دماغی امراض میں ایپی لیپسی (مرگی) سب سے اہم و عام مرض ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 5 کروڑ کے لگ بھگ انسان اس دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ اس مرض کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی پھیلانے کے لیے پوری دنیا میں ہر سال فروری کے دوسرے پیر کو مرگی کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے۔
پاکستان میں کم و بیش 24 لاکھ لوگوں کو مرگی کا مرض لاحق ہے۔ اس مرض کی بدقسمتی سمجھیں یا ہمارے معاشرے کی کم علمی کہ تاحال اس دماغی عارضے کو بیماری کے علاوہ بہت کچھ سمجھا جاتا ہے۔
نیز اس مرض کو مرض ہی نہیں ’مانا‘ جاتا۔ اکثر اسے جن، بھوت، جادو، ٹونہ یا آسیب کی توہمات کی نذر کردیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرگی ایک مکمل طور پر قابلِ علاج دماغی مرض ہے۔ مرگی دماغ کے اندر اس کے خلیوں یعنی نیورونز میں برقی انتشار کی وجہ سے ہوتا ہے۔ دماغ کے جس حصے کے خلیوں میں یہ برقی انتشار پیدا ہوتا ہے، اس ہی دماغی حصے کے حوالے سے مریض میں علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
مرگی بچوں میں زیادہ عام ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر ہزار میں سے 14.6 بچے مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں مگر درست و بروقت تشخیص نہ ہونے کے باعث ان کا درست علاج نہیں ہوپاتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ اکثریت میں اس مرض کی نہ تو درست و بروقت تشخیص ہوپاتی ہے اور نہ ہی یہ ادویات کا درست استعمال جانتے ہیں۔
محتاط اندازے کے مطابق شہری آبادی کی نسبت دیہی آبادی میں ایپی لیپسی (مرگی) کا تناسب زیادہ ہے۔
مرگی کی وجوہات اور فوری طبی امداد
مرگی دماغ کا دورہ ہے جس میں کیمیائی تبدیلی اور دماغی خلیوں میں برقی خلل کے باعث دورہ یا جھٹکا پڑتا ہے۔ اس دورے کے نتیجے میں دماغ کے حصے کے خلیوں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے، اس ہی تناظر میں جسم پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔
دماغی خلیوں میں ارتعاش کی وجوہات میں کوئی چوٹ یا زچگی یا حمل شامل ہوسکتا ہے یا اس کی وجہ بچپن میں کوئی ایسی بیماری ہوسکتی ہے جو دماغ پر اثر انداز ہوتی ہو۔ مرگی کا دورہ پڑنے کے نتیجے میں مریض عام طور پر گر جاتا ہے، جسم اکڑ جاتا ہے، دانت بھینچ جاتے ہیں، بعض اوقات بے ہوشی ہوجاتی ہے اور منہ سے جھاگ آتا ہے۔ اس دورے کے دوران مریض کو چوٹ بھی لگ سکتی ہے، ان سب علامات کا عمومی دورانیہ سیکنڈز سے ایک یا دو منٹ تک ہوتا ہے اور اگر کسی مریض میں پانچ منٹ سے زیادہ یہ علامات برقرار رہیں تو اسے فوراً اسپتال کے ہنگامی یونٹ (شعبہ حادثات) منتقل کرنا چاہیے۔
مرگی کی کم و بیش 150 سے زائد اقسام ہیں۔ بچوں میں بالخصوص اور بڑوں میں بالعموم مرگی کی ایسی قسم بھی پائی جاتی ہے کہ جس میں مرگی کی مندرجہ بالا علامات میں سے کوئی بھی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔ صرف چند سیکنڈز کے لیے مریض اردگرد کے ماحول سے مکمل لاتعلق یا یوں کہہ لیں کہ ’گم صُم‘ ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ ضروری نہیں کہ صرف مرگی کی وجہ سے ہی دماغی دورے یا جھٹکے آئیں بلکہ اس کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں جن میں خون میں شکر کا کم ہوجانا، نمکیات کی کمی، کیلشیئم کی سطح کا گرجانا، دماغ کی رسولی، دماغ کے انفیکشنز جیسے کہ دماغ کا ٹی بی اور ملیریا، دماغ کا فالج، سر کی چوٹ وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا اس مرض کی بروقت و درست تشخیص کے لیے ماہرِ امراض دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) سے رجوع کرنا چاہیے۔
مرگی کے مریض کو جھٹکے لگتے ہوئے دیکھیں تو سب سے پہلے اُسے پیٹ کے بَل لٹادیں تاکہ سانس کی نالی میں کوئی چیز نہ جاسکے۔ اگر مریض نے چُست لباس پہنا ہوا ہے تو بٹن وغیرہ کھول کر لباس کو ڈھیلا کردیں۔ مریض کے منہ میں کچھ نہ ڈالیں نہ اسے دبوچیں۔ اگر جھٹکوں یعنی دورے کا دورانیہ پانچ منٹ سے بڑھ جائے تو فوراً ایمبولینس بلاکر مریض کو جلد از جلد اسپتال منتقل کریں۔
پاکستان میں مرگی کی آگاہی، بروقت درست تشخیص و علاج نہ ہونے کی وجہ سے اس مرض کے ’قابلِ علاج‘ ہونے کے بارے میں عام آدمی میں بہت سے خدشات پائے جاتے ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں مرگی سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ محتاط اعدادوشمار کے مطابق 27.5 فیصد شہروں جبکہ دیہی علاقوں کے مریضوں میں صرف 2.9 فیصد لوگ مرگی کے مرض کا باقاعدہ علاج کرواتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں اس مرض کے قابلِ علاج مرض ہونے کے حوالے سے شعور فراہم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مرگی کا علاج ممکن ہے اور تمام صوبائی و مرکزی وزارتِ صحت کو اس مہم میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس مرض کے مریضوں کو علاج اور بالخصوص ادویات کی سہولت فراہم کی جاسکیں۔ ہمارے ملک کی شہری آبادی میں مرگی کے کم و بیش 50 ہزار مریضوں کے لیے صرف ایک نیورولوجسٹ دستیاب ہے جس سے مرگی کا علاج مزید مشکل ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں مرگی سے متعلق تصورات اور توہمات
یاد رکھیں کہ مرگی متعدی بیماری نہیں ہے اور نہ ہی مرگی کا مرض جادو، ٹونہ، جن یا کسی اثرات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں مرگی کو بیماری نہیں سمجھا جاتا اور اکثر لوگ اسے جنات کا سایہ یا آسیب قرار دے کر مریض کا طبی علاج کروانے کے بجائے مختلف عملیات اور دیگر روحانی و مذہبی رحجانات کا سہارا لینے لگتے ہیں ایسے اعمال سے متعلقہ مریض کی دماغی صحت کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔
مرگی کے مسلسل دورے پڑنے کی وجہ سے مریض کا دماغ سخت متاثر ہوتا ہے۔ مرگی کے چند سیکنڈز کے صرف ایک دورے سے دماغ کے لاکھوں خلیات مردہ ہوجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگر کسی مریض کو آدھے گھنٹے تک دورہ/جھٹکا پڑتا رہے تو اس کے دماغ کا کم و بیش 25 فیصد حصہ بےکار ہوجاتا ہے۔
یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ مرگی کے مریض نہ تو شادی کے قابل ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ باپ یا ماں بن سکتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر غلط تصورات ہیں جن کی وجہ سے مرگی کے مریضوں کو عام لوگوں کی طرح بھرپور زندگی گزارنے کا موقع نہیں مل پاتا۔
مرگی کے مرض میں مبتلا نوجوان خواتین سے شادی نہیں کی جاتی کیونکہ انہیں بدنامی تصور کیا جاتا ہے اور مرگی میں مبتلا بچوں کو اسکول سے نکال لیا جاتا ہے جوکہ سماجی تنہائی اور ڈپریشن/یاسیت کا باعث بنتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایپی لیپسی مکمل طور پر قابلِ علاج مرض ہے اور اس کے 70 فیصد مریضوں میں مکمل صحتیابی کے ساتھ علاج ممکن ہے۔
آگاہی، علاج اور تدارک
مرگی کے بارے میں دنیا بھر میں جامع تحقیقات ہوچکی ہیں اور تمام ماہرینِ دماغ و اعصاب اس مرض کو قابلِ علاج قرار دے چکے ہیں۔ اس لیے ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم اس حوالے سے آگاہی و شعور اجاگر کریں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔ آگاہی پیدا ہونے کے بعد کچھ ایسے اقدامات کیے جائیں جس کے نتیجے میں اس بیماری کی شرح کو قابو کیا جاسکے جو بیماری بڑھ رہی ہے اس کو روکا جاسکے اور جن کو یہ بیماری ہے ان کا علاج کیا جاسکے۔
مہنگی ادویات، علاج میں تاخیر اور متاثرہ مریض کے لیے اضافی مالی بوجھ کا سبب بنتی ہیں اس لیے حکومت کو بھی ادویات کی آسان رسائی و رعایت (سبسڈی) کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
نیورولوجی اویئرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن (نارف) پاکستان، عوام الناس تک مرگی اور دیگر دماغی، ذہنی و اعصابی امراض کے حوالے سے آگاہی اور نئی تحقیق میں معاونت کی کوشش میں مصروف ہے۔
مرگی کے حوالے سے نارف نے بڑے پیمانے پر مسلسل آگاہی پھیلانے کے اقدامات کیے ہیں۔ مریضوں کے لیے مختلف زبانوں میں معلوماتی ویڈیوز، لٹریچر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز کے لیے ہنگامی طبی امداد کی فراہمی کے چارٹس تیار کروائے ہیں اور انہیں ملک بھر کے شعبہ نیورولوجی میں مہیا کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ماہانہ بنیادوں پر دوروں یا جھٹکوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے مریضوں کو ڈائری فراہم کی گئی ہیں۔
اس سال مرگی کے بین الاقوامی یوم کو اس تناظر ہی میں منانا چاہیے کہ ’مرگی ایک قابل علاج دماغی مرض‘ ہے۔