وہ یہ کہ ٹی وی چینلز پر کئی رومینٹک کامیڈی ڈرامے نشر ہوئے جنھیں خاصی پزیرائی ملی۔ ان ڈراموں کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ عوام کو کچھ نیا دیکھنے کو مل رہا تھا۔
لیکن یہ ٹرینڈ پاکستان میں آیا کہاں سے؟ اور پاکستانی ٹی وی چینلز میں اس بدلتے ہوئے رجحان کی کیا وجہ ہے؟
پاکستانی اداکار علی سفینہ کا ماننا ہے کہ ’ہمارے یہاں بننے والے کچھ رومینٹک کامیڈی ڈرامے کورین ڈراموں کے فارمیٹ پر بنائے گئے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ٹی وی کا حال ہی میں نشر ہونے والا ڈرامہ ’ہم تم‘ مکمل طور پر جنوبی کوریا میں جو ڈرامے بنتے ہیں اسی فارمیٹ پر ہے۔ اسی طرح ڈرامہ سیریل ’فیری ٹیل‘ نوجوانوں کے لیے تھا اور انھوں نے اسے کافی پسند بھی کیا۔‘
علی سفینہ نے کئی ڈراموں میں اہم کردار ادا کیے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کے اداکاری کریئر کا آغاز بھی مقبول ترین رومینٹک کامیڈی سیریز ’ڈولی کی آئے گی بارات‘ سے ہوا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ناظرین سال میں 365 دن ساس بہو کے ڈرامے دیکھتی ہے۔ اس لیے جب کوئی رومینٹک کامیڈی ڈرامہ نشر ہوتا ہے تو اس کو پزیرائی ملتی ہے۔
’ناظرین بھی اس کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب ایسا فیملی سیریل آئے گا جس کے اندر لطیف موضوعات ہوں گے اور ان کے کردار بھی اظہار کرنے والے ہوں گے۔‘
علی نے اس سال رمضان میں نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’ویری فلمی‘ میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا جسے خاصی مقبولیت ملی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں رومینٹک کامیڈی ڈرامے پسند کیے جاتے ہیں اور وہ بچپن ہی سے ایسے ڈرامے دیکھتے آرہے ہیں۔
’تب سے اب تک رومینٹک کامیڈی کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ کورین ڈرامے بھی دنیا بھر میں اس وجہ سے مقبول ہیں کیونکہ وہ ایک مڈل کلاس گھرانے کی کہانی ہوتی ہے۔‘
’اس کا جو ہیرو ہوتا ہے وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے اور ہیروئن بھی ویسی ہی ہوتی ہے۔ ایک پیچیدہ کہانی کو لطیف انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔‘
صائمہ اکرم چوہدری نے بتایا کہ جیو پر نشر ہونے والی بارات سیریز اور انڈین پنجابی سنیما سے ان کو ایسی تحریر کا خیال آیا جس میں پوری فیملی کو دکھایا جاتا ہے۔
علی کا کہنا ہے کہ کورین ڈراموں سے متاثر ہونے کے علاوہ رومینٹک کامیڈی ڈراموں کے ٹرینڈ کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ گھر کا ہر فرد ایسے ڈرامے دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ان کا اشارہ صائمہ اکرم چوہدری کی تحریروں پر تھا۔
صائمہ اکرم چوہدری کی 2018 کی رمضان سپیشل تحریر ’سنو چندا‘ کو کافی پزیرائی ملی۔ اس رومینٹک کامیڈی کے کرداروں اور مرکزی جوڑے کی نوک جھوک کو ناظرین نے اتنا پسند کیا کہ اس کے مزید دو سیزن لکھے گئے۔
اس ڈرامے کی مقبولیت کے بعد پاکستانی ٹیلی ویژن پر رومینٹک کامیڈی کی ایک نئی لہر دیکھنے کو ملی۔
بی بی سی اردو سے خصوصی گفتگو میں صائمہ اکرم چوہدری نے بتایا کہ اگر ’سنو چندا‘ رمضان سیریل نہ ہوتا تو شاید وہ یہ کبھی نہ لکھتیں۔
’مجھے لگتا تھا کہ لائٹ موڈ کی چیزیں ہماری سکرین پر نہیں چلتیں۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ڈرامہ اتنا ہٹ ہو گا اور لوگ اتنا غور سے دیکھنے لگیں گے۔ ڈرامے کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے ہیرو اور ہیروئن نوجوان نظر آ رہے تھے۔ ’سنو چندا‘ کو بچوں نے بہت پسند کیا۔‘
صائمہ اکرم چوہدری نے بتایا کہ جیو پر نشر ہونے والی بارات سیریز اور انڈین پنجابی سنیما سے ان کو ایسی تحریر کا خیال آیا جس میں پوری فیملی کو دکھایا جاتا ہے۔
’مجھے حسینہ معین سے بھی بہت زیادہ انسپائریشن ملی تھی۔ ان کے ڈرامے ’دھوپ کنارے‘ اور ’تنہائیاں‘ کو دیکھ کر۔ میں اس طرح کا ایک ڈرامہ لکھنا چاہتی تھی جس کو پوری فیملی ایک ساتھ بیٹھ کر انجوائے کرے۔‘
40 سال پہلے لکھے گئے حسینہ معین کے ڈرامے اپنے وقت میں ہی نہیں بلکہ آج بھی اپنی سادگی اور رومانس کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ان کے ڈرامے ’ان کہی‘ میں مرکزی کردار ادا کرنے والی اداکارہ شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ اس وقت کراچی ٹیلی ویژن مزے سے بھرپور ڈرامے بناتا تھا جبکہ لاہور سے کافی سنجیدہ ڈرامے بنتے تھے۔
اداکارہ شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ پہلے کراچی ٹیلی ویژن مزے سے بھرپور ڈرامے بناتا تھا جبکہ لاہور سے کافی سنجیدہ ڈرامے بنتے تھے
’اس کی وجہ اس وقت کراچی کی زندگی تھی۔ اس کے برعکس لاہور چوہدریوں اور مزاروں کا شہر تھا۔ یہ ایک بڑا اچھا امتزاج تھا۔‘
ٹی وی پر آج کل نشر ہونے والے رومینٹک کامیڈی ڈراموں کے حوالے سے شہناز شیخ کا کہنا ہے کہ ان کی شروعات تو اچھی ہوتی ہے لیکن جب وہ طویل ہونے لگتے ہیں تو وہ مزید دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔
حال ہی میں پاکستانی ڈرامے ’عشق مرشد‘ کو بھی کافی پزیرائی ملی۔ اداکار بلال اشرف اور درفشاں کے کرداروں شاہمیر اور شبرہ کے درمیان رومانس کے ساتھ ساتھ جو ان بن اور سادگی دکھائی گئی ہے اسے خوب پسند کیا جا رہا ہے۔
ڈرامہ کے ڈائریکٹر فاروق رند کا کہنا ہے کہ دیکھنے والوں کو دونوں کردار کافی پسند آئے اور یہ ڈرامے کی مقبولیت کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
’ایک ہوتی ہے صرف کامیڈی۔ ایک ہوتی ہے ایسی کامیڈی جو مسکراہٹ بھی لائے، کچھ سوچنے پر مجبور بھی کرے جو اس ڈرامے میں لوگوں کو لگا۔‘
’یہ بنیادی طور پر فینٹیسی ہے۔ اصل زندگی میں ایسا اتنا نہیں ہوتا۔ فینٹیسی تو شروع سے پسند ہے ہمیں۔ بچپن سے فینٹیسی ہی تو سنتے آ رہے ہیں۔ ہم سادہ چیزیں انجوائے کرنا بھول گئے ہیں۔ اس ڈرامے میں وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو ہمیں خوشیاں دیتی ہیں۔ اب وہ رومانس کہاں ہے جو اس ڈرامے میں نظر آ رہا ہے؟‘
پاکستانی اداکار علی سفینہ کا ماننا ہے کہ ’ہمارے یہاں بننے والے کچھ رومینٹک کامیڈی ڈرامے کورین ڈراموں کے فارمیٹ پر بنائے گئے‘
اس وقت دنیا بھر میں مختلف قسم کا مواد دیکھا جا رہا ہے۔ آن لائن سٹریمنگ پلیٹ فارمز کے آنے سے کئی ممالک کا مواد ایک ہی جگہ میسر ہے۔ دیکھنے والوں کے پاس آپشنز کی کوئی کمی نہیں ہے۔
پاکستانی عوام، خاص طور پر نوجوان، بھی اس مواد سے متاثر ہوتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز اب ایسا مواد بنانے میں دلچسپی لے رہے ہیں جو ہر عمر کے ناظرین کو پسند آئے۔ چاہے وہ نوجوانوں کی محبت سے بھری داستان ہو، خاندانی اقدار پر مبنی کہانی ہو یا طنز و مزاح سے بھرپور ۔