ماں باپ کی شفقت سے بچپن ہی میں محروم کر کے کسی نے اس کو غلام بنا لیا اور بعد میں نیشاپور کے قاضی فخر الدین کے ہاں فروخت کر دیا، غلامی اور والدین سے جدائی اس کے حق میں بہت مبارک ثابت ہوئی کیونکہ اس کی بدولت اسے دہلی کی بادشاہت نصیب ہوئی، قاضی فخر الدین عبدالعزیز نے، جو امام ابو حنیفہ کی اولاد میں سے تھے، اسے پالا پوسا اور تعلیم و تربیت سے اس طرح آراستہ کیا جس طرح مہربان باپ اپنی اولاد کی کرتا ہے۔
اس وقت میں رائج علوم اور سپاہیانہ زندگی کے تمام ہنر اسے سکھائے گئے، قاضی صاحب کی وفات کے بعد اسے غزنی کے بازار میں فروخت کیلئے لایا گیا، یہاں شہاب الدین غوری کی دور اندیش نگاہوں نے اس کے اندر چھپے جوہروں کو بھانپ کر اسے خرید لیا، غوری نے اسے فن سپہ گری اور انتظام ملکی میں مہارت پیدا کرائی، کچھ عرصہ بعد محمد غوری نے اسے امیر اصطبل بنا دیا۔
محمد غوری کی زندگی میں قطب الدین نہایت فرض شناس خادم اور بہترین سپہ سالار کی حیثیت سے اپنے مالک کی آنکھوں کا تارا بنا رہا اور اپنے آقا کے ساتھ ہندوستان کے کئی معرکوں میں حصہ لیا، اپنی جاں بازی کے کمالات سے اس کا دل موہ لیا، جب دہلی اور اجمیر پر شہاب الدین غوری کو فتح ملی تو اس نے قطب الدین ایبک کو اس کا حاکم مقرر کر دیا، جو اپنی آخری عمر تک شہاب الدین غوری کا وفادار رہا۔
ایک بار کا ذکر ہے کہ شاہ خوارزم کی فوج نے اس کی ایک ٹکڑی کو گھیر لیا اور قطب الدین کو پکڑ کر ایک لوہے کے پنجرے میں قید کر دیا، جب شہاب الدین غوری نے شاہ خوارزم کو شکست دی تو وہ اونٹ بھی آیا جس پر قطب الدین کا پنجرہ لدا ہوا تھا، شہاب الدین غوری نے اسے قید سے چھڑا کر موتیوں کا ہار پہنایا، اس دن سے اس کی وفاداری کا سکہ شہاب الدین غوری کے دل پر بیٹھ گیا۔
ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ شہاب الدین غوری نے محفل نشاط کے دوران قطب الدین کی کارگزاری سے خوش ہو کر بہت سی رقم انعام میں دی، قطب الدین ایبک نے اس رقم کو اپنے تمام ملازمین اور ہم وطن ترک غلاموں میں بطور امداد تقسیم کردی اور ایک روپیہ بھی اپنے پاس نہ رکھا، شہاب الدین غوری پر اس کی سخاوت کا بے حد اثر ہوا اور اس نے اس کو اپنا مقرب خاص بنا لیا، قطب الدین ایبک کو غریبوں اور دکھیاروں کے دکھ درد کا پورا احساس تھا، اس لئے ان کی غیر معمولی امداد کرتا، اس کی فیاضی کے باعث لوگ اسے ’لکھ بخش‘ یا ’ لکھ داتا‘ کے نام سے یاد کرتے۔
1205ء میں جب سلطان شہاب الدین غوری کھوکھروں کی بغاوت کو کچلنے کیلئے ہندوستان آیا تو ایبک نے آقا کے ساتھ مل کر سرکش قبیلہ کو تہس نہس کر دیا، اس مہم سے فراغت کے بعد لاہور( موجودہ پاکستان) میں ایک عظیم الشان جشن منعقد کیا اور قطب الدین ایبک کی بیش بہا خدمات اور جاں فشانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے ’ملک‘ کا خطاب بخشا، یہ خطاب ان دنوں بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا اور بادشاہ کے سب سے قریبی معتمد کو دیا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ سلطان شہاب الدین غوری نے ایبک کی اطاعت شعاری اور فرماں برداری کے انعام کے طور پر اپنے تمام ہندوستانی مقبوضات کا حاکم اعلیٰ مقرر کر کے اپنی ولی عہدی سے سرفراز کیا، ان عظیم اعزازت کے باوجود قطب الدین ایبک نے اپنے آقا کے سامنے خود کو ایک نہایت اطاعت شعار غلام کی صورت میں رکھا اور اس کی زندگی میں کبھی بھی خود مختاری کا خیال تک دل میں نہ لایا، جب شہاب الدین غوری شہید ہوگیا تو اولاد نرینہ سے محرومی کے سبب قطب الدین ایبک نے دہلی میں اپنی تاج پوشی کر کے خود مختار فرماں روا کی حیثیت اختیار کر لی۔
قطب الدین ایبک کو چوگان(موجودہ دور میں پولو) کھیلنے کا بہت شوق تھا، 1210ء میں لاہور میں چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گرا اور گھوڑا بھی لڑکھڑا کر قطب الدین ایبک پر ہی گر پڑا جس کی وجہ سے زین کا اگلا حصہ اس کے سینے میں دھنس گیا اور اس کی روح پرواز کر گئی۔
قطب الدین ایبک کا کردار
قطب الدین ایبک اچھے اوصاف کا مالک تھا، معمولی درجے سے ترقی کر کے امیر اصطبل بنا، اس نے اپنے آقا شہاب الدین محمد غوری کی اس قدر اطاعت کی کہ سلطان کے غلاموں میں وہ عزیز ترین بن گیا، ایک بادشاہ کی حیثیت سے منصف مزاج اور نرم دل تھا اور رعایا کو چاہنے والا عدل پرور تھا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا۔
اس نے لٹیروں کی ٹولیوں کو ختم کر کے امن و امان قائم کیا، وہ شریعت کا پابند تھا، اس نے تمام غیر شرعی ٹیکس ختم کر دیئے، کل پیداوار کا دسواں حصہ مال گزاری کی شکل میں وصول کرتا تھا، عل و فضل کا پرستار تھا اور علماء کو وظائف اور انعامات سے سرفراز کرتا تھا، وہ نہایت سخی فرماں روا تھا۔
مشہور مؤرخ فرشتہ کا کہنا ہے کہ ’’آج تک کسی کی سخاوت اور فیاضی کی اتنی تعریف سننے میں نہیں آئی جتنی قطب الدین ایبک کی اب تک سنی جا رہی ہے، اس نے نہ کسی پر کبھی ظلم کیا اور نہ ہی کسی بے گناہ کو قتل کیا، قطب الدین ایبک ایک غیر جانبدار اور انصاف پسند حکمراں تھا، اس نے اپنی فوج میں نہ صرف کافی تعداد میں ہندو سپاہیوں کا تقرر کیا بلکہ بہت سے ہندو حکام کو بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔