بلاگ

اہرام مصر: کیا سائنسدانوں نے قدیم دنیا کے عجائبات سے جڑی اہم پہیلی کو حل کر لیا؟

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انھوں نے اہرام مصر کی تعمیر کی پیچیدہ ترین گتھیوں میں سے ایک کا جواب ڈھونڈ لیا ہے یعنی چار ہزار سال قبل جیزہ کے اہرام سمیت 31 بلند عمارات کیسے تعمیر ہوئی تھیں۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انھوں نے اہرام مصر کی تعمیر کی پیچیدہ ترین گتھیوں میں سے ایک کا جواب ڈھونڈ لیا ہے یعنی چار ہزار سال قبل جیزہ کے اہرام سمیت 31 بلند عمارات کیسے تعمیر ہوئی تھیں۔

 

 

امریکہ کی نارتھ کیرولینا ولمنگٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ مصرک کے اہرام غالبا دریائے نیل کی ایک ایسی قدیمی شاخ کے ساتھ تعمیر ہوئے تھے جو اب ریت اور زرعی زمین کے نیچے چھپ چکی ہے۔

کئی سال تک ماہرین آثار قدیمہ کا خیال یہ تھا کہ قدیم مصریوں نے اہرام کی تعمیر میں استعمال ہونے والے بڑے بڑے پتھر پانی کی کسی قریبی گزرگاہ کے ذریعے اس مقام تک پہنچائے ہوں گے۔

حالیہ تحقیق کے مصنفین میں سے ایک پروفیسر ایمان غونیم کا کہنا ہے کہ ’اب تک کسی کو اس ممکنہ پانی کی گزرگاہ کے مقام، شکل، حجم اور اہرام سے قربت کے بارے میں یقین سے کچھ معلوم نہ تھا۔‘

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے محققین کے ایک گروہ نے ریڈار سیٹلائیٹ سے حاصل کردہ تصاویر، تاریخی نقشوں، جیوگرافیکل سروے رپورٹ کی مدد لینے کے ساتھ ساتھ پتھروں کا معائنہ بھی کیا۔ یہ ماہرین آثار قدیمہ کی جانب سے استعمال ہونے والی ایک تکنیک ہے جسے ’سیڈیمنٹ کورنگ‘ کہتے ہیں اور اس کے ذریعے نمونوں سے شواہد اکھٹے کیے جاتے ہیں۔

اس تحقیق کا مقصد یہ تھا کہ نیل کی ایک شاخ کا سراغ لگایا جائے جو ان محققین کے مطابق ایک قحط کے بعد ہزاروں سال قبل ریت کے طوفانوں میں دب کر غائب ہو گئی تھی۔

جرنل نیچر میں چھپنے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق محققین کی ٹیم نے ریڈار ٹیکنالوجی کی مدد سے ریت کی سطح کے اندر جا کر چھپے ہوئے مقامات کی تصاویر حاصل کیں۔

پروفیسر ایمان کا کہنا ہے کہ ان تصاویر سے پتہ چلا کہ جس مقام پر زیادہ تر اہرام موجود ہیں اس کی تہہ کے نیچے دریا دفن ہیں اور قدیم تعمیرات بھی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسی تحقیق میں حصہ لینے والی ڈاکٹر سوزین اونسٹین نے کہا کہ ’دریا کی شاخ کو تلاش کرنا اور ایسا ڈیٹا حاصل کرنا جس سے ثابت ہو کہ وہاں پانی کی ایسی گزرگاہ موجود تھی جسے استعمال کرتے ہوئے وزنی پتھریلے بلاک سمیت سامان، مزدور اور کسی بھی چیز کو لایا جا سکتا تھا، ہمارے لیے یہ سمجھنے میں بہت مددگار تھا کہ اہرام کیسے بنے ہوں گے۔‘

اس ٹیم نے یہ جانا کہ ’اہرامات‘ نامی دریائے نیل کی یہ شاخ تقریبا 64 کلومیٹر طویل اور 200 سے 700 میٹر چوڑی تھی۔ اور یہ 31 اہرام کے ساتھ ساتھ گزرتی تھی جو 4700 سے 3700 سال قبل تعمیر ہوئے تھے۔

اس دفن ہو جانے والے دریا کی دریافت سے وضاحت ہوتی ہے کہ اسی مخصوص مقام پر اتنے زیادہ اہرام کیوں ہیں جو اب سہارا صحرا کا ایک ایسا حصہ ہے جہاں زندگی کے زیادہ آثار باقی نہیں۔

تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ اہرام مصر کی تعمیر کے دوران دریا کی یہ شاخ رواں ہوا کرتی تھی۔

ڈاکٹر اونسٹین کے مطابق ’قدیم مصری باشندے مزدوروں پر بوجھ ڈالنے کے بجائے دریا کی توانائی کو استعمال کرتے ہوئے بہت زیادہ وزنی پتھر لا سکتے تھے جس پر کم محنت لگتی۔‘

واضح رہے کہ دریائے نیل قدیم مصر میں زندگی کا ذریعہ مانا جاتا تھا اور آج تک ہے۔

آپ کا ردعمل کیا ہے؟

متعلقہ اشاعت