اگر آپ ہزار لوگوں سے پوچھیں گے تو 999 یہی بتائیں گے کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس زبان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ یہ مغل بادشاہوں کے لشکروں اور چھاؤنیوں میں بولی جاتی تھی، جہاں یہ ہندی، فارسی، عربی، ترکی اور دوسری زبانوں کے آپس میں میل ملاپ سے وجود میں آئی۔ گویا زبان کیا ہے، چوں چوں کا مربہ ہے۔لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا زبانیں اس طرح سے آپس میں مل کر نئی زبانیں بنا سکتی ہیں، جس طرح مختلف رنگوں کو ملا کر نیا رنگ بن جاتا ہے؟اس سوال کا جواب تھوڑی دیر میں، لیکن پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی لفظ ’اردو‘ کا مطلب لشکر ہی ہے؟
بحیرۂ اسود کے کنارے آباد ترکی کا یہ حسین و جمیل شہر، جس کا نام ہے اوردو۔ یہ وہی لفظ ہے، یعنی ہماری زبان اردو۔ نہ صرف اس شہر بلکہ اس کے صوبے کا نام بھی اوردو ہے۔ اگر اردو کا مطلب لشکر ہی ہے تو کیا اوردو میں قدیم زمانے میں چھاؤنیاں قائم تھیں؟لفظ اوردو کا اصل مطلب جاننے کے لیے ہمیں 13 صدیاں لمبی چھلانگ لگا کر منگولیا پہنچنا پڑے گا۔ یہ ایک لاٹھ ہے جسے 732عیسوی میں یہاں کے ایک بادشاہ بلگے خاقان نے اپنے بھائی کل تگین کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔ ا س لاٹھ کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر گوک ترک رسم الخط میں یہ تحریر کندہ ہے۔ 66 سطروں پر مشتمل اس بیان میں لفظ اردو مختلف شکلوں میں کوئی 20 بار آیا ہے۔ یہ لفظ اردو کے استعمال کی سب سے قدیم تحریری شہادت ہے۔
یہاں اردو کا کیا مطلب ہے؟ اس لاٹھ پر لفظ اردو کا مطلب لشکر یا چھاؤنی نہیں بلکہ ریاست، شاہی محل اور مرکز ہے۔اس لاٹھ کے وجود میں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد ترک شاعر یوسف خاص حاجب نے ایک کتاب ’شاہی دانش‘ لکھی جس میں لفظ اردو جا بجا نظر آتا ہے، البتہ یہاں اس کا مطلب تھوڑا بدل کر ’شہر‘ ہو گیا ہے:ہر شہر، ملک اور ’اردو‘ میں اس کتاب کا نام مختلف تھا وہ ایک الگ ’اردو‘ کے رہنے والے تھےدنیا قید خانہ ہے، اس کی محبت میں گرفتار مت ہونا۔ بلکہ ایک بڑے ’اردو‘ اور ملک کی جستجو کرنا تاکہ چین سے رہ سکو موت نے بڑے بڑے ’اردو‘ اور ملک اجاڑ دیےاردو کا یہی مطلب ہمیں ترکی کے صوبے اور شہر کے نام میں نظر آتا ہے۔ اسی مطلب کی کچھ اور مثالیں بھی موجود ہیں، جیسے چینی شہر کاشغر کا قدیم نام ’اردو قند‘ تھا۔1235 میں منگولیا ہی سے اٹھ کر چنگیز خان کے پوتے باتو خان نے یورپ پر دھاوا بول دیا اور چند سالوں کے اندر اندر روس، پولینڈ اور ہنگری کو روند کے رکھ دیا۔ اس تمام مہم کے دوران ایک منقش طلائی خیمہ باتو خان کے زیرِ استعمال رہا، جس کی وجہ سے تمام لشکری خیمہ گاہ کو ’التون اوردو‘ یا سنہرا کیمپ کہا جانے لگا۔شاہی خیمے کو اردو کیوں کہاں جاتا تھا؟ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ اردو کا ایک مطلب شاہی محل بھی ہے، اور اسی مناسبت سے باتو خان کا خیمہ التون اوردو کہلایا۔ یہ دو منزلہ خیمہ جہاں سفر کرتا تھا، لوگ کہتے تھے کہ وہ اردو جا رہا ہے، رفتہ رفتہ لفظ اردو کا ایک مطلب لشکر بن گیا۔
باتوخان نے 1242ء میں مشرقی یورپ میں منگول سلطنت کی داغ بیل ڈالی جو پندرھویں صدی تک قائم رہی۔ اسی اثنا میں لفظ اردو بھی یورپ کی زبانوں میں داخل ہونے لگا۔اطالوی: اُرداپولش، ہسپانوی: ہورداسوئس: ہوردفرانسیسی: ہورد1555میں شائع ہونے والی رچرڈ ایڈن کی کتاب ’نئی دنیا کے عشرے‘ انگریزی زبان کی وہ کتاب ہے جس میں یہ لفظ پہلی بار استعمال ہوا ہے۔ہندوستان میں یہ لفظ پہلی بار ایک اور منگول حکمران بابر نے برتا۔ اس کے بعد دوسرے منگول، یعنی مغل بادشاہوں کے دور میں یہ لفظ تراکیب میں بھی لکھا جانے لگا، جیسے’اردوئے معلیٰ،‘ ’اردوئے علیا،‘ ’اردوئے بزرگ،‘ حتیٰ کہ ’اردوئے لشکر۔‘ان تمام تراکیب میں اردو کا مطلب شاہی کیمپ ہے۔ یہ ایک موبائل محل ہوتا تھا جس کی کئی منزلیں ہوا کرتی تھیں، زنانہ اور مردانہ حصے الگ ہوتے تھے اور اس کے اندر سینکڑوں لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوا کرتی تھی۔1648 کو شاہجہان نے دلی کے قریب ایک نئے دارالسلطنت کی بنیاد ڈالی، جسے ویسے تو شاہجہان آباد کہا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کا نام بدل کر شاہی کیمپ کی مناسبت سے اردوئے معلیٰ ہوگیا۔
مشہور ماہرِ لسانیات اور میر تقی میر کے ماموں خانِ آرزو اپنی ایک لغت میں لفظ ’چھنیل‘ کے تحت لکھتے ہیں:’ہم لوگ جو ’اردوئے معلیٰ‘ میں رہتے ہیں، اس لفظ سے آشنا نہیں ہیں۔‘اس اردوئے معلیٰ میں کون سی زبان بولی جاتی تھی؟ایک نہیں بلکہ دو زبانیں: ایک تو فارسی اور دوسری وہ زبان جسے ہم آج اردو کے نام سے جانتے ہیں۔اس زمانے میں اردو زبان کا نام متعین نہیں تھا، اسے کبھی ہندوی، کبھی ہندی، کبھی دکنی اور کبھی ریختہ کہا جاتا تھا۔ ان ناموں کے ساتھ ساتھ لوگ اسے ’زبانِ اردوئے معلیٰ‘ بھی کہنے لگے، یعنی شاہجہان آباد کی زبان۔ظاہر ہے کہ اتنا بھاری بھرکم لفظ بولنا مشکل تھا، اس لیے یہ سکڑتے سکڑتے پہلے اردوئے معلیٰ اور بعد میں صرف اردو بن گیا۔بہت سی زبانیں شہروں اور علاقوں کے نام سے منسوب ہوتی ہیں: جیسے سندھ سے سندھی، پنجاب سے پنجابی، بنگال سے بنگالی وغیرہ، بالکل ویسے ہی اردو زبان کا نام بھی شہر کے نام پر پڑا ہے، یعنی شاہجہان آباد کے نام اردوئے معلیٰ پر۔ اس کا لشکر سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ زبان کسی چھاؤنی میں پروان چڑھی۔نام کا مسئلہ تو طے ہو گیا، اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اردو مخلوط زبان ہے؟اس کے بارے میں سب سے دلچسپ تبصرہ ماہرِ لسانیات شوکت سبزواری نے کیا ہے:’ایک نظریہ جسے میں غیر سنجیدہ سمجھتا ہوں، یہ ہے کہ اردو کھچڑی ہے: چڑیا لائی چاول کا دانہ، چڑا لایا دال کا دانہ، دونوں نے مل کر کھچڑی بنائی۔‘حقیقت یہ ہے کہ زندہ زبانیں دوسری زبانوں سے الفاظ مستعار لیتی رہتی ہیں۔ ہندوستان میں صرف اردو نہیں، کئی دوسری زبانوں نے فارسی کے الفاظ اپنائے ہیں۔ پشتو، پنجابی، سندھی، بنگالی، مراٹھی، وغیرہ اس کی عام مثالیں ہیں، لیکن ان میں سے کسی کو کھچڑی نہیں کہا جاتا۔ خود انگریزی کو لے لیجیے، اس نے دنیا بھر کی زبانوں بشمول اردو سے الفاظ اخذ کیے ہیں اور ایک تخمینے کے مطابق انگریزی کے 99 فیصد الفاظ دوسری زبانوں سے آئے ہیں، لیکن کیا آپ نے کسی کو کہتے سنا ہے کہ انگریزی دوسری زبانوں کا آمیزہ ہے؟بات یہ ہے کہ اردو زبان مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہی دہلی کے گرد و نواح میں بولی جاتی تھی اور اس کی اپنی گریمر تھی۔ جب اسے مسلمانوں نے اپنایا تو قدرتی طور پر اس میں فارسی/عربی کے الفاظ شامل ہوتے گئے، گریمر وہی کی وہی رہی اور آج تک ہے۔ بس اتنی سی بات ہے جسے لوگوں نے افسانہ بنا دیا۔
یہی کام آج بھی ہو رہا ہے کہ اردو کی گریمر وہی ہے، لیکن اس میں تھوک کے حساب سے انگریزی کے لفظ شامل ہو رہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اردو اور انگریزی کے ملاپ سے کوئی نئی زبان وجود میں آ گئی ہے۔ زبان وہی ہے، البتہ جیسا کہ دنیا کی تمام زندہ زبانوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس کے اندر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔یہی حال اردو کا ہے، نہ یہ لشکری زبان ہے اور نہ مخلوط، باقی لوگوں کے ذہنوں میں جو مغالطے سما گئے ہیں، انہیں نکالتے نکالتے وقت لگے گا۔