ادباسلامبلاگ

پرتگال کے ’مزارِ فاطمہ‘ کی کہانی جہاں ہر سال لاکھوں مسیحی زائرین آتے ہیں

پرتگال کے وسط میں واقع فاطمہ نامی قصبے کو کیتھولک عقیدے میں مذہبی و تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ہر سال 13 مئی کو حضرت مریم کے ’دوبارہ ظہور‘ کی ساگرہ منانے کے لیے بڑی تعداد میں کیتھولک زائرین اس قصبے کا رُخ کرتے ہیں۔

کیتھولک چرچ کا کہنا ہے کہ جیسنٹا، فرانسسکو اور لوسیا کے سامنے مریم کا ظہور ہوا تھا

پرتگال کے وسط میں واقع فاطمہ نامی قصبے کو کیتھولک عقیدے میں مذہبی و تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ہر سال 13 مئی کو حضرت مریم کے ’دوبارہ ظہور‘ کی ساگرہ منانے کے لیے بڑی تعداد میں کیتھولک زائرین اس قصبے کا رُخ کرتے ہیں۔

اس جگہ کی کہانی لاکھوں کیتھولک زائرین کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے تاہم اس قصبے کا نام ’فاطمہ‘ کیسے پڑا، یہ اب بھی کسی معمے سے کم نہیں۔

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق ویٹیکن کی روایت تین چرواہے بچوں سے متعلق ہے۔ اس کے مطابق نو سالہ لوسیا ڈاس سانٹوس، 8 سالہ فرانسسکو اور چھ سالہ جیسنٹا مارٹو کے سامنے حضرت مریم کا دوبارہ ظہور ہوا۔

قصبہ فاطمہ پرتگال کے دارالحکومت لزبن سے تقریباً 113 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔

کیتھولک روایات کے مطابق تینوں چرواہے بچوں نے حضرت مریم کے دوبارہ ظہور کے علاوہ دیگر چیزوں کے بارے میں بھی اطلاع دی جنھیں ویٹیکن ’معجزات‘ کے طور پر بیان کرتا ہے

مئی 1951 میں وسطی پرتگال میں کیتھولک مزار فاطمہ پر لوگ جلوس کی صورت میں جمع ہیں

مریم کے ظہور کے بارے میں ویٹیکن کا کیا کہنا ہے؟

کیتھولک چرچ حضرت مریم کی جانب سے بچوں پر ظاہر کیے گئے تین رازوں کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

کیتھولک چرچ کے مطابق یہ تین راز مندرجہ ذیل ہیں:

  1. جہنم کا خوفناک نظارہ
  2. پہلی عالمی جنگ کے خاتمے اور دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے متعلق پیشگوئی
  3. 13 مئی 1981 کو پوپ جان پال دوم کو قتل کرنے کی کوشش کی پیشگوئی

پوپ بینیڈکٹ کے مطابق ان رازوں کو ظاہر کرنے کا مقصد ’تبدیلی کی قوتوں کو صحیح سمت میں متحرک کرنا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ یہ بائبل کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ وہ اسے ایک ’عام وحی‘ طور پر بیان کرتے ہیں۔

پوپ بینیڈکٹ کا مزید کہنا تھا کہ ان انکشافات کا مقصد لوگوں کو عیسائیت کی تعلیمات کے مطابق ’بہتر زندگی گزارنے میں مدد‘ فراہم کرنا ہے۔

پوپ تین چرواہے بچوں میں سے دو جیسنٹا اور فرانسسکو مارٹو کی قبر پر دعا مانگ رہے ہیں

فاطمہ کا مزار

 

دنیا بھر سے کیتھولک زائرین فاطمہ کے مزار پر حاضری دینے آتے ہیں۔

کیتھولک زائرین پہلی بار مزار کی زیارت کے لیے 1927 میں فاطمہ آئے اور 1928 میں مزار پر ایک چرچ تعمیر کر دیا گیا۔

اس چرچ کے بارے میں خیال ہے یہ اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے کہ جہاں ’حضرت مریم کا ظہور ہوا تھا‘۔ چرچ کے ٹاور کی اونچائی 65 میٹر ہے جس کے اوپر ایک بڑا کانسی کا تاج اور ایک کرسٹل کی سلیب بنی ہوئی ہے۔

13 مئی 1967 کو ’ظہور‘ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر تقریباً دس لاکھ زائرین فاطمہ میں جمع ہوئے جہاں پوپ پال ششم نے اجتماعی دعا کروائی۔

نو سال کی عمر میں ’حضرت مریم کا ظہور‘ دیکھنے والی لوسیا بعد ازاں راہبہ بن گئیں اور 97 سال کی عمر تک زندہ رہیں۔

انھوں نے ’فاطمہ کے تین راز‘ (تھری سیکریٹس آف فاطمہ) لکھی اور ان کی وفات 2005 میں ہوئی۔

لیکن فرانسسکو اور جیسنٹا مارٹو 1918-1919 کے انفلوئنزا کی وبا کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں۔

سنہ 2000 پوپ جان پال دوم نے دونوں بچوں کے سعادت ابدی کا اعلان کیا اور پھر 2017 میں پوپ فرانسس نے ’ظہور‘ کی صد سالہ تقریب کے موقع پر دونوں کو ’سینٹ‘ قرار دے دیا۔

قصبے کا نام ’فاطمہ‘ کیسے پڑا؟

اس قصبے کا نام فاطمہ کیسے پڑا، اس بارے میں کئی متضاد روایات پائی جاتی ہیں۔

کچھ کا ماننا ہے کہ قصبے کا نام جزیرہ نما آئبیریا میں مسلمانوں کے دورِ حکومت میں پیغمبرِ اسلام کی بیٹی فاطمہ کے نام کی مناسبت سے رکھا گیا تھا۔

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق اس قصبے کا نام 12ویں صدی میں اندلس کے مسلمانوں (موریش) کی ایک شہزادی کے نام پر رکھا گیا۔ موریش شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان حکمرانوں کو کہا جاتا ہے جنھوں نے آٹھویں صدی سے 15ویں تک سپین اور آس پاس کے علاقوں پر حکمرانی کی تھی۔

ایک ویب سائٹ نوبیلٹی کے مطابق سنہ 1158 میں ایک پرتگالی نائٹ نے شہزادی کے والد کو شکست دینے کے بعد فاطمہ کو قیدی بنا لیا۔

بعد ازاں نائٹ نے پرتگال کے بادشاہ ڈوم افونسو ہینریکس سے اس سے شادی کی اجازت مانگی۔ بادشاہ نے انھیں دو شرائط پر اجازت دی۔ ایک کہ شہزادی کیتھولک مذہب اختیار کر لے اور دوسری یہ کہ وہ نائٹ سے شادی کرنے پر راضی ہو جائے۔

مذہب کی تبدیلی کے بعد شہزادی کا نیا نام اوریانا رکھا گیا۔ پرتگال کے بادشاہ نے شادی کے تحفے کے طور پر انھیں ایک شہر دیا۔ وقت کے ساتھ شہر کا نام بدل گیا اور بعد میں قریبی پہاڑی علاقہ جہاں شہزادی کچھ عرصہ مقیم رہی تھیں وہ ان کے اصل نام سے مشہور ہوا۔

ایک تیسری روایت کے مطابق، فاطمہ کا قصہ 1492 کا ہے جب سقوطہ غرناطہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ جب الفانسو اول اور اس کی فوج فتح یاب ہوئی اور سالٹ پیلس پر قبضی کیا تو جنگی قیدیوں میں اندلس کی ایک شہزادی بھی تھی جس کا نام فاطمہ تھا۔ 

شہزادی نے مذہب تبدیل کیا اور اورم شہر کے گورنر نے اس سے شادی کر لی۔ شہزادی فاطمہ اپنی اعلیٰ ثقافت کے لیے مشہور تھیں۔

روایت کے مطابق شہزادی بہت خوبصورت اور نرم دل تھیں جو جلد ہی عوام میں اتنی مقبول ہو گئیں کہ لوگوں نے وہ محل جہاں وہ رہتی تھیں اور آس پاس کے علاقے کا نام ان کے نام پر رکھ دیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ وہاں ان کے نام سے ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہوگیا جو بعد ازاں دنیا بھر سے آنے والے کیتھولک زائرین کے لیے مقدس حیثیت رکھتا ہے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت