احمد بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ اُس کا کچھ پتا چل سکے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’جہاں کبھی گھر ہوا کرتے تھے وہاں اب صرف جھلسی ہوئی باقیات تھیں۔ آس پاس کے علاقوں کو تباہ کر دیا گیا تھا اور کثیر منزلہ عمارتوں کو زمین بوس کر دیا گیا تھا۔‘
غ زہ کی سول ڈیفنس ٹیم کی جانب سے ملبے اور قریبی اجتماعی قبروں سے نکالی گئی لاشوں میں ریٹائرڈ ایمبولینس ڈرائیور مصطفیٰ کی لاش کی تلاش کی لیکن وہ نہیں مل سکا۔
احمد کہتے ہیں کہ ’ہمیں اب بھی امید ہے کہ ہسپتال میں داخل ہونے والی ہر ایمبولینس میں سے کسی میں تو ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔‘
غ زہ میں حم اس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اب تک جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 35 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے لیکن یہ تعداد صرف ہسپتالوں میں ریکارڈ کی گئی اموات کی ہے۔
مصطفیٰ کے خاندان کی طرح بہت سے خاندان ایسے ہیں جو اس بارے میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں کہ گذشتہ سات ماہ میں ان کے گمشدہ پیاروں کے ساتھ کیا ہوا۔
جنیوا میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ اس کے بعد سے اب تک تقریباً 13 ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ان اعداد و شمار میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ان افراد میں سے کتنے عام شہری اور کتنے حم اس کے اہلکار ہیں۔
غ زہ کے شہری دفاع جو فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کا حصہ ہے کا اندازہ ہے کہ ان میں سے ممکنہ طور پر 10 ہزار سے زیادہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غ زہ کی پٹی میں تقریباً 37 ملین ٹن ملبہ موجود ہے جس کے نیچے بہت سی لاشیں ہیں اور تقریباً 7500 ٹن ایسے بم موجود ہیں جو ابھی تک پھٹے نہیں ہیں۔ یہ امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کے لیے ایک اضافی خطرہ ہو سکتا ہے۔
سول ڈیفنس کا کہنا ہے کہ اس کا عملہ رضاکاروں کے ساتھ مل کر ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالنے کا کام کرتا ہے لیکن ان کے پاس صرف سادہ اوزار ہیں اور اکثر مرنے والوں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
اس بات پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ جب غ زہ اپنے گرم ترین مہینوں کی طرف بڑھ رہا ہے تو لاشوں کو مناسب انداز میں دفن نہ کرنے کی وجہ سے اُن کے گل سڑ جانے کی وجہ سے صحت کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔
عبدالرحمٰن یغی کو ملبے سے لواحقین کو نکالنے کی کوشش کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔
22 فروری کو وسطی غ زہ کے شہر دیر البلاح میں تین منزلہ عمارت کو اس وقت میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا جب ان کے خاندان کے 36 افراد اس عمارت کے اندر موجود تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ 17 لاشیں نکالی گئی ہیں لیکن لاش کے جو حصے بھی نکالے گئے ہیں ان کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں گھر میں موجود زیادہ تر بچوں کی لاشیں نہیں ملیں۔‘
سول ڈیفنس نے لاشیں نکالنے میں مدد کے لیے اقوام متحدہ اور اس حوالے سے تجربہ رکھنے والے ممالک سے بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے بین الاقوامی تنظیموں سے فوری طور پر مداخلت کرنے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ وہ غزہ میں امدادی کارروائیوں میں مدد کے لیے بھاری سازوسامان کے داخلے کی اجازت دے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا خیال ہے کہ بظاہر لاپتہ ہونے والے دیگر افراد کو اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ان کے اہل خانہ کی معلومات کے بغیر حراست میں لیا ہو گا جسے وہ ’جبری گمشدگی‘ قرار دیتے ہیں۔
یورو میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کا اندازہ ہے کہ غزہ سے سینکڑوں فلس طینیوں کو آئی ڈی ایف نے ان کے اہلخانہ کو بتائے بغیر حراست میں لیا ہوا ہے۔ جنیوا کنونشن جس پر اسرائیل نے دستخط کیے ہیں میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کو حراست میں لیے گئے شہریوں کی شناخت اور مقام کی اطلاع دینی ہو گی۔
اس رائیلی حکام نے سات اکتوبر کے حملوں کے بعد ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) کے حراستی مراکز کے دورے بھی معطل کر دیے ہیں۔
مصطفیٰ لا پتا ہونے سے پہلے ایک ایمبولینس کے ڈرائیور تھے
غ زہ میں آئی سی آر سی سے تعلق رکھنے والے ہشام محنا کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے بار بار فلس طینی قیدیوں تک رسائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن کمیٹی کو ابھی تک رسائی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔‘
آئی سی آر سی کا مزید کہنا ہے کہ ’اسے حماس کے زیرِ حراست اسرائیلی یرغمالیوں سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ہے۔‘
بی بی سی نے اس حوالے سے آئی ڈی ایف سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے اس بارے میں بات کرنے اور بی بی سی کے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کیا۔
تاہم اس رائیل کے قومی سلامتی کے وزیر اتامر بن گویر نے کہا کہ ’ریڈ کراس کو اس رائیل میں قید حماس کے جنگجوؤں کے بارے میں اس وقت تک معلومات حاصل نہیں کرنی چاہییں جب تک اسرائیلی ریاست غزہ میں ہم سے اغوا کیے گئے افراد کی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کرتی۔‘
غزہ کے وسطی قصبے الزویدہ میں ایک اور خاندان ایک اور لاپتہ بیٹے کی تلاش میں ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ وہ ’جبری طور پر لاپتہ‘ افراد میں سے ایک ہو سکتا ہے۔
اپنے ہاتھ میں ایک تصویر کے ساتھ، محمد علی کی ماں نے اسے تلاش کیا یہاں تک کہ کسی نے اسے بتایا کہ اسے آئی ڈی ایف نے پکڑ رکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے اسے آخری بار دیکھا تھا تو وہ زندہ تھا لیکن وہ نہیں جانتیں کہ اس کے بعد سے اس کے ساتھ کیا ہوا ہو گا۔
محمد 23 دسمبر سے لاپتہ ہے جب یہ خاندان شدید بمباری کے دوران شمالی غ زہ کے علاقے جبالیہ کے ایک سکول میں پناہ لینے کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر گیا تھا۔
محمد کی بیوی امانی علی کا کہنا ہے کہ اس رائیلی فوجی سکول میں داخل ہوئے اور خواتین اور بچوں کو سکول چھوڑنے کا حکم دیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس رات محمد کے علاوہ سبھی مرد اپنے اہل خانہ کے پاس لوٹ آئے۔
محمد کے ٹھکانے اور اس کے ساتھ کیا ہوا ہے یہ معلوم نہیں ہے۔
امانی کہتی ہیں کہ وہ نہیں جانتی ہیں کہ ان کے شوہر مر چکے ہیں یا انھیں آئی ڈی ایف نے حراست میں لے لیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے انھیں کچھ امید ملتی ہے کہ وہ زندہ تو ہوں گے۔
امانی کو یقین ہے کہ ’اگر وہ زندہ ہوتے یا آزاد ہوتے تو وہ ہمیں تلاش کرتے اور ہمیں ڈھونڈ لیتے۔‘
ح ما س کے زیرِ انتظام وزارت صحت نے ہلاک اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے ایک آن لائن فارم تیار کیا ہے تاکہ سات اکتوبر سے لاپتہ ہونے والوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کا مکمل ریکارڈ بنایا جا سکے۔
جب تک یہ نہیں ہوتا تب تک بہت سے خاندان اپنے پیاروں کی تلاش جاری رکھیں گے۔