بلاگخبریں

آبائی گھروں کے دکھ۔۔۔

آبائی گھروں کے دکھ(نصیر احمد ناصر)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آبائی گھر ایک سے ہوتے ہیںڈیوڑھیوں، دالانوں، برآمدوں، کمروں اور رسوئیوں میں بٹے ہوئےلیکن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئےآبائی گھروں میںگِھسی ہوئی سرخ اینٹوں کے فرشاور چُونا گچ نَم خوردہ دیواریںبے تحاشا بڑھی ہوئی بیلیںچھتوں پر اُگی ہوئی لمبی گھاساور املی اور املتاس کے درختایک دائمی سوگواریت لیے ہوئےایک ہی جانب خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیںآبائی گھروں کے اندر چیزیں بھی ایک سی ہوتی ہیںپڑچھتیوں پر پیتل اور تانبے کے برتنگرد جھاڑنے، قلعی کرنے والے ہاتھوں کا انتظار کرتے ہیںچنیوٹ کا فرنیچراور گجرات کی پیالیاں اور چینکیںخالی پڑی رہتی ہیںکھونٹیوں پر لٹکے ہوئے کپڑے اور برساتیاںاترنے کی منتظر رہتی ہیںاور چہل قدمی کی چھڑیاں اور کھونڈیاںسہارا لینے والے ہاتھوں کو ڈھونڈتی ہیںفریم کیے ہوئے شجرے،بلیک اینڈ وائٹ اور سیپیا تصویریںاور طاقوں میں رکھی ہوئی مقدس کتابیںاور کامریڈی دور کا مارکسی ادبسب کچھ اپنی اپنی جگہ پڑا ہوتا ہےآبائی گھروں کے مکین بھی ایک سے ہوتے ہیںبیرونی دروازوں پر نظریں جمائے، آخری نمبر کا چشمہ لگائےبینائی سے تقریباً محروم مائیںاور رعشہ زدہ ہاتھوں والے باپاور اپنے تئیں کسی عظیم مقصد کے لیے جان دینے والوں کی بیوائیںجو کبھی جوان اور پُر جوش رہی ہوں گیآبائی گھروں میں لوگ نہیں ساعتیں اور صدیاں بیمار ہوتی ہیںزمانے کھانستے ہیںآبائی گھر لَوٹ آنے کے وعدوں پرباوفا دیہاتی محبوبہ کی طرح سدا اعتبار کرتے ہیںاور کبھی نہ آنے والوں کے لیےدل اور دروازے کُھلے رکھتے ہیںشاعروں کے لیےآبائی گلیوں کی دوپہروںاور پچھواڑے کے باغوں سے بڑا رومانس کیا ہو سکتا ہےجہاں تتلیاں پروں کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتیںاور پھولوں اور پتوں پر کریش لینڈنگ کرتی ہیںاور دھوپ اور بارش کے بغیرقوسِ قزح جیسی ہنسی بکھرتی ہےاور نسائم جیسی لڑکیاں سات رنگوں کی گنتی بھول جاتی ہیںآبائی گھروں میںوقت بوڑھا نہیں ہوتادراصل ہم بچے نہیں رہتےاور کھلونوں کے بجائے اصلی کاریں چلانے لگتے ہیںاور کبھی کبھی اصلی گنیں بھی ۔۔۔۔۔۔۔آبائی گھروں کو جانے والے راستے بھی ایک سے ہوتے ہیںسنسان اور گرد آلودمسافروں سے تہیجن پر بگولے اڑتے ہیںیا میت اٹھائے کبھی کبھی کوئی ایمبولینس گزرتی ہےپھلاہی اور کیکروں سے ڈھکے آبائی قبرستانتھوڑی دیر کے لیے آباد ہوتے ہیںاور پھر دعاؤں اور باتوں کی بھن بھن میںمنظر تتر بتر ہو جاتا ہےیہاں تک کہ موسم سے اکتائے ہوئےبادل بھی کسی پہاڑی قصبے کی طرف چلے جاتے ہیںآبائی راستوں کے دکھ نظمائے نہیں جا سکتےانہیں یاد کرتے ہوئے رویا بھی نہیں جا سکتایہ صرف کسی اپنے جیسے کے ساتھ شیئر کیے جا سکتے ہیںعمریں گزر جاتی ہیںشہروں میں اور ملکوں میںلکڑی کے صندوق اور پیٹیاں ہماری جان نہیں چھوڑتیںگھروں میں کوئی جگہ نہ ہوتو دلوں اور ذہنوں کے کباڑ خانوں میں رکھی رہتی ہیںکبھی نہ کُھلنے کے لیےاور پھر ایک دن ہم خود بند ہو جاتے ہیںزمین پر آخری دن آنے سے پہلے ہمارے دن پورے ہو جاتے ہیں!

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت