جس نے وقت کے ساتھ ہیرا منڈی کی شناخت بنا دی۔
یہاں کی طوائف کو ان کے نام سے جوڑا گیا، اور یہ جگہ اس نام سے مشہور ہوئی۔
برطانوی حکمرانوں کے دور میں، اس علاقے سے تمدن کی زندگی کا خاتمہ ہوا، جب بادشاہیت ختم ہوئی اور برطانوی راج کی حکومت قائم ہوئی۔ اس دوران، امرا برطانوی راج میں معاشی طور پر بھی کمزوری آئی، اور ہیرا منڈی کی طوائف کی بھی حالت مشکل ہوگئی۔
برطانوی حکمرانوں کو شاہی محلے کے تمدن، موسیقی، اور رقص کی قدرتی جیون میں دلچسپی نہیں تھی، اور ان کے لیے یہاں کے طوائفی مجروں کا کلچر جسم فروشی کی شکل اختیار کر لیا۔ اس دوران، لاہور میں ہیرا منڈی کی بہت سی طوائفیں برطانوی افسروں کے لیے جسم فروشی کرنے لگیں۔
سازندوں کی گلی
شاہی عظمت کے غائب ہونے اور کمپرسی کے باوجود، قائم پاکستان کے بعد بھی یہ علاقہ فنکاروں کا اہم مرکز رہا۔ یہاں ایک گلی مشہور ہے جہاں موسیقی کے آلات بنائے جاتے ہیں، جیسے باجے، ڈھولک، اور ہارمونیم۔ اس گلی کو "سازندوں والی گلی” کہا جاتا ہے۔
آج بھی یہاں کئی دکانیں ہیں جو ساز بناتی ہیں، لیکن اب یہاں کے ماہرین ناپید ہوچکے ہیں۔
ابرار بتاتے ہیں کہ یہاں پر سابقہ طوائف کے سازندوں کے گھر بھی تھے، جہاں ان کے استاد موسیقی، رقص، اور دیگر چیزوں کی تربیت دیتے تھے۔
مجروں کے لیے سازوں کی ضرورت تھی، اس لیے یہ گلی دھیرے دھیرے ایک بازار بن گئی۔ سازندوں والی گلی میں بننے والے آلات مختلف علاقوں، خاص طور پر انڈیا، سے آتے تھے۔ اب یہاں طوائف نہیں رہیں، نہ ہی سازندے اور نہ ہی استاد، صرف کچھ دکاندار ہیں جو دن رات گاہکوں کا استقبال کرتے ہیں۔
"پاکستان ٹاکیز”
سازندوں کی گلی کے قریب ہی استاد فتح علی خان اور امانت علی خان کے گھر واقع ہیں، جہاں سنیما گھر "پاکستان ٹاکیز” بھی موجود ہے، جس کی عمارت قدیم ہوچکی ہے۔ اس کے ساتھ لاہور کے مسیحا سرگنگارام کا مکان بھی ہے۔
مکان کے سامنے ہی پنجابی شاعر استاد دامن کی بیٹھک بھی ہے، جبکہ دلی گھرانے کے نامور موسیقار استاد سردار خان اپنی بیٹھک یہاں رکھتے تھے۔ استاد برکت علی خان کی بھی بیٹھک ہیرا منڈی کے چوک پر واقع ہوتی تھی۔
ابرار حسین بیان کرتے ہیں کہ ہیرامنڈی کا تاریخی پس منظر بہت دلچسپ ہے۔ اس نے نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر کو بھی بہت نامور موسیقاروں کا تجربہ فراہم کیا، اور کئی فلمی ہیروئینز اور شہر کے شرفا بھی یہاں رہائش گاہ مانے گئے۔ لیکن اب یہاں کی حالت تعفن میں ڈوبی ہوئی ہے، جیسے ایک کھنڈر۔
پھجے کے پائے اور ہیرا منڈی کی شادی
ہیرامنڈی اب گائیکی کے لئے اتنی مشہور نہیں رہی، مگر یہاں کے لاہوری کھابوں کا آج بھی اہم مرکز ہے۔
ابرار بتاتے ہیں کہ پھجے کے پائے قیامِ پاکستان سے یہاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، طوائف کی رہائشگاہیں اب ریستوران بن چکی ہیں جہاں یہاں فوڈ سٹریٹ کا مقام بن گیا ہے، جو ایک مشہور سیاحتی مقام ہے۔
ابرار بتاتے ہیں کہ فوجی صدر پرویز مشرف کے زمانے میں، بسنت کے تہوار کو بڑھاو اور سرکاری تنظیمات کی حمایت سے کچھ عرصے کے لیے یہاں خوشیاں منائی جاتی تھیں۔
کوٹھوں کی چھتوں پر پتنگ بازی کی جاتی تھی، جہاں پوری دنیا سے لوگ بسنت منانے کے لیے ہیرامنڈی آتے تھے، مگر بعد میں بسنت کے تہوار پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
ابرار حسین بتاتے ہیں کہ "میرے بچپن میں جب ہیرامنڈی میں شادیاں ہوتی تھیں، تو ان کی شان و شوکت ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ ان شادیوں کے وقت امبانی کی شادی پھیکی لگتی تھی۔ ہر طائفہ اپنی بہترین سونے کے کلو کلو پہن کر نکلتا، اور یہاں کی گلیوں میں باراتوں کا جشن منایا جاتا تھا۔ اس دوران کی منظر نامے کی باتیں آج بھی یادگار ہیں۔ اب یہاں کے پرانے کوٹھے ختم ہو رہے ہیں، اور ان کی جگہ پلازے نے لے لی ہے۔”