میرا نام شاہین ہے۔ میرا تعلق ایک متوسط مگر باوقار گھرانے سے تھا۔ والد صاحب ایک دیانت دار تاجر تھے اور میرے تایا اُن کے شریکِ کار۔ دونوں بھائیوں کے بیچ مثالی محبت اور اعتماد تھا۔ تایا کو قسمت نے انگلینڈ کی راہ دکھائی، جہاں وہ ایک اسپانسر کی مدد سے چلے گئے۔ ان کے ساتھ تائی اور ان کا اکلوتا بیٹا، سلیم احمد، بھی ہمارے گھر چھوڑ دیے گئے۔سلیم، جو مجھ سے ایک سال بڑا تھا، نے ہمارے والد کو "ابو” کہنا شروع کر دیا۔ ہم نے بچپن ساتھ گزارا، شرارتیں، ہنسی، اور خاموش دعائیں بانٹیں۔ سات برس بیت گئے، اور وہ معصوم سا لڑکا اب ایک خوبصورت، سنجیدہ اور پرکشش نوجوان بن چکا تھا۔
تائی کی اچانک وفات نے ہمارے پورے گھر کو سوگوار کر دیا، مگر سلیم کے لیے یہ زخم ناقابلِ برداشت تھا۔ تایا وطن واپس آئے اور بیٹے کو سینے سے لگا کر روتے رہے۔ چند دنوں کی یہ ملاقات ایک عمر کی جدائی کا مرہم بنی۔ سلیم پہلے سے زیادہ سنبھل گیا۔ وہ میرا منگیتر تھا، لیکن ہمارے درمیان کبھی واضح اظہارِ محبت نہ ہوا۔ صرف آنکھوں کی چمک اور دل کی دھڑکنوں سے اندازہ ہوتا تھا۔
تایا نے وطن واپس جا کر وہاں دوسری شادی کر لی۔ سلیم اور اس کی نئی ماں کے درمیان رشتہ ہمیشہ تلخ رہا۔ تایا کی طرف سے پیسے آنا بند ہو گئے۔ اب ابو کے کندھوں پر سارا بوجھ تھا۔ سلیم، جو کبھی سفید کپڑوں میں، شفاف چہرے کے ساتھ نظر آتا تھا، اب ننگے پاؤں، میلے کپڑوں میں، گلیوں میں بھینسیں ہانکتا دکھائی دیتا۔سلیم کی خودداری نے اسے کبھی ہاتھ پھیلانے نہ دیا۔ وہ خاموشی سے سب سہتا رہا۔ میں اس کے بدلے روپ کو دیکھ کر دل میں کرب محسوس کرتی، لیکن اپنی زبان بند رکھتی۔
وقت گزرتا گیا، اور ہمارے خاندان پر غربت کا سایہ گہرا ہوتا گیا۔ سلیم دن میں بھینسوں کے باڑے میں اور شام کو شہر کی فیکٹری میں کام کرتا۔ ایک دن ابو نے صاف کہہ دیا: "اب تمہیں خود ہی اپنے خاندان کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔” سلیم نے ایک لمحے کے لیے بھی شکایت نہ کی۔اسی دوران، میرا کزن صحاب، جو شہر میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، وکیل بن کر لوٹا۔ وہ خوش اخلاق، مہذب، اور پڑھے لکھے لڑکوں کی مثال تھا۔ والد صاحب نے میرے لیے اس کا رشتہ منظور کر لیا۔ سلیم نے احتجاج کیا، پر میں نے اسے جھڑک دیا۔ میرے لہجے میں وہ سب تھا جو میرے دل نے کبھی نہ کہا تھا: مایوسی، خوف، اور بے بسی۔
سلیم نے وہ گاؤں چھوڑ دیا جہاں اس کی خودداری کو بار بار روندا گیا۔ وہ پھوپھی کے پاس چلا گیا، جنہوں نے تایا سے رابطہ کر کے سلیم کو انگلینڈ بلوا لیا۔ادھر میری شادی صحاب سے ہو گئی۔ ابتدا میں سب کچھ ٹھیک تھا، لیکن جلد ہی حقیقت سامنے آ گئی۔ صحاب نے ایک دوسری عورت، انجم، سے نکاح کر لیا۔ میری زندگی میں اندھیرے چھا گئے۔ وہ مجھے طلاق دے کر بچوں سمیت گاؤں واپس بھیج دیا۔
میرے بیٹے نے کم عمری میں ہی محنت مزدوری شروع کر دی۔ اُس کے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے اینٹیں اور سیمنٹ تھا۔ میری کہانی دہرا رہی تھی، صرف چہرے نئے تھے۔ ماں ہونے کے ناطے، میں نے ہر زخم اپنے اندر جذب کیا۔
سترہ برس بعد ایک دن گاؤں میں شور اٹھا: "سلیم صاحب واپس آ گئے ہیں!” لوگ اسے دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ وہ ایک کامیاب بزنس مین کی طرح نظر آتا تھا۔ سوٹ، ٹائی، گاڑی، اور اس کا انداز—سب کچھ بدل چکا تھا، سوائے آنکھوں کے۔اس نے میرے گھر کا رخ کیا۔ میرے بیٹے کے سر پر ہاتھ رکھا، پیار دیا، اور کہا: "یہ تمہارا بیٹا ہے، تو یہ میرا بھی بیٹا ہے۔” جاتے وقت وہ میرے والدہ کے ہاتھ میں لفافہ تھما گیا: "یہ شاہین اور بچوں کے لیے ہے۔ ابو نے بھیجا ہے۔” مگر میں جانتی تھی، وہ لفافہ سلیم کی محبت کا مظہر تھا۔
سلیم ہر ماہ پیسے بھیجتا رہا۔ اب جب میں آئینے میں خود کو دیکھتی ہوں، تو لگتا ہے جیسے ہر جھری، ہر سفید بال، میری نادانیوں کی گواہی دے رہا ہو۔میں نے محبت کی قربانی دی، صرف غربت کے خوف سے۔ اور سلیم؟ اس نے وفا کی ایک مثال قائم کر دی۔ وہ کامیاب بھی ہوا، باوفا بھی رہا۔کاش میں وقت کو سمجھ پاتی۔ کاش خوابوں سے نہ ڈرتی، بلکہ ان میں حقیقت تلاش کرتی۔ مگر اب صرف پچھتاوا باقی ہے۔
سلیم آج بھی کبھی کبھار مجھے خط بھیجتا ہے۔ اُن میں کبھی کوئی شکایت نہیں ہوتی، صرف دعائیں اور دعوے ہوتے ہیں۔ وہ دعوے جو ایک سچے دل نے کیے تھے، اور ایک ڈری ہوئی روح نے سننے سے انکار کر دیا تھا۔یہ کہانی ختم ہوئی، مگر ایک سبق دے گئی: خواب، اگرچہ ٹوٹ جائیں، پھر بھی ان کے ٹوٹنے کی آواز میں تقدیر کی سچائی چھپی ہوتی ہے۔