ادبخبریںکتابیں

سازش

…**کاش یہ سب جھوٹ ہوتا۔**لیکن یہ جھوٹ میرے وجود پر ایک سچ کی طرح نقش ہو چکا تھا — ایسا سچ جو نہ مٹتا ہے، نہ بھلایا جا سکتا ہے۔میری زندگی کی وہ حسین امیدیں جو بچپن کے کھیل، چھت سے جھانکتی نظریں، اور ایک سادہ سے خط پر قائم تھیں، اب دھواں بن کر میرے دل کے آنگن میں بکھر چکی تھیں۔ میں نے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھا، وہی پرانا لان، وہی خاموشی، لیکن اب وہاں کوئی خیام نہ تھا، نہ ہی سلام کرنے والا ہاتھ۔روبی کے چہرے پر سجایا گیا معصومیت کا نقاب کب کا اتر چکا تھا، مگر میری سادہ لوحی نے اسے دیر سے پہچانا۔ اب یہ احساس، یہ درد، میری روح کا حصہ بن چکا تھا۔میں پوچھتی ہوں:محبت اگر خلوص سے کی جائے تو کیا وہ واقعی کبھی بے رنگ ہو سکتی ہے؟یا پھر دولت، سازش، اور غرور، ہمیشہ سچے جذبے کو روند ڈالتے ہیں؟کاش، میں نے اسے آزمایا نہ ہوتا۔کاش، وہ اتنا کمزور نہ ہوتا کہ کسی اور کی زبان سے کہی گئی باتوں پر یقین کر لیتا۔اور سب سے بڑھ کر — کاش، روبی دوست نہ ہوتی۔لیکن اب نہ کاش باقی رہا، نہ ہی کوئی امید۔رہ گئی ہے تو صرف ایک خاموش یاد،جو ہر رات، ہر نیند، اور ہر تنہائی میں میرے کانوں میں وہی شعر دہراتی ہے:**”نیا سفر ہے تیری زندگی کا اب اے دوست،نئے سفر پہ نیا ہم سفر مبارک ہو”**لیکن یہ سفر، تنہا ہے…صرف میرے اور میرے زخموں کے درمیان۔

ربیعہ کو ہم پیار سے رابی کہتے تھے۔ وہ میری بچپن کی دوست تھی، لیکن کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ خیال سمانے لگتا کہ ہم دونوں کی دوستی بے جوڑ ہے۔ اس کی اور میری حیثیت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ وہ ایک وسیع و عریض اور شاندار کوٹھی میں رہتی تھی، جب کہ ہمارا دو کمروں کا کچا پکا سا گھر تھا۔ میری والدہ جب فوت ہوئی تھیں ، ان دنوں میں صرف چھ برس کی تھی۔ ابو اور پھوپھو نے پالا۔ پھوپھو بے اولاد اور بیوہ تھیں، تبھی ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ وہ مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔ ہمارے گھر کے سامنے شوکت صاحب کی کوٹھی تھی ۔ ان کا اکلوتا بیٹا عمر خیام بہت اچھا لڑکا تھا۔ اس میں غرور بالکل نہ تھا۔ میں رابی اور وہ، بچپن کے ساتھی تھے اور اکٹھے کھیلا کرتے تھے۔ یہ دونوں زیادہ تر میرے گھر کے صحن میں کھیلنے آتے تھے۔ خیام کی عادت تھی کہ ہر کھیل میں میری طرف داری کرتا تھا۔ اس بات سے رابی کو جلن ہوتی ۔ وہ سمجھتی تھی کہ خیام اسے نظر انداز کرتا ہے۔ وہ ذرا مغرور تھی اور وہ خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتی تھی۔ ایک خامی اور بھی اس میں تھی کہ اس کی ہر خواہش پوری ہونا چاہئے۔

جب تک ہم بچے تھے، ساتھ اسکول آتے جاتے، پڑھتے لکھتے اور اکٹھے کھیلتے تھے، لیکن جب شعور آیا تو رستے بدلنے لگے۔ جیسے ہی میں نے آٹھویں کا امتحان دیا، ابو نے مجھے پردے میں بٹھا دیا۔ اب کبھی کبھار ہی رابی سے ملتی تھی اور خیام سے تو ملنا اب خواب و خیال کی بات تھی کیونکہ ان کے گھر ہمار آنا جانا نہیں تھا۔ کوئی بہت غیر معمولی بات ہوتی، تو پھپھو چلی جاتی تھیں۔ میں جب کپڑے ڈالنے چھت پر جاتی، تو خیام کو اس کے بنگلے کے سامنے والے لان میں بیٹھے پاتی، جہاں سے ہماری چھت واضح نظر آتی تھی۔ جب ہماری نظریں ملتیں، ہم ایک دوسرے کو سلام کر لیا کرتے تھے۔ ہماری جان پہچان بس یہاں تک محدود ہو چکی تھی۔ انہی دنوں رزلٹ آگیا، میں پاس ہو گئی اور پھر سے اسکول جانے لگی۔ رابی گاڑی میں جاتی اور میں تانگے پر ، کبھی وہ مجھے لینے گھر آجاتی تھی کہ میرے ساتھ چلو، تو میں اس کی بات مان لیتی، بچپن کی دوستی جو تھی۔ ایک دن میں تانگہ اسٹینڈ پر کھڑی تھی کہ اچانک کسی نے مجھے پکارا۔ میں نے حیرت سے مڑ کر دیکھا، تو خیام کھڑا تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور ایک کتاب مجھے تھما کر یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ میری طرف سے یہ تحفہ قبول کر لو اور گھر جا کر اسے بہت احتیاط سے کھولنا، مگر جب کوئی نہ ہو تب کھولنا۔ اتنی مدت کے بعد میں اس کو دیکھ کر حیران و پریشان رہ گئی۔ اسکول جانا مشکل ہو گیا تو واپس گھر آگئی۔ ابو اسکول ٹیچر تھے ، وہ جا چکے تھے۔ میں نے پھو پھپھو سے سر درد کا بہانہ کیا اور واپس کمرے میں چلی گئی۔ لباس تبدیل کرنے کے بہانے کمرہ بند کیا، پھر کتاب کے اوپر بندھا ہوا ر بن کانپتے ہاتھوں سے کھولا۔ پہلے صفحہ میں ایک لفافہ رکھا تھا، جس میں خیام کا خط تھا۔ لکھا تھا، صاحبہ ! بچپن سے اب تک جب بھی تم سے کوئی خاص بات کرنے کی کوشش کی، ہمیشہ رابی درمیان میں آگئی۔ وہ میرا اور تمہارا ساتھ نہیں چاہتی، اس کی وجہ سے میں بھی تمہیں یہ بتانہ سکا کہ میں تم کو پسند کرتا ہوں۔ یہ خط پڑھ کر ضرور تمہارے دماغ میں خیال جاگے گا کہ ہمارا ساتھ ممکن نہیں اور رابی ٹھیک سوچتی ہے۔ وہ ٹھیک کہتی ہے کہ کہاں زمین اور کہاں آسمان، لیکن اس کے یہ خیالات غرور پر مبنی ہیں۔ میں ایسی گھٹیا سوچ سے نفرت کرتا ہوں، تم ایسے خیالات اپنے من میں نہ لانا، ورنہ میرے سچے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچے گی۔ مجھے ان امیروں سے چڑ ہے ، جو انسان کو کم اور دولت کو زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں۔ مجھے صرف تمہارا خلوص چاہیے اور اگر زندگی بھر کا ساتھ مل جائے، گا تو میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھوں گا۔ میں نے سر راہ تم کو تحفہ دیا۔ امید ہے کہ اس گستاخی کو معاف کر دو گی۔ کیا کرتا؟ مجبور ہو گیا تھا ۔ رابی کے ذریعے کوئی پیغام دینا چاہا مگر مجھے اس پر اعتبار نہیں۔ تمہارے بچپن کا ساتھی، خیام خط پڑھ کر پہلے تو مجھے پسینہ آگیا، پھر انجانی سی خوشی بھی محسوس ہوئی۔ میرے دل نے گواہی دی کہ جیسے میں اسی دن ، اسی ساعت کی منتظر تھی اور اس دن کے لئے ہی جی رہی تھی۔ مجھے رات بھر نیند نہ آئی۔ میں خود کو خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ رہی تھی، تمام شب سوچتے ہی گزرگئی، ایک فیصلے کے ساتھ کہ چاہت اپنی جگہ، مگر امیر زادے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔ صبح رابی آئی تو اپنے دل کی بات اس سے چھپا نہ سکی۔ رابی ! ایک بات کہوں، میری رہنمائی کرنا۔ اس نے کہا۔ ہاں، کیوں نہیں۔ دوست اور کس دن کے لئے ہوتے ہیں۔ مجھ پر بھروسہ کرو اور ہر بات مجھے بتاؤ۔ میں نے اُسے بتایا کہ خیام مجھے جیون ساتھی بنانے کا آرزو مند ہے اور میرا دل سوال کرتا ہے کہ واقعی وہ سنجیدگی سے ایسا سوچ رہا ہے یا یہ محض دل لگی ہے۔ وہ کہنے لگی۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، تم اسے آزما کر دیکھ لو۔ کیسے آزماؤں ؟ تم ہی بتا دو۔ یہ تم مجھ پر چھوڑ دو، میں اس کو جھوٹ موٹ کہوں گی کہ صاحبہ بچپن سے اپنے چچا زاد سے منسوب ہے اور میٹرک کے بعد اس کے ابو اس کی شادی کر رہے ہیں۔ اگر اس کو تم سے محبت ہو گی، تو وہ فوراً اپنے گھر والوں کو رشتے کے لئے تمہارے گھر بھجوائے گا اور اگر وہ بات سن کر خاموش رہا تو سمجھ لینا کہ اسے تمہاری کوئی پروا نہیں۔ میں نے کہا۔ چلو دیکھو، اس بات پر اس کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔ اگلے دن تک انتظار کیا، رابی شام کو آئی اور بتایا کہ میں اس کے گھر گئی تھی اور یہ بات کبھی تو اس نے کوئی جواب نہ دیا بس خاموشی سے سنتا رہا پھر اُٹھ کر چلا گیا۔ یہ تو آزمانانہ ہوا اور نہ کوئی تسلی بخش بات سامنے آئی۔ میں نے رابی سے کہہ دیا۔ تم نے بیکار اسے یہ سب کہا ہے۔ اُس نے کہا۔ میٹرک کے پیپر ز ہونے والے ہیں۔ تم امتحان دے لو، پھر ہم اس کا امتحان لیں گے۔ اب مجھے نہیں معلوم روبی نے اسے جا کر کیا کہا، بہر حال میں پیپرز کی تیاریوں میں لگ گئی۔ پیپر ز ختم ہو گئے ، رزلٹ بھی آگیا۔ میں اب بھی چھت پر جاتی تھی۔ وہ اپنے لان میں بیٹھا ہوتا تو مجھے اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ اٹھا کر سلام کرتا، اس دوران نہ وہ میرے پیچھے آیا اور نہ کوئی خط دیا۔

رابی اور خیام کے گھر کی دیوار ملی ہوئی تھی۔ ان لوگوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا اور جیسے میں پہلے بتا چکی ہوں کہ مالی لحاظ سے کمتر ہونے کی وجہ سے ہمارا ان کے گھر میں کوئی خاص آنا جانا نہیں تھا، البتہ ، رابی جب جی چاہتا ہمارے گھر آجاتی تھی۔ میں شدت سے اس کی منتظر تھی کیونکہ ایک میٹھی میٹھی کسک میرے دل میں جاگ چکی تھی۔ شاید یہ احساس کمتری ہی تھا جو میں براہ راست خیام سے رابطہ نہیں کر پاتی تھی۔ رابی نے کہا اب وقت آگیا ہے اسے آزمانے کا۔ تم آج شام میرے گھر آجاؤ۔ میں تمہاری پھپھو سے کہہ دوں گی کہ پاس ہونے کی خوشی میں، میں نے اپنی سہیلیوں کو بلایا ہے۔ امید ہے وہ تم کو اجازت دے دیں گی۔ اس نے پھپھو سے اجازت لے لی اور میں شام کو اس کے گھر گئی۔ اس نے مجھے لان میں درختوں کے پیچھے چھپا دیا، اس طرح کہ میں خیام کو دیکھ سکتی تھی۔ رابی نے اُسے بلایا اور وہ دونوں تھوڑے فاصلے سے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ رابی بولی۔ خیام ! وہ ہو گیا ، جس کا ڈر تھا۔ صاحبہ کی شادی طے ہو گئی ہے اور اس نے مجھے کہا ہے کہ ڈولی کے لئے کوئی گاڑی چاہئے ، ہماری گاڑی ابو کے ساتھ باہر گئی ہوئی ہے۔ دولہا والوں کے پاس بھی گاڑی کا کوئی بندوبست نہیں ہے جبکہ صاحبہ کی خواہش ہے کہ وہ رخصت ہو کر گاڑی میں گاؤں جائے۔ خیام ! تم ہی ان لوگوں کو اپنی گاڑی دے دو۔ میں نے غور سے دیکھا، یہ بات سن کر خیام کا چہرہ زرد ہو گیا اور وہ بغیر کچھ کہے ، اُٹھ کر چلا گیا۔ تب رابی میرے پاس آکر بولی۔ دیکھا، کیسا خود عرض ہے۔ میں نے بھی عقل سے کام نہ لیا اور رابی کے دماغ سے سوچنے لگی کہ واقعی اس کو میری پرواہ نہیں ہے۔ اگر پرواہ ہوتی، تو وہ یوں اُٹھ کر جانے کی بجائے کوئی بات کرتا۔ اب دل سخت زخمی اور مضطرب تھا، مگر رابی تسلیاں دیتی اور اپنے ہی لگائے زخم پر بھائے رکھتی تھی کہ چھوڑ ، ان مردوں میں وفا کہاں ہے۔ تم اس بے وفا کا خیال ذہن سے نکال دو۔ یہ الفاظ رابی کے تھے ، میری دوست رابی کے ، بلکہ یہ اس کے دل کی آواز تھی۔ اس کی خود غرضی اور خود سری تھی، جس نے مجھ غریب کی قسمت کے آئینے کو ایک چھنا کے سے توڑ ڈالا۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کی چال سے ایک نہیں دو دل برباد ہو جائیں گے اور میں اُسے الزام کیوں دوں، دراصل میں خود احمق تھی، جو اس کی باتوں میں آگئی اور اس کی ہر بات کو سچ جانا۔ ایک روز پھو پھو نے کہا۔ صاحبہ بیٹی ! میں پڑوس میں شوکت صاحب کے گھر جارہی ہوں، کیونکہ ان کا بیٹا سنا ہے بہت بیمار ہے۔ میں اس کی عیادت کو جارہی ہوں، تم دروازے کی کنڈی لگا لو۔ یہ سن کر مجھے سخت دھچکا لگا۔ پھپھو کے جانے کے بعد بے چین روح کی طرح سارے گھر میں پھرنے لگی۔ آج گھر کی تنہائی مجھے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی، پھر خیالوں میں ابو کا بجھا بجھا چہرہ بھی پریشان کر دیتا۔ سوچتی تھی کہ اگر ماں زندہ ہوتیں، تو میں ضد کر کے ان کے ساتھ خیام کو دیکھنے چلی جاتی۔ خدا جانے اسے کیا ہوا ہے ؟ وہ کیوں بیمار ہے ؟ کاش امی زندہ ہو تیں یا پھر میں مر جاتی۔دراصل رابی نے خیام کو یہ بتایا تھا کہ آج کل صاحبہ بڑی خوش ہے کیونکہ اس کی شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی ہے۔ یہ اس کی لو میرج ہے، اس لیے وہ بہت خوش ہے۔ رابی نے یہ ایک گھٹیا چال چلی تھی۔ اس نے یہ نہ سوچا کہ جو دوسروں کے لئے گڑھا کھودتا ہے، وہ خود اس میں گر جاتا ہے۔ اس نے تو یہ بھی کہا تھا کہ خیام کہتا ہے ، میں اس کے ساتھ ٹائم پاس کرنا چاہتا ہوں۔ غریب کی لڑکی ہے نا، ایسی لڑکیاں جھوٹے سچے خواب سجا کر جلدی اعتبار کر لیتی ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں کو ٹھی اور کار کی حسرت ہوتی ہے۔ ہماری یہ خواہش کہ ہم ان کو بیاہ کر لائیں اور اس سے شادی کر لیں، امی ابو تو مار مار کر میرا حلیہ بگاڑ دیں گے ، اگر میں ان سے یہ کہوں کہ میں صاحبہ کو پسند کرتا ہوں اور آپ اس کا رشتہ لینے جائیں۔ وہ کبھی اس کے چھوٹے سے گھر میں نہ جائیں گے۔ رابی کی ایسی باتیں سن کر میرے ارمان دم توڑ گئے۔ اب سوچتی تھی کہ میری بے لوث محبت کو کس نے خاک میں ملا دیا۔ اے کاش میں نے اسے نہ آزمایا ہوتا اور اسی فریب میں رہتی، تو میرے خوابوں کو ضرور تعبیر مل جاتی۔ میں نے سوچا کہ میری جھوٹی منگنی کی خبر سن کر وہ ایک بار ضرور اپنے والدین کو ہمارے گھر بھجوائے گا، مگر اس کے والدین آئے اور نہ اُس نے میرے پیچھے آنے کی زحمت گوارہ کی۔ اس کا کوئی پیغام بھی مجھے نہ ملا بلکہ اب تو اس نے اپنے گھر کے لان میں بیٹھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ میں بار بار چھت پر جاتی کہ شاید وہ نظر آجائے، لیکن کیسے نظر آتا ؟ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ وہ بیمار پڑا ہے اور رابی کی غلط سلط باتوں نے، جو اس نے میرے بارے میں کہی تھیں، اسے بیمار کر دیا ہے، لیکن میں تصویر کے اصل رُخ کی بجائے دوسرے رخ سے واقف تھی کہ وہ مجھے بے وقوف بنا رہا ہے۔رابی بڑی عیار لڑکی تھی، یہ میں نہ سمجھ سکی۔ وہ آزاد خیال ہے، اس کے بوائے فرینڈز ہیں، یہ تو میں ضرور جانتی تھی، مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ حاسد اور سازشی لڑکی بھی ہے، جو مجھ غریب کی قسمت کھلتے دیکھ نہیں سکتی۔ وہ خیام کے منہ سے میری تعریف بھی نہیں سن سکتی تھی۔ دل ہی دل میں وہ مجھ سے نفرت کرتی تھی۔ اس نے بظاہر پیار جتلایا اور مجھ سے ناتا بھی نہ توڑا، مگر رفت رفتہ وہ مجھ سے دور ہونے لگی۔ میں اور اُس کی طرف دیوانہ وار کھینچتی تھی کیونکہ خیام کی باتیں صرف اُس کے ساتھ کر سکتی تھی۔ میرے پوچھنے پر بھی اس نے نہ بتایا کہ وہ مجھ سے کیوں دور ہوتی جارہی ہے، تبھی ایک روز اس کی نفرت نے سر ابھارا اور اس لڑکی نے مجھے جیسے صفحہ ہستی سے مٹاہی ڈالنے کی قسم کھائی۔پھو پھو دوبارہ شوکت صاحب کے گھر جارہی تھیں۔ خیام کے لئے محفل دعا کا انتظام رکھا گیا تھا۔ اس بار میں نے ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا، تو وہ مجھے بھی ساتھ لے گئیں۔ وہاں میں ایک کونے میں جاکر پر بیٹھ گئی۔ رابی لاہور گئی ہوئی تھی، میں تنہائی محسوس کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ وہ ہوتی تو ہم دو ہو جاتے۔ پھو پھو انکل شوکت کی بیگم کے ساتھ جا بیٹھیں۔ میری نظریں ادھر ادھر کسی کو تلاش کر رہی تھیں، لیکن وہ کہیں نظر نہ آیا ، میں جس کو دیکھنا چاہتی تھی۔ تب میں ہال کمرے سے اُٹھ کر بر آمدے میں آگئی، تبھی وہ سامنے نظر آگیا، جیسے کوئی شہزادہ سادہ سے سوٹ میں وہ بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔ میں بے اختیار ہو کر اس کو دیکھتی رہی۔ اچانک ہماری نظریں ملیں اور پھر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔ مجھے پانچ چھ برس پہلے والا خیام یاد آنے لگا۔ میرے بغیر وہ کوئی کھیل نہیں کھیلتا تھا اور اب وہ کتنا بر عکس نظر آرہا تھا۔ پھر میں پلیٹ رکھنے کی آواز پر چونگی۔ سامنے دیکھا تو وہ کھڑا تھا کچھ کمزور، تھکا تھکا اور افسردہ۔ کچھ کہا ، نہ سنا، ایک کاغذ کا پرزہ میری پلیٹ کے نیچے رکھا اور چلا گیا۔ میں نے پلیٹ کے نیچے دبا ہوا پر زہ، ٹشو پیپر کی طرح اٹھا لیا اور اسی وقت بغیر کسی سے اجازت لئے، گھر آگئی۔ کاغذ کھولا، لکھا تھا۔ نیا سفر ہے تیری زندگی کا اب اے دوست ، نئے سفر پہ نیا ہم سفر مبارک ہو۔ میں نے پڑھا اور رقعے کو سنبھال کر رکھ دیا۔ مجھے رابی کا انتظار تھا کہ اپنی خیر خواہ اور ہمدرد دوست سے مشورہ لے سکوں۔ دوسرے روز ہی وہ لاہور سے آگئی۔ اسے خیام کا لکھا ہوا شعر دکھایا تو وہ کہنے لگی۔ فراڈی، ظالم، خود غرض، پھر کوئی نیا فراڈ کرنا چاہتا ہے ، وحشی سنگدل ! تم قطعی اس کی باتوں میں نہ آنا۔ تم سے مخلص تھا تو رشتے کے لئے گھر والوں کو کیوں نہ بھیجا؟

اب سارا سارا دن میرے کان دروازے کی آہٹ پر لگے رہتے کہ اب خیام آیا ہو گا، لیکن وہ نہیں آیا۔ ہر بار مجھے مایوس ہونا پڑا۔ پہلے ہی قدم پر ٹھوکر لگنے سے میں جیسے ٹوٹ پھوٹ گئی۔ بس اب میں تھی اور میرے گھر کی تنہائی تھی۔ خود کو بد قسمت ترین لڑکی سمجھتی تھی ، صرف ایک ہستی تھی، سچا پیار کرنے والی جو میرے دکھ درد کی واحد سہارا تھیں اور وہ تھیں، پھو پھو اماں ، وہ بھی ہمیشہ کے لئے مجھے چھوڑ گئیں۔ اب میری زندگی کا واحد سہارا ابو تھے اور ان کے بعد ایک گانا، جس کو سن کر دل کو سکون ملتا تھا۔ جو ملا ، اس نے میرے دل کو کھلونا جانا۔ میں بار بار یہ گانا سنتی۔ ایک دن ابو نے غصے میں کہا۔ توڑ دو اس کیسٹ کو میرے کان پک گئے ہیں اس گانے کو سنتے سنتے۔ تب میں سوچتی کہ ابو کو کیا معلوم کہ مجھ پر کیا بیت رہی ہے۔ وہ تو اپنی مصروفیات میں مصروف تھے۔ اب رابی بھی میرا دکھ درد بانٹنے نہیں آتی تھی۔ ایک روز ابو نے بتایا۔ بیٹی ! تمہاری سہیلی کا آج نکاح ہے ، کل رخصتی ہو گی۔ کیا تم نہیں جاؤ گی؟ کس کے ساتھ اس کی شادی ہو رہی ہے ؟ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا۔ شوکت صاحب کے بیٹے خیام کے ساتھ ، کیا رابی نے تم کو نہیں بلایا ؟ دوسرا فقرہ سنتے ہی میں بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی آئی، ورنہ ابو کے سامنے میرا بھرم کھل جاتا۔ مجھے اپنا کمرہ گھومتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ کتنی تلخ حقیقت تھی، جس سے میرا ذہن مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ ابو چلے گئے ، میں نہ جا سکی۔ بخار نے مجھے بستر پر گرادیا تھا۔ اگلے دن خیام کے مالی کا بیٹا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ باجی آپ کو خیام صاحب بلا رہے ہیں۔ اتفاق سے رابی اپنے گھر سے دیکھ رہی تھی۔ وہ مالی کے لڑکے کے پیچھے آگئی اور مجھے کہا۔ ٹھہرو، میں اس چالاک کو جواب دیتی ہوں اے ، جا کر خیام صاحب کو کہو کہ باجی صاحبہ نے کہا ہے ، میں اس کو پسند کرتی ہوں، جس سے میری منگنی ہوئی ہے۔ تم مجھے بھول جاؤ۔ حالانکہ میرا کوئی منگیتر نہ تھا، کوئی کزن نہ تھا، یہ سب تو رابی کا پلان تھا، جو سب کچھ جھوٹ تھا۔ ایک بار پھر ماضی کے اوراق میری نظروں میں پھڑ پھڑانے لگے۔ زخمی کبوتروں کی طرح ایک ایک کر کے تمام باتیں یاد آنے لگیں اور مجھے روبی سے نفرت محسوس ہونے لگی۔ ایک دوست نے دوست کی محبت پر ڈاکہ ڈالا۔ کاش ایسانہ ہوتا، کاش یہ سب جھوٹ ہوتا۔ اے کاش میں رابی کا اعتبار نہ کرتی۔ خیام نے تو پہلے دن مجھے ہو شیار کر دیا تھا کہ اس پر بھروسہ نہ کرنا، مگر میں نے دوست کو دوست ہی جانا، شاید اسی بات کی سزا مجھے خیام نے دی، اس نے اس سے شادی کر لی جس نے اسے مجھ سے جدا کیا تھا۔ وہ دونوں شادی کر کے امریکا چلے گئے۔ ادھر ابو کئی بار کہہ چکے تھے ، بیٹی اب جو بھی رشتہ آئے، انکار مت کرنا۔ میں کب تک زندہ رہوں گا، میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، تم کب تک یونہی اکیلی رہ سکو گی ؟ مگر میں نے ابو کی نہ سنی۔ بی اے کیا، پھر سروس کرلی۔ میں نے اپنی محرومیوں سے سمجھوتہ کر لیا پھر بھی کبھی کبھی سوچتی تھی کہ کیا واقعی رابی نے مجھے بالکل فراموش کر دیا ؟ شادی کسی سے ہو ، یہ تو قسمت کی بات ہے۔ خیام نے مجھ کو خواب ضرور دکھائے، مگر شادی اپنی ہم پلہ سے کرلی۔

اس روز میرا دل بڑا بے قرار تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ دیکھا تو احتشام بھائی تھے۔ بتایا کہ میں پرسوں امریکا جارہا ہوں، تم نے روبی کو کوئی پیغام دینا ہو تو بتا دو۔ یہ روبی کے کزن تھے ، ان کا گھر بھی قریب تھا۔ بس سلام کہہ دیجئے گا۔ ایک بات پوچھوں ، وعدہ کرو صحیح صحیح بتاؤ گی؟ ہاں پوچھئے ! آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی ؟ ان کے پوچھنے پر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے، میں نے کہا۔ ایک دوست پر اعتبار کیا تھا، اس نے مجھے لوٹ لیا، پھر میں نے ساری باتیں ان کو بتا دیں، آخر میں کہا۔ اگر خیام سے ملو تو اسے کہنا کہ رابی نے مجھے کہا ھتا کہ تم کو آزمانا ہے اور یہ پلان بھی اس نے بنایا تھا۔ یہ بات تم کو آج تک نہ بتا سکی، مگر تم نے بھی پروانہ کی۔ زمین اور آسمان کے فرق کو مٹانے کے لئے کچھ نہ کیا۔ اہمیت ہی نہ دی کسی بات کو بھلا وہ کیا زندگی بھر کا ساتھ نباہ سکتا تھا۔ ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ احتشام بھائی بولے۔ تم بہت اچھی لڑکی ہو صاحبہ روبی سے بھی اچھی اور خوبصورت ، اس سے زیادہ گن ہیں تم میں۔ حقیقت یہ ہے کہ بات دراصل طبقے اور کلاس کی ہوتی ہے۔ اس نے وہی کیا جو اعلیٰ کلاس، مڈل کلاس سے برتاؤ کرتی آئی ہے ، ورنہ یہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہ تھا اس کے لئے۔ احتشام بھائی خود رابی کی کلاس کے تھے ، خیام کے ہم پلہ ، مگر مجھے لگا کہ وہ سچ بول رہے ہیں، میری حمایت کر رہے ہیں۔ مجھے وہ اپنے ہمدرد لگے۔ رابی سے بھی ملاقات ہوئی تھی ، سو ہو گئی، مگر بہت مدت بعد جب وہ امریکا سے لوٹی تو میرے اسکول آئی۔ میں ہیڈ مسٹریس تھی۔ وہ غمزدہ اور ٹوٹی پھوٹی دکھائی دیتی تھی۔ بالآخر اس نے اپنی بد نصیبی کا اعتراف میرے سامنے کر لیا۔ اس نے کہا۔ صاحبہ ! میں نے تم دونوں کو اتنے دکھ دیئے کہ خود دکھی ہو گئی ہوں۔ خیام کو تم سے اور تمہیں اس سے بد دل کرنے کے لئے میں نے بڑے جھوٹ بولے، مگر اب اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ جو دوسروں کو خوش نہیں دیکھ سکتے، وہ خود بھی خوش نہیں رہتے۔ میں نے تمہاری طرف سے بہت بد گمانیاں اس کے دماغ میں ڈال دی تھیں، پھر بھی وہ تم کو نہیں بھولا۔ اب تک تم کو ہی یاد کرتا ہے۔ یہ جھوٹ ہے ، میں اس کی کلاس کی نہیں پھر بھلاوہ مجھے کیسے یاد کر سکتا ہے ؟ تم اس کے لائق تھیں، اس نے تم کو پالیا اور بس۔ میں نے آنسو پی کر کہا تھا۔ اس ملاقات کے بعد رابی واپس نہیں آئی۔ شاید وہ میرے سامنے اعتراف جرم کرنے آئی تھی اور اپنی روح کو ہلکا پھلکا کر کے چلی گئی مگر آج تک میری روح بے سکون ہے، کسی کی یاد مجھے جینے نہیں دیتی۔ اے کاش کہ میرا دل اس شخص کو بھلا دے، جس نے کاغذ کے ایک پرزے پر محض دو چار جملے لکھ کر مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بے چین و بے قرار کر دیا اور میں آج بھی اس کے لوٹ آنے کے انتظار میں جی رہی ہوں۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت