بین الاقوامیخبریں

’ایجنسی کا بندہ‘: امریکی خاتون صحافی نے پاکستانی اسٹریٹ پرفارمرز کی زندگیاں داؤ پر لگا دیں

اگر آپ پاکستانی ہیں اور 90 کی دہائی یہیں پر دیکھی ہے تو ایک جملے ’ایجنسی کا بندہ‘ سے ضرور واقف ہوں گے۔ یہ جملہ کراچی میں خوب پھیلا رہا ہے، اور 90 کی دہائی میں حالات کے تناظر میں کافی حد تک درست بھی سمجھا جاتا تھا۔ کراچی میں ’ایجنسی کا بندہ‘ ہر وہ شخص تھا جو کچرا چنتا نظر آئے، نشئی ہو یا بھیک مانگتا ہو۔ یعنی کوئی بھی ایسے شخص کو دیکھتا تو بے اختیار بول پڑتا ’ایجنسی کا بندہ‘۔ اب اس میں کتنی سچائی ہے یہ تو وہ بندہ یا ایجنسی ہی جانے، لیکن یہ ایک ایسی غیرسنجیدہ چیز تھی جو رفتہ رفتہ پاکستان سے تو ختم ہوگئی لیکن نہ جانے کب امریکہ جا پہنچی اور وہاں کے صحافیوں نے اسے سنجیدہ سمجھ لیا۔ اور اسی تناظر میں کرسٹینا گولڈ بام نے نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے اپنے آرٹیکل میں تمام صحافتی روایات اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے عام غریب اسٹریٹ پرفارمرز کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا۔

انہوں نے اپنے آرٹیکل میں ان اسٹریٹ پرفارمرز کو خفیہ ایجنسی کا آلہ کار بتانے کی کوشش کی، جوکہ ایک طرح سے ’ایجنسی کا بندہ ’ کی ہی ایک قسم ہے۔

دراصل کرسٹینا نے اپنے آرٹیکل میں پاکستان کے اسٹریٹ پرفارمرز، گداگروں اور کچرا چننے والوں کو خفیہ اداروں کے ایجنٹس قرار دینے کی کوشش کی ہے۔

اس آرٹیکل میں خصوصاً اسلام آباد کے ”گولڈن مین“ کا ذکر ہے جو ایک ”مائم“ (پتلے) کی طرح اپنی پرفارمنس دیتے ہیں، یعنی بنا ہلے بنا کچھ کہے بس ایک جگہ کھڑے یا بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ ان کے ساتھ تصاویر بنواتے اور پیسے دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی پاکستان اور افغانستان میں بیورو چیف کرسٹینا گولڈ بام نے کبھی یورپ اور امریکہ میں ایسے اسٹریٹ پرفارمرز پر تو کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جہاں انہیں اُن ممالک کی انٹیلی جنس ایجینسیوں کے ایجنٹ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔

نہ ہی نیویارک ٹائمز کی کبھی ایسی ہمت ہوئی کہ ایسے فضول اور من گھڑت خیالات چھاپ کر اُن ممaلک کے عام غریب اسٹریٹ پرفارمر کی زندگی کو کسی خطرے سے دوچار کرے۔

کرسٹینا نے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ ’ایک ایسے ملک میں جہاں انٹیلی جنس سروسز کے بارے میں شکوک و شبہات بہت گہرے ہیں، یہ اداکار مختلف سازشی نظریات کا موضوع بن چکے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ گولڈن مین انٹیلی جنس ایجنسی کے مخبر، سیاست دانوں پر نظر رکھنے والے یا سی آئی اے جیسے غیر ملکی اداروں کے جاسوس بھی ہو سکتے ہیں‘۔

ان غریب پرفارمرز کو اگر کوئی دہشتگرد آئی ایس آئی کا ایجنٹ سمجھ کر مار ڈالے تو اس کا خون کرسٹینا گولڈ بام اور نیویارک ٹائمز کے سر ہوگا۔

کرسٹینا گولڈ بام اور نیویارک ٹائمز کا یہ منافقت اور ڈبل اسٹینڈرڈ سے بھرا ہوا اقدام قابلِ نفرت ہے جس کی ہر جگہ ہر ممکن حد تک مذمت کی جانی چاہئیے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت