شعر’راحت اندوری’ کا ہے اور خوب ہے کہ شاعر نے سفر، ہم سفر، مشکلاتِ سفر، جدائی، بے وفائی اور بے بسی کے سے مفاہیم کو ایک ہی شعر میں سمو دیا ہے۔ ’اندور‘ کا یہ قادرالکلام شاعر پارسال بزم سخن بڑھا چکا کہ اُسے سفر آخرت درپیش تھا۔
راہ میں مشکلات دامن گیر ہوں تو بہتیرے اس ’سفر‘ کو انگریزی والا ’suffer/سفر‘ گردانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ’سفر‘ اپنی اصل میں کیا ہے؟ اور یہ کہ اس کا انگریزی ’suffer/سفر‘ سے کوئی تعلق ہے یا محض صوتی مماثلت اور مصائبِ راہ نے مسافر کو مجبور کیا کہ وہ ’سفر‘ کو ’suffer‘ قرار دے بیٹھا؟
اس سے قبل کہ درپیش سوال کا جواب کھوجیں، ’سفر‘ کی رعایت سے جناب نصیر ترابی کا شعر ملاحظہ کریں،
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
یوں تو ’سفر‘ عربی الاصل لفظ ہے مگر فارسی اور اردو میں یہ خوب رچ بس کر انہیں میں شامل ہورہا ہے۔ یہی معاملہ اس سے مشتق الفاظ ’سفیر، مسافر، مسافرت، مسافران، مسافرین اور اسفار‘ وغیرہ کا بھی ہے۔
اردو میں ’سفر‘ محدود معنی میں محض ’قطع مسافت‘ کے لیے برتا جاتا ہے جبکہ عربی ’سفر‘ کے معنوی اطلاقات میں خاصی وسعت پائی جاتی ہے۔
عربی زبان میں ’اَلسَّفَرُ‘ کے بنیادی معنی ’پردہ اٹھانا‘ کے ہیں اور اس کے معنوی اطلاق میں کتنی وسعت ہے؟
اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک طرف چہرہ کھولنا ’سَفَرَ عَنِ الْوَجْہِ‘ ہے تو دوسری طرف کوڑا کرکٹ صاف کرنا ’سَفْرُ الْبَیتِ‘ ہے کیونکہ صفائی کے بعد گھر کی صورت نکل آتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ’سفر‘ کی رعایت سے جھاڑو کو ’مِسْفَر‘ اور گردوغبار کو ’سَفِیْرُ‘ کہتے ہیں کہ یہ گرد جھاڑو سے دور ہوتی ہے۔
سامنے کی بات ہے کہ تاریکی حقائق کے لیے پردہ بن جاتی ہے جبکہ روشنی میں چیزیں واضح ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا اس رعایت سے عربی میں ’روشن اور چمکدار‘ کے لیے جو الفاظ آئے ہیں ان میں ’اَسْفَرَ‘ اور ’مُسْفِرَۃٌ‘ بھی شامل ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ دونوں الفاظ ’سفر‘ سے مشتق ہیں۔
اس سلسلہ بحث میں لفظ ’السِّفْرُ‘ بھی داخل ہے۔ اس کی جمع ’اَسْفَار‘ آئی ہے۔ عربی زبان میں ہر وہ کتاب جو مبنی بر حقائق ہو یا جو حقائق بے نقاب کرے، اسے ’السِّفْرُ‘ کہا جاتا ہے۔ چونکہ ’سفر‘ کے بنیادی معنی ’پردہ اٹھانا‘ کے ہیں اور کتاب یہ کام با احسن و خوبی ادا کرتی ہے۔
اس بات کو زیادہ واضح طور پر سمجھنا ہو تو سورۃ جمعہ کے اس جزو آیت پر غور کریں ’كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا‘ (ترجمہ: اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں)۔ یہاں ’أَسْفَارًا‘ کا لفظ ’کتابوں‘ کے لیے آیا ہے۔
یہاں تک پہنچ کر آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اردو میں رائج لفظ ’سفر‘ اور ’سفیر‘ کا حقیقت کشائی سے کیا تعلق ہے؟
اس سوال کے جواب سے قبل یہ سمجھ لیں کہ قطع مسافت یا ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے کے لیے ’عربی‘ میں ’سفر‘ کا لفظ ’رِحْلَة‘ کے مترادف کے طور پر برتا جاتا ہے۔ نیز مسافر جو توشہِ راہ ساتھ رکھتا ہے، وہ سفر ہی کی نسبت سے ’سُفْرۃٌ‘ کہلاتا ہے۔
سفر میں دوری کا مفہوم پوشیدہ ہے سو اس رعایت سے عربی میں ’سفر‘ دوری کے لیے بھی برتا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کہنا ہو کہ ’وہ مجھ سے دور ہے‘، تو اس کے لیے ’ھو مني سفر‘ کہا جائے گا۔
رہی یہ بات کہ اس سارے معاملے میں پردہ اٹھنا یا حقائق واضح ہونا کہاں شامل ہے تو غور کریں کہ بندہ جب سفر میں ہوتا ہے تو اسے ہرگام نئے مناظر اور ہر موڑ نئے حالات سے سامنا ہوتا ہے اور یہی نو بنو حقائق ’قطع مسافت‘ کو ’سفر‘ بناتے ہیں۔
اس سے قبل کہ ’سفیر‘ پر بات ہو، اس سفر کی رعایت سے احمد فراز کا شعر ملاحظہ کریں جن کا مشاہدہ ہے کہ،
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
اب رہی بات ’سفیر‘ کی کہ اس کا ’پردہ اٹھنا‘ سے کیا رشتہ ہے؟ تو سامنے کی بات ہے کہ سفیر کسی بھی قوم قبیلے کا ہو یا مملکت کا، وہ مرسل (اپنے بھیجنے والے) کی غرض کو مرسل الیہ (جس کی طرف بھیجا گیا) پر کھولتا ہے اور زیرِ بحث معاملے میں حقائق واضح کرتا ہے، سو اس رعایت سے وہ ’سفیر‘ کہلاتا ہے۔
اگر آپ اس ’سفر‘ سے تھک گئے ہیں تو اسے تمام کرتے ہیں اور ’سفاری‘ پر چلتے ہیں۔ انگریزی میں Safari (سفاری) کے معنی دنوں اور ہفتوں پر مشتمل ایسے سفر کے ہیں جس میں متوقع مشکلات بھی شامل ہوں۔ پھر اس رعایت سے شکار وغیرہ کا سامان بھی Safari (سفاری) کہلاتا ہے۔
چونکہ عموماً شکار کا تعلق جنگل سے ہوتا ہے سو ایسی جگہ جہاں جنگلی جانوروں کو محفوظ کھلے ماحول میں رکھا جائے Safari Park (سفاری پارک) کہلاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی کے اس Safari (سفاری) کی اصل عربی کا وہی ’سفر‘ ہے جس کا تذکرہ ابھی پیش نظر تھا۔ یہی سبب ہے کہ انگریزی ماہر لسانیت ’Safari‘ کو مہمان الفاظ میں شمار کرتے ہیں۔
آغازِ سفر میں انگریزی ’suffer/سفر‘ کا ذکر ہوا تھا کہ گاہے دشوار سفر کو اس سے نسبت دی جاتی ہے مگر سچ یہ ہے کہ اپنی نہاد میں عربی ’سفر‘ اور انگریزی ’suffer‘ میں حقیقی، اصطلاحی یا مجازی کوئی مناسبت نہیں ہے۔
جہاں تک ’suffer‘ کی اصل کا تعلق ہے تو انگریزی میں بطورِ فعل (verb) ’مُبتلا ہونا، تکلیف دہ، ناگوار، مُتاثر ہونا، اذیت جھیلنا، اٹھانا، برداشت کرنا، سہنا، گوارا کرنا، خیال کرنا اور تکلیف اٹھانا‘ کے سے معنی میں استعمال کیے جانے والا یہ لفظ اینگلو فرانچ میں ’suffrir‘، قدیم فرنچ میں ’sofrir‘ اور جدید فرنچ میں بصورت ’souffrir‘ ہے۔
گویا یہ طے ہے کہ انگریزی میں ’suffer‘ نے فرانسیسی کی راہ سے بار پایا۔ تاہم اس کی اصل عوامی لاطینی (Vulgar Latin) سے متعلق ہے جس میں یہ بصورت ’sufferire‘ موجود ہے۔ جبکہ ماہرین لسانیات کے مطابق یہ مرکب لفظ ہے جو ’sub‘ یعنی اوپر، نیچے اور ’ferre‘ یعنی اٹھانا اور برداشت کرنا، سے مل کر بنا ہے۔
اس وضاحت کے ساتھ یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آج کا انگریزی ’suffer‘ جس صورت اور معنوی وسعت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے، آغاز میں اس کی صورت قدرے مختلف اور معنی محدود تھے۔
اس طول طویل گفتگو کے بعد اب ’تراب اختر نقوی‘ کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیں اور ہمیں رخصت دیں۔
سفر بدلتا رہا ہم سفر بدلتے رہے
ضرورتوں کے مطابق بشر بدلتے رہے