کسی اور کے جرم کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔

مدھیہ پردیش کی وسطی ریاست کے منڈلا ضلع ہیڈکوارٹر سے 45 کلومیٹر دور بھینسواہی گاؤں میں عیدگاہ ٹولہ واقع ہے جہاں عید الاضحیٰ سے دو دن قبل تک 30 گھر موجود تھے، لیکن اب یہ سب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

 

ہر طرف ملبے کے ڈھیر نظر آتے ہیں اور ان ڈھیروں میں بچے اور خواتین اپنا سامان تلاش کر رہے ہیں۔ بچے اپنے کھلونے ڈھونڈ رہے ہیں جبکہ خواتین ملبے تلے دبے قیمتی سامان کی تلاش میں ہیں۔

روشنی بی کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ‘کسی اور کے جرم کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔ ہمارے گھر سے کچھ بھی نہیں ملا۔ ہمارا گھر اچانک توڑ دیا گیا۔ اگر ہمیں کم از کم آگاہ کر دیا جاتا تو ہم اپنے کھانے پینے کی اشیا نکال لیتے۔

‘اب چار دن گزر چکے ہیں اور ایک دانہ بھی نہیں ملا۔ ہمارے بچے بھوکے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے شوہر کہاں ہیں اور اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہم کہاں جائیں؟’

روشنی بی کے شوہر ان دس افراد میں شامل ہیں جنھیں پولیس نے ‘مفرور’ قرار دیا ہے اور ان پر 5000 روپے کے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔

70 سالہ عبدالرفیق اپنی بستی کے دروازے پر اپنی جھونپڑی میں بیٹھے ہیں۔ وہ بیمار ہیں اور انھیں پیشاب کی تھیلی لگی ہوئی ہے۔ وہ اس بستی کے واحد مرد ہیں جو وہاں موجود ہیں۔

15 اور 16 جون کو اس بستی میں کیا ہوا؟ اس سوال پر اپنی لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے عبدالرفیق کہتے ہیں کہ ‘میں اپنی جھونپڑی میں تھا۔ مجھے نہیں پتہ کہ کیا ہوا۔ میں ایک بیمار آدمی ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ یہاں کون کیا کرتا ہے۔’

اس ماہ کی 16 تاریخ کو مبینہ تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران بستی کے مسلم خاندانوں کے 11 گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا۔

منڈلا ضلع کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جن گھروں کو مسمار کیا گیا ہے وہ 11 افراد کے ہیں جن پر گائے ذبح کرنے اور گائے کی سمگلنگ کا الزام ہے۔

پولیس کے مطابق:

منڈلا کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ آفیسر راجیندر کمار سنگھ کا کہنا ہے کہ یہ بستی مکمل طور پر غیر قانونی طور پر سرکاری زمین پر قائم ہے۔

انہوں نے کہا، ‘تجاوزات ہٹانے کا عمل جاری ہے اور یہاں کے لوگوں کو بہت پہلے ہی مطلع کر دیا گیا تھا۔ اس وقت صرف 11 افراد کے مکانات گرائے گئے ہیں یا تجاوزات ہٹائی گئی ہیں۔’

ڈسٹرکٹ آفیسر سلونی سڈانہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ 2022 سے ہی تجاوزات کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘بھینسواہی میں مسلمانوں کی آبادی ہے اور عید الاضحیٰ کے موقع پر صرف ان 11 افراد کے مکانات گرائے گئے ہیں جن کے گھروں پر پولیس نے چھاپہ مارا تھا، کیونکہ ان کے خلاف گائے کی سمگلنگ اور گائے کے گوشت کی فروخت کے ثبوت ملے تھے۔’

وہ مزید کہتی ہیں کہ ‘پولیس اور انتظامیہ کے لوگوں کے لیے بھینسواہی جانا خطرناک ہے کیونکہ ان پر کئی بار حملے ہو چکے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ تمام قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جا رہا ہے۔’

پولیس کا دعویٰ ہے کہ 15 جون کو مقامی تھانے کو بھینسواہی میں گائے کے گوشت کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد اضافی نفری طلب کر کے نین پور تھانہ انچارج اور سب ڈویژنل پولیس افسر نیہا پچیسیا کی قیادت میں چھاپہ مارا گیا۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ تمام 11 ملزمان کے گھروں سے گائے کے ذبیحے کے شواہد ملے ہیں۔  

رجت سکلیچا منڈلا کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گائے ذبح کرنے اور گائے کی سمگلنگ کے خلاف کی گئی کارروائی اور تجاوزات ہٹانے کی کارروائی مختلف چیزیں ہیں۔

سکلیچا کا کہنا ہے کہ ‘چھاپے کے دوران ملزمان کے گھروں کے مختلف کمروں میں ریفریجریٹرز میں گائے کا گوشت ملا تھا۔ اس کے علاوہ کاٹنے کے لیے استعمال ہونے والے آلات بھی برآمد کیے گئے ہیں۔ کمروں کے اندر گائیں بھی بندھی ہوئی تھیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ گھروں کے پیچھے تقریباً 150 گائیں موجود تھیں، جنہیں پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا۔

اپنے دفتر میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہمیں وہاں کے مختلف گھروں سے اور گھروں کے باہر سے ہڈیوں کے ڈھیر بھی ملے ہیں۔ کئی ایسے گھر ہیں جہاں سے گائے کے گوشت کے علاوہ کھال اور چربی بھی برآمد ہوئی ہے۔ ابتدائی شواہد کی بنیاد پر 11 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ گوشت کے نمونے جانچ کے لیے حیدرآباد بھیج دیے گئے ہیں۔’

پنڈرائی کے راستے پر منڈلا ضلعے سے آٹھ کلومیٹر پہلے دائیں طرف بھینسواہی ہے۔ اس میں تین ٹولے ہیں: مسجد ٹولہ، کسانی ٹولہ اور عیدگاہ ٹولہ۔ عیدگاہ ٹولہ میں زیادہ تر قریشی برادری کے لوگ رہتے ہیں جبکہ کسانی ٹولہ قبائلی اکثریتی علاقہ ہے اور یہاں کے سرپنچ بھی قبائلی ہیں۔

ہم نے پنچایت دفتر کے باہر سرپنچ کے شوہر رمیش ماروی سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ پنچایت کے لوگ پولیس کو گائے کی اسمگلنگ کی اطلاع دیتے رہے ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ کارروائی بہت دیر سے ہوئی، تاہم وہ بھی مکانوں کو گرانے کے حق میں نہیں ہیں۔

اس علاقے کی رہائشی ثمینہ بانو کا الزام ہے کہ پولیس نے جو کچھ بھی برآمد کیا ہے وہ واحد قریشی کے گھر سے برآمد ہوا ہے لیکن پولیس نے اس کیس میں دوسروں کو بھی ملوث کر لیا ہے۔

ان کی بہن رضیہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں اور شادی کے لیے جو سامان خریدا تھا وہ مکان گرنے سے خراب ہو گیا۔

گاؤں کی کچھ خواتین نے پولیس پر ان کے پیسے اور مرغیاں چھیننے کا الزام لگایا، جس کی پولیس حکام نے تردید کی ہے۔

Exit mobile version