یہ تحریر بی بی سی کے صفحات پر پہلی مرتبہ جولائی 2022 میں شائع ہوئی تھی جسے کارگل جنگ کے 25 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے آج دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
شیوک موت کا دریا ہے جو نہ صرف کئی معرکوں کا واحد اور خاموش گواہ ہے بلکہ ان میں مارے جانے والے جوانوں کی لاشوں پر تنہا ماتم کناں بھی رہا۔
انڈیا کے زیر انتظام لداخ کے راستے پاکستان کے علاقے بلتستان میں داخل ہونے والے دریائے شیوک کا لفظی معنی بھی ’موت‘ ہی ہے۔
لگ بھگ 25 برس پہلے ٹھاٹھیں مارتے شیوک کا شور جو عام دنوں میں دور سے سنائی دیتا ہے پاکستانی اور انڈین توپ خانے کی گولہ باری کی گھن گرج کے آگے مدھم تھا اور اسی دریا کے کنارے برفیلی ڈھلوانوں پر چند لاشیں بکھری تھیں۔ ان میں ایک پاکستانی فوج کے کپتان فرحت حسیب حیدر تھے اور دوسرے انڈین فوج کے کیپٹن حنیف الدین۔
یہ کارگل آپریشن کے آخری دن تھے جس کے دوران دونوں جانب سے سینکڑوں فوجیوں نے بلند و بالا چٹانوں پر موت کے سائے تلے ایک ایسی جنگ میں حصہ لیا جسے انڈیا میں ’آپریشن وجے‘ اور پاکستان میں ’آپریشن کوہ پیما‘ کا نام دیا گیا۔ یہ جنگ کئی سیکٹرز میں تقسیم محاذ پر لڑی گئی جن میں سے ایک دریائے شیوک کے ساتھ تھا۔
کیپٹن فرحت کا تعلق پاکستان کی سات این ایل آئی رجمنٹ جبکہ کیپٹن حنیف انڈیا کی گیارہ راجپوتانہ رائفلز کے افسر تھے۔ یہ دونوں دو الگ الگ معرکوں میں جان گنوا بیٹھے۔
انتہائی شدید موسم، دشوار گزار راستوں اور دو افواج کی ایک دوسرے پر مسلسل فائرنگ نے ان کی لاشوں تک رسائی ناممکن بنا دی تھی۔
کیپٹن فرحت حسیب: ’وہ بہادری سے آخری دم تک لڑے‘
کیپٹن فرحت حسیب نے انڈین سکاؤٹس کے خلاف ایک جوابی حملہ کرنا تھا۔ ان کے ساتھ 11 جوان تھے جبکہ وہ خود اس دستے کی کمان کر رہے تھے۔ انھوں نے کچھ گھنٹوں میں ہی اپنا ہدف حاصل کر لیا۔ اس دوران 24 انڈین فوجی ہلاک ہوئے۔
اس سے قبل کہ وہ واپس حفاظتی مقام کی جانب پلٹتے، بلندی پر موجود انڈین چوکیوں سے توپ خانے کی گولہ باری شروع ہوئی اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت اس کی زد میں آ گئے۔
اس معرکے میں دو پاکستانی جوانوں کے علاوہ کوئی زندہ نہیں بچ سکا۔ ان میں سے بھی ایک بعد ازاں ہلاک ہو گئے۔ بچنے والے واحد سپاہی محمد سلیمان کے مطابق کیپٹن فرحت حسیب بہادری سے ’آخری دم تک لڑتے رہے۔‘
اس واقعے سے صرف تین ہی دن قبل اسی سیکٹر میں انڈیا کے کیپٹن حنیف الدین پاکستانی فوج سے ایک پوسٹ واپس لینے کے لیے کارروائی پر نکلے تھے۔
انڈین فوج ترتوک کی چوٹیوں پر بنی چوکیاں واپس لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ کیپٹن حنیف الدین بھی ایک نڈر فوجی کی طرح بہادری سے لڑے مگر مشن میں کامیاب نہ ہو سکے اور مطلوبہ پوسٹ حاصل نہ کر سکے۔
پاکستانی فوجی دستوں نے ان کا حملہ پسپا کر دیا۔ کارروائی کے دوران کیپٹن حنیف الدین اپنے ساتھیوں سمیت جان سے گئے۔
یہ انڈیا کے زیر انتظام علاقہ تھا۔ دھاڑتے دریائے شیوک کے کنارے ان کی لاشیں کئی ہفتے برف پر بکھری رہیں۔
کارگل کی جنگ اور ’لاپتہ مگر شہید‘ تسلیم کیے گئے اہلکار
انڈیا اور پاکستان کے درمیان یہ جنگ مئی سے جولائی 1999 کے درمیان لائن آف کنٹرول کے ساتھ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے کارگل اور اس سے متصل برفانی چوٹیوں پر لڑی گئی۔
اس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کے درست اعداد و شمار میسر نہیں تاہم انڈیا میں 500 سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکت ہوئی اور پاکستان میں یہ تعداد 300 سے 500 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
1999 کی کارگل جنگ کیوں اور کیسے شروع ہوئی، اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے لیکن اس جنگ کا ایک انسانی پہلو ایسا بھی ہے جو زیادہ توجہ کا مرکز نہیں رہا۔
25 سال بعد ایسے خاندان آج بھی موجود ہیں جو محاذ پر جانے والے اپنے پیاروں کا انتظار کر رہے ہیں جن کی موت کی خبر تو آ گئی مگر وہ خود ہزاروں فٹ کی بلندی پر برف کی چادر تلے نجانے کن مقامات پر دفن ہو گئے۔
خیال رہے کہ ان فوجی اہلکاروں کی درست تعداد سے متعلق اعداد و شمار پبلک ریکارڈ کا حصہ نہیں۔ اس حوالے سے انٹرنیٹ پر موجود ایک فہرست کے مطابق پاکستانی فوج کے 25 افسران کارگل کی جنگ کے دوران ہلاک ہوئے جن میں چار افسران کو ’مسنگ بلیووڈ کِلڈ‘ یعنی وہ جو لاپتا ہیں مگر انھیں ’شہید‘ تصور کیا جائے۔
ان میں بنیال سیکٹر میں کیپٹن احسن وسیم صادق، شیوک سب سیکٹر میں کیپٹن تیمور ملک، بنیال سیکٹر میں ہی میجر عبدالوہاب اور ٹائیگر ہلز پر میجر ارشد ہاشم شامل ہیں۔ ان میں سے کیپٹن تیمور ملک کی میت بعدازاں پاکستان پہنچی۔
تاہم اسی فہرست میں کیپٹن عمار حسین اور کیپٹن فرحت حسیب حیدر کے نام بھی شامل ہیں اور ان فوجی اہلکاروں کی میتیں کیوں نہیں لائی گئیں اور ان کے اہلخانہ پر کیا بیتی، اس بارے میں، میں نے متعدد خاندانوں اور اس وقت پاکستانی فوج میں تعینات اور آپریشن کوہ پیما یعنی کارگل جنگ کا براہ راست حصہ رہنے والے سابق فوجی افسران سے بات کی۔
کیپٹن عمار حسین: کیپٹن کرنل شیر خان کے ساتھی جو ٹائیگر ہلز سے واپس نہ آ سکے
آپ نے کیپٹن کرنل شیر خان کا نام تو یقیناً سنا ہو گا جن کی کارگل جنگ کے دوران بہادری کی تعریف خود انڈین فوج نے بھی کی۔ انھیں پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر بھی دیا گیا لیکن کیپٹن کرنل شیر خان کی زندگی کے اس آخری آپریشن میں ان کے ساتھ ایک اور افسر بھی شریک تھے جو واپس نہیں آ سکے۔
یہ کیپٹن عمار حسین تھے جن کے نام پر راولپنڈی میں چکلالہ گیریژن کے سامنے عمار شہید چوک بنایا گیا ہے۔ گمان ہے کہ کیپٹن عمار حسین ٹائیگر ہلز پر ہی دفن ہیں۔
کیپٹن عمار کے گھر میں داخل ہوں تو ڈرائنگ روم میں انھی کی تصاویر اور میڈلز نظر آتے ہیں۔ ان کی والدہ کبھی اپنے بیٹے سے ہونے والی آخری ملاقات، کبھی دورانِ جنگ ان کی بہادری کے قصے اور پھر سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے وہ وعدے یاد کرتی ہیں جن کی تکمیل نہیں ہو سکی۔
کیپٹن عمار حسین 14 جون 1999 کو آخری بار اپنی والدہ سے ملنے آئے۔
’وہ رات میرے لیے سکون کی آخری رات تھی۔ مجھے کہا کہ امی لیٹیں، میں ٹانگیں دباؤں۔ وہ ہمیشہ میری ٹانگیں دباتا تھا، نیچے بیٹھتا تھا۔ جب 15 جون کو کال آئی تو میں پریشان ہو گئی۔ میں نے کہا کہ تم کیوں ٹریک بدل رہے ہو، اتنی اچھی یونٹ چھوڑ کر تم ایس ایس جی میں آ گئے ہو۔ وہ میرے سامنے زمین پر بیٹھا اور مجھے کہا کہ’تو پھر امی مجھے کیوں فوج میں بھیجا تھا؟‘
کیپٹن کرنل شیر خان اور عمار کی دوستی جو مرتے دم تک قائم رہی
15 جون کو کیپٹن عمار حسین کی تعطیلات معطل کر دی گئیں اور انھیں واپس بلا لیا گیا۔
ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ ’اسی رات عمارنے میرے پاس بیٹھ کر ساری چیک بکس پر سائن کیے۔ اس وقت میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے کبھی اپنی کمزوری بچوں پر ظاہر نہیں ہونے دی تھی۔ آنسو دیکھ کر اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ ’امی، آپ تو بڑی بہادر ہیں۔‘ پھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے گھٹنوں پر ہاتھ رکھا اور کہا ’امی آپ نے پھر مجھے کیوں فوج میں بھیجا تھا، مجھے کسی دکان پر بٹھا دیتیں۔‘
کیپٹن عمار پہلے گلگت کی قریب ناردرن لائٹ انفنٹری کے سینٹر بونجی پہنحے جہاں سے ان کواستور کے راستے لائن آف کنٹرول کی قریب واقع گلتری کے مقام پر روانہ کر دیا گیا۔
گلتری میں ان کی ملاقات 12 این ایل آئی رجمنٹ کے کمانڈنگ افسر کرنل خالد نذیر سے ہوئی جو بعدازاں بطور بریگیڈیئر فوج سے ریٹائر ہوئے۔ ان کی آخری منزل ٹائیگر ہلز تھی جہاں وہ 25 جون کو پہنچ گئے۔
کیپٹن عمار حسین کو یہاں کیپٹن کرنل شیر خان ملے جو ان کے دوست تھے۔ دونوں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ایک ہی کورس کے ساتھی تھے اور ایک ہی کمرے میں بھی رہ چکے تھے۔
ٹائیگر ہلز پر کیپٹن کرنل شیر خان اور کیپٹن عمار حسین کے انڈین فوجیوں کے ساتھ معرکے کی تصدیق ان کی والدہ کے علاوہ اس وقت کے بریگیڈ کمانڈر نے بھی کی۔
ٹائیگر ہلز پر پاکستانی فوجیوں نے تین دفاعی لائنیں بنا رکھی تھیں جنھیں کوڈ نمبر 129 اے، بی اور سی دیا گیا تھا۔
انڈین فوجی 129 بی پر اس دفاعی لائن کو کاٹنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہاں ٹائیگر ہلز کی چوٹی پر سب سے بڑی اور اہم چوکی پر میجر ارشد سمیت 23 فوجی اہلکار موجود تھے۔ جب انڈین فوج نے 129 بی پر قبضہ کیا تو کیپٹن کرنل شیر اور میجر ارشد کی چوکی کے درمیان دفاعی لائن ختم ہو گئی۔
کیپٹن کرنل شیر خان اور کیپٹن عمار کا آخری آپریشن
کیپٹن کرنل شیر خان اور کیپٹن عمار حسین نے میجر ارشد سمیت دیگر ساتھیوں کو محفوظ بنانے کے لیے آپریشن کرنا تھا۔ چار جولائی کو کیپٹن شیر خان اپنے دوست کیپٹن عمار سے آ ملے۔ دوسری صبح انھوں نے انڈین فوجیوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
کرنل (ر) اشفاق حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’رات کو انھوں نے سارے سپاہیوں کو جمع کیا اور شہادت پر ایک تقریر کی۔ صبح پانچ بجے انھوں نے نماز ادا کی اور کیپٹن عمار کے ساتھ حملے پر نکل گئے۔’
اسی بارے میں کیپٹن عمار کی والدہ بتاتی ہیں کہ انھیں اس وقت چوکی پر موجود لیفٹیننٹ اقبال اور قریبی پوسٹوں پر موجود فوجی سنائپرز (ماہر نشانہ باز)نے ان الفاظ میں اس دن کا احوال سنایا:
‘لیفٹیننٹ اقبال نے مجھے بتایا کہ عمار ساری رات جاگتے رہے اور منصوبہ بندی کرتے رہے۔ پرچیاں لکھتے اور پھاڑتے۔ شیر خان رات مورچے پر پہنچے۔ کیپٹن عمار نے تہجد کی نماز ادا کی اور پھر وہ نکل گئے۔ انھوں نے پوسٹ کے اردگرد انڈیا کی بلاکنگ پوزیشن کو تباہ کیا اور واپس آ گئے۔‘
’جب واپس پہنچے تو صبح ہو گئی تھی اور انڈین آرمی کی گولہ باری اور فضائی حملہ شروع ہو گیا تھا۔ عمار واپس آئے اور کہا شیر خان اٹھو، بہت دیر ہو گئی ہے‘۔ کیپٹن شیر خان کہنے لگے پہلے نماز پڑھ لیں تو عمار نے کہا کہ ’نہیں نماز اوپر پڑھیں گے‘۔ ایک صوبیدار نے کہا سر اب تو روشنی ہو گئی ہے تو کیپٹن کرنل شیر خان نے انھیں کہا کہ بزدلوں والی باتیں کرتے ہو؟‘ ان کے ہمراہ سات یا آٹھ جوان بھی تھے۔‘
’اس کے بعد جب وہ لڑنے نکلے تو شہید ہو تے گئے۔ آخر میں شیر خان اور عمار بچ گئے، وہاں ایک رج (چوٹی) تھی اور دونوں اس سے آگے گئے۔ وہاں انڈین کیمپ تھا۔ ہاتھ اٹھا لیتے تو بچ جاتے مگر انھوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ دونوں سنائپر کی گولیوں سے شہید ہوئے۔ عمار کو سر، سینے اور ٹانگ پر گولی لگی اور پھر وہ گر گئے۔‘
’جنرل مشرف نے وعدہ کیا تھا ہمارے بچے واپس آئیں گے‘
اس کارروائی کے بعد کیپٹن کرنل شیر خان کی میت تو پاکستان کے حوالے کر دی گئی تاہم کیپٹن عمار اور دیگر ساتھیوں کو انڈین فوج نے ٹائیگر ہلز پر ہی دفن کر دیا۔
جنگ ختم ہونے کے بعد انڈین فوج نے قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو علاقے کا دورہ کرایا اور ایک مقام پر پاکستانی پرچم میں لپٹی میتوں کی نماز جنازہ اور تدفین ہوتے ہوئے دکھائی۔
یہ وہ خبر تھی جس سے کیپٹن عمار کی والدہ کے دل کو کچھ تسلی ملی جو مسلسل یہی چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے کی میت واپس لائی جائے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ان سے وعدہ بھی کیا تھا کہ میت واپس لائی جائے گی۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ ’جنرل مشرف ہمارے گھر آئے اور مجھ سے پوچھا کہ آپ کو کوئی پرابلم ہے؟ میں نے کہا ہمارے بچے واپس لے آئیں۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ ہم ضرور لائیں گے۔‘
پھر میں درخواستیں دیتی رہی، ٹیلی فون کرتی رہی مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ سال بعد ایس ایس جی کی ری یونین میں وہ ملے تو میں نے کہا کہ آپ تو وعدہ کر کے گئے تھے مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘
’پیسے، زمین، فلیٹ بیٹے کا نعم البدل نہیں‘
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر نے، جو خود بھی پاکستان آرمی سے تعلق رکھتے تھے، انھیں کہا کہ کیپٹن عمار جانتے تھے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔
’اس وقت ہم نے انٹرنیٹ پر دیکھا کہ انڈیا نے میتیں کلیم کرنے کی صورت میں انھیں وارثوں کے حوالے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میں بہت روئی پیٹی کہ میجر صاحب (کیپٹن عمار کے والد) ان کی میتیں لیں مگر انھوں نے کہا کہ ‘نہیں، عمار کی قربانی ضائع نہ کرو، اسے سب پتا تھا، وہ ساری کشتیاں جلا کر گیا تھا۔ بس اللہ کے حوالے کر دو۔ کچھ عرصہ تو اس امید پر گزارے کہ بچے واپس آئیں گے، مشرف نے وعدہ کیا تھا کہ واپس لیں گے مگر نہیں ہوا تو میں تھک ہار کر بیٹھ گئی۔‘
کیپٹن عمار کی والدہ کہتی ہیں کہ فوج کی جانب سے ان کا بہت خیال رکھا گیا اور کیپٹن عمار کو ان کی بہادری کے بدلے ستارہ جرات بھی دیا گیا۔
پاکستانی فوج میں شہدا پیکج کے ذریعے کسی بھی محاذ پر جان گنوانے والے افسران اور جوانوں کے اہلخانہ کی کفالت کا مکمل انتظام موجود ہے۔
’مجھے ہمیشہ یہ احساس ہوتا تھا کہ میرا بیٹا واپس آجائے گا مگر اب یقین نہیں کہ وہ واپس آئے گا۔ وہ خدا کے پاس چلا گیا۔ پھر فوج نے میرا بہت خیال رکھا۔ عمار کی یونٹ والے اور ان کے کورس میٹس ہر فنکشن پر بلاتے ہیں، ہر خوشی اور غمی میں ہمارے پاس آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک عمار گیا اور مجھے کئی عمار مل گئے۔‘
اس کے باوجود وہ ایک عام سی ماں بھی ہیں جو اپنی اولاد کے کھو جانے کے دُکھ کا اظہار بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں بار بار کرتی ہیں۔
’فوج نے بہت کچھ کیا، عمار کو ستارہ جرات ملا، زمین بھی دی مگر یہ پیسے، زمین، فلیٹ، یہ گھر، یہ چیزیں بیٹے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ کیا میں ان پیسوں سے عمار کو خرید سکتی ہوں؟‘
میجر ارشد: ’دفاع نہ کر پایا تو واپس نہیں آؤں گا’
کیپٹن عمار تنہا ایسے افسر نہیں جو برف پوش چٹانوں پر دفن ہیں۔ ایسے ہی ایک افسر میجر ارشد بھی تھے۔
ایک سابق فوجی اہلکار نے میجر ارشد کے حوالے سے بتایا کہ ان کا تعلق کراچی سے تھا، اس لیے ان کے اعلیٰ افسران انھیں ٹائیگر ہلز پر تعینات نہیں کرنا چاہتے تھے کہ ان کے لیے وہاں کا شدید موسم برداشت کرنا مشکل ہوگا۔
وہ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ ’میجر ارشد بضد تھے۔ آخر کار انھیں اجازت مل گئی کہ وہ ٹائیگر ہلز کی ایک رِج پر قائم اہم چوکی کی کمان سنبھالیں۔‘
’جب انھیں بتایا گیا کہ ان کے دفاع کے لیے بنی ٹائیگر ہلز کی ایک اور چوکی پر کیپٹن کرنل شیر خان تعینات ہوں گے تو انھوں نے گہری سانس لی اور کہا ’اگر کیپٹن شیر ہے تو پھر مجھے کوئی فکر نہیں۔‘
انھوں نے جانے سے پہلے اپنے اعلیٰ افسران کو کہا کہ ’میں اس چوکی کا مکمل دفاع کروں گا اور اگر ایسا نہ کر سکا تو میں واپس نہیں آؤں گا۔‘
جب انڈین فوج نے تین دفاعی لائنوں میں سے ایک پر قبضہ کر لیا تو میجر ارشد سمیت 23 فوجی اہلکاروں کے لیے واپسی ممکن نہ رہی۔
یہ چار جولائی کا دن تھا اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ تو طے پا گیا تھا لیکن محاذ پر لڑائی جاری تھی۔
پاکستانی فوجیوں کو، جو واپس لوٹ رہے تھے، مسلسل انڈین گولہ باری کا سامنا تھا۔ پانچ جولائی کو کیپٹن کرنل شیر خان اور کیپٹن عمار حسین نے بہادری سے لڑتے ہوئے میجر ارشد کی پوسٹ تک رسائی میں حائل انڈین پوسٹ کے خاتمے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
میجر ارشد اور ان کے ساتھی اب ہر طرف سے انڈین چوکیوں کی زد میں تھے۔ یہاں ان کے پاس ایک ہی بہت محدود اور رسک سے بھرپور آپشن تھا۔
انھوں نے اپنے ساتھیوں کو ٹولیوں میں تقسیم کیا اور ان کو انڈین چوکیوں کی ناک تلے ایک خفیہ راستے سے گزرنے کے لیے چھلانگ لگانے کا حکم دیا۔
ان کے ساتھ موجود تمام اہلکاروں نے ایسا ہی کیا اور برفیلی ڈھلوانوں پر پھسلتے ہوئے واپسی کے راستے کی طرف بڑھے۔ حیران کن طور پر اس پوسٹ کے تمام فوجی اہلکار زندہ سلامت واپس پہنچے ماسوائے میجر ارشد۔
سابق فوجی اہلکار کے مطابق ’میجر ارشد پوسٹ پر رہنے والے آخری افسر تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے میجر ارشد کے ہمراہ آخری فوجی اہلکار سے پوچھا کہ وہ کہاں رہ گئے، تو ان کو جواب ملا کہ ’میجر ارشد نے اس وقت تک ڈھلوان سے چھلانگ نہ لگائی جب تک باقی فوجی وہاں سے نکل نہ گئے۔ میں میجر ارشد کے ساتھ تھا۔ انھوں نے مجھے چوکی سے اترنے کا کہا۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا اور پھر میں نے میجر ارشد کو چھلانگ لگاتے سنا لیکن اس کے بعد ہمیں کچھ پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے۔‘
کیپٹن فرحت حسیب: ’مجھے اب بھی لگتا ہے کہ وہ واپس آئے گا‘
کیپٹن فرحت حسیب حیدر جون 1999 میں کارگل محاذ پر اقبال پوسٹ پر پہنچے تھے۔ یہ ترتوک کا علاقہ تھا جہاں چوٹیوں پر بنی چوکیوں کے کنٹرول پر شدید لڑائی جاری تھی۔
کیپٹن فرحت حسیب حیدر کا تعلق پنجاب کے علاقے تلہ گنگ سے تھا۔ ان کے آبائی گھر کے بیشتر کمروں پر اب قفل پڑا ہے مگر یہاں اب بھی ایک شخص ایسا ہے جو کہیں اور جانے کے خیال سے ہی خائف ہے۔ یہ کیپٹن فرحت حسیب حیدر کے والد ہیں۔
وہ نوے کے پیٹے میں ہیں۔ ڈھلتی عمر اور بیماریوں نے ان کی قوت گویائی اور یادداشت کو بری طرح متاثر کیا ہے مگر ان کو وہ لمحہ آج بھی یاد ہے جب وہ آخری بار اپنے بیٹے سے ملے تھے۔
’مجھے اب بھی لگتا ہے کہ وہ آ جائے گا‘ اور یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑے۔ اس سے زیادہ بولنا اور رونا ان کی صحت کے لیے مضر تھا۔
کیپٹن فرحت حسیب کے بڑے بھائی عطرت حسین بھی کم و بیش ایسی ہی تکلیف سے گزرتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ’کیپٹن فرحت خاندان کا فخر ہیں کیونکہ انھوں نے ملک کے لیے جان دی۔‘
عطرت حسیننے بتایا کہ کیپٹن فرحت حسیب کی ہلاکت کی خبر ملنے کے کچھ ہی عرصہ بعد والد کو دل کا دورہ پڑا اور بیماریوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جبکہ ’والدہ جو ایک ہنس مکھ خاتون تھیں سنجیدہ اور کم گو ہو گئیں۔‘
’والدہ یونیفارم دیکھتیں تو انھیں بیٹا یاد آتا‘
عطرت حسیننے اپنی والدہ کے بارے میں بتایا کہ ’وہ بہادر تھیں مگر ہم کوشش کرتے کہ انھیں پریڈ نہ دکھائیں۔ وہ یونیفارم دیکھتیں تو انھیں بیٹا یاد آتا۔ انھوں نے بہت ہمت اور حوصلے سے زندگی گزاری لیکن ماں تو ماں ہوتی ہے۔ کبھی رو لیا کرتی تھیں۔اہم بات یہ ہے کہ جب ہم بچے کو آرمی میں بھیجتے ہیں تو کسی بھی بات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘
کیپٹن فرحت جس محاذ پر گئے وہاں سے ان کے ایک ساتھی زندہ واپس آئے جن کا نام سلیمان تھا۔
انھوں نے عطرت حسین کو بتایا کہ ’کیپٹن حسیب کو جس دن انڈیا کے خلاف ایک جوابی کارروائی کا حکم ملا تو انھوں نے سب کو جمع کیا اور بتایا کہ انھیں لڑنے کا حکم ملا ہے اور فلاں علاقہ کلیئر کرنا ہے۔‘
’اس نے کہا کہ میرے ساتھ صرف وہ آئے جس نے واپس نہیں آنا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے حلف اٹھایا ہے اس لیے ہم کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
’پھر انھوں نے وصیت کی کہ میرے گھر والوں کو بتانا ہے کہ میں نے کسی کا قرض نہیں دینا اور یہ کہ زیادہ تر نمازیں میں نے پڑھ لی ہیں اور جو نہیں ادا کر پایا، ان کے لیے عالم دین سے پوچھیں کہ کیا حکم ہے۔‘
’کیپٹن فرحت اپنے ساتھیوں کو لیڈ کر رہے تھے۔ پھر انھوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر فائرنگ شروع کی۔ کچھ ہی دیر میں انھوں نے کامیابی سے علاقہ کلیئر کروا لیا۔‘
مگر پھر وہ بلندی پر موجود انڈین چوکی کی گولہ باری کی زد میں آ گئے۔
’اس علاقے میں کوئی آڑ تھی نہ کوئی پتھر کہ فائر رک سکتا۔ یہ تقریبا چٹییل علاقہ تھا۔ اس لیے کیپٹن فرحت اور ان کے ساتھی اس گولہ باری سے نہ بچ سکے۔ دو سپاہی بچے جن میں سے ایک زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہو گئے جبکہ دوسرے سلیمان نامی سپاہی نے بتایا کہ کیپٹن فرحت حسیب نے انتہائی دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ کیپٹن فرحت حسیب کی میت کی واپسی کے لیے انھوں نے کوشش کی مگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں اس وقت کی فوجی اور سول قیادت کی جانب سے مزید کوشش ہونی چاہیے تھی:
’میت نہیں تھی توایک فیصد ہی چانس تھا کہ وہ شاید زندہ ہوں۔ جن کے فون آتے ہم ان سے بات کرتے رہتے تھے لیکن شاید ان کی میت وہاں تھی جہاں سے واپس آنا مشکل تھا۔‘
’ہم یہ سوچتے تھے کہ کیا خبر کوئی معجزہ ہو جائے اور وہ واپس آ جائیں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھنا کہ قبر میں اتار دیا، یا سپرد خاک کر دیا، کبھی فاتحہ کے لیے چلے گئے کبھی قرآن خوانی کر دی تو (غم کی) شدت میں کچھ کمی آ جاتی ہے۔‘
’مگر اب وہ نہیں ہیں اور پتا بھی نہیں۔ یعنی سنی سنائی بات ہے۔ امید رہتی ہے کہ شاید (کیپٹن فرحت) واپس آ جائیں مگر اب اتنا عرصہ گزر گیا ہے۔ وقت نے زخم کم کر دیے ہیں۔’
’میں آج بھی سوچتا ہوں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا۔ میں گولی کے آگے کھڑا ہو جاتا۔‘
میتیں واپس نہ آنے کی وجوہات
ایسا بھی نہیں کہ پاکستان کی جانب سے اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افسران اور جوانوں کی میتیں واپس نہیں آئیں۔ ایسی زیادہ تر میتیں واپس لائی گئی تھیں۔
بی بی سی نے اس سلسلے میں مختلف فوجی اہلکاروں، شہدا کے اہلخانہ اور ان علاقوں میں موجود سول ٹھیکیداروں سے بات کی جو اس وقت فوجی چوکیوں پر سامان پہنچانے کا کام کر رہے تھے۔
ان علاقوں سے میتیں واپس نہ آنے کی بہت سی ایسی وجوہات ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بی بی سی نے سکردو کے رہائشی حسینی نامی ٹھیکیدار سے بات کی جو کارگل جنگ کے دوران پاکستانی فوجی دستوں تک سامان پہنچانے کے لیے گاڑی ٹھیکے پر دے رکھی تھی، وہ خود یہ گاڑی ڈرائیو کرتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک محدود علاقے تک گاڑی جاتی تھی اور وہاں آمدورفت خاصی مشکل تھی۔
’دن کو شدید گولہ باری ہوتی تھی اس لیے رات کو سفر کیا جاتا۔ ٹریک نہیں بنا ہوا تھا اور ایک محدود فاصلے تک گاڑی جا سکتی تھی۔ ہم کھانے پینے کا سامان وغیرہ لے کر جاتے تھے اور واپسی پر وہاں سے فوجی اہلکار آتے جبکہ زخمی اور ہلاک ہونے والے فوجی بھی لائے جاتے تھے لیکن ان کی زیادہ تعداد کو فوجی گاڑیوں میں ہی میڈیکل کیمپ تک منتقل کیا جاتا تھا’۔
پاکستانی فوجی اہلکاروں کی میتیں واپس لینے والے ایک افسر لیفٹیننٹ کرنل آصف تھے جو بعد میں بطور بریگیڈیر فوج سے ریٹائرڈ ہوئے۔ چونکہ پاکستانی فوجی دستوں کی واپسی سیز فائر یعنی فائربندی کے معاہدے کے بغیر ہو رہی تھی اس لیے انڈین فوج نے ان فوجیوں پر حملے جاری رکھے جو اب واپسی کے سفر پر تھے۔
لیفٹیننٹ کرنل آصف بھی فوجی دستوں کی واپسی کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے ایک پوسٹ پر تعینات کیے گئے تاہم 24 اور 25 جولائی کو انڈین ٹروپس نے یہاں حملہ کر دیا۔ اس دوران دونوں طرف ہلاکتیں ہوئیں تاہم پاکستانی فوجی اس وقت ’ودڈرال‘ کی پوزیشن میں تھے۔
ایک پاکستانی اور انڈین فوجی افسر کی ملاقات کی کہانی
بریگیڈ ہیڈکوارٹر نے اس وقت انڈین فوج سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ ’ہمارے جوانوں کی میتیں آپ کے پاس ہیں، وہ ہمیں واپس کریں۔‘
کرنل آصف کو مخصوص فریکوینسی بتائی گئی جس پر رابطہ قائم کرنے کے بعد انھوں نے انڈین پوسٹ پر اپنے ہم منصب سے ملاقات کی۔
اس دن کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک سابق فوجی اہلکار نے بتایا کہ ’انڈین کرنل سے جب میتوں کی واپسی کے لیے میٹنگ ہوئی تو ہمارے درجن بھر لوگ اور اس کے پیچھے سینکڑوں اہلکار کھڑے تھے۔‘
’اس نے ہمارے افسر سے پوچھا کہ تمہارے کتنے بندے ہیں۔ ان کو بتایا گیا کہ ہماری 10 باڈیز ہیں۔ جس پر انڈین افسر نے کہا کہ ’یار میری تو بہت زیادہ ہیں، تمہاری اتنی کم کیوں؟‘
’پھر اس نے کہا کہ تم لوگ ہم پر فائرنگ بند کرنے کا اعلان کرو۔ ہماری طرف سے ان کو بتایا گیا کہ تم لوگ حملہ نہیں کرو گے تو ہم فائرنگ نہیں کریں گے لیکن جب حملہ ہو گا تو فائر بھی ہوگا۔ اس کے بعد انڈین افسر نے کہا کہ اب وہ فائر نہیں کریں گے۔ پاکستان نے اپنے اہلکاروں کی میتیں واپس لیں۔‘
کیپٹن تیمور ملک جن کے والدین نے بیٹے کی لاش کی واپسی ممکن بنائی
اسی طرح کیپٹن تیمور ملک کی میت بھی پاکستان واپس پہنچی۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے کیپٹن تیمور ملک پاکستان آرمی کی 38 آزاد کشمیر اور 3 این ایل آئی بٹالین کے ساتھ منسلک تھے۔
وہ 27 جون 1999 کو شیوک سب سیکٹر میں ایک کارروائی کے دوران انڈین گولی کا نشانہ بنے تاہم ان کے اہلخانہ نے ایک طرف پاکستان میں حکام سے بات چیت کی اور دوسری جانب برطانیہ میں انڈین ہائی کمیشن سے رابطہ کیا۔
کیپٹن تیمور ملک کے والد بھی پاکستان آرمی سے بطور کرنل ریٹائر ہوئے تھے۔ ان کے نانا اور نانی ان دنوں برطانیہ میں مقیم تھے اس لیے انھوں نے انڈین ہائی کمیشن کو خط لکھا اور انہیں آگاہ کیا کہ ان کے نواسے کی ہلاکت کس علاقے میں ہوئی اور ان کی میت اس وقت انڈیا کے پاس موجود ہے۔
ان کی خوش قسمتی تھی کہ انڈین ہائی کمیشن نے خط انڈین فوج تک پہنچایا اور یوں انڈیا نے ان کی میت کی واپسی کا اعلان کیا۔ کیپٹن تیمور ملک کو پاکستانی فوج نے تمغہ بسالت دیا اور ان کی تدفین پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ان کے آبائی علاقے میں گئی۔
فوجی اہلکاروں کی واپسی کے لیے بات چیت کیوں نہ کی گئی؟
یہ سوال ہم نے متعدد سابق فوجی افسران اور تجزیہ کاروں سے پوچھا۔ پاکستان میں کارگل جنگ ایک حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اس لیے اکثراوقات سابق فوجی اہلکار اس معاملے پر زیادہ بات نہیں کرتے۔
تاہم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس جنگ کا حصہ رہنے والے افسران نے بی بی سی سے بات کی۔ ان کے مطابق کارگل جنگ میں زیادہ تر میتیں پاکستان واپس لائی گئیں اور لواحقین کے حوالے کی گئیں۔
ایک افسر کے مطابق ’اس ضمن جو باتیں کی جاتی ہیں ان کی حیثیت ایک پراپیگنڈا سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ کچھ فوجیوں کی میتیں واپس نہیں لائی جا سکیں لیکن یہ تعداد انتہائی کم ہے اور اس کی بہت ٹھوس وجوہات بھی موجود ہیں۔’
اس وقت فوج میں اعلی عہدے پر تعینات سینیئر افسر نے بھی بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ ’انڈیا کے ساتھ کچھ خط و کتابت ہوئی تھی میتوں کی واپسی کے لیے اور ہماری باڈیز واپس لائی گئی تھیں۔ اکا دکا واقعات ایسے ہیں جہاں ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
جنگ بندی کے بغیر فوج واپس بلانے کا فیصلہ جو مہلک ثابت ہوا
سابق فوجی اہلکار کے مطابق ’اس جنگ کی ایک اور اہم بات یہ تھی کہ حکومت نے فوجی دستے واپس بلانے کا فیصلہ تو کر لیا مگر یہ ایک غیر مشروط معاہدہ تھا۔ اس میں سیز فائر تک شامل نہیں تھا۔‘
’عام طور پر جب جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے تو فائربندی کا معاہدہ طے پاتا ہے اور فوجی دستوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ فلاں صبح فائربندی ہو جائے گی اور اس کے بعد ٹروپس واپسی کی تیاری کرتے ہیں مگر کارگل جنگ میں سیز فائر نہیں کیا گیا۔‘
’کسی بھی جنگ یا فوجی آپریشن کے بعد یہ اصول ہے کہ دستے ایک گروپ کی شکل میں واپس آنے کی بجائے دو یا تین اہلکاروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں سفر کرتے ہیں۔ ایک پوائنٹ طے کیا جاتا ہے کہ اتنے کلومیٹر بعد فلاں جگہ سب اکٹھے ہوں گے۔ ایسا دشمن کے وار سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ وہ سب کو ایک ہی بار نشانہ نہ بنا سکیں۔‘
’کارگل میں جب سیز فائر کے بغیر واپسی کا عمل شروع ہوا تو انڈین فوج نے اس سے فائدہ اٹھایا اور ہمارے دو دو، تین تین کی ٹولیوں میں آتے فوجیوں کو گولہ باری کا نشانہ بنایا جن کے پاس اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس لیے یہ پتا لگانا ناممکن تھا کہ وہ کہاں اور کس علاقے میں فائرنگ کا نشانہ بنے۔‘
کچھ فوجی جن کو ہلاک تصور کیا گیا لیکن وہ واپس آ گئے
ایک اور فوجی اہلکارنے کہا کہ ’ہمیں یہ بھی پتا نہیں چل سکتا تھا کہ اگر کوئی جوان واپس نہیں آیا تو کیا وہ کسی گولی کا نشانہ بنا ہے یا موسم کی شدت یا کسی کھائی میں گرنے سے موت واقع ہوئی۔‘
’لیکن ایسے بھی کئی واقعات تھے کہ ہم یہ سمجھے کہ فلاں فوجی ہلاک ہو گیا اور ان کے اہلخانہ کے لیے پینشن اور دیگر سہولیات کے کاغذات تیار کرتے مگر پھر پتا چلتا کہ وہ فوجی راستے میں کھو گیا تھا اور اب واپس پہنچ گیا ہے۔‘
’ان پہاڑی چوٹیوں پر نہ کوئی نشان تھے نہ ٹریک بنے تھے جنھیں فالو کیا جاتا۔‘
ان سابق اہلکاروں کے مطابق یہ علاقے انتہائی دشوار گزار تھے جہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی درجے نیچے رہتا ہے۔
ہزاروں فٹ کی بلندی پر سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور اس قدر بلندی کی چڑھائیوں کے لیے ایک فوجی اپنے ساتھ صرف 20 کلو وزن رکھ سکتا ہے۔ اس میں کھانے پینے کی اشیا، اسلحہ اور دیگر ساز و سامان شامل ہے۔
کسی بھی جنگ میں زخمی اور ہلاک ہونے والی فوجیوں میں سے زخمی کو ترجیح دی جاتی تاکہ اس کی جان بچائی جا سکے اور عام جنگی ماحول میں اگر ہلاک شدگان کا ساتھ لے جانا ممکن نہ ہو تو انھیں وہیں عارضی طور پر دفن کر کے نشان لگا دیے جاتے ہیں اور جنگ بندی کے بعد ان کی میتیں واپس لی جاتی ہیں۔
کارگل کا مشکل اور دشوار گزار محاذ
سابق اہلکاروں کے مطابق کارگل محاذ کا میدان جنگ ایک یکسر مختلف جگہ تھی۔ یہ انتہائی بلندی واقع مشکل ترین علاقہ تھا، یہاں موسم شدید تھا اور برف کے طوفان معمول تھے۔ جب پہاڑی علاقوں سے میت یا زخمی نیچے لانا مقصود ہو تو اسے سٹریچر پر باندھا جاتا ہے اور کم از کم دو فوجی اہلکار اسے گھسیٹتے ہوئے واپس لاتے ہیں۔‘
اس جنگ میں براہ راست کمان کرنے والے ایک سابق فوجی افسر نے بتایا کہ ’بلندی کی چوکیوں پر سامان پہنچانے کے لیے عام طور پر سات سے آٹھ اہلکاروں پر مشتمل ٹیمیں بھیجی جاتی تھیں مگر یہ انتہائی نامساعد حالات میں سفر کرتیں۔‘
’ایک طرف یہ انڈین آرٹلری کے نشانے پر ہوتے، دوسری جانب راستوں کی وضاحت نہیں تھی، تیسرا اگر یہ انڈین فائرنگ سے بچ بھی جاتے تو راستے میں آنے والی کسی نہ کسی چوکی یا پوائنٹ پر انھیں کوئی اور زخمی یا ہلاک شدہ فوجی ملتا جنہیں واپس لانا ہوتا۔‘
’اس طرح اس ٹیم کے دو فوجی وہیں سے زخمی فوجی کے ساتھ واپس روانہ ہو جاتے حتی کہ سب سے اوپر والی چوکی پہنچے تک اس ٹیم میں صرف دو یا تین افراد ہی باقی بچتے تھے جنھیں اکثر 20 کلو سے زیادہ وزن اٹھانا پڑتا تاکہ چوکی تک سامان پہنچایا جا سکے۔ ایسے حالات میں بہت مشکل تھا کہ ہر میت پہنچائی جائے۔ اس کے باوجود پاکستانی فوجی اہلکاروں نے اپنے ساتھیوں کی میتیں واپس لائیں۔‘
دوسری جانب انڈیا اور خود پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے کچھ فوجی اہلکاروں کی میتیں اس لیے وصول نہیں کیں کیونکہ پاکستان یہ دعویٰ کر چکا تھا وہ لائن آف کنٹرول پار کر کے انڈین فوجیوں پر حملہ کرنے والے دراصل ’کشمیری مجاہدین‘ ہیں۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے متعلقہ ذرائع کہتے ہیں کہ ’پاکستان ہمیشہ امن کا خواہاں ملک رہا ہے اور امن کے لیے تمام تر اقدامات بھی کیے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے لیے کیے گئے حالیہ اقدامات
بھی دنیا کے سامنے ہیں۔‘
ان کے مطابق انڈیا ’اس قسم کا من گھرٹ، جھوٹا اور بے بنیاد پراپگینڈا ہمیشہ سے کرتا آیا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اپنے شہدا پر فخر کیا خواہ وہ کسی بھی جنگ یا آپریشن کے کیوں نہ ہوں۔ یہ بات بھی زیرِ غور لائی جانی چاہیے کہ جنگ کن حالات میں اور کس مقام پر ہوئی۔‘
’کارگل کی جنگ ایک سنگلاخ مقام پر ہوئی اور ایسے علاقوں میں اکثر کوئی نہ کوئی میت دونوں طرف کی رہ جاتی ہے جو کہ ارادی طور پر نہیں ہوتا۔‘
26 جولائی تک کارگل جنگ ختم ہو چکی تھی۔ پاکستان کے فوجی دستے دسمبر 1998 میں شروع کی گئی، ان بیشتر چوکیوں سے واپس اپنے علاقے میں آ چکے تھی جبکہ کچھ چوکیاں پاکستان کے پاس ہی رہیں۔
ترتوک کے علاقے میں دھاڑتے دریائے شیوک کے قریب برف پوش ڈھلوانوں پر انڈین فوجیوں کو کئی ہفتوں بعد کیپٹن حنیف الدین کی لاش مل گئی۔ انھیں انڈین فوجی اعزاز ویر چکرا دیا گیا۔ ان کی تدفین نئی دہلی میں ہوئی۔
لیکن کیپٹن فرحت حسیب کی قسمت مختلف تھی۔ ان کی میت آج بھی وہیں برف کی تہہ تلے دفن ہے۔