انہوں نے اپنے آرٹیکل میں ان اسٹریٹ پرفارمرز کو خفیہ ایجنسی کا آلہ کار بتانے کی کوشش کی، جوکہ ایک طرح سے ’ایجنسی کا بندہ ’ کی ہی ایک قسم ہے۔
دراصل کرسٹینا نے اپنے آرٹیکل میں پاکستان کے اسٹریٹ پرفارمرز، گداگروں اور کچرا چننے والوں کو خفیہ اداروں کے ایجنٹس قرار دینے کی کوشش کی ہے۔
اس آرٹیکل میں خصوصاً اسلام آباد کے ”گولڈن مین“ کا ذکر ہے جو ایک ”مائم“ (پتلے) کی طرح اپنی پرفارمنس دیتے ہیں، یعنی بنا ہلے بنا کچھ کہے بس ایک جگہ کھڑے یا بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ ان کے ساتھ تصاویر بنواتے اور پیسے دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی پاکستان اور افغانستان میں بیورو چیف کرسٹینا گولڈ بام نے کبھی یورپ اور امریکہ میں ایسے اسٹریٹ پرفارمرز پر تو کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جہاں انہیں اُن ممالک کی انٹیلی جنس ایجینسیوں کے ایجنٹ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
نہ ہی نیویارک ٹائمز کی کبھی ایسی ہمت ہوئی کہ ایسے فضول اور من گھڑت خیالات چھاپ کر اُن ممaلک کے عام غریب اسٹریٹ پرفارمر کی زندگی کو کسی خطرے سے دوچار کرے۔
کرسٹینا نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ ’ایک ایسے ملک میں جہاں انٹیلی جنس سروسز کے بارے میں شکوک و شبہات بہت گہرے ہیں، یہ اداکار مختلف سازشی نظریات کا موضوع بن چکے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ گولڈن مین انٹیلی جنس ایجنسی کے مخبر، سیاست دانوں پر نظر رکھنے والے یا سی آئی اے جیسے غیر ملکی اداروں کے جاسوس بھی ہو سکتے ہیں‘۔
ان غریب پرفارمرز کو اگر کوئی دہشتگرد آئی ایس آئی کا ایجنٹ سمجھ کر مار ڈالے تو اس کا خون کرسٹینا گولڈ بام اور نیویارک ٹائمز کے سر ہوگا۔
کرسٹینا گولڈ بام اور نیویارک ٹائمز کا یہ منافقت اور ڈبل اسٹینڈرڈ سے بھرا ہوا اقدام قابلِ نفرت ہے جس کی ہر جگہ ہر ممکن حد تک مذمت کی جانی چاہئیے۔